اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
نومبر اوردسمبر2021ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
مذہبی آزادی کی تعریف
گھوگھیاٹ، ضلع سرگودھا؛ 21؍دسمبر 2021ء: احمدی مخالف عناصر نے ضلع سرگودھا کے علاقے میانی میں پولیس سے رابطہ کیا کہ گھوگھیاٹ میں رہنے والے ’’قادیانی‘‘ مسلمان ہونے کا بہانہ کرتے ہیں، اسلامی رسومات کا استعمال کرتے ہیں اور مسجد کی طرز پر اپنی عبادت گاہ بنا رہے ہیں۔ ان کا یہ عمل قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ مقامی امن کے لیے خطرہ ہےاور کارروائی کا مطالبہ کیا۔
پولیس جو شہریوں کے بنیادی حقوق کو قائم رکھنے کی پابند ہے اس نے جو جواب دیا وہ درج ہے: پولیس نے دونوں پارٹیوں یعنی احمدیوں اور غیر احمدیوں میں سے تین افراد کو نامزد کیا اور انہیں دفعہ 107/151 کے تحت حفظ ما تقدم کے نام پر پابند کیا اور مزید کارروائی کے لیے سیکشن 30کو بروئے کار لاتے ہوئے مقدمہ مجسٹریٹ رانا خالد محمودبھیرہ کے پاس بھیج دیا۔
ریٹائرڈ احمدی اہلکار کی دوبارہ ملازمت ملا ؤں کے لیے ایک بڑا مسئلہ
24؍ دسمبر 2021ء: ہمیں ایک مولوی اللہ وسایا کے ہیڈ آفس عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کا خط ملا ہے جس کی کاپی وزیر اعظم،صدر، چیف جسٹس وغیرہ کو بھی بھیجی گئی تھی۔ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک احمدی خدا بخش، ایک ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے جو سروس سے ریٹائر ہونے والے ہیں اور ان کی سروس کا دورانیہ ختم ہو رہا ہے ان کو ایک مختلف عہدے پر دوبارہ ملازمت دینے کے لیے غور کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ختم نبوت کے ملّا ںکافی پریشان ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم کو دھمکی آمیز خط لکھا ہے۔ اورتحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایک احمدی کو قانونی دستاویزات فراہم کرنے سے انکار
مارگلہ ٹاؤن، اسلام آباد؛ 20؍نومبر 2021ء: ظفر محمود احمد کی بہن کا 24 ؍اکتوبر 2021ء کو انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد ان کے بچوں کو وراثت اور جائیداد کی منتقلی کے لیے سٹامپ پیپرز تیار کرنے تھے۔ چنانچہ وہ 20؍نومبر 2021ء کو بلیو ایریا اسلام آباد میں ایک ڈاک ٹکٹ بیچنے والے کے پاس گئے، جس نے انہیں مطلوبہ فارم فراہم کر دیا۔ اس میں مذہب کے خانے میں انہوں نے احمدی لکھا۔ اس پر بیچنے والے کا معاون اپنے مالک کے پاس گیا اور اسے احمدی گاہک کے بارے میں بتایا۔ اس پر مالک نے موصوف کے بھانجوں سے کہا کہ وہ قادیانیوں کے ساتھ کاروبار نہیں کرتے اور کہا کہ ’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری دکان پر آنے کی؟ اب میری دکان چھوڑ دو۔‘‘ اس طرح اس نے ان کی تذلیل کی اور صرف اس لیے ان کے ساتھ معاملات رکھنے سے انکار کر دیا کہ وہ احمدی تھے۔ ایک ڈاک ٹکٹ بیچنے والے کو سرکاری طور پر مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر اس طرح کے طرز عمل سے پیش آنے سے مناہی ہے۔
ایک احمدی کی ضمانت کا ایک اور کیس
لاہور؛ 30؍دسمبر 2021ء: ہم سال 2021ء کے اختتامی دنوں میں ایک خوشخبری سنا رہے ہیں۔ کیمپ جیل لاہور میں قید منصور احمد طاہر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ ان کی گرفتاری اور رہائی کی کہانی موزوں ہے کہ آرکائیوز میں شامل کر لی جائے۔ طاہر آف چک 3/SP ڈسٹرکٹ اوکاڑہ کو پولیس نے 31؍ مارچ 2021ء کو ایک چھوٹے سے مذہبی کیس میں ایف آئی آر نمبر 217 پولیس سٹیشن حویلی لکھا میں درج و گرفتار کیا گیا۔ درخواست کردہ سیکشن 16 ایم پی او تھا۔ جس کا مقصد ’عوامی نظم و نسق کو برقرار رکھناتھا۔ ان پر ایک مدرسے کے فیس بک پروگرام پر منفی ریمارکس لگانے کا الزام لگایا تھا۔ مذہب کی بنیاد پر مقدمات میں احمدیوں کے خلاف الزامات کو جان بوجھ کر بڑھانا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ چنانچہ پولیس نے ملاؤں کی درخواست پر، بعد میں اس الزام کو پی پی سی 295 اے میں بڑھا دیا جس میں 10 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ 23؍اپریل 2021ء کو مجسٹریٹ نور عالم نے ملزم کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ اس مظلوم آدمی نے پھر اس فیصلے کی ایک اعلیٰ عدالت میں اپیل کی جہاں ایڈیشنل سیشن جج محمد شفیق نے 14؍جون 2021ء کو ملزم کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ اس دوران ڈی پی او نے یہ کیس ایف آئی اے کو بھیج دیا۔ اس کے مطابق، ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ، لاہور نے ایک تازہ ایف آئی آر نمبر 112 درج کی اور موصوف کو لاہور کی جیل منتقل کر دیا۔ ضمانت پر رہائی کی اپیل کی گئی، اور ASJ سید علی عباس نے 2؍ ستمبر 2021ء کو یہ درخواست مسترد کر دی۔ ملزم نے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ جسٹس شہباز علی رضوی نے بھی 16؍نومبر 2021ء کو اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس کے بعد موصوف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ وہیں تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس طارق مسعود نے ڈی پی او اوکاڑہ اور شکایت کنندہ کو طلب کر لیا۔ 21 ؍دسمبر 2021ء کو، سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ، لاہور کے ذریعے درج ایف آئی آر کے تحت موصوف کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا۔ رسمی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد 30؍دسمبر کو انہیں رہا کر دیا گیا۔ مزید برآں، پولیس سٹیشن حویلی لکھا میں درج کی گئی ایف آئی آر کو پولیس نے منسوخ کر دیا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ ایک عام کیس ہائی پروفائل بن گیا، موصوف نے اپنی رہائش گاہ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور حفاظت کے لیے کہیں اور منتقل ہو گئے۔ 16 ایم پی او کے تحت گرفتاری شاذ و نادر ہی ضمانت کے لیے معزز سپریم کورٹ تک پہنچتی ہے۔ یہ درجہ صرف ایک احمدی کو دیا جاتا ہے۔
احمدی استاد کو سکول میں دشمنی کا سامنا
کرتو، ڈسٹرکٹ شیخوپورہ۔ دسمبر 2021ء: مسز جاوید شیخوپورہ ڈسٹرکٹ لوکل گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں سیکنڈری سکول ٹیچر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ہیڈ مسٹریس کی خالی پوسٹ کی وجہ سے حکومت نے انہیں انچارج ہیڈ مسٹریس کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اس کے بعد کرتو کے چند رہائشیوں اور سکول کے عملے نے سی ای او کو ان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر شکایت بھیجی کہ وہ سکول میں قرآن پاک پڑھانے سے منع کرتی ہیں۔ 22؍دسمبر 2021ء کو پولیس کو بلایا گیا اور بتایا گیا کہ سکول میں مذہبی کشیدگی ہے اور فوری کارروائی کی جائے۔ پولیس، تعلیمی حکام اور مقامی احمدی صدر بھی وہاں پہنچ گئے۔ تحقیقات کے بعد الزامات جھوٹے نکلے۔ اس کے مطابق تمام متعلقہ افراد کے درمیان صلح پر معاملہ طے پا گیا۔
احمدیوں کی قبروں کو لاحق خطرہ
سید والا، ضلع ننکانہ صاحب؛ 21؍دسمبر 2021ء: حفیظ اللہ کی دادی اور والدہ کی قبریں مشترکہ قبرستان میں واقع ہیں۔ یہ خستہ حالت میں تھیں۔ حفیظ اللہ نے قبروں کی مرمت کا کام شروع کروا دیا۔ چند ملا ںوہاں آئے اور ان سے کہا کہ وہ کام بند کر دیں اور کہنے لگے کہ ہم نے ابھی ایک بڑے ہجوم کو آنے سے روک دیا ہے۔ اسی مناسبت سے کام روک دیا گیا تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔ ان کی والدہ کی قبر پر بسم اللہ لکھا ہوا تھا۔ ملاؤں نے اس کی تصویر کھینچی اور سپیشل برانچ کو بھیج دی۔ شام کو ایک پولیس اہلکار آیا اور قبرستان کا معائنہ کیا اور بتایا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بعد ازاں رات 10 بجے ایس ایچ او نے فون کیا اور بتایا کہ مخالفین ایف آئی آر کا مطالبہ کر رہے ہیں اورحفیظ اللہ سے کہا کہ مرمت کرنے والے آلات فوری طور پر جگہ سے ہٹا دیں۔ اسی دوران ملاؤں نے قبرستان میں ایک ہجوم جمع کر لیا۔ پولیس نے آکر بھیڑ کو منتشر کیا۔ اس کے بعد پولیس کی ہدایات کے مطابق حفیظ اللہ نے قبروں کو ان کی خستہ حالت میں ہی چھوڑ دیا۔
احمدی تاجر کو حملے، جان کی دھمکیوں اور سماجی بائیکاٹ کا سامنا
چک بیلی خان، ضلع راولپنڈی؛ 2021ء: جناب ظفر احمد یہاں کتابوں کی دکان چلاتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے انہیں ملاؤں کی دشمنی کا سامنا ہے، اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نومبر 2021ء میں ایک گاؤں سے دو غیراحمدی آدمی وہاں آئے اور دکان کے بارے میں دریافت کیا۔ اب بازار کے دکاندار گاہکوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ احمدی ہونے کی وجہ سے ان کی دکان سے خریداری نہ کریں اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا کاروبار نہ کریں۔ اس سے ان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ قریبی ہوٹل والے انہیں کھانا نہیں فروخت کرتے۔ ساتھی دکاندار جو اکٹھے کھانا کھاتے تھے، اب ملاؤں کے کہنے پر ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ستمبر 2021ء میں، ایک دکاندار جو ان سے دشمنی رکھتا تھا آیا، انہیں مارا پیٹا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ ان کی دکان کے سامنے ایک مسجد ہے جہاں کچھ عرصے سے جمعہ کے خطبات میں جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں۔ اس سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔ اگست 2021ء میں، دو ملاںان کی دکان پر آئے اور مشورہ دیا کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کر لیں یا چک بیلی خان چھوڑ دیں ورنہ وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ موصوف نے ملاقاتیوں کی اطلاع مقامی پولیس کو دی جنہوں نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ پولیس نے ایک مفتی داؤد صدیقی سے پوچھ گچھ کی۔ یہ ملا ںایک مدرسہ چلاتا ہے اور لاؤڈ سپیکر پر جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرتا ہے۔ مارچ 2021ء میں، روزنامہ اوصاف نے ظفراحمد کے خلاف ایک رپورٹ شائع کی۔ موصوف کافی عرصے سے یہاں دکان چلا رہے ہیں۔ اب معاشرتی دشمنی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ایک دن جب وہ اپنی موٹرسائیکل ٹھیک کروانے گئے تو مکینک نے ان کے عقیدے کی وجہ سے ان کے ساتھ بدتمیزی کی۔
(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)