ارشادات حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ…خدام کے لیے مشعلِ راہ
اکثر نوجوان، کم عمری، طبیعت میں تیزی اورزندگی کی حقیقتوں سے نا آشناہونے کےباعث عمر کا اہم حصہ دنیا کے کباڑخانے میں ضائع کر دیتے ہیں ۔ایک خادم ہونے کے ناطے مجھےبھی نوجوانوں کے مسائل اور ان کے حل پر متفرق کتب،مضامین، ویڈیوز اور Podcasts سے گذرنے کا موقع ملا۔ لیکن جب مشعل راہ جلد اول کا مطالعہ شروع کیا تو ایک نیا عالم سامنے آیا۔حضرت مصلح موعودؓ نےجس طرح نوجوانوں کی فطرت و رجحانات کو سمجھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے نوجوانوں کی جسمانی، اخلاقی، شعوری اور روحانی تعمیر کے لیے دن رات ایک کر کے قدم قدم پر نوجوانوں کے ہاتھ پکڑپکڑ کر کامیابی کی شاہ راہ پر گامزن کیا۔ آپ نے ذیلی تنظیموں کی بنیاد رکھی تو Anatomy اورBiologyکی کتب کا بغور مطالعہ کیا۔آپ نے جسمانی تخلیق، جسمانی رجحانات، جسمانی ضروریات، جسمانی بیماریاں اور جسمانی علاج پر عمیق تدبر و تفکر کے بعد ذیلی تنظیموں کو قائم کیا۔ جسم اور روح میں ایک گہرا ربط ہے اسی لیے جسمانی ضروریات کو سمجھنے کے ساتھ روحانی ضروریات کا بھی عرفان ملا۔ آپ کی نوجوان نسل کو ہدایات آج بھی اسی طرح قابل عمل و آب حیات ہیں جس طرح ۹۰ یا ۱۰۰؍ سال قبل۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ ۲۵؍سال کی عمر میں خلیفہ بنے اور ۵۲؍سال اس فریضہ کوبخوبی نبھایا۔ آپ نے لگ بھگ چارسے پانچ نسلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتے دیکھا۔ ان کی تعلیم و تربیت جس رنگ میں آپ نے کی اس کی کچھ جھلکیاں اس مضمون میں پیش کرنا مقصود ہے۔
۱۹۳۸ءمیں قادیان کے دس نوجوانوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی منظوری سےایک انجمن، مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی۔ آغاز میں اس مجلس کا منشور اسلام احمدیت و خلافت احمدیہ پر اٹھتے اعتراضات کے مدلل جوابات تصنیف و اشاعت کرنا تھا۔ اس کو توسیع دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؑ نے فرمایا : ’’تمہارا کام بے شک یہ ہے کہ تم دشمن سے لڑو۔مگر تمہارا فرض ہے کہ امام کے پیچھے ہو کر لڑوپس کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں ۔ پروگرام تحریک جدید کا ہی ہوگا ا ور تم تحریک جدید کے والنٹیر ز ہوگے تمہارا فرض ہوگا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو۔ تم سادہ زندگی بسر کرو۔ تم دین کی تعلیم دو۔ تم نمازوں کی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرو۔ تم تبلیغ کے لئے اوقات وقف کرو۔‘‘(صفحہ۲۸۔۲۹)
ابتدا میں دو سال کے لیے خدام الاحمدیہ قائم ہوئی۔پھر اس کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک مستقل مجلس بن کر سامنے آئی۔شروع دن کی مشکلات میں سےعہدیداروں کے لیے ایک بڑی مشکل نوجوانوں کو مجلس کے کاموں میں شامل کرنا تھا۔ بعض شکایات موصول ہونے پر آپؓ نے فرمایا: ’’ان نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کریں جو واقعہ میں کام کرنے کا شوق رکھتے ہوں ۔ بعض طبائع صرف چوہدری بننا چاہتی ہیں ۔کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا۔‘‘نیز فرمایا : ’’ان کا تعداد پر بھروسہ نہ ہو بلکہ کام کرنا ان کا مقصود ہو…یہ سوال نہیں کہ تمہارے دس ممبر ہیں ۔یا بیس۔یا پچاس یا سو۔ اگر مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ہی کہی (کسی۔مرتب) ہاتھ میں لے لے اور گلیوں کی صفائی کرتا پھرے۔ یا لوگوں کو نماز کے لئے بلائے۔ یا کوئی غریب بیوہ جس کے گھر سودا لا کردینے والا کوئی نہیں اسے سودا لا کر دے دیا کرے۔ تو بےشک پہلے لوگ اسے پاگل کہیں گے مگر چند دنوں کے بعد اس سے باتیں شروع کر دیں گے۔پھر انہی میں سے بعض لوگ ایسے نکلیں گے جو کہیں گے کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی آپ کے کام میں شریک ہو جائیں ۔ اس طرح وہ ایک سے دو ہوں گے، دو سے چار ہوں گے اور بڑھتے بڑھتے ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ سکتے ہیں ۔تو نیک کام کرتےوقت کبھی یہ نہیں دیکھنا چاہیئے کہ کتنےآدمی اس میں شریک ہیں ‘‘۔(صفحہ۲۳)’’تم اگر نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہو جاؤ تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا…یہ ممکن ہی نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے‘‘۔(صفحہ۲۷)
’’پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں یا تم کمزور ہو۔ بلکہ تم یہ سمجھو کہ ہم جو خادم احمدیت ہیں ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے۔ تب بے شک تم کو خدا تعالیٰ کی طرف ایسی طاقت ملے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا۔ پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بناؤ…تا دنیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں ۔‘‘ (صفحہ۳۰)’’اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے۔ (اور اس دنیا کی زندگی کی حقیقت ہے ہی کیا۔ چند سال کی زندگی ہے اور بس)مگر خدا تمہارا نام جانے گا۔ اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘(صفحہ۳۱)
نوجوانوں کی ایک خاص رنگ میں تعلیم و تربیت کرنے کے لیےحضرت مصلح موعودؓ نےمجلس خدا م الاحمدیہ کے قیام کےساتھ ہی، آغاز کےاپنے پانچ،چھ خطبات میں نو ایسے امور کی طرف توجہ دلائی جس نے مجلس خدام الاحمدیہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔وہ ۹؍ امور درج ذیل ہیں :
اول: قومی روح۔جماعتی کاموں کے لیے قربانی کا مادہ پیدا کرنا۔
دوم: اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کرنا۔
سوم: آوارگی اور بیکاری کا ازالہ کرنا۔
چہارم: اچھے اخلاق پیدا کرنا۔
پنجم: ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا کرنا۔
ششم: نوجوانوں میں ذہانت پیدا کرنا۔
ہفتم: اپنے اندر استقلال پیدا کرنا۔
ہشتم: جسمانی صحت کا خیال رکھنا۔
نہم: علم کا عام کرنا۔
آیئے ان ۹؍امور پر، حضرت مصلح موعودؓ کے اپنے الفاظ میں ہی،قدرے تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں ۔
اول قومی روح۔جماعتی کاموں کے لیے قربانی کا مادہ پیدا کرنا
’’خدام الاحمدیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ قومی اور ملی روح کا پیدا کرنا ان کے ابتدائی اصول میں سے ہے…نبوت کی پہلی غرض ملی روح کا پیدا کرنا تھا…ملی روح کا سبق وہ سبق ہے جو ہمارے پہلے روحانی باپ نے دیا اور سب سے پہلا الہام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا وہ ملی روح کے لئے ہی تھا یعنی یَا اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّةَ اے آدم تو اور تیرے ساتھی جنت میں رہو۔ یعنی اکٹھے مل کر تعاون کے ساتھ رہو اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کرو۔‘‘ (صفحہ۹۹) ’’جماعتی نظام کو نمایاں کرو اور شخصی وجود کو اس کے تابع رکھو۔ اور دراصل اس کے بغیر حقیقی تعاون کبھی ہو نہیں سکتا۔ حقیقی تعاون کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ انسان شخصی آزادی کو قربان کردے۔‘‘(صفحہ۹۹)’’انسان کو اختیار اور طاقت حاصل ہو، رتبہ حاصل ہو، روپیہ موجود ہو، مگر وہ ان کے متعلق اپنے اختیارات پر خود قیدیں لگا دے۔ روپیہ خرچ کرنے کے لئے موجود ہومگر کم خرچ کرے یا اسے دوسروں کے لئے خرچ کرنے لگے……انسان کے اندر یہ بات پیدا ہو جائے کہ جہاں میری ذات کا مفاد میری قوم کے مفاد سے ٹکرائے وہاں قومی مفاد کو مقدم کروں گا اور اپنی ذات کو نظر انداز کردوں گا اور جب کسی جماعت میں یہ پیدا ہوجائے تو وہ کسی سے ہارتی نہیں ۔‘‘(صفحہ۱۰۰)
دوم: اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کرنا
’’دوسری بات جو انہیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہیے وہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کرنا ہے۔ یہ ایک مذہبی انجمن ہے سیاسی نہیں اور اس لئے اصل پروگرام یہی ہے۔باقی چیزیں تو ہم حالات اور ضروریات کے مطابق لے لیتے ہیں یا ملتوی کر دیتے ہیں ۔‘‘(صفحہ۱۰۳)
’’خدام الاحمدیہ کا اہم فرض یہ ہے کہ اپنے ممبروں میں قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام کریں …قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنا ان کے پروگرام کا خاص حصہ ہونا چاہیے۔ ‘‘(صفحہ۱۰۴)’’حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھنے کے لئے کہا جائے اور پھر ان کا امتحان لیا جائے۔‘‘(صفحہ۲۹) ’’یہ نہ ہو کہ تم اپنی کتابیں پڑھنی چھوڑ دو اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے میں ہی مشغول ہو جاؤ۔ پہلے اپنے سلسلہ کی کتابیں پڑھو۔ ان کو یاد کرو۔ ان کے مضامین کو ذہن نشین کرو اور جب تم اپنے عقائد میں پختہ ہو جاؤ تو مخالفوں کی کتابیں پڑھو۔‘‘ (صفحہ۲۳۳)
سوم: آوارگی اور بیکاری کا ازالہ کرنا
’’تیسری بات جو ان کے پروگرام میں ہونی چاہیے وہ آوارگی کا مٹانا ہے۔ آوارگی بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور یہ سب بیماریوں کی جڑھ ہوتی ہے۔ اس کی بڑی ذمہ داری والدین اور استادوں پرہوتی ہے۔ وہ چونکہ احتیاط نہیں کرتے، اس لئے بچے اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔دیکھو رسول کریمؐ نے اس کے مٹانے کے لئے کتنا انتظام کیا ہے کہ فرمایا بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان اور تکبیر کہی جائے اور اس طرح عمل سے بتادیا کہ بچہ کی تربیت چھوٹی عمر سے شروع ہونی چاہیے۔ آپؓ نے فرمایا کہ بچوں کو مساجد اور عید گاہوں میں ساتھ لے کر جانا چاہیے۔ خود آپ کا اپنا طریق بھی یہی تھا۔ آج کل تو یہ حالت ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان بھی بے ہودہ حرکت کرے تو والدین کہہ دیتے ہیں کہ ابھی ’’نیانا‘‘ یعنی کم عمر ہے۔ لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباسؓ حدیثیں سناتے ہیں جبکہ ان کی عمر صرف تیرہ سال کی ہے…یہ بات کیوں تھی اس لئے کہ ماں باپ نے شروع میں ہی ان کو علم کے حصول میں لگادیا تھا۔ مگر ہمارا ’’نیاناپن‘‘ یعنی بچپن اٹھارہ بیس سال تک نہیں جاتا۔‘‘(صفحہ۱۰۴)’’میری تعلیم تو کچھ بھی نہ تھی لیکن یہ بات تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں جا بیٹھتاتھا۔ حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں چلا جاتا تھا۔ کھیلا بھی کرتا تھا۔ مجھے شکار کا شوق تھا۔ فٹ بال بھی کھیل لیتا تھا۔ لیکن گلیوں میں بیکار نہیں پھرتا تھا…۔خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ بچوں سے آوارگی کو دور کریں ۔‘‘(صفحہ۱۰۵)’’ بچہ کو ہر وقت کسی نہ کسی کام لگائے رکھنا چاہیے۔ میں کھیل کو بھی کام ہی سمجھتا ہوں ، یہ کوئی آوارگی نہیں ۔ آوارگی میرے نزدیک فارغ اور بیکار بیٹھنے کا نام ہے یا اس چیز کا کہ گلیوں میں پھرتے رہے…بچے یا پڑھیں یا کھیلیں یا کھائیں اور یا سوئیں ۔ کھیل آوارگی نہیں ۔ اس لئے اگر وہ دس گھنٹے بھی کھیلتے ہیں تو کھیلنے دو۔ اس سے ان کا جسم مضبوط ہوگا اور آوارگی بھی پیدا نہ ہوگی۔ ‘‘(صفحہ۱۰۷)
’’ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ایک شخص نے خواب میں ہی مجھے کہا کہ فلاں شخص ورزش کرکے وقت ضائع کردیتا ہے اور میں رؤیا میں ہی اسے جواب دیتا ہوں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں ۔ جب کوئی اپنے قویٰ کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات میں پوری طرح حصہ نہیں لے سکتا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے سبق دیا تھا کیونکہ مجھے ورزش کا خیال نہیں تھا۔تو ورزش بھی کام ہے۔حضرت مسیح موعودؑ مونگریاں اور مگدر پھیرا کرتے تھے بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگریاں تلاش کرو۔ جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔‘‘(صفحہ۱۱۰،۱۰۹)
چہارم: اچھے اخلاق پیدا کرنا
’’چوتھی بات بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔اچھے اخلاق میں سے میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے بہترین اخلاق جن کا پیدا کرنا کسی قوم کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ سچ اور دیانت ہیں ۔‘‘ (صفحہ۱۱۳)’’تم ہندوستان کی تاریخ کو پڑھ جاؤ۔ اتنے بڑے وسیع ملک کا انگریزوں کے ماتحت آجانا محض بددیانتی کی وجہ سے تھا…کسی جگہ پر تو شہزادوں کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ اگر تم اپنے باپ یا بھائی سے بغاوت کرو تو ہم تم کو اس کی جگہ گدی پر بٹھادیں گے…کسی جگہ وزراء کو یہ امید دلادی جاتی ہے کہ ہم تمہاری ایک ریاست قائم کردیں گے یا تم کو اس ریاست کا قبضہ دے دیں گے یا اور کوئی بڑا عہدہ دے دیں گے اور وہ ننگ انسانیت اس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں اور انہی چالبازیوں کے ساتھ اور انہی رشوتوں کے ذریعہ یورپین اقوام جو نہایت قلیل تعداد میں ہندوستان میں آئیں ،ہندوستان کے ایک گوشہ سے بھرے ہوئے بادل کی طرح بڑھنا شروع کر دیتی ہیں اور سارے ملک پر چھا جاتی ہیں …اس تمام فتح اور شکست کی تہ میں ایک وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ بڑے بڑے وزراء اور افسر رشوت خور تھے یا وہ کسی اور لالچ میں آجاتے تھے۔ اگر یہ بددیانتی نہ ہوتی تو کبھی ہندوستان پر انگریزی حکومت قائم نہ ہوسکتی۔‘‘(صفحہ۱۱۳تا۱۱۴)
’’ مکہ مکرمہ میں سب سے زیادہ حج کے لئے جانے والے ہندوستانی ہی ہوتے ہیں مگر جانتے ہو وہاں ہندوستانی کا کیا نام ہے؟ وہاں ہندوستانی کو بطال کہا جاتا ہے یعنی وہ سخت جھوٹا اور بددیانت ہوتا ہے۔ جب بھی کسی ہندوستانی کا ذکر ان کے سامنے آئے گا وہ کہیں گے ہندی بطال…‘‘(صفحہ۱۱۷)’’پس میں خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں …تم نوجوانوں میں قومی دیانت بھی پیدا کرو، تم نوجوانوں میں تجارتی دیانت بھی پیدا کرو اور تم نوجوانوں میں اخلاقی دیانت بھی پیدا کرو۔‘‘ (صفحہ۱۱۹تا۱۲۰)
تجارتی دیانت
’’جس طرح ہر تاجر کا فرض ہے کہ وہ تجارت میں دیانتداری سے کام لے اسی طرح ہر ملازم کا بھی فرض ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام کرے۔‘‘(صفحہ۱۲۰)’’تجارتی دیانت کی بھی ہمارے آباء میں مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اور اس نے کہا کہ اس کی پانچ سو درہم قیمت ہے۔ ایک صحابی نے اس کو دیکھا اور پسند کیا اور کہا کہ میں یہ گھوڑا لیتا ہوں مگر اس کی قیمت میں پانچ سو درہم نہیں بلکہ دو ہزار درہم دوں گا کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو۔اس پر گھوڑا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں پانچ سو درہم لوں گا اور گھوڑا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں دو ہزار درہم دوں گا۔ایک کہتا کہ اے شخص تجھے گھوڑے کی پہچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ میں صدقہ لینا نہیں چاہتا، میں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں اس کی قیمت پانچ سو درہم ہی ہے۔ اس کے کتنا الٹ نظارہ آج دنیا میں نظر آتا ہے۔وہاں تو یہ تھا کہ چیز خریدنے والا قیمت بڑھا تا تھا اور بیچنے والا قیمت گراتا تھا اور یہاں یہ حال ہے کہ دو دو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔‘‘(صفحہ۱۲۲)
اخلاقی دیانت
’’اخلاقی دیانت کے معنے یہ ہیں کہ باوجود اس کے کہ اپنے قول کی پچ کرنے پر تم کو نقصان پہنچتا ہو اپنے قوم کی پچ کرتے ہوئے نقصان اٹھا کر بھی اپنے قول کو پورا کرو اور اسے ضائع نہ ہونے دو۔ایک قصہ مشہور ہے جو گو ہماری ہی قوم کا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری روایتیں بھی ہمارے ذریعہ محفوظ نہیں بلکہ انگریزوں کے ذریعہ محفوظ ہیں ۔ جب ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے، اس وقت ریڈیو میں ایک یوسف ہسپانی کا قصہ آتا تھا جو اخلاقی دیانت کی بہترین مثال ہے۔ یوسف سپین کا ایک مشہور تاجر اور رئیس تھا۔ ایک دفعہ کسی شخص نے اس کے اکلوتے لڑکے کو قتل کردیا۔ یوسف کو اس کا علم نہیں تھا کہ اس کا لڑکا مارا گیا ہے۔ پولیس اس قاتل کے پیچھے بھاگی اور وہ قاتل آگے آگے بھاگا۔ دوڑتے دوڑتے وہ شخص اسی مکان کے اندر آگیا جہاں یوسف رہتا تھا اور اس سے کہنے لگا کہ مجھے پناہ دو۔ پولیس میرے تعاقب میں آرہی ہے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ میں نے اسی شخص کے بیٹے کو قتل کیا ہے اور یوسف کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے۔ عربوں کا یہ ایک خاص قومی کیریکڑ ہے کہ جب ان کے گھر میں کوئی شخص آکر ان سے پناہ کا طلب گار ہو تو وہ انکار نہیں کرسکتے اور اسے ضرور پناہ دے دیتے ہیں ۔ یوسف نے بھی کہا کہ بہت اچھا تم میری پناہ میں ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد پولیس والے آئے اور انہوں نے پوچھا کہ یہاں کوئی شخص دوڑتے دوڑتے آیا ہے وہ ایک شخص کا قاتل ہے اور ہم اسے گرفتار کرنا چاہتے ہیں ۔ یوسف نے کہا یہاں تو کوئی نہیں ۔دراصل یوسف نے اسے ادھر ادھر گھر میں کہیں کھسکا دیا تھا۔ اس طرح اپنی بات بھی سچی کرلی اور واقعہ بھی ظاہر نہ ہونے دیا چنانچہ پولیس واپس چلی گئی۔ تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ نوکر اس کے لڑکے کی لاش اٹھا کر پہنچ گئے اور انہوں نے کہا کہ اسے ابھی کسی شخص نے قتل کردیا ہے۔وہ اپنے لڑکے کی لاش دیکھتے ہی ساری حقیقت سمجھ گیا اور بھانپ گیا کہ جس شخص کو میں نے پناہ دی ہے وہی میرے لڑکے کا قاتل ہے مگر اس کے اندر کوئی لغزش پیدا نہ ہوئی اور اس نے پھر بھی پولیس کو نہ بتایا کہ جس شخص نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے اسے میں نے فلاں جگہ چھپا رکھا ہے۔ جب لوگ ادھرا دھر ہوگئے تو وہ اس شخص کے پاس گیا اور اسے کہا کہ جس شخص کو تم نے مارا ہے وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر چونکہ میں تمہیں پناہ دینے کا وعدہ کرچکا ہوں اس لئے میں تجھے کچھ نہیں کہتا بلکہ میں خود تجھے بھاگنے کا سامان دیتا ہوں ۔ یہ میری اونٹنی لے اور یہ سامان اس پر لاد اور یہاں سے کسی دوسری طرف نکل جا چنانچہ وہ اونٹنی پر سوار ہوا اور بھاگ کر کسی اور علاقہ کی طرف نکل گیا۔ یہ اخلاقی دیانت ہے۔ اس میں اس کا اپنا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان تھا مگر چونکہ وہ قول دے چکا تھا…اس لئے اس نے اپنا قول نہ چھوڑا۔‘‘(صفحہ۱۲۰)
قومی دیانت
’’پھر قومی دیانت کو لے لو۔یا تو یہ حال ہے کہ کم سے کم آٹھ کروڑ مسلمان ہندوستا ن میں موجود ہیں اور چند سو انگریز اس ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یا یہ حال نظر آتا ہے کہ بدر کے میدان میں عرب کا ایک ہزار نہایت تجربہ کار سپاہی مکہ کی طرف سے لڑنے آتا ہے۔ ان کے مقابلے میں صرف تین سو تیرہ آدمی ہیں ۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی تلوار چلائی ہی نہیں …انہوں [کفار]نے اپنے میں سے ایک شخص کو پتہ لگانے کے لئے بھیجا کہ مسلمان کتنے ہیں اور ان کے سازو سامان کا کیا حال ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ آدمی نہایت ہی ہوشیار تھا…واپس جا کر کہا کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو، سوا تین سو کے قریب ہیں …مگر اس نے کہا اے میرے بھائیو! میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لڑائی کا خیال چھوڑ دو…یہ فقرہ ان تاریخی فقرات میں سے ہے جو ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں کہ اے بھائیو! میں نے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں ۔پھر دیکھ لو وہی ہوا جو اس نے کہا تھا۔ وہ واقعہ میں موتیں بن کر ظاہر ہوئے یا تو وہ مر گئے یا انہوں نے کفار کو مار دیا…صحابہؓ کو ہی دیکھ لو۔ انہوں نے قومی دیانت کو کیسا شاندار نمونہ دکھایا۔ ایسا اعلی نمونہ کہ شدید ترین دشمن بھی ان کی اس خوبی کا اعتراف کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا پر غالب آئے اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم اپنے اندر پیدا کرکے دنیا پر غلبہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ یقیناً یاد رکھو جو قوم مرنے مارنے پر تلی ہوئی ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اگر اس پر کوئی حملہ بھی کرے تو مٹتی نہیں بلکہ ابھرتی ہے اور گرتی نہیں بلکہ ترقی کرتی ہے۔ تو تمہارا ایک کام یہ ہے کہ تم نوجوانوں میں قومی دیانت پیدا کرو۔‘‘(صفحہ۱۲۳۔۱۲۶)
ہر خادم سے سچ بولنے کا عہد
’’تم نوجوانوں کو سچ بولنے کی عادت ڈالو اور خدام الاحمدیہ کے ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ وہ سچ بولے گا…جس طرح مرغی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح تم سچائی کی حفاظت کرو۔ مرغی کس قدر کمزور جانور ہے لیکن جب اس کے بچوں پر کوئی بلی یا کتا حملہ کردے تو وہ بلی اور کتا کا بھی مقابلہ کرلیتی ہے۔ پس جس طرح وہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح تم سچ کی حفاظت کرو اور کوشش کرو کہ تمہارا ہر ممبر سچا ہو اور سچائی میں تمہارا نام اس قدر روشن ہوجائے کہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ہی اس بات کی ضمانت ہو کہ کہنے والے نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے…سچائی ایک ایسی چیز ہے کہ وہ انسان کے رعب کو قائم کردیتی ہے۔ تم اگر سچ بولنے کی ہمیشہ تلقین کرتے رہو تو تمہارا ایک ایک فرد ہزاروں کے برابر سمجھا جائے گا۔‘‘(صفحہ۱۲۷تا۱۲۸)
پنجم: ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا کرنا
’’خدام الاحمدیہ کےمقاصد میں سے…آج پانچویں امر کے متعلق توجہ دلاتا ہوں اور وہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے۔یہ معاملہ بظاہر چھوٹا سا نظر آتا ہے لیکن دراصل یہ اپنے اندر اتنے فوائد اور اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔‘‘(صفحہ۱۳۰)’’خود چارپائی پر بیٹھے ہیں اور دوسرے کو حکم دیتے ہیں …ان کو کوئی کام کرنا نصیب نہیں ہوتا اور چونکہ ان کو دوسروں سے کام لینے کی عادت ہو جاتی ہے اس لئے یہی لوگ ہیں جو دنیا میں غلامی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں …‘‘(صفحہ۱۳۲)’’جب قادیان میں چوہڑوں کو اسلام میں داخل کرنے کا سوال پیدا ہوا تو میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ بعض احمدیوں نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ مسلمان ہو گئے تو ہمارے گھروں کی صفائی کون کرے گا۔ یہ دقت ان کو صرف اس وجہ سے نظر آئی کہ ان کو ایک خاص قسم کا کام کرنے کی بالکل عادت نہ تھی اور جسے بالکل ہی کام کرنے کی عادت نہ ہو،اسے غصہ آئے گا… جن کاموں کو لوگ اپنے لئے عار سمجھتے ہیں ان کے کرنے والوں کی اصلاح کا اگر سوال پیدا ہو تو وہ ضرور ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد یہ ہتک والا کام ہمیں خود کرنا پڑے گا اور اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے… اس میں شامل ہے کہ کسی کام کو اپنے لئے عار نہ سمجھا جائے…ہاتھ سے کام کرنے کو جب میں کہتا ہوں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ عام کام جن کو دنیا میں عام طور پر برا سمجھا جاتا ہے ان کو بھی کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ مثلاً مٹی ڈھونا یا ٹوکری اٹھانا ہے، کہی چلانا ہے…اس تحریک سے دو ضروری فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک تو نکما پن دور ہوگا اور دوسرے غلامی کو قائم رکھنے والی روح کبھی پیدا نہ ہوگی۔ ‘‘(صفحہ۱۳۳تا۱۳۴)
’’میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ یہاں جو مزدور اینٹیں اٹھاتے ہیں وہ اس طرح ہاتھ لگاتے ہیں کہ گویا وہ انڈے ہیں ۔ آہستہ آہستہ اٹھاتے ہیں اور پھر اٹھاتے اور رکھتے وقت کمر سیدھی کرتے ہیں پھر تھو ڑی تھوڑی دیر کے بعد کہتے ہیں کہ لاؤ ذرا حقہ کے تو دو کش لگا لیں ۔ لیکن ولایت میں مَیں نے دیکھا ہے کہ حالت ہی اور ہے۔ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو میں نے ایک دفعہ توجہ دلائی…حافظ صاحب نے کہا کہ ان لوگوں کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کام کررہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگی ہوئی ہے اور یہ اسے بجھا رہے ہیں ۔ کوئی سستی ان میں نظر نہیں آتی۔ ایک دفعہ ہم گھر میں بیٹھے تھے۔ کھڑکی کھلی ہوئی تھی کہ گلی میں چند عورتیں نظر آئیں جو لباس سے آسودہ حال معلوم ہوتی تھیں مگر نہایت جلدی جلدی چل رہی تھیں ۔ میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ ان کو کیا ہوگیا ہے۔ حافظ صاحب ذہین آدمی تھے، سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ میں نے یہاں کسی کو چلتے دیکھا ہی نہیں سب لوگ یہاں دوڑتے ہیں ۔ غرض وہاں کے لوگ ہر کام ایسی مستعدی سے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں جدھر دیکھو۔ سخت غفلت اور سستی چھائی ہوئی ہے۔(صفحہ۱۳۶)
’’میرے نزدیک مجلس خدام الاحمدیہ کو چاہیے کہ وہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کر دیں جس میں ساری جماعت کو شمولیت کی دعوت دیں ۔بلکہ میرے نزدیک شاید یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ بجائے ایک گھنٹہ کام کرنے کے سارا دن کام کے لئےرکھا جائے…جس میں تمام لوگ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے کام کریں ۔ اس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں اور اس کے لئے یا تو جمعہ کا دن رکھ لیا جائے کہ اس دن دفاتر میں چھٹی ہوتی ہے…پس میں قادیان کے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سال میں چھ دن ایسے مقرر کریں جن میں یہاں کی تمام جماعت کو کام کرنے کی دعوت دی جائے…پھر پہلے سے پروگرام بنایا ہوا ہو کہ فلاں سڑک پر کام کرنا ہے۔ فلاں جگہ سے مٹی لینی ہے۔ اتنی پھرتی ڈالنی ہے۔ اس اس ہدایت کو مدنظر رکھنا ہے…غرض سکیم اور نقشے پہلے تیار کرلیں اور اس دن جس طرح فوج پریڈ کرتی ہے اسی طرح ہر شخص حکم ملنے پر اپنے اپنے حلقہ کے ماتحت پریڈ پر آجائے…(صفحہ۹۲تا۹۳)
ششم: نوجوانوں میں ذہانت پیدا کرنا
’’میں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اپنے کام میں اس امر کو مد نظر رکھیں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو تیز کریں …انبیاء کے ذہن کیسے تیز ہوتے ہیں اور کس طرح وہ معمولی باتوں میں بڑے بڑے اہم نقائص کی اصلاح کی طرف توجہ دلادیتے ہیں کہ آج ایک وسیع تجربہ کے بعد جو بات مجھ پر ظاہر ہوئی ہے اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے نہایت سادگی کے ساتھ صرف دو لفظوں میں توجہ دلادی تھی کیونکہ جب ہم نے ایک انجمن بنانے کا ارادہ کیا تو میں نےحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کا کوئی نام تجویز فرمائیں تو آپ نے اس انجمن کا نام ’’تشحیذ الاذہان‘‘ تجویز فرمایا یعنی ذہنوں کو تیز کرنا۔ ‘‘(صفحہ۱۵۳)’’تو ہمارے نوجوانوں کو ذہین بننا چاہیے اور ان کی نظر وسیع ہونی چاہیے۔ وہ جب بھی کوئی کام کریں انہیں چاہیے اس کے سارے پہلوؤں کو سوچ لیں اور کوئی بات بھی ایسی نہ رہے جس کی طرف انہوں نے توجہ نہ کی ہو۔ یہی نقص ہے جس کی وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ روحانیت میں بھی ہمارے آدمی بعض دفعہ فیل ہوجاتے ہیں اور وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہمیں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوتی حالانکہ میں نے بار ہا بتایاہے کہ صرف نمازیں پڑھنے سے خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ اس کا قرب انسان کو حاصل ہوسکتا ہے۔ حقیقی دین تو ایک مکمل عمارت کا نام ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مکمل عمارت کا فائدہ صرف ایک دیوار سے حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تم خود ہی بتاؤ اگر کسی قلعہ کی تین دیواریں توڑدی جائیں اور صرف ایک دیوار باقی رہنے دی جائے تو کیا اس ایک دیوار کی وجہ سے اس قلعہ کے اند رہنے والا محفوظ رہ سکتا ہے۔ یقیناً جب تک اس کی چاروں دیواریں مکمل نہیں ہوں گی اس وقت تک اس قلعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ (صفحہ۱۵۴)’’تو نوجوانوں کو ذہین بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ ہم انہیں ذہین کس طرح بنا سکتے ہیں ۔ کئی ہیں جو سخت کند ذہن ہوتے ہیں اور انہیں ہزاربار بھی کوئی بات سمجھائی جائے تو وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتی پھر سب کو ہم کس طرح ذہین بنا سکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ گو انسانی طاقتیں محدود ہیں مگر جس قسم کی قوتیں اللہ تعالیٰ نےا نسانی دماغ میں رکھی ہوئی ہیں وہ ایسی ہیں کہ محنت اور دباؤ سے وہ تیز ہوجاتی ہیں اور عقل اورذہانت دراصل نتیجہ ہے کامل توجہ کا۔ اگر ہم کامل توجہ کی عادت ڈال لیں تو لازماًہمارے اندر ذہانت پیدا ہوگی اور یہ ذہانت پھر ایک مقام پر ٹھہر نہیں جاتی بلکہ ترقی کرتی رہتی ہے۔‘‘ (صفحہ۱۵۷)
’’سزا کے بعد قوم ترقی کرتی ہے اور یقیناً سزا کے بغیر صحیح ذہانت پیدا نہیں ہوتی۔ جب کسی کو علم ہو کہ اگر میں نے فلاں کام خراب کیا تو مجھے سزا ملے گی تو وہ اپنے دماغ پر زور ڈال کر ہوش سے کام کرے گا تاکہ اسے سزا نہ ملے اور جب وہ ہوش سے کام لے گا تو وہ سزا سے بچ جائے گا اور اس کا ذہن بھی تیز ہوجائے گا…اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ہرممبر سے یہ اقرار لیں کہ اگر اس نے اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی سے کام لیا تو وہ ہر سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا اور خدام الاحمدیہ کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ خود اس کے لئے سزا تجویز کریں ۔‘‘(صفحہ۱۶۱تا۱۶۲)
ہفتم: اپنے اندر استقلال پیدا کرنا
’’خدام الاحمدیہ کا ساتواں فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ استقلال اس بات کو کہا جاتا ہے کہ کسی کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، انسان برابر اپنے کام میں لگا رہے… ہم پانچ وقت جو روزانہ نمازیں پڑھتے ہیں یہ بھی استقلال پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لئے میں یہ کہا کرتا ہوں کہ جس نے ایک نماز بھی چھوڑی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے سب نمازیں چھوڑدیں مگر جو شخص پانچوں وقت کی نمازیں باقاعدہ پڑھنے کا عادی ہے، اس کی طبیعت میں ایک حد تک ضرور استقلال پایا جاتا ہے… چاہیے کہ وہ ان تمام باتوں کو جو خطبات میں مَیں نے بیان کی ہیں بار بار لیکچروں کے ذریعے خدا م الاحمدیہ کے سامنے دہراتے رہیں ۔کبھی دیکھا کہ کوئی شخص استقلال اپنے اندر نہیں رکھتا تو اس کو استقلال پر لیکچر دینے کے لئے کہہ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے نفس میں شرمندگی پیدا ہوگی اور وہ آئندہ کے لئے اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کرے گا یا دوسرے لوگ جن کی زبانون میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے ان سے لیکچر دلائے جائیں ۔‘‘(صفحہ۱۶۳تا۱۶۵)
ہشتم: جسمانی صحت کا خیال رکھنا
’’آٹھواں امر یہ ہے کہ انسانی صحت دماغ پر خاص اثر کرتی ہے…ورزشوں کی عادت جو ڈالی جاتی ہے وہ اسی لئے ہوتی ہے کہ انسان کے جسم میں چستی اور پھرتی پیدا ہو اور اس کے اعضاء درست رہیں اور اس کی ہمت بڑھے۔ ورزش سے پسینہ آتا ہے جس سے بہت سے زہر دور ہوتے ہیں اور اس لئے ورزش کو نظر اندار کرکے کلی طور پر بچہ کو دماغی کام میں لگانا دماغ کو کمزور کرنے کا موجب ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ۱۶۸)
’’ میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کے کھیل کود کے زمانہ کو وہ زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ کھیلیں ایسی ہوں کہ جو نہ صرف جسمانی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی بچہ ان سے فائدہ اٹھا سکے۔‘‘(صفحہ۱۷۱)
’’مثلاً…تیرنا ہے…اس میں مقابلے کرائے جائیں …غوطہ زنی میں لوگ مقابلے کرتے ہیں …اسی طرح تیر اندازی ہے۔ غلیل چلانا ہے… اسی طرح دوڑنا ہے جو اپنی ذات میں بہت دلچسپ کھیل ہے۔ اس کے بھی مقابلے کرائے جاتے ہیں ۔‘‘(صفحہ۱۷۲تا۱۷۳)
’’ذہانت حواس خمسہ کی تیزی کا نام ہے اور حواس کی تیزی کے لئے ایسی کھیلیں ایجاد کی جاسکتی ہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں جو کھیل کی کھیل ہیں اور آئندہ زندگی کے فوائد بھی ان میں مخفی ہیں ۔خدا م الاحمدیہ کو چاہیے کہ اس بات کو اپنی سکیم میں شامل کریں اور جماعت میں ان کو رائج کریں ۔‘‘(صفحہ۱۷۴)
نہم: علم کا عام کرنا
’’نویں بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں وہ علم کا عام کرنا ہے… ان کا علم حاصل کرلینا کام نہیں آسکتا جب تک کہ دوسروں میں تعلیم کی اشاعت نہ کریں …کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو پڑھا ہوا نہ ہو خواہ احمدی عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا، سب پڑھے ہوئے ہونے چاہئیں …یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک علم عام نہ ہو، جماعت پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ ‘‘(صفحہ۱۷۵)’’رسول کریمﷺ اس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ بدر کی جنگ میں جو کفار قید ہوئے ان میں سے جو فدیہ ادا نہ کر سکتے تھے آپؐ نے ان کے لئے شرط لگائی کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اور جب انہوں نے سکھا دیا تو ان کو چھوڑ دیا۔ تو خدام الاحمدیہ کو تعلیم کے عام کرنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیئے۔ اگر وہ یہ کرلیں تو جماعت کے اخلاق بھی بلند ہو سکتے ہیں ۔ پڑھنا آتا ہو تو وہ حضرت صاحب کی کتب بھی پڑھ سکیں گے۔ دینی کتب کا مطالعہ کریں گے۔ تصوف کی کوئی کتاب پڑھیں گے اور ان کا وقت ضائع نہ ہوگا۔ کتابیں پڑھنے سے ان کا ذہن صیقل ہوگا اور پھر اخلاق بلند ہوں گے۔‘‘(صفحہ۱۷۷)
یہ نو بنیادی امور پر درجنوں صفحات پر محیط خطابات، مشعل راہ جلد اول میں محفوظ ہیں ۔ خاکسارکی یہ تحریرنہ تو ان کا احاطہ کرسکتی ہے اور نہ نفس مضمون سے انصاف۔بہر صورت ہر ایک کو اپنی پیاس بجھانے کے لیےخود ورق گردانی کرنا ہوگی۔ جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھے تو آپ نے ان خطابات کے متعلق فرمایا کہ’’تاریکی کی گھڑیوں میں ان خطابات نے میری ڈھارس باندھی تھی اگر آپ کے دل میں کبھی مایوسی کے خیالات پیدا ہوں ۔ تاریک بادل کبھی آپ کو آگھیریں یا کبھی آپ کے دل میں اگر یہ خیال پیدا ہو کہ اتنا عظیم الشان کام ہم کیسے سر انجام دے سکتے ہیں ۔ اتنا بڑا بوجھ ہمارے کمزور کندھے کس طرح سہاریں گے تو آپ ان خطابات کی طرف رجوع کریں …آپ نئی ہمت اور پختہ عزم لےکر اپنے کام کے لئے کھڑے ہوں گے اور یہ یقین ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گا کہ دور کا راستہ پر خار ضرور ہے مگر راہبر اپنے فن کا ماہر ہے اور بے شک چاروں طرف سے شیطان تیروں کی بوچھاڑ کر رہا ہے مگراَلْاِمَامُ جُنَّةٌ یُقْتَلُ مِنْ وَرَآءِہِ…‘‘ (مشعل راہ۔جلد اول۔دیباچہ)
قوم احمد جاگ تو بھی جاگ اس کے واسطے
ان گنت راتیں جو تیرے درد میں سویا نہیں