جاگ!سحر آئی ہے
سقوط بغداد کا سانحہ امّت مسلمہ پرایسا کوہِ ستم بن کے ٹوٹا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ’’ایک ہزار شخص جن پر سلطنت کے متعلق دعویٰ کا گمان تھا ان سب کو دیوار میں چن دیا۔ وہ بی بی جس کا نام نسیم بی بی رکھا تھا ایک گلی میں اس حالت میں دیکھی گئی کہ کتے اس کا لہو چاٹ رہے تھے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 462)
اس دہشت زدہ خوف کی فضا میں شیخ جمال الدین کہیں جارہے تھے کہ ان کا سامنا ایک تاتاری شہزادےتغلق تیمور سے ہوگیا۔ شہزادہ جو کہ شکار کےلیے نکلا تھا اس نےسوچا کہ میں نے کسی ایرانی کی شکل دیکھ لی ہے لہٰذا اس نحوست کی وجہ سے آج شکار کا دن غارت ہوگیا۔ چنانچہ اس نے غصہ میں اپنے کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تم اچھے ہو کہ میرا یہ کتا اچھا ہے؟ شیخ جمال الدین صاحب نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ ’’اگر میرا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے تو میں اچھا ہوں ورنہ کتا اچھا ہے‘‘۔ شہزادے کے دل پہ چوٹ لگی اور اس نے کہا جب آپ سنیں کہ میری تاج پوشی ہوگئی ہے تو مجھ سے میلئے گا۔(محمد طفیل: نقوش ، رسول نمبر جلد اول : لاہور1982ء صفحہ 17)
شیخ جمال الدین شہزادے کی تاج پوشی کا انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ ان کا وقت ِ اخیر آگیا۔ آپ نے اپنے بیٹے شیخ رشید الدین کو بلایا اور کہا بیٹا جس وقت تم یہ سننا کہ تغلق تیمور کی تاج پوشی ہوگئی ہے اس تک میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ آپ نے میرے والد سے کچھ کہا تھا؟ چنانچہ وہ گئے اور شہزادے سے کہا میں آپ کو یہ بتانے کے لیے آیا ہوں کہ ایک مرتبہ آپ شکار کے لیے نکلے تھے۔ ایک مسلمان فقیر سے آپ نے پوچھا تھا کہ تم اچھے ہو یا میرا کتا اچھا ؟ انہوں نے جواب دیا تھا کہ اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوسکتا! میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ اس کافیصلہ ہوگیا ہے۔ الحمد للہ۔ وہ ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ (ایضاً صفحہ 18)
یہ وہ پس منظر تھا اس تاریخی واقعہ کا۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
جب دلّی کی سات سو سالہ تہذیب کا سورج ڈوبا تو یہ سانحہ ایک لحاظ سے سقوط بغداد سے بھی زیادہ گراں تھا کہ اب تو متاع ایمان بھی لٹ چکی تھی۔
’’کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے‘‘
چنانچہ اس دور کے اکابرین کی تحریروں کو دیکھتے ہیں سب سے پہلے سرسید احمد خان جو اپنے تہذیبی ورثہ سے اس قدر مایوس ہوچکے تھے کہ اب ان کے نزدیک پیروی مغرب کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ لندن سے اپنے دوست کو خط لکھتے ہیں:’’اے بھائی مہدی اگر تم یہاں آتے تو دیکھتے کہ تربیت کس طرح ہوتی ہے اور تعلیم اولاد کا کیا قاعدہ ہے اور علم کیوں کر آتا ہے؟اور کس طرح پر کوئی قوم عزت حاصل کرتی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں یہاں سے واپس آن کر سب کچھ کہوں گا۔‘‘(پروفیسر خلیق احمد نظامی: سرسید اور علی گڑھ تحریک: ایجوکیشنل بک ہاؤس ۔ علی گڑھ۔1982ء صفحہ 8)
تحریک علی گڑھ کیا تھی بس آستانِ یار سے اٹھ جانے کا اعلان تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:’’میں نے ایک مرتبہ علی گڑھ کے عمائد کے پاس خطوط بھیجے کہ بتاؤ تم لوگوں میں مسلمان ہونے پر بھی اعمال میں اس قدر سستی کیوں ہے؟ خدا مغفرت کرے اس کی۔ مولوی شبلی نے مجھ کو لکھا کہ ہمارا خدا تعالیٰ اور جزا سزا پر پورا یقین نہیں۔ ‘‘(اکبر شاہ نجیب آبادی: مرقات الیقین فی حیات نور الدین: نظارت نشر و اشاعت قادیان۔2002ء صفحہ 259)
چنانچہ جن کے پاس خود یقین نہیں تھا وہ بھلا کسی کو کیا دیتے نئی نسل اس بے یقینی کی وجہ سے کردار کے استحکام سے محروم ہوگئی۔ سید محمود جو سرسید احمد خان کے صاحبزادے تھے اور نہایت قابل تھے کہ اس دور میں جسٹس بن گئے لیکن تعمیر ملت کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔
’’وہ علی گڑھ آئے اور باپ کا ہاتھ بٹانےلگے۔ لیکن شراب نوشی نے ان کے دماغ کا ستیاناس کر دیا…اور ان کی حالت روز بروز بدتر ہوگئی۔‘‘(شیخ محمد اکرم : موجِ کوثر: ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور۔ 1975ء صفحہ 98)
متاع ایمان و آگہی کس طرح لٹ چکی تھی اور شکوک و شبہات کے سائے کس قدر گہرے ہوچکے تھے اس کا اندازہ مولانا ابوالکلام آزاد کی اس تحریر کو پڑھ کر ہوتاہے جو ان کی جوانی کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔
’’زندگی کے ابھی پندرہ برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ طبیعت نئی خلشوں اور نئی جستجوؤں سے آشنا ہوگئی تھی۔ اور موروثی عقائد جس شکل و صورت میں سامنے آکھڑے ہوئے تھے۔ ان پر مطمئن ہونے سے انکار کرنے لگی۔‘‘(ابوالکلام آزاد: غبار خاطر: مکتبہ رشیدیہ لاہور۔ 1988ء صفحہ 92)
بقول ان کے اب معلوم ہوا کہ آج تک جسے مذہب سمجھتے آئے تھے وہ مذہب کہاں تھا؟ وہ تو خود ہماری ہی وہم پرستیوں اور غلط اندیشیوں کی ایک صورت گری تھی۔ (ابوالکلام آزاد،غبارِ خاطر، لاہور 1988ء صفحہ 94)
اب آئیے اس دَور کے ایک نامور عربی عالم ڈپٹی نذیر احمد جنہوں نے قرآن پاک کا اردو میں ترجمہ بھی کیا تھا وہ کس حد تک عیسائی پادریوں سے متاثر تھے۔ ان کے ایک ناول توبةالنصوح کے کردار کی زبانی سنیئے!
’’پادری صاحب سے جو کتاب مانگ کر لایا تھا…میں نے اس کو دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں میں اس کو پڑھتا تھا میرا دل اس میں لگتا تھا۔ اس کی باتیں مجھ کو بھلی معلوم ہوتی جاتی تھیں۔ اس کتاب کے پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ میرا طرزِ زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ اور میں روئے زمین پر بدترین مخلوقات ہوں۔‘‘(شمس العلماء: ڈاکٹر نذیر احمد: توبة النصوح: 1963ء۔ صفحہ 90، 91)
یعنی یہ صورت حال سانحہ سقوط بغداد سے بھی بدتر تھی۔ اس وقت کم از کم ایک صاحب ایمان تو موجود تھا جس کی بات دل سے نکلی اور دل میں اتر گئی اور ایک انقلاب آگیا اور صنم خانے سے کعبہ کو پاسبان مل گئے۔ اب تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا صاحب ایمان نظر نہیں آرہا تھا۔
اس شہر بےچراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
یہ وہ تناظر تھا جب بقول فیض احمد فیض ؎
رات باقی تھی ابھی جب سر بالیں آکر
چاند نے مجھ سے کہا جاگ سحر آئی ہے
چنانچہ ماہتاب لب جو آیا اور اعلان کیا:’’اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہےاور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے۔ اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔‘‘ (تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15صفحہ 141)
آپؑ نے نہ صرف یہ اعلان کیا بلکہ اپنے انفاس قدسیہ سے یہ حقیقت دلوں میں اس طرح راسخ کر دی کہ پاک روحیں اس پیغام کی ترویج کے لیے عالم جذب و شوق سے آگے بڑھیں اور ہر ایک خطرہ سے بے پرواہ ہوگئیں۔ اور سر مقتل پہ بھی اس پیغام کی صداقت پر گواہی دی۔
سر داد نداد دست در دستِ یزید
چنانچہ شہزادہ عبداللطیف شہیدؓ کے بارے میں فرینک مارٹن لکھتا ہے:’’واقعہ یہ ہے کہ سزائے موت بھی ان کے اس یقین کو متزلزل نہیں کر سکا کہ ان کے ہادی ایک سچے نبی تھے۔ ‘‘
(Frank A Martin: Under the Absolute Amir London, New York 1907. P.202)
حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے جو غیر معمولی استقامت اور اعلائے کلمةالحق کےلیے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا آخر اس کی وجہ کیا تھی۔ ان کو احمدیت سے انکار کے عوض جان، مال، عزت اوراولاد کی سلامتی کی ضمانت دی گئی۔آپؓ نے فرمایا میرا ایک خدا ہے جبکہ تمہارے دو خدا ہیں۔(مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 950)
اصل میں مامور من اللہ کی صحبت کبریت احمر کی تاثیر رکھتی جس کی ایک چٹکی تانبے اور کانسی کو زر خالص بنا دیتی ہے۔(کشف المحجوب ، ضیاء القرآن پبلیکیشن صفحہ 51)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ایک ہی صحبت میں ایسے ہوگئے کہ گویا سالہا سال سے میری صحبت میں تھے۔ اور نہ صرف اس قدر بلکہ الہام الٰہی کا سلسلہ بھی ان پر جاری ہوگیااورواقعات صحیحہ ان پر وارد ہونے لگے اور ان کا دل ماسوا اللہ کے بقایا سے بکلّی دھویا گیا۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 329، 330حاشیہ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے مراتب محض محبت اور دیدارِ اقدس سے بلند ہوجاتے تھے۔لیکن بعد میں اولیائے کرام کو سخت ترین مجاہدات سے گزرنا پڑا۔ کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتیؒ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز ادا کی۔(ملفوظات حضرت خواجہ غلام فرید:اشارات فریدی : جمع و ترتیب مولانا رکن الدین: لاہور،صفحہ 976)
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے فیض صحبت سے حضرت شہزادہ صاحب محبت الہٰیہ سے اس طرح معمور ہوئے کہ فرمایا :’’پہلے کبھی کبھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز مجھ پر آتا تھا مگر مقدر یہ تھاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملوں گا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی مجھ سے جدا نہیں ہوں گے۔ سو اب بالکل یہی حالت ہے۔ حضورؐ مجھ سے جدا نہیں ہوتے۔‘‘(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ دوم صفحہ 17)
حضرت صاحبزادہ صاحب یہ مرتبہ پاکر ماسوا اللہ سے بکلی بے نیاز ہوگئے اور اس شان کے ساتھ شہادت پائی کہ اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امید اپنی جماعت کی نسبت بہت بڑھ گئی اور آپؑ نے فرمایا :’’خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں۔ اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودا ہوں۔‘‘(تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 75، 76)
اللہ تعالیٰ کے مامور اور لوگوں کے بنائے ہوئے امیر شریعت کے فیض تربیت میں کتنا فرق ہوتا ہے۔اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہےکہ ایک طرف حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ تھے جو اس دھج سے مقتل میں گئے کہ وہ شان آج تک سلامت ہے۔اور دوسری طرف لوگوں کے بنائے ہوئے امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری جو کہ مجلس احرار کے صدر تھےان کے پیرو مولانا مظہر علی اظہر تھے جو کہ مجلس احرار کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انہوں نے کانگرس سے رشوت وصول کی اور محمد علی جناح صاحب کو کافر اعظم قرار دیا،بقول شورش کشمیری ’’قصہ کوتاہ مظہر علی مان گئےکہ انہوں نے کانگرس سے ساٹھ ہزار کی رقم وصول کی…مظہر علی نے کُل پچانویں ہزار کی رقم تسلیم کی لیکن کہا کہ نصر اللہ خان کے سوا ہر امیدوار کو حصہ رسد پہنچا ہے۔ شاہ جی یہ کہنا سنتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ مظہر علی تم نے ہمیں ڈبو دیا۔‘‘(شورش کشمیری، بوئے گُل نالۂ دل دودِ چراغ محفل،جلد اول ، مطبوعات چٹان لمیٹڈ لاہور)
اللہ کے فضل سےجماعت احمدیہ کے سرفروش ہر دَور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی امیدوں پر پورے اترے اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے بقول شاعر
’’واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا‘‘
چنانچہ 11؍جنوری 2022ء مہدی آباد برکینا فاسو کے 9؍ احمدی جانثار بزرگوں نے کچھ اس شان سے جام شہادت نوش کیا کہ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً کے بلند مقام پر فائز ہو گئے۔
اس واقعہ سے خاکسار کو ایک واقعہ یاد آگیا جو نظر سے گزرا تھا کہ 1773ء میں جودھپور کے راجا کو اپنے محل کے لیے جنڈ کی لکڑی درکار تھی جسے مقامی زبان میں سمّی کہتے ہیں۔ لیکن گاؤں کے ہندو سرسبز درخت کو کاٹنا ممنوع سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب راجے کے سپاہی درخت کاٹنے کےلیے پہنچے تو گاؤں کے لوگ درختوں سےلپٹ گئے اور باری باری اپنی جانوں کا نذرانہ دینے لگے یہ کہتے ہوئے:
سمّی میری وار (باری) میں واری (میں قربان)نی سمیے
خبر نہیں کہ یہ واقعہ حقیقت ہے یا افسانہ لیکن برکینا فاسو کے جاںنثاروں نے ایک تاریخ رقم کر دی ۔ اس سلام کی حرمت کی خاطر جو مولائے کُل ختم الرسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے روحانی فرزند کو بھجوایا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ خواہ تمہیں برف کے تودوںپر بھی چل کے جانا پڑے تم میرا یہ سلام پہنچا دینا۔اس پیغام کی حرمت کی خاطر نو (۹)احمدی ایک ایک کر کے شہید ہوگئے۔
مولا میری وار میں واری میں واری آں اے مولا
سرمایہ داری نظام جو کہ سوشلزم کے مقابلے کے وقت گھبرایا ہوا تھا اب اس کے زوال کے بعد بیباک ہو گیا ہےاور دنیا اس وقت ایک اخلاقی بحران سے گزر رہی ہے۔ اس وقت بقول مشہور مفکر نوم چومسکی دنیا ایٹمی جنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرہ سے دوچار ہے۔ اس خطرہ سے نپٹنے کے لیے بقول ٹائن بی ایک مابعد الطبعیاتی ایمان کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ کے جاںنثاروں نے اس ایمان کی شہادت جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دنیا کے ہر خطے اور کونے کونے میں پہنچا دی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگرمحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 13، 14)
غم کی اس گھڑی میں آپؐ کے نقوش قدم اور اسوۂ حسنہ ہی ہمارا سرمایہ حیات ہے۔’’انبیاء بہت رقیق القلب ہوتے ہیں لیکن جب حجت پوری ہوچکتی ہے تو پھر وہ بڑے سخت ہوجاتے ہیں۔‘‘(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 348)
حضرت نوحؑ نے تنگ آکر اپنی قوم کے حق میں بددعا کی رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ۔(سورت نوح:27)اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نےحجت پوری کر دی توفرعون اور اس کے سرداروں کے حق میں یہ بد دعا کی وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ (سورت یونس:89)لیکن ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود سخت تکالیف اٹھانے کے کبھی اپنی قوم کے حق میں بد دعا نہیں کی ۔ بلکہ یہی دعا کرتے رہے کہ رَبِّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر، حوصلہ ،رحم اور ہمدردی بہت بڑھی ہوئی ہےاور اس کا نتیجہ ہے کہ آخر ساری قومِ عرب ہدایت یافتہ ہوگئی۔‘‘(ضمیمہ اخبار بدر قادیان 18؍جنوری 1912ء)
دنیا اس وقت ایک نظریاتی خلا سے گزر رہی ہے اور کسی گمشدہ محبوب کی تلاش میں ہے۔ اس وقت حالات وہی ہیں جو جنگ عظیم دوم سے پہلے تھے۔اللہ کرے کہ جلد وہ وقت آئے کہ جب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور احمد ہندی کی وفاؤں کے آئینے میںدنیا اس معبود حقیقی کا چہرہ دیکھ لےاور عافیت کے حصار میں داخل ہو جائےاور فضائیں درود کی خوشبو سے معطر ہو جائیں۔آمین
علیک الصلوٰۃ علیک السلام