عائلی مسائل کی وجہ دین سے دُوری ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’…لڑکیوں کے دلوں میں بعض باتیں لڑکے اور اس کے گھر والوں کے لئے ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ لڑکے کی ماں یا عزیز رشتہ دار جو ہیں وہ لڑکی کے سامنے ہر وقت لڑکے کی تعریف کرتے رہیں گے کہ ہمارا لڑکا ایسا ہمارا لڑکا ویسا اور لڑکی کو کسی نہ کسی بہانے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً چھوٹا قد ہے، موٹی ہے، رنگ گورا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر لڑکی کسی وجہ سے کوئی ملازمت کر رہی ہے تو پھر بھی اسے طعنے ملتے ہیں۔ پھر لڑکے اور لڑکی کے تعلقات ہیں، میاں بیوی کے تعلقات ہیں، ان میں بھی لڑکے والوں کی مداخلت ہوتی ہے۔ لڑکے لڑکیوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ لڑکے شادی کی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ ان میں احساس ذمہ داری نہیں ہے۔ اور یہاں کے ماحول کے زیر اثر عموماً یہاں پچیس سال چھبیس سال کے لڑکے کو بھی کہو کہ تم بڑے ہو گئے ہو تو لڑکے کہیں گے نہیں ابھی تو مَیں چھوٹا ہوں۔ شادی کے قابل نہیں۔ یہاں کے ماحول کے زیر اثر ہمارے احمدی لڑکوں میں اور ایشین اور ِیجن (asian origin) کے لڑکوں میں بھی یہی بیماری ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ابھی تو ہم چھوٹے ہیں اور ذمہ داری نہیں نبھا سکتے۔ اگر چھوٹے ہیں اور ذمہ داری نہیں نبھا سکتے تو پھر شادی کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ بہرحال شکووں کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور دونوں طرف سے چلتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح کئی سال زندگی گزارنے کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا کافی عرصہ ہو جاتا ہے، بچے بڑے ہونے شروع ہو جاتے ہیں، پھر شکوے پیدا ہوتے ہیں اور صرف بچگانہ باتیں ہوتی ہیں اور بے صبری اور غلط دوستی ایسی باتیں پیدا کرتی ہے۔ اور اگر ایک فقرے میں ان مختلف عمروں کے عائلی مسائل کی وجہ بیان کی جائے تو یہ ہے کہ دین سے دُوری ہے۔ دینی تعلیمات سے لاعلمی ہے اور عدم دلچسپی ہے۔ اور دنیاداری اور دنیاوی چیزوں میں رغبت ہے۔ پس اگر ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تو دینی تعلیم کی روشنی میں کرنا ہو گا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۳؍مارچ۲۰۱۷ء)