خدمت ِخلق سے متعلق حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریکات
خدام الاحمدیہ کا اساسی پروگرام، مذہب وملت سے قطع نظر خدمت انسانیت کے منصوبے
جماعت احمدیہ کے پروگراموں میں خدمت خلق کا نہایت بلندمقام ہے۔ اس لیےحضرت مصلح موعودؓ بار بار مخلوق کی بےلوث خدمت کی تلقین کرتے رہے مگر اس کا ایک نمایاں موڑ اس وقت آیا جب آپؓ نے 1938ء میں احمدی نوجوانوں کی تنظیم خدام الاحمدیہ قائم کی اور ان کے دلوں میں یہ بات راسخ کی کہ تم انسانیت کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور یہ خدمت روحانی امور سے بھی تعلق رکھتی ہے اور عام جسمانی اور مادی معاملات سے بھی۔
اس تنظیم کے لائحہ عمل میں آپؓ نے خدمت خلق اور اس کی ذیل میں وقار عمل کا شعبہ قائم کیا جو منظم طور پر بےلوث اجتماعی خدمت کا منفرد ادارہ ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ 17؍فروری 1939ء میں فرمایا: ’’خدام الاحمدیہ کے اساسی اصول میں خدمت خلق بھی شامل ہے‘‘۔ (الفضل 15؍مارچ 1939ء) خطبہ جمعہ 11؍ستمبر 1942ء میں فرمایا:’’ہماری جماعت کے خدام الاحمدیہ دوسری تمام اقوام کے نوجوانوں سے زیادہ نمایاں حصہ خدمت خلق میں لیں‘‘۔ (الفضل 17؍ ستمبر 1942ء)چنانچہ حضورؓ کے خطبات کی روشنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا جو ابتدائی پروگرام مرتب ہوا اس میں یہ امور بھی شامل تھے۔
خدمت خلق کے کام کرنا۔ خدمت خلق میں یہ ضروری نہیں کہ صرف مسلمان غریبوں، مسکینوں یا بیواؤں کی خبرگیری کی جائے۔ بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی یا کسی اور مذہب کا پیرو کسی دکھ میں مبتلا ہے تو اس دکھ کو دور کرنے میں حصہ لیا جائے۔ کہیں جلسے ہوں تو اپنے آپ کو خدمت کے لیے پیش کیا جائے اور اس طرح اپنی زندگی کو کارآمد بنایا جائے۔ ہر ممبر کے لیے ضروری ہوگا کہ کم ازکم نصف گھنٹہ روزانہ مجلس کے مقرر کردہ پروگرام کے مطابق خدمت خلق کے لیے وقف کرے۔ سارے ممبر ایک جگہ جمع ہو کرکام کریں۔ اگر مجلس کو ضرورت پیش آئے توہر ممبر کم ازکم دس دن سال میں اکٹھے وقف کرے۔ ہاتھ کے کام میں سڑکوں کی صفائی، بوجھ اٹھانا، سٹیشنوں پر پانی پلانا، محتاجوں کا سامان اٹھانا، تکفین و تدفین میں مددوغیرہ شامل ہیں ۔(تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ جلد1صفحہ16,15)
اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہونے والی خدمت خلق تاریخ احمدیت کا زریں باب ہے۔ نیز یہی پہلو جماعت کی مرکزی اور دیگر ذیلی تنظیموں کے نصب العین کا مرکزی حصہ ہے۔ ذیل میں خلافت ثانیہ کی خدمت خلق کے حوالے سے بعض تحریکات درج ہیں۔
انفلوئنزا کی عالمگیر وبا میں خدمت کی تحریک
1918ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوئنزا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلادی جو میدان جنگ میں پھیلی تھی۔ ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا۔ اگرچہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہوگیا۔ ان ایام میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں اور مذہب و ملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا۔ احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کرکے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی اور تمام رضاکاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غرباء کی امداد کے لیے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خورو نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ان ایام میں احمدی والنٹیئرز (جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بھی شامل تھے) صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہوگئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضاکار ہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضاکار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہوگئے انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو مقدم کیا۔ یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا اور تقریر و تحریر دونوں میں تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بڑی تندہی و جانفشانی سے کام کرکے بہت اچھا نمونہ قائم کردیا ہے۔ (سلسلہ احمدیہ جلد 1صفحہ358)
لاوارث عورتوں اور بچوں کی خبرگیری
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جولائی 1927ء میں آریوں کے ایک خطرناک منصوبہ کا انکشاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ شدھی کا زور جب سے شروع ہواہے ہندو صاحبان کی طرف سے مختلف سٹیشنوں پر آدمی مقرر ہیں جو عورتوں اور بچوں کو جو کسی بدقسمتی کی وجہ سے علیحدہ سفر کررہے ہوں بہکا کر لے جاتے ہیں اور انہیں شدھ کرلیتے ہیں اس سلسلہ میں حضورؓ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہر بڑے شہر میں لاوارث عورتوں اور بچوں کے لیے ایک جگہ مقرر ہونی چاہیے جہاں وہ رکھے جائیں نیز دہلی والوں کو اس کے انتظام کی طرف خاص توجہ دلائی اور فرمایا: ’’یاد رکھنا چاہئے کہ قطرہ قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔ ایک ایک آدمی نکلنا شروع ہو تو بھی کچھ عرصہ میں ہزاروں تک تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی نسلوں کومد نظر رکھا جائے تو لاکھوں کروڑوں کا نقصان نظر آتا ہے پس اس نقصان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے‘‘۔ (الفضل 19؍ جولائی 1927ء صفحہ2,1) چنانچہ انجمن محافظ اوقاف دہلی نے یہ اہم فرض اپنے ذمہ لیا اور اس کے لیے پانچ معزز ارکان کی کمیٹی قائم کردی۔
قادیان میں یوم سرحد
صوبہ سرحد کے سرخ پوش مسلمانوں پر حکومت کی سخت گیر پالیسی اور تشدد نے ایک قیامت سی بپا کردی تھی اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کے طور پر (آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی کے فیصلہ کے مطابق) 5؍فروری 1932ء کو ملک کے دوسرے شہروں کی طرح قادیان میں بھی یوم سرحد کے سلسلہ میں ایک عام جلسہ منعقد کیا گیا اور مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرنے اور حکومت سے اس کا ازالہ کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر پاس کی گئی۔ (الفضل 11؍فروری 1932ء)
جلسہ سے قبل سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے بھی خطبہ جمعہ میں مظالم سرحد کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ ’’صوبہ سرحد میں معلوم ہوا کہ بعض افسروں نے بہت زیادتیاں کی ہیں … ہمارے خیال کے مطابق سرخ پوش تحریک جائز نہیں مگر پھر بھی وہاں کے مظلوموں کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے … مجھے امید ہے کہ ان حالات کا علم ہونے کے بعد حکومت ان کے ازالہ کی کوشش کرے گی اور ہر وہ مسلمان جو ان کی کسی نہ کسی طرح مدد کرسکتاہو اس سے دریغ نہ کرے گا۔ میں اپنے سرحدی بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ایسی حرکات نہ کریں جن سے امن میں خلل واقع ہو اس وقت وہاں ریفارم سکیم نافذ کی جارہی ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس وقت وہاں پُرامن فضا کی ضرورت ہے‘‘۔ (الفضل 14؍ فروری 1932ء)
مشرقی پنجاب کے مسلمان مظلوموں کی امداد
مشرقی پنجاب کے اضلاع حصار، رہتک، کرنال اور گوڑگاؤں میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لیے ہندواکثریت ان کو تباہ کرنے کے لیے اندر ہی اندر خوفناک تیاریوں میں مصروف تھی۔ 1932ء میں ہندوؤں کی اس خفیہ سازش کا پہلا نشانہ پونڈری کے مسلمان بنے اس کے بعد انہوں نے 11؍اکتوبر 1932ء کی رات کو بڈھلاڈا (ضلع حصار) کے مسلمانوں پر بھی یورش کردی اور چند منٹوں میں سولہ مسلمان مرد عورتیں اور بچے گولیوں کا شکار ہوئے جن میں سے سات شہید اور نو زخمی ہوگئے۔ عین اسی وقت جبکہ بڈھلاڈاکے مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر ختم کیا جارہا تھا بندوقوں سے مسلح ہندوؤں نے تلونڈی کے آٹھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ان خونچکاں واقعات کی اطلاع اور مسلمانان بڈھلاڈا کی درخواست پر صوفی عبدالقدیر صاحب نیا زبی اے کو تحقیقات کے لیے بھجوایا۔ جنہوں نے ایک مبصر کی حیثیت سے نہایت محنت و عرق ریزی کے ساتھ پیش آمدہ حالات کی چھان بین کی اور اس سازش کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا۔ جو ایک عرصہ سے ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف نہایت منظم طور پر کر رکھی تھی۔ صوفی صاحب کی مکمل تحقیقات الفضل 27؍ نومبر 1932ء صفحہ10,7میں شائع کر دی گئی جس سے مسلمانان پنجاب کو پہلی بار صحیح اور مکمل واقعات کا علم ہوا۔ صوفی صاحب نے اپنے قیام کے دوران ایک اہم کام یہ بھی کیا کہ وہاں مسلمانوں کی تنظیم کے لیے ایک مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے صدر اور سیکرٹری بڈھلاڈا کے بعض اہل علم مسلمانوں کو مقرر کیا۔
صوفی صاحب کے بعد مرکز کی طرف سے بعض اور اصحاب بھی بھجوائے گئے اور بالآخر چودھری مظفرالدین صاحب بی اے بنگالی روانہ کیے گئے جنہوں نے اس علاقہ میں قریباً ایک سال تک قیام کیا۔ افسروں سے ملاقات اور خط وکتابت کرکے مسلمانوں کی مدد کی اور اصل واقعات منظر عام پر لانے کے لیے متعدد مضامین لکھے۔ چودھری مظفرالدین صاحب نے مسلمانان حصار کی تنظیم میں بھی دلچسپی لی اور ان کی اقتصادی بہبود کے لیے بھی کوشش کرتے رہے اور جہاں ان کے جانے سے قبل بڈھلاڈا میں مسلمانوں کی خورونوش کی ایک دکان بھی موجود نہ تھی۔ وہاں ان کی تحریک پر پانچ چھ دکانیں کھل گئیں اور وہ مسلمان جو دہشت زدہ ہوگئے تھے اور ہندوؤں کی چیرہ دستیوں سے سہمے ہوئے تھے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے لگے۔ اور وہ ہندو اور سکھ افسر جو اس فتنہ کے پشت پناہ تھے تبدیل کر دیےگئے۔ حضورؓ کی ہدایت کے مطابق احمدی نمائندہ نے حکومت پر مسلمانوں کا معاملہ ایسے طریق پر واضح کیا کہ اسے ظالم افسروں کے خلاف مؤثر اقدام کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا ۔(تاریخ احمدیت جلد6صفحہ68)
مسلمانان الور کی امداد
1932ء میں ریاست الور کے بہت سے مسلمان ریاستی مظالم کی تاب نہ لا کر جے پور اجمیر شریف، بھرت پور اور ضلع گوڑ گاؤں اور دہلی وغیرہ مقامات میں آگئے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کو جب ان کے حالات کا علم ہوا تو مظلوموں کی اعانت کے لیے سید غلام بھیک صاحب نیرنگ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سنٹرل جماعت تبلیغ الاسلام کو دوسو روپے ارسال فرمائے۔ اسی طرح مرکز کی طرف سے افسران بالا سے خط وکتابت کی گئی۔ افسروں نے نہایت ہمدردی سے غور کیا اور ریاست کے متعلق حکام کو ہدایت کی کہ وہ مسلمانوں کے مطالبات کا پورے طور پر خیال رکھیں اور ان کی شکایات کا تدارک کریں۔ اس کے شکریہ میں نیرنگ صاحب نے انبالہ شہر سے 22؍اکتوبر 1932ء کو حضور کی خدمت میں شکریہ کا خط لکھا۔ (تاریخ احمدیت جلد6 صفحہ75)
بوہرہ جماعت کے قومی مفاد کا تحفظ
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ مسلمانوں کے ہر مذہبی فرقہ کے قومی مفاد کی حفاظت کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔ اس ضمن میں بوہرہ کمیونٹی کے امام سے بھی حضورؓ کے مراسم و روابط تھے۔ 1933ء میں بوہروں میں باہمی چپقلش پیدا ہوئی جس کو ختم کرنے اور ان کی مرکزیت برقرار رکھنے کے لیے حضورؓ نے حکیمانہ اقدامات کیے۔ (تاریخ احمدیت جلد6 صفحہ105)
زلزلہ زدگان کی امداد
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق 15؍ جنوری 1934ء کو ہندوستان میں ایک قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے بنگال سے لے کر پنجاب تک تباہی مچادی۔ اس موقع پر حضورؓ نے مصیبت زدگان کی مدد کرنے کے لیے خطبہ ارشاد فرمایا اور 2؍فروری 1934ء کو فرمایا:’’ہمیں اپنے عمل سے ثابت کر دینا چاہئے کہ ہمیں ہمدردی سب سے زیادہ ہے۔ میں نے چندہ کی اپیل کی ہے، اس پر جو لوگ بشاشت سے لبیک نہ کہہ سکیں وہ اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال کر بھی چندہ دیں مگر سلسلہ کے دوسرے کاموں کو نقصان پہنچائے بغیر۔ یہ کوئی نیکی نہیں کہ ایک نیک کام چھوڑ کر دوسرا اختیار کر لیا جائے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی پاجامہ ایک لات پر پہن لے اور پھر توجہ دلائے جانے پر اسے اتار کر دوسری پر پہن لے۔ پس مستقل چندہ کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر اور پہلی نیکیوں کو قائم رکھتے ہوئے اس طرف توجہ کی جائے۔ میں نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اگر یہ سمجھ میں آجائے تو بشاشت کے ساتھ اور اگر نہ آئے تو اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال کر اس تحریک میں حصہ لیا جائے یہ قربانی کاموقع ہے۔ اگر بشاشت ہو تو فبھا وگرنہ عبودیت اور فرمانبرداری کے ماتحت اس میں حصہ لیا جائے اور جہاںتک ہو سکے مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کی جائے۔ مونگھیرمیں سوائے دو کے باقی سب احمدیوں کے مکان گر گئے ہیں۔ ان کی مدد ضروری ہے تاکہ وہ ان کومرمت کرسکیں اور باقی مستحقین کو بھی امداد دی جاسکے۔ اگر جماعت توجہ کرے تو اس کی امداد سب سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ دوسرے لوگ اگرچہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر ان کے صرف امراء ہی چندہ دیں گے لیکن جماعت اگر فرض شناسی سے کام لے تو چونکہ ہر ایک احمدی حصہ لے گا، ہم من حیث الجماعت حصہ لیں گے اور دوسرے من حیث الافراد اس لیے اس تحریک میں ضرور حصہ لیا جائے تا جو احمدی مبتلائے مصائب ہیں ان کی امداد کی جائے اور دوسرے مستحقین کو بھی خدا کی صفت رحمانیت کے ماتحت امداد دی جاسکے۔ … پس قادیان کے دوست بھی اور باہر کے بھی جن کو اخبار کے ذریعہ یہ خطبہ پہنچ جائے گا تھوڑا بہت جس قدر بھی ہوسکے اس تحریک میں جو ناظر صاحب بیت المال کریں گے، حصہ لیں۔ بعض لوگوں کو پہلے ہی اس کا احساس ہے۔ چنانچہ ینگ مینز ایسوسی ایشن قادیان نے قبل اس کے کہ میری طرف سے کوئی تحریک ہو، اگرچہ میرے دل میںیہ تھی۔ اپنی طرف سے 10 روپے کی رقم بھیج دی ہے۔ (الفضل 8؍ فروری 1934ء۔ خطبات محمود جلد15صفحہ42)
اس کے علاوہ مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی اظہار ہمدردی اور تفصیلات مہیا کرنے کے لیے بہار بھجوائے گئے اور مئی 1934ء میں تیرہ سو روپیہ کی رقم حضرت مولانا عبدالماجد صاحب امیر جماعت احمدیہ بھاگلپور کو روانہ کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک ہزار روپیہ ریلیف فنڈ میں دیا گیا۔ ( تاریخ احمدیت جلد6 صفحہ176)
قادیان کے غرباء کے لیےغلہ کی تحریک
1942ء کے شروع میں ہندوستان کے اندر خطرناک قحط رونما ہوگیا اور غلہ کی سخت قلت ہوگئی۔ اس ہولناک قحط کے آثار ماہ فروری 1942ء میں شروع ہو گئے تھے لیکن حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جنہیں خدائی بشارتوں میں ’’یوسف‘‘ کے نام سے بھی پکارا گیا تھا سالانہ جلسہ 1941ء پر احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ انہیں غلہ وغیرہ کا انتظام کرنا چاہیے اور اعلان فرمایا کہ جو دوست غلہ خرید سکتے ہیں وہ فوراً خرید لیں۔ بعض نے خریدا مگر بعض نے توجہ نہ دی کہ ہمارے پاس پیسے ہیں جب چاہیں گے لے لیں گے۔ مگرجب آٹا وغیرہ ملنا بند ہوا اور سیاہ دانوں کی گندم ڈپو میں دی جانے لگی تو ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس کے بعد جب فصل نکلی تو حضور نے پھر ارشاد فرمایا کہ دوست غلہ جمع کرلیں اور ساتھ ہی زمیندار دوستوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ غلہ زیادہ پیدا کریں اور اسے حتی الوسع جمع رکھیں۔ اس ضمن میں حضورؓ نے 22؍ مئی 1942ء کو ملک کی سب احمدی جماعتوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہرجگہ اپنے غریب احمدی بھائیوں کے لیے غلہ کا انتظام کریں۔ نیز خاص طور پر یہ تحریک فرمائی کہ قادیان کے غرباء کے لیے زکوٰة کے رنگ میں اپنے غلہ میں سے چالیسواں حصہ بطور چندہ ادا کریں اورجو لوگ غلہ نہ دے سکیں وہ رقم بھجوا دیں کہ ہماری طرف سے اتنا غلہ غرباء کو دے دیا جائے۔ مقصود یہ تھا کہ غرباء کو کم ازکم اتنی مقدار میں تو گندم مہیاکردی جائے کہ وہ سال کے آخری پانچ مہینوں میں جو گندم کی کمی کے مہینے ہوتے ہیں بآسانی گزارہ کرسکیں اور تنگی اور مصیبت کے وقت انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ اس غرض کے لیے حضور نے پانچ سو من غلے کا مطالبہ جماعت سے فرمایا اور اس میں سے بھی پچاس من خود دینے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ فرمایا:’’مومنوں کے متعلق قرآن کریم میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ بھوک اور تنگی کے وقت غرباء کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں اور درحقیقت ایمان کے لحاظ سے یہی مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ مگرموجودہ زمانہ میں ہمیں وہ نمونہ دکھانے کا موقعہ نہیں ملتا جو صحابہ نے مدینہ میں دکھایا۔ اس لئے ہمیں کم سے کم اس موقعہ پر غرباء کی مدد کرکے اپنے اس فرض کو ادا کرنا چاہئے جو اسلام کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا ہے اور اگر ہم کوشش کریں تو اس مطالبہ کو پورا کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ پانچ سو من غلے کا اندازہ بھی درحقیقت کم ہے اور یہ بھی سارے سال کا اندازہ نہیں بلکہ آخری پانچ مہینوں کا اندازہ ہے جبکہ قحط کا خطرہ ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آئندہ فصل اچھی کردے اور جوار وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے گندم سستی ہو جائے‘‘۔ (الفضل 30؍مئی 1942ء)
حضورؓ کے مدنظر اس اہم تحریک کی دو اغراض تھیں جن کی خود ہی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اس اعلان کے کرنے میں میری دو غرضیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن کریم نے خرچ کرنے کی مختلف اقسام بیان فرمائی ہیں۔ ان اقسام میں سے ایک قسم خرچ کی اپنے دوستوں، اپنے رشتہ داروں اور اپنے بھائیوں کی امداد ہے۔ … مگر یہ اخراجات ان معنوں میں صدقہ نہیں کہلاتے جن معنوں میں غرباء کو روپیہ دینا صدقہ کہلاتاہے۔ عربی زبان میں صدقہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں صرف اتنی بات داخل ہے کہ اپنے اس خرچ کے ذریعہ سے اس تعلق کا ثبوت دیا جائے جو انسان کو اپنے پیدا کرنے والے سے ہے۔ صدقہ کے معنے خداتعالیٰ سے اپنے سچے تعلق کا اظہار ہے۔ … تو صدقہ کی کئی اقسام ہیں اور لوگ عام طور پر قرآنی صدقہ کی بہت سی قسموں سے غافل ہوتے ہیں۔ پس اس تحریک سے میرا ایک مطلب تو یہ ہے کہ عربی زبان میں صدقہ کا جو مفہوم ہے وہ بھی پورا کرنے کا دوستوں کو موقعہ مل جائے اور یہ مفہوم یہ نہیں کہ ردبلا کے لیے خرچ کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی خوشنودی کے لیے خرچ کیا جائے۔ پس میرا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن دوستوں کوپہلے ایسا خرچ کرنے کا موقعہ نہیں ملا انہیں اس کا موقع مل جائے اور نیکی کا یہ خانہ خالی نہ رہے۔
دوسری غرض میری یہ ہے کہ ہماری جماعت میں یہاں بھی اور باہر بھی بعض سادات قابل امداد ہیں اور سادات کو معروف صدقہ دینا منع ہے۔ پس اگر یہ انہی معنوں میں صدقہ کی نیت سے دیا جائے جو ہمارے ملک میں اس کا مفہوم ہے تو اس سے ہم سادات کی مدد نہیں کرسکتے ہاں ہدیہ اور تحفہ سے ان کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ تحفہ انسان ماں باپ بھائی بہن بیوی بچوں دوستوں رشتہ داروں غرضیکہ سب کو دے سکتا ہے۔ پس میری یہ دو اغراض ہیں جن کی وجہ سے میں نے کہا ہے کہ جو دوست میری اس تحریک میں حصہ لیں وہ صدقہ کی نیت نہ کریں‘‘۔ (الفضل 5؍جون 1942ء)
اس تحریک پر قادیان میں سب سے پہلے ملک سیف الرحمٰن صاحب، مولوی عبدالکریم صاحب (ابن حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب) اور میاں مجید احمد صاحب ڈرائیور نے وعدے بھجوائے۔ جس پر حضورؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’آج (22؍مئی1942ء) میں نے خطبہ جمعہ میں اس امر کی تحریک کی ہے کہ قادیان کے غرباء کے لئے بھی غلہ کا انتظام کیا جائے تاکہ جن دنوں میں غلہ کم ہو انہیں تکلیف نہ ہو۔ پانچ سو من غلہ کے لئے میں نے جماعت سے مطالبہ کیا ہے۔ قادیان سے باہر میری کچھ زمین ہے وہ بٹائی پر دی ہوئی ہے کچھ گروی ہے جو پھر واپس مقاطعہ پر لی ہوئی ہے۔ چونکہ اس دفعہ فصل ماری گئی ہے اس کا مقاطعہ اور گورنمنٹ کامعاملہ اور اوپر کے اخراجات ادا کرکے کوئی پچاس من غلہ بچتا ہے۔ وہ سب میں نے اس تحریک میں دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت تک مندرجہ ذیل وعدے آئے ہیں۔ مولوی سیف الرحمٰن صاحب 16سیر غلہ۔ مولوی عبدالکریم صاحب خلف مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم ایک من۔ میاں مجید احمد ڈرائیور ایک من۔ خدا کی قدرت ہے کہ سب سے پہلے لبیک کہنے کی توفیق ان کو ملی ہے جو خود غریب ہیں۔ شاید تبھی رسول کریمﷺ (فداہ نفسی و روحی) نے فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ مجھے غرباء میں شامل کرے۔ اس تحریک میں چندہ غلہ کی صورت میں لیا جائے گا۔ یعنی گو بھیجنے والا روپیہ ارسال کرے مگر اس کا وعدہ غلہ کی صورت میں ہونا چاہئے۔ اس کے روپیہ سے وعدہ کے مطابق غلہ خرید دیا جائے گا۔ لمبا وعدہ کوئی صاحب نہ کریں۔ جو ایک مہینہ کے اندر غلہ دے سکیں وہی وعدہ کریں۔‘‘(الفضل 24؍مئی 1942ء)بیرونی جماعتوں میں سب سے پہلے وعدے بھجوانے والی جماعت لائل پور تھی۔(الفضل 5؍جون 1942ء)
قادیان اور قادیان سے باہر دوسری مخلص احمدی جماعتوں نے اس تحریک پر جس والہانہ انداز میں لبیک کہا۔ اس کا نظارہ ہمیں سلسلہ مامورین کے سوا کہیں نظر نہیں آتا۔ ان سے مطالبہ صرف پانچ سو من غلہ کا کیا گیا تھا مگر انہوں نے پندرہ سو من جمع کردیا۔ جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا:’’میں نے تحریک کی تھی کہ غرباء کے لئے بھی دوست بطور امداد غلہ جمع کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے غرباء کو پندرہ سو من گندم جو ان کی پانچ ماہ کی خوراک ہے تقسیم کی گئی اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اسے آخری پانچ ماہ کے لئے محفوظ رکھیں اور خداتعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ قحط بھی عین اسی وقت شروع ہوا۔ میں نے کہا تھا کہ جن لوگوں کو یہ گندم مہیا کی گئی ہے وہ اسے دسمبر میں کھانا شروع کریں اور قحط بھی دسمبر میں ہی شروع ہوا ہے۔ یہ بھی نظام کی ایک ایسی خوبی ظاہر ہوئی ہے کہ ساری دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ ہر غریب کے گھر میں پانچ ماہ کا غلہ جمع کردیا گیا‘‘۔ (الفضل 28؍فروری 1945ء انوارالعلوم جلد16صفحہ476)
قادیان کی دوسری احمدی آبادی کے لیے غلہ کے انتظام کی تحریک
یہ تو غرباء کی بات ہے جہاں تک قادیان کی دوسری احمدی آبادی کا تعلق تھا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں کو غلہ کے لیے پیشگی رقم دے دی گئی تھی اور جو احمدی ازخود غلہ خرید سکتے تھے انہوں نے ذاتی کوشش سے خرید لیا مگر بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے استطاعت کے باوجود بروقت غلہ کا انتظام نہ کیا اور غفلت کا ثبوت دیا۔ ایسے لوگوں کے لیے بھی حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی ہدایت اور بیرونی جماعتوں کے تعاون سے گندم کا انتہائی تسلی بخش انتظام کر دیا گیا جس کی تفصیل خود حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے بیان کی جاتی ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں:’’باہر کے بعض لوگوں نے اس موقعہ پر قادیان والوں کی مدد کی ہے اور انہوں نے میری ہدایت پر نہایت اخلاص سے عمل کیا ہے۔ چنانچہ میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں جس کی کوئی اور نظیر مجھے ساری جماعت میں نہیں ملی اور وہ چوہدری عبداللہ خان صاحب داتہ زیدکا والوں کی مثال ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال شروع میں ہی اپنی ضرورت سے زائد گندم محفوظ کرلی تاکہ اگر قادیان والوں کو دوران سال میں ضرورت پیش آجائے تو وہ دے سکیں۔ چنانچہ اس کے بعد جب گندم کی قیمتیں بہت زیادہ چڑھ رہی تھیں انہوں نے گورنمنٹ کے مقرر کردہ ریٹ پر اڑھائی سو من غلہ ہمیں مہیا کردیا۔ حالانکہ وہ اگر چاہتے تو اس سے پہلے چھ بلکہ سات روپے پر منڈی میں اسے فروخت کرسکتے تھے۔ مگر انہوں نے غلے کو روکے رکھا اور جلسہ سالانہ پر مجھ سے کہا کہ ہم نے آج تک اپنے غلہ کو اس لیے روک رکھا ہے کہ اگر قادیان والوں کو ضرورت ہو توہم انہیں دے دیں۔ تم خود سوچ لو کہ ایک زمیندار کی یہ کس قدر قربانی ہے کہ وہ اپنے غلہ کو اچھے داموں پر فروخت نہیں کرتا محض اس لیے کہ اگر قادیان والوں کو ضرورت پیش آگئی تو ان کا کیا انتظام ہوگا۔ غرض یہ ایک ایسے اخلاص کی مثال ہے جس کے مقابلہ میں اس معاملہ میں مجھے کوئی دوسری مثال اپنی جماعت میں سے نہیں ملی گو ایسی جماعت میں جو خداتعالیٰ کی جماعت ہو اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہونی چاہئیں۔ بعض جماعتوں نے بے شک اچھا نمونہ دکھایا۔ چنانچہ قادیان میں جب غلہ کی سخت قلت ہوگئی تو سرگودھا کی جماعت نے تمام جماعتوں سے بڑھ کر غلہ مہیا کرکے دیا۔
مگر یہ ایک جماعت کی مثال ہے اور چوہدری عبداللہ خان صاحب کی مثال ایک فرد کی ہے۔ سرگودھا کی جماعت نے اس موقعہ پر ہمیں 822 من غلہ مہیا کرکے دیا۔ اسی طرح شیخوپورہ کے ضلع والوں نے تقریباً 80 من غلہ دیا۔ بعض اور دوستوں نے بھی اپنے طور پر بعض واقف غیر احمدیوں سے غلہ لے کر بھجوایا۔ ضلع منٹگمری کی طرف سے 440 من غلہ پہنچا اور اس طرح ان سب جماعتوں نے اپنے اپنے درجہ کے مطابق اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا ہے۔ بہرحال ان دنوں میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے قادیان والوں کو جو سہولتیں میسر آسکتی تھیں وہ باہر کی جماعتوں کی قربانی کی وجہ سے میسر آگئیں۔ بیرونی شہروں میں ان دنوں غلہ کی قلت کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ جو لوگ اخبارات پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لوگوں کو آٹے کے لیے کس قدر تکلیف اٹھانی پڑی۔ انقلاب اخبار میں بھی کئی دفعہ یہ بات چھپی ہے کہ تھوڑے سے آٹے کے لیے لوگوں کو کئی کئی گھنٹے ڈپو کے سامنے کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ مگر قادیان میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا کوئی دن نہیں آیا جب کسی شخص کو آٹے کے لیے اس قدر تکلیف ہوئی ہو۔ سوائے اس کے کہ کسی نے بہت ہی نادانی کرکے اپنے حق کو زائل کردیا ہو کیونکہ یہاں یا تو لوگوں کو غلہ کے لیے قرض روپے دے دیئے گئے تھے یا غرباء میں غلہ مفت تقسیم کردیا گیا تھا یا پھر باہر کی جماعتوں نے قادیان والوں کے لیے غلہ مہیا کردیا تھا جو قادیان والوں کو باہر کے ریٹوں سے بہت سستا دیا جاتا رہا۔ جب باہر سوا چھ اور سات روپے گندم کا بھاؤ تھا ہم قادیان میں سوا پانچ روپے پر دیتے رہے اور جب باہر آٹھ اور نو روپیہ ریٹ تھا ہم سات روپیہ پر دیتے رہے اور جب باہر گندم سولہ روپے پر بک رہی تھی ہم نے جو انتظام کیا اس کے مطابق قادیان والوں کو آٹھ روپے پر گندم ملتی رہی۔ گویا باہر کے بھاؤ میں اور اس بھاؤ میں جس پر ہم نے قادیان میں گندم دی دوگنا فرق تھا۔ اس وقت بھی ہمارے پاس کچھ گندم باقی تھی مگر باوجود اس کے کہ اس وقت امرتسر میں ساڑھے نو اور دس روپیہ قیمت ہے میں نے دفتر والوں سے کہا اعلان کردو کہ جن لوگوں نے روپیہ جمع کرادیا ہوا ہے وہ آٹھ روپیہ کے حساب سے گندم لے لیں اور وہ نہ لیں تو دوسروں کو اسی قیمت پر گندم دے دو۔ درحقیقت یہ قیمت بھی اس لیے مقررکرنی پڑی کہ جب گندم بہت گراں ہوگئی تو اس وقت بعض جگہ سے ساڑھے نو اور پونے دس دس روپے پر گندم خریدی گئی مگر اس کے مقابلہ میں بعض احمدیوں نے ہمیں سستی گندم دے دی۔ اس لحاظ سے ہمیں اوسطاً آٹھ روپے قیمت مقررکرنی پڑی۔ ورنہ جو گندم ہم نے آٹھ روپے پر فروخت کی ہے اس کا کچھ حصہ ایسا ہے جو ساڑھے نو اور دس پر خریدا گیا ہے۔ مگر چونکہ اس کے مقابلہ میں بعض احمدیوں سے سستی گندم مل گئی اس لیے تمام اخراجات ملا کر ایک اوسط قیمت مقررکردی گئی اور اس طرح قادیان والوں کو باہر کے مقابلہ میں پھر سستی گندم مل گئی‘‘۔ (الفضل 20؍اپریل 1943ء صفحہ3,2)قادیان میں کئی سال حضورؓ کی اس تحریک پر گندم جمع ہوتی رہی اور تمام غرباء کو سال کے آخری 5 ماہ کی خوراک مہیا کی جاتی رہی۔ حضور خود بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ چنانچہ آخری سال حضور کی طرف سے دو سو من گندم اس مد میں دی گئی۔ جبکہ دوسرے احباب نے 1300 من گندم پیش کی اور پھر یہ گندم انتظام کے ساتھ غرباء میں تقسیم کردی گئی۔
غرباء کے مکانات کی تعمیر کی تحریک
حضورؓ نے خطبہ جمعہ 11 ؍ستمبر 1942ء میں فرمایا: ’’بارشوں کی کثرت کی وجہ سے اس دفعہ قادیان میں بہت سے غرباء کے مکان گر گئے ہیں۔ ان مکانوں کی مرمت اور تعمیر میں خدمت خلق کرنے والوں کو حصہ لینا چاہئے۔ میں اس موقعہ پر ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کو معماری کا فن آتا ہے کہ وہ اپنی خدمات اس غرض کے لیے پیش کریں۔ آجکل عام طور پر عمارتوں کے کام بند ہیں اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے اپنے اوقات اس خدمت کے لیے وقف کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ پس جن معماروں کو خداتعالیٰ توفیق دے وہ ایک ایک دو دو تین تین چار چار دن، جس قدر خوشی کے ساتھ دے سکتے ہوں، دیں تاکہ غرباء کے مکانوں کی مرمت ہوجائے۔ مزدور مہیا کرنا خدام الاحمدیہ کاکام ہوگا۔ اس صورت میں بعض اور چیزوں کے لیے بہت تھوڑی سی رقم کی ضرورت ہوگی جس کے متعلق ہم کوشش کریں گے کہ چندہ جمع ہوجائے۔ مگر جہاں تک خدمت کا کام ہے، خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اس کو خود مہیا کرے۔ اس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے بہت ہی کم خرچ پر غرباء کے مکانات کی مرمت ہو جائے گی۔ (الفضل 17؍ستمبر 1942ء)
بھوکوں کو کھانا کھلانےکی تحریک
30؍مئی 1944ء کو حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے جماعت احمدیہ کو عموماً اور اہل قادیان کو خصوصاً یہ تحریک فرمائی کہ ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہئے جب تک وہ اس بھوکے کو کھانا نہ کھلالے‘‘۔(الفضل 11 ؍جون 1945ء صفحہ3کالم2)
احمدی مہاجرین کے لیے کمبلوں، لحافوں اور توشکوں کی خاص تحریک
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب سے آنے والے ایک لاکھ احمدیوں میں سے غالب اکثریت ان لوگوں کی تھی جو صرف تن کے کپڑے ہی بچا کر نکل سکے تھے۔ اس تشویشناک صورت حال نے آبادکاری کے انتظام کے بعد جلد ہی ایک خطرناک اور سنگین مسئلہ کھڑا کردیا اور وہ یہ کہ جوںجوں سردی کے ایام قریب آنے لگے ہزاروں ہزار احمدی مرد بچے اور بوڑھے سردی سے نڈھال ہونے لگے۔ سیدنا المصلح الموعودؓ سے اپنے خدام کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ چنانچہ آپ نے مغربی پنجاب کے احمدیوں کے نام پیغام دیا کہ سردی کا موسم سرپر آپہنچا ہے انہیں اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے بستروں کمبلوں اور توشکوں کا فوری انتظام کرنا چاہیے۔ حضورؓ کے اس پیغام کا مکمل متن یہ تھا۔’’اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ احمدی مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ جس طرح کتے لاشوں پر جھپٹتے ہیں۔ اسی طرح سکھ جتھوں اور پولیس اورملٹری نے ان علاقوں کا مال و اسباب لوٹ لیا ہے۔ اکثر تن کے کپڑے بچا کر ہی نکل سکے۔ بستر بہت ہی کم لوگ لاسکے ہیں۔ ہزاروں ہزار بچہ اور عورت سردی سے نڈھال ہورہا ہے۔ پانچ ہزار آدمی اس وقت صرف ہمارے پاس جودھا مل بلڈنگ، دوسری بلڈنگوں اور ان کے ملحقہ میدانوں میں پڑا ہے۔ ان میں سے اکثر قادیان میں سے آئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ مکانوں اور جائیدادوں والے تھے مگر ان کے مکانوں پر سکھوں نے قبضہ کرلیا ہے اور ان کے گھروں کو سکھوں نے لوٹ لیا ہے۔ قادیان کے رہنے والوں میں چونکہ یہ شوق ہوتا تھا کہ وہ اپنا مکان بنائیں اس لیے عورتوں کے پاس زیور اور مردوں کے پاس روپیہ بہت ہی کم ہوتا تھا۔ اس لیے جب لوگوں کو قادیان چھوڑنا پڑا تو مکان اور اسباب سکھوں نے لوٹ لیے اور روپیہ اور زیور ان کے پاس تھا ہی نہیں۔ اکثر بالکل خالی ہاتھ پہنچے ہیں اور اگر جلد ان کے لیے کچھ کپڑے اور رضائیاں وغیرہ مہیا نہ کی گئیں تو ان میں سے اکثر کی موت یقینی ہے۔ اس لیے میں مغربی پنجاب کے تمام شہری، قصباتی اور دیہاتی احمدیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آج ان کے لیے ایثار اور قربانی کا جذبہ دکھانے کا وقت آگیا ہے سوائے ان بستروں کے جن میں وہ سوتے ہیں اور سوائے اتنے کپڑوں کے جو ان کے لیے اشد ضروری ہیں باقی سب بستر اور کپڑے ان لوگوں کی امداد کے لیے دے دیں جو باہر سے آرہے ہیں۔ سیالکوٹ کی جماعت کو میں ہدایت کرتاہوں کہ گورداسپور اور کئی جگہوں کے زمیندار وہاں بٹھائے جارہے ہیں ان میں سے بھی اکثروں کے پاس کوئی کپڑا وغیرہ نہیں جوپہلے بھاگ آئے ان کے پاس کچھ کپڑے ہیں مگر جو بعد میں آئے ہیں ان کے پاس کوئی کپڑا نہیں۔ خصوصاً جو قادیان میں پناہ گزین تھے اور وہاں سے آئے ہیں ان سب کامال سکھوں اور ملٹری نے لوٹ لیا تھا۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے بستر اور کپڑے مہیا کرنا سیالکوٹ کی جماعت کا فرض ہے۔ ہمارے ملک میں یہ عام دستور ہے کہ زمیندار ایک دو بستر زائد رکھتے ہیں تاکہ آنے والے مہمانوں کو دیئے جاسکیں۔ ایسے تمام بستر ان لوگوں میں تقسیم کر دینے چاہئیں اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے بھی جتنے بستر مہیا ہو سکیں جمع کرکے ان لوگوں میں بانٹنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ کی تمام زمیندار جماعتوں کو اپنا یہ فرض سمجھنا چاہئے کہ تمام اردگرد کے تالابوں سے کسیر جمع کرکے اپنے چھکڑوں میں ان جگہوں پر پہنچائیں جہاں پناہ گزین آباد ہوئے ہیں۔ اسی طرح گنوں کی کھوری اور دھان کے چھلکے جمع کرکے ان لوگوں کے گھر میں پہنچا دیں تاکہ بطور بستروں کے کام آسکے۔
تمام جماعتوں اور پریذیڈنٹوں کو اپنی رپورٹوں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہئے کہ انہوں نے اس ہفتہ یا اس مہینہ میں پناہ گزینوں کی کیا خدمت کی ہے اور ان کے آرام کے لیے انہوں نے کیا کوششیں کی ہیں۔ سیالکوٹ کے علاوہ دوسرے اضلاع میں جو آدمی بس رہے ہیں۔ ان کی امداد کے لیے بھی وہاں کی جماعتوں کو فوراً توجہ کرنی چاہئے۔ اپنے زائد بستر ان کو دے دینے چاہئیں۔ اسی طرح جولوگ قادیان سے آرہے ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں ان کے لیے بھی کچھ کپڑے بھجوانے چاہئیں۔ زیادہ کمبلوں، لحافوں، توشکوں اور تکیوں کی ضرورت ہے۔ چونکہ سردی روز بروز بڑھ رہی ہے اس کام میںدیر نہیں کرنی چاہئے اور خواہ آدمی کے ذریعے سے یہ چیزیں بھجوانی پڑیں جلد ازجلد یہ چیزیں ہمیں بھجوا دینی چاہئیں۔ اس کے علاوہ میںجماعتوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے اردگرد کی منڈیوں وغیرہ میں اگر دکانیں نکالنے کا موقعہ ہو، ایسی دکانیں جو غریب اور بیکس لوگ بغیر روپیہ کے جاری کرسکیں تو ان کے متعلق بھی فوراً مجھے چٹھیاں لکھیں تا ایسے لوگوں کو جو تعلیم یافتہ ہیں اور تجارت کاکام کرسکتے ہیں، وہاں بھجوا دیا جائے‘‘۔ (الفضل 17؍اکتوبر 1947ء صفحہ3)
حضرت مصلح موعود ؓ کے اس پُردرد اور اثر انگیز پیغام نے پاکستان کی احمدی جماعتوں پر بجلی کاساثر کیا اور انہوں نے اپنے پناہ گزین بھائیوں کی موسمی ضروریات کو پورا کردینے کی ایسی سرتوڑ کوشش کی کہ انصار مدینہ کی یاد تازہ ہوگئی اور اس طرح حضرت مصلح موعودؓ کی بروقت توجہ سے ہزاروں قیمتی اور معصوم جانیں موسم سرما کی ہلاکت آفرینیوں سے بچ گئیں۔ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی پہلی سالانہ رپورٹ میں حضورؓ جیسے محسن آقا کے اس لطف و کرم اور شفقت و احسان کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا:’’جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور ہزاروں مرد اور عورتیں اور بچے بےسروسامانی کی حالت میں لاہور میں آکر آستان خلافت پر پڑے تھے۔ سینکڑوں تھے جنہیں تن پوشی کے لئے کپڑوں کی ضرورت تھی اور ہزاروں تھے جن کو خورونوش کی فکر تھی اور سینکڑوں تھے جو صدموں کی تاب نہ لاکر بیمار اور مضمحل ہورہے تھے۔ مزیدبرآں موسم سرما بھی قریب آرہا تھا اور ان غریبوں کے پاس سردیوں سے بچنے کا کوئی سامان نہ تھا۔ پھر ان لوگوں کو مختلف مقامات پر آباد کرانے اور ان کی وجہ معاش کے لئے حسب حالات کوئی سامان کرنے کاکام بھی کچھ کم اہمیت نہ رکھتا تھا۔ یہ مشکلات ایسی نہ تھیں جو غیراز جماعت لوگوں پر نہیں آئیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور ہمارا ایک مونس و غمخوار تھا۔ جب وہ لوگ پراگندہ بھیڑوں کی طرح مارے مارے پھر رہے تھے ہم لوگوں کو آستانۂ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ایک گونہ تسکین قلب حاصل تھی۔ حضرت مصلح موعود نے اپنے خدام کی تکالیف کو دیکھا اور ان کے مصائب کو سنا اور ہر ممکن ذریعہ سے نہ صرف سلسلہ کی طرف سے بلکہ ذاتی طور بھی ان کی دلجوئی کے سامان کئے۔ اپنے روح پرور کلام سے ان کی ہمتوں کو بڑھایا اور ان کے حوصلوں کو بلند کیا۔ مہاجر غرباء کی تن پوشی کے لئے تحریک کرکے ذی استطاعت اور مخیر اصحاب سے کپڑے مہیا کرائے اور سلسلہ کے اموال کو بے دریغ خرچ کرکے ان کو فقروفاقہ کی حالت سے بچایا۔ بیماروں کے لئے ادویات اور ڈاکٹروں کا انتظام کرایا اور لاہور سے باہر جا کر آباد ہونے والوں کے لئے حسب ضرورت زادراہ مہیا کیا اور ان کے گزاروں کے لئے ہر اخلاقی اور مالی امداد فرمائی۔ موسم سرما میں کام آنے والے پارچات مہیا کرائے۔ غرض ہزاروں، لاکھوں برکات اور افضال نازل ہوں اس محبوب اور مقدس آقا پر جس نے ایسے روح فرسا حالات میں اپنے خدام کی دستگیری فرمائی۔ ہمارے دل حضور کے لئے شکر و امتنان کے جذبات سے معمور ہیں لیکن ہماری زبانیں ان جذبات کے اظہار سے عاجز ہیں‘‘۔ (رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ 1947-48ء صفحہ50)
سیلاب میں خدمات
1954ء اور 1955ء میں برصغیر میں سیلاب آیا جس کے نتیجہ میں بھارت، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں وسیع پیمانہ پر تباہی ہوئی۔ اس موقع پر بھی حضورؓ کی ہدایات کے مطابق بھارت اور پاکستان کی جماعت نے خدمت خلق کے لیے نہایت قیمتی خدمات سرانجام دیں جسے حکومت اور پریس نے بھی بہت سراہا۔ اکتوبر 1954ء میں حضورؓ نے لاہور کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ فرمایا اور جماعت کی طرف سے تعمیری سرگرمیاں ملاحظہ کیں۔ لاہور اور ربوہ کے 200 خدام نے 75 سے زائد گرے ہوئے مکانوں کو دوبارہ تعمیر کرکے 1000 افراد کی رہائش کا انتظام کیا تھا۔ (تاریخ احمدیت جلد17 صفحہ336 جلد18 صفحہ36) حضورؓ نے خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے 15؍اپریل 1938ء کو فرمایا:’’خدمت خلق کے کام میں جہاں تک ہوسکے وسعت اختیار کرنی چاہئے اور مذہب اور قوم کی حد بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دورکرنا چاہئے۔ خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ۔ ہمارا خدا رب العالمین ہے اور جس طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی طرح اس نے ہندوؤں اور سکھوں اور عیسائیوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ پس اگر خدا ہمیں توفیق دے تو ہمیں سب کی خدمت کرنی چاہئے‘‘۔ (الفضل 22؍اپریل 1938ء)
الغرض جماعت احمدیہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کو حضرت مصلح موعودؓ نے خدمت خلق کی ایک ایسی راہ پر ڈال دیا ہے کہ اب وہ بہت آگے جا کر ساری دنیا میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے بلکہ اپنے وسائل سے بڑھ کر بڑے بڑے ممالک کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔