حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کےچند سنہری ایمان افروزواقعات
اللہ تعالیٰ نے دُنیا کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین و خلفاء میں ’’مصلح موعودؓ‘‘کے آنے کی خبر دی۔ آپؓ کی زندگی کے بے شمار واقعات آپؓ کے مقام و مرتبہ کونمایاں کرتے ہیں ۔ ان لا تعداد ایمان افروزواقعات میں سےمَعدودے چند ذیل میں پیش ہیں :
وائسرائے ہندکے دربار میں آپؓ کا مقام و مرتبہ
مکرم لیفٹیننٹ کرنل (ر) سردار محمد حیات قیصرانی صاحب ایک شاندارتاریخی واقعہ جوکہ 1922ء میں وقوع پذیر ہوا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ دہلی ہندوستان کا شاہی قدیم پایہ تخت ایک عجیب شان سے سجا ہوا تھا۔ وائسرائے ہند نے کھڑے ہوکر شاہی دربار پر فاتحانہ نگاہ ڈالی۔ ہندوستان کے والیان ریاست اور رؤسا ء ملک زرق برق لباسوں میں ملبوس اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے قیصر ہند ، تاجدار برطانیہ جارج پنجم کے ولی عہد شہزادے کا انتظار کر رہے تھے۔ وائسرائے ہند کو احساس ہوا کہ دربار میں بیٹھا ہوا ایک بلوچ سردار، کچھ ایسے اندازسے بیٹھا ہے کہ اس کی پشت ’’شہزادہ سلامت ‘‘ کی تخت گاہ کی طرف ہورہی ہے اور ایسا کرنا آداب شاہی کے خلاف تھا۔گورنرپنجاب نے بتایاکہ آداب شاہی سے بے نیازیہ بلوچ سردار،سردارامام بخش خان تمندارقیصرانی ہے۔ وائسرائے ہند کی ہدایت پر گورنرپنجاب سردار صاحب کی طرف آئےاور کہا کہ جس اندازسےسردار صاحب بیٹھے ہوئے ہیں یہ آداب شاہی کے خلاف ہے۔ سردار صاحب نے جواباً کہا کہ انہیں آداب شاہی کا بخوبی احساس ہےلیکن…ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ ہیں جوماموریزدانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑکے فرزندو جانشین ہیں ۔ اس لئے وہ احتراماً کچھ اس انداز سے بیٹھے کہ جس سے صاحبزادہؓ موصوف کی طرف ان کی پیٹھ نہ ہو۔
گورنر پنجاب،سردار صاحب کے جواب سے برہم سے ہوئے اور کہا کہ دربار شاہی کے انعقاد کی اصل غرض ہی شہزادہ ویلز کو خراج عقیدت پیش کرنا تھی اورولی عہد شہزادہ کی ذات ہی بلا شرکت غیر باعث صد تکریم تھی۔ اصولی طور پر سردار صاحب شہزادہ ویلز کے مقام عزہ وجاہ سے بخوبی واقف تھے ۔لیکن دربار میں بیٹھے ہوئےسردار صاحب کا ذہن ایک عجیب کشمکش کا شکار ہورہا تھا…( اُن) کے گوشۂ ذہن میں ماضی کی یادیں ابھرنے لگیں ۔ انہیں وہ دن یاد آئے جب وہ انگریز سرکار کے حکم سے جلاوطن کئے گئے۔ جلاوطنی کے ایام میں وہ اپنے اہل و عیال سمیت قریہ قریہ بے سہارا وبے آسرا پھرے۔ لیکن کہیں مونس و مدد گار نہ پایا۔ دور دراز کی دشت نوردی اور آبلہ پائی کے بعد وہ تھکے ماندے مسیحؑ کے دروازے تک پہنچے اورطالب دعا ہوئے ۔ درد آشنا مسیح ؑنے سردار صاحب اور ان کے اہل وعیال کو اپنے ہی گھر میں اتارا۔
بے سہاروں کو سہارا ملا…دنیاوی بادشاہت کے ٹھکرائے ہوئے شاہ دین کی امان میں آگئے۔ مسیحؑ کے خلق عظیم نے سردار صاحب کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ سردار صاحب ہمیشہ کے لئے دامن مسیح ؑسے وابستہ ہوگئے ۔ مسیح ؑنے اپنی دعاؤں کی برکتوں سےسردار صاحب کو مالا مال کردیا۔دامن تہی بھردیا گیا۔ مسیح ؑنے جو مژدۂ فتح جلاوطنی کے ایام میں سردار صاحب کو سنایا تھا وہ پورا ہوا ۔سردار صاحب قیصرانی قبیلہ کے تمندار بنے اور بلوچوں کے سردار کہلائے ۔ مسیح کی غلامی نے انہیں تخت سرداری بخشا… سردار صاحب دفعتاً کھڑے ہوگئے۔ اپنی چادر کندھے پر رکھی اور گورنر صاحب سے کچھ یوں مخاطب ہوئے :
گورنر صاحب! میں آپ کی برہمی کو سمجھ گیا ہوں ۔ پہلے بھی انگریز سرکار مجھ سے برہم ہوئی تو مجھے جلاوطن کیا۔ جلاوطنی کے دوران حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کا گھر ہی میرےلئےاور میرے اہل وعیال کے لئے جائے پناہ بنا…مجھے ان کے احسانوں کا پاس ہے۔ میں آج دربار میں حضرت مرزا صاحبؑ کے فرزندو جانشین صاحبزداہؓ موصوف کی طرف پیٹھ کئے ہوئے نہیں بیٹھ سکتا…بلوچوں کی احسان شناسی ضرب المثل ہے۔ میں کیونکر احسان فراموش بن کر دربار میں بیٹھ سکتا ہوں ؟ اگر ممکن ہو تو میری کرسی صاحبزادہؓ موصوف کے پیچھے ڈال دی جائے وگرنہ مجھے اجازت دیں ، میں خود ہی دربار سے باہر چلا جاؤں ۔ دنیاوی عزت کے بغیر میں پھر بھی جی لوں گا۔
سردار صاحب کا اٹھنا تھا کہ ڈیرہ جات کے سب بلوچ سردارکھڑے ہوگئے۔اور دربارسے باہرجانےکے لیے تیار ہوئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر وائسرائے ہند بھاگے ہوئے آئے اور مداخلت کی ۔تمام سرداروں کو دربار میں بیٹھنے کے لئے کہا ۔ لیکن سرنواب میر بہرام خان تمنداری مزاری (جناب میر بلخ شیر صاحب سردار مزاری کے دادا محترم) سینہ سپر ہوگئے۔ بالآخر بلوچ سرداروں نے اس شرط پر بیٹھنا منظور کیا کہ حضرت صاحبزادہ مرزامحمود احمدصاحبؓ کی کرسی بلوچ سرداروں سے آگے رکھ دی جائے۔ شاہی دربار میں فوری ردوبدل بظاہر ناممکن اور انگریز قوم کی روایات کے خلاف تھا۔ لیکن وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے وائسرائے ہندمجبورہوگئے۔ان کے لئے کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ وائسرائے ہند خود آگے بڑھے اور حضرت صاحبزادہ صاحبؓ سے درخواست کی کہ وہ آگے تشریف فرماہوں ۔ان کی کرسی بلوچ سرداروں سے آگے رکھ دی جائے گی۔ وہ کھڑے ہوئے تو ہر ایک نے مسیح ؑکے حسین وجمیل شہزادہؓ کودیکھا ۔جو ہوبہو مسیحؑ کا روپ لئے ہوئے تھا‘‘۔(روزنامہ الفضل 29؍جولائی 2004ءصفحہ 4)
مخلص دوست اور مدد گار میسر آنے کے لیے آپؓ کی دعائیں
مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ بیان کرتے ہیں : ’’آپؓ کے اس جوانی کے عالم میں جب کہ ہر طرح کی سہولت اپنے گھر میں حاصل ہے، زمینداری بھی ہے اور ایک شاہانہ قسم کی زندگی بطور صاحبزادہ، شہزادہ بسر کر رہے ہیں ۔تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آپؓ کو کس ضرورت نے مجبور کیا ہے کہ وہ تہجد میں آکر لمبی لمبی دعائیں کریں ۔ یہ بات میرے دل میں باربار یہ سوال پیدا کرتی تھی لیکن حضرت ممدوح سے پوچھنے کی جرأت نہ پاتے تھے ۔لیکن ایک دن انہوں نے جرأت کر کے آپؓ سے جب کہ وہ حضرت خلیفہ اولؓ کی صحبت سے اٹھ کر اپنے گھر کو جارہے تھے راستے میں السلام علیکم کر کے روک لیا اور اپنی طرف متوجہ کر لیا اور نہایت عاجزی سے حضرت میاں صاحب ؓ کی خدمت میں معافی مانگ کر پوچھا کہ وہ مقصد جس کے لئے آپؓ تہجد میں لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اورنیز عرض کیا کہ میں بھی اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے دعا کروں گا تا کہ وہ غرض آپؓ کو حاصل ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضرت ممدوح ؓ نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی دعا کرتے ہیں کہ خدا کے راستہ میں جو انہوں نے کام کرنا ہے اس کے لئے انہیں مخلص دوست اور مدد گار میسر آجائیں ‘‘۔(سوانح فضل عمرجلد 5صفحہ59تا 60)
ایک تحصیلدارکا خواب کے ذریعہ آپؓ کی مدد کرنا
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :’’چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ میں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ درکار تھا۔ میں نے خیال کیا کہ جائیداد کا کوئی حصہ بیچ دوں ۔یا کسی سے قرض لوں ۔ اتنے میں ایک دوست کی چٹھی آئی کہ میں چھ ہزار روپیہ بھیجتا ہوں ۔اس کے بعد چار ہزار باقی رہ گیا۔ ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی۔ اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہوگیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو۔ مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آیا۔ اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے درپیش ہو۔تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہےمیں وہ بھیج دوں ۔ میں نے انہیں لکھا کہ واقعی صورت تو ایسی ہی ہے۔ بعینہٖ اسی طرح ہوا ہے۔گویا ضرورت مجھے تھی۔لیکن اللہ تعالیٰ نےمیرے مونہہ سے کہلوانے کی بجائےاس دوست کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کےمونہہ سے کہلوادیا‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جون 1939، مطبوعہ الفضل قادیان 11؍جولائی 1939 صفحہ4)
فرشتوں کے ذریعہ آپؓ کی قمیصوں کے لیے کپڑے کا مہیا ہونا
حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں :’’کل ہی ایک عجیب اتفاق ہواجس پر مجھے حیرت بھی آئی۔ ایک دوست ملنے آئے اور انہوں نےایک تحفہ دیاکہ فلاں دوست نے بھیجا ہے۔وہ ایک کپڑے کا تھان تھا اس کے ساتھ ایک خط تھا۔جس میں اس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہےکہ آپؓ آئے ہیں اور کہا ہے کہ قمیصوں کے لیے کپڑے کی ضرورت ہے بازار سے لادو… اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میں یہ کپڑا بھیجتا ہوں ۔ مَیں نے وہ تھان لاکر گھر میں دیا کہ کسی نے بھیجا ہےاور اس سے قمیصیں بنوائی جائیں ۔ انہوں نے کہاکہ الحمدللہ چار سال کے عرصے میں آ پؓ نے قمیصوں کے لیے کپڑا نہیں خریدا تھا اور آپؓ کی پہلی قمیصیں ہی سنبھال سنبھال کر اب تک کام چلایا جارہا تھا…میں ضمناً یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ا س دوست کے خط کو پڑھ کر معاً میرے دل میں خیال آیا کہ پچاس سال کی عمر ہونے کو آئی ہے، جاگتے ہوئے تو میں نے کبھی کسی سے مانگا نہیں مگر خواب میں جا مانگا ۔اور گویہ میں نے نہیں مانگا تھا بلکہ فرشتوں نے مانگا تھا ۔لیکن یہ امر واقع ہے کہ پھر بھی مجھے شرم محسوس ہوئی اور میں نے اس وقت دعا کی کہ اے خدا! جس طرح تو نے اپنے فضل سے جاگتے ہوئے مانگنے سے اب تک بچایا ہے خواب کے سوال سے بھی بچائے رکھ اور اگر خواب میں کسی کو تحریک کرنی ہو تو میرے منہ سے نہ کروا…مجھے تو تُواپنے ہی دَرکا سوالی بنا رہنے دے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍نومبر1938ء،مطبوعہ خطبات محمود جلد19 صفحہ 842تا843)
خاندانی دلیری وبہادری اور کسی کےآگےگردن نہ جھکانا
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : ’’میری عادت ہے کہ جب دشمن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو تو اس وقت میں اس کی بات نہیں مانا کرتا اور مجھے افسوس ہے کہ جب کبھی یہاں کے بزرگوں نے مجھ سے صلح کرنے کی کوشش کی ہے تو ہمیشہ ایسی صورت میں کہ پہلے کوئی ہم پر مقدمہ کرادیا یا فساد کھڑا کرادیا اور پھر چاہا کہ ہم سے سمجھوتہ کرلیں حالانکہ میں ایسے مواقع پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتا۔مَیں ہمیشہ ایسے موقع پر ہی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہوا کرتا ہوں جب میرا ہاتھ دینے والا ہو اور اُن کا ہاتھ لینے والا ہو۔ لیکن جب کوئی ڈنڈا لے کر میرے سر پر آچڑھے اور کہے کہ مجھ سے صلح کرو تو پھر مَیں اس کی بات نہیں مانا کرتا۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ میری عمر پچاس سال کے قریب ہونے کو آگئی ،صرف چند ماہ اس میں باقی ہیں ۔اور میں تمام عمر اس قادیان میں رہا …مگر اب تک یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں نے میری طبیعت کو نہیں سمجھا۔ میری طبیعت یہ ہے۔ اور یہی طبیعت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بھی تھی۔ بلکہ دینی لحاظ سے گو حالت کچھ ہی ہو یہی طبیعت ہمارے دادا صاحب کی بھی تھی کہ وہ کسی کے ساتھ دَب کر صلح نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان نے دو حکومتوں کے تغیر کے وقت سخت نقصان اٹھایا ہے۔ جب سکھ آئے تب بھی اور جب انگریز آئے تب بھی کیونکہ یہ ہماری طبیعت کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوں … گو ہمارے خاندان نے سکھوں اور انگریزوں دونوں سے تعاون بھی کیا اور ان کی مدد بھی کی اور ان لوگوں سے زیادہ مدد کی جو جی حضور کرتے رہتے تھے مگر پھر کبھی انگریزوں کے آگے گردن جھکا کر کھڑے نہیں ہوئے۔ یہ ایک خاندانی اثر ہے جو میرے اندر پایا جاتا ہے اور مذہب نے اسے اَور زیادہ رنگ دے دیا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ نومبر1938ءمطبوعہ خطبات محمود جلد19 صفحہ 804تا805)
حضرت مسیح موعود ؑکی تحریر ات کے خلاف آپؓ کچھ برداشت نہ کرتے
حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں :’’حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتابیں اب بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے پڑھی ہوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست ہم نے اس قدر مسائل سنے ہوئے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں ۔ حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپؑ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے۔ اس لیے آپؑ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء اور آپؑ کی تعلیم کے مطابق ہوں ۔ بیشک بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں ۔ تفصیلات کا ان میں ذکر نہیں اور ان باتوں کے متعلق ہمیں ان دوسرے لوگوں سے پوچھنا پڑتا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اٹھائی ہے اور اگر ان سے بھی کسی بات کا علم حاصل نہیں ہوتا تو پھر ہم قیاس کرتے اور اس علم سے کام لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے ۔مگر باوجود اس کے میرا اپنا طریق یہی ہے کہ اگر مجھے کسی بات کے متعلق یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی تحریر اس کے خلاف ہے تو میں فوراً اپنی بات کو ردّ کر دیتا ہوں ۔
اسی مسجد میں 1922ء یا 1928ء کے درس القرآن کے موقع پر مَیں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا مگر جب میں وہ تمام نوٹ لکھوا چکا تو شیخ یعقوب علی صاحب ؓ عرفانی یا حافظ روشن علی صاحب ؓ مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ نکال کر میرے سامنے پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں فرمایا ہے ۔میں نے اس حوالہ کو دیکھ کر اسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ میں نے عرش کے متعلق آپ لوگوں کو جو کچھ لکھوایا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنی کاپیوں میں سے کاٹ ڈالیں ۔ چنانچہ جو لوگ اس وقت میرے درس میں شامل تھے وہ گواہی دے سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس اس وقت کی کاپیاں موجود ہوں تو وہ دیکھ سکتے ہیں کہ مَیں نے عرش کے متعلق نوٹ لکھوا کر بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ اس کے خلاف ہے۔ اسے کاپیوں سے کٹوا دیا اور کہا کہ ان اوراق کو پھاڑ ڈالو۔ کیونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس کے خلاف لکھا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کے فرمان کے مقابلہ میں بھی ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں اور کہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہی صحیح ہے اور اپنے نفس کی عزت کا خیال رکھیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔
پس یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعودؑ حَکم عَدل ہیں اور آپؑ کے فیصلوں کے خلاف ایک لفظ کہنا بھی کسی صورت میں جائز نہیں ۔ ہم آپؑ کے بتائے ہوئے معارف کو قائم رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے دوسرے معانی کرسکتے ہیں مگر اسی صورت میں کہ اُن میں اور ہمارے معانی میں تناقض نہ ہو۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لیے نئے معانی کرنے ناجائز ہیں ۔ بیشک تم قرآن کریم کے معارف بیان کرو اور ایک ایک آیت کے ہزاروں نہیں لاکھوں معارف بیان کرو۔ یہ سب تمہارے لیے جائز ہوگا اور ہمارے لیے خوشی کا موجب بلکہ اگر تم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو سَو سَو جزو کی تفسیر بھی بنا ڈالو تو اگر وہ قابل قدر ہوگی ہمارے دل اس پر فخر محسوس کریں گے ۔کیونکہ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بڑھ کر عالَم ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوگا کہ تمہارا کوئی استدلال اور تمہارا کوئی نکتہ حضرت مسیح موعوددعلیہ السلام کی بیان فرمودہ تعلیم کے خلاف نہ ہو اور اگر تم کسی آیت کے کوئی ایسے معنے کرتے ہو جنہیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ردّ کیا ہے تو وہ معنے ردّ کیے جائیں گے ۔لیکن آپؑ کی تعلیم کو برقرار رکھتے ہوئے اگر تم بعض زائد مطالب قرآنی آیات کے بیان کر دیتے ہو تو وہ مسیح موعود علیہ السلام کا طفیل ہوگا اور آپؑ کی خوشہ چینی اور آپؑ کی متابعت کی برکت ہوگی ۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اگست 1938ءمطبوعہ خطبات محمود جلد19صفحہ599تا600)