لجنہ اماء اللہ کے باقاعدہ قیام سے قبل احمدی خواتین کی خدمات دینیہ پر ایک طائرانہ نظر
مذہبِ اسلام کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان سے اس کےنیک عمل پر اجر کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے:لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی (اٰل عمران:196)’’میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کاعمل ہرگز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔‘‘یعنی جو بھی تمہارا عمل اور کردار ہو گا تم اس کے مطابق جانے جاؤگےاور پھر اسی حوالے سے مومن عورتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ(التحریم:6)کہ مسلمان، ایمان والیاں ، فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں ، عبادت کرنے والیاں ، روزے رکھنے والیاں ہیں جو فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ (البقرت :149) پرعمل کرتے ہوئے نیکیوں میں دوام کی متمنی ہوتی ہیں ۔یہی وہ نیک مقصد ہے جس کے حصول کے لیےاسلام کے دور انحطاط میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔
آپؑ نے عورتوں کو شرک و بدعات سے منع فرمایا۔ ان کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ ان کو احساس دلایا کہ ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں ۔ آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے حق کی متلاشی روحیں آپؑ کی طرف کھنچنے لگیں ۔ ان میں مرد بھی تھے اورعورتیں بھی تھیں ۔ خدا کے فرشتے ان کو کھینچ کھینچ کرحق کی راہ کی طرف لا رہے تھے۔ بہت سی عورتیں ایسی تھیں جن کو احمدیت کی نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے ذریعہ نصیب ہوئی اور انہوں نے اٰمَنَّا وَ صَدَّ قْنَا کہتے ہوئے آپؑ کی بیعت کر لی۔ ( ماخوذ از تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ1تا2)
آپ علیہ السلام کو افراد جماعت کی تربیت کی بہت فکر تھی۔ اس لیے ہر موقع پر جب مردوں کو نصیحت فرماتے کہ عورتوں سے حسن معاشرت سے پیش آؤ تو عورتوں کو بھی خاوندوں کی عزت کرنے اور ان کی دل و جان سے مطیع رہنے کی نصیحت کرتے۔اُس وقت کوئی تنظیم تو قائم نہ تھی لیکن تربیت کی فکر تھی اسی لیے ہر موقع پر کچھ نہ کچھ تربیت کی باتیں ضرور بتاتے۔ اس حوالے سے آپؑ کے چند ارشادات قارئین کے پیش خدمت ہیں ۔ فرمایا:’’انسان کو چاہیے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جما دے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر چشم پوشی نہیں کر سکتا‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 404،ایڈیشن1988ء)
پھر فرمایا:’’اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ104،ایڈیشن1988ء)
عورتوں کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو اُن کی حیثیت سے باہر ہیں ۔ کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز، زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو۔ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو۔ بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات، قانتات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرو اور خاوندوں کے مالوں کو بیجا طور پر خرچ نہ کرو۔ خیانت نہ کرو چوری نہ کرو۔ گلہ نہ کرو۔ ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگائے۔‘‘(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ81)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جاپڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 182،ایڈیشن 1984ء)
اگراس دورکی عورت کی زندگی پر نظرڈالیں تو وہ اپنی پیدائش کی اصل غرض سے بے خبر صرف گھر داری میں مصروف لونڈی جیسی زندگی بسر کر رہی تھی۔آپؑ کی قوتِ قدسیہ نے عورتوں میں بیداری کی وہ لہرپیدا کی جس سےوہ تخلقوا باخلاق اللّٰہ کی عملی تفسیر بن کر خدا تعالیٰ کی بارگاہ کی لونڈیاں اور اوردین سیکھنے کی تڑپ میں شیدائی ہوگئیں ۔ ان کے اخلاق فاضلہ میں اللہ تعالیٰ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، تقویٰ، انفاق فی سبیل اللہ اورشفقت علیٰ خلق اللہ کے وصف نمایاں تھے۔مضمون ہذا میں خاکسار انہی آبدارموتیوں کی ایک خوبصورت جھلک آپ کے سامنے پیش کرے گی۔
ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ
اللہ تعالیٰ جو کل کائنات میں اپنے حسن و جمال میں لاثانی ہے جب کسی محبوب بندے کی تخلیق کرتا ہے تو اس میں وہ اپنے حسن کے لازوال رنگ بھر دیتا ہے۔ حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا جو بانی سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ تھیں ۔ ان کے اخلاق فاضلہ بھی انہی حسین رنگوں سے مزین تھے۔آپؓ کی پاکیزہ نیک فطرت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور تربیت نے بہت پیارا بنا دیا تھا۔ آپؓ نہایت خوش مزاج، سلیقہ شعار، مخلوق خدا کی سچی خیر خواہ، عمدہ خدمت گزار اور ہر ایک سے محبت کرنے والی تھیں ۔آپؓ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو 1881ء میں الہام ہوا۔ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأَ یْتَ خَدِیْجَتِی۔ میرا شکر کر کہ تُو نے میری خدیجہ کو پایا۔(تذکرہ صفحہ29)
اور تاریخ احمدیت نے بفضل تعالیٰ ایک اور خدیجہ کا باب رقم کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک تصنیف میں حضرت اماں جانؓ کے حوالے سے تحریر فرمایا:’’…خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی رُوح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اِس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اِس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ275)
حضرت ام المومنینؓ کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر جو زبردست ایمان تھا اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی فرمائی تو حضرت ام المومنین ؓنے بارہا اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کیں کہ یہ پیش گوئی پوری ہو۔آپؓ نے بارہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ گو میری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں کہ خدا تعالیٰ کے منہ کی باتیں پوری ہوں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت اورجھوٹ کا زوال وابطال ہو۔(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از عرفانی کبیرجلد اول حصہ سوم صفحہ388تا389)
قیام نماز کے متعلق عورتوں کو نصیحت
صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ تحریر فرماتی ہیں :’’آپؓ نہ صرف خود نمازوں کی پابندی کرتیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تاکید کرتی رہتیں ۔ کوئی خاص بات ہوتی، چاہے وہ اپنے لیے ہو یا کسی اور کے لیے تو سب سے دعا کرواتیں ، خاص طور پر بچوں سے ضرور دعا کرواتیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ ’’بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے خدا بچوں کی دعا بہت سنتا ہے‘‘ ایک واقعہ خان بہادر چودھری ابو الہاشم خان صاحب کی بیوی نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد حضرت اماں جان کے پاس دعا کے لیے کہنےگئیں ۔ نماز کا وقت ہو گیا اور جب امّاں جان نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آئیں تو اُن سے پوچھا لڑکیو! کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ انہوں نے جواب دیا ’’بچے نے پیشاب وغیرہ کیا ہوا ہے گھر جا کر پڑھیں گے‘‘اس پر فرمایا ’’بچوں کے بہانے سے نماز ضائع نہ کیا کرو اس طرح بچے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ بنتے ہیں ۔ بچہ تو خدا کا انعام ہے‘‘(سیرت حضرت امّاں جان مصنفہ صاحبزادی امۃ الشکور صفحہ22)
مہمان نوازی کا اعلیٰ خلق
ابتدائی زمانے میں قیام جماعت کے بعد جب جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا تو اس کی میزبانی کا شرف بھی حضرت ام المومنینؓ کو حاصل ہوا۔آپ نے یہ ذمہ داری بہت احسن رنگ میں ادا کی۔آپؓ خود بھی کھانا پکاتی تھیں اور اپنی نگرانی میں پکواتی بھی تھیں ۔مہمانوں سے خندہ پیشانی سے ملنا،ان کے حالات سننا،ضروریات کی طرف متوجہ رہنا،ان کے حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گوش گزارکرنا،ملاقات کا موقع بہم پہنچانا سب کچھ آپ ہی کے ذمہ تھا۔صحابیاتؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ سیکھا اور حاصل کیا وہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیض اورحضرت ام المومنینؓ کی تربیت تھی۔مہمان نوازی کا یہ سلسلہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی تک ہی نہ رہا بلکہ بعد میں بھی اسی طرح جاری رہا۔گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ لنگر خانہ جاری ہوچکا تھا لیکن مہمان خواتین کی ایک بڑی تعداد دار المسیح میں ہی قیام کرتی تھی۔آپؓ اپنے گھر کے کئی کمرے خالی کردیا کرتی تھیں مہمانوں کی ضروریات کا خیال رکھا کرتیں ۔( ماخوذ از تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 7۔8) ابتدائی زمانے میں مہمان نوازی کا خرچ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام برداشت فرماتے تھےاور حضور علیہ السلام کی ان قربانیوں میں ام المومنینؓ شریک تھیں ۔حضرت منشی ظفر احمد کپورتھلوی کی روایت ہے فرمایا : ’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ان دنوں جلسہ سالانہ کے لیے چندہ ہو کر نہیں جاتا تھا حضور اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سامان نہیں ہے۔آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کرجو کفایت کرسکے فروخت کرکے سامان کرلیں ۔چنانچہ زیور فروخت یا رہن کرکے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا۔‘‘(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ183)
اعلیٰ مالی قربانی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےجب منارۃالمسیح کی تعمیر کے لیے ایک اعلان فرمایا۔آپؑ نے ایک اشتہار ’’اپنی جماعت کے خاص گروہ کےلیے‘‘شائع فرمایا اور ایک سَو ایک خدام کومخاطب فرمایا کہ وہ ایک ایک سَو روپیہ اس مقصد کے لیے ادا کریں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے خدام کو توفیق دی کہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہیں ۔ حضرت اقدسؑ نے مینارے کی تعمیر پر دس ہزار روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔ حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک جائیداد واقع دہلی کو فروخت کر کے اس رقم کا 10/1حصہ ادا کیا۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 113تا117ایڈیشن2007ء)
یہ واقعہ حضرت اُمّ المومنین کی بلند ہمتی اور خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کا بے نظیر نمونہ اور سلسلہ عالیہ کی مستورات کے لیے خدمت دین کے بہترین اسوۂ حسنہ کی عمدہ مثال ہے۔حضرت اماں جانؓ کی زندگی کا ہر لمحہ خواتین اوراحباب جماعت کی ترقی اور بہبود میں صَرف ہوتا۔مدرسۃ البنات کے لیے آپؓ نے اپنےگھر کا ایک حصہ پیش کردیا۔ آپؓ کی قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مسجد بنانے کی تحریک ہو یا کہیں مبلغ سلسلہ کی ضروریات کو پورا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو، لٹریچر کے لیے رقم کی ضرورت ہو یا تحریک جدید نے پکارا ہو۔ آپؓ ہر تحریک میں بڑی فراخدلی سے حصہ لیتی تھیں اور سب سے پہلے اپنا چندہ ادا کرتی تھیں یہاں تک کہ بعض مواقع پر اپنی جائیداد اور زیورات فروخت کرکے خوشی سے امام الزمانؑ اور بعد ازاں خلیفۂ وقت کے قدموں میں پیش کردیتیں ۔ آپؓ کی زندگی میں سلسلےکی کوئی تحریک ایسی نہیں جس میں آپؓ نے حصہ نہ لیا ہو۔ مساجد کی تعمیر، لنگر خانہ، لجنہ اماء اللہ، مسجد فضل لندن، مسجد برلن، لنگر کے لیے دیگوں کا انتظام، اخبار الفضل، منارۃالمسیح، تحریک جدید۔ صرف تحریک جدید کے پہلے نو سال میں آپؓ نے مجموعی طور پر 3142؍روپے پیش کیے۔ (ماخوذ ازسیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 295تا301)حضرت اماں جان ؓکی مالی قربانیوں کا تذکرہ تاریخ احمدیت میں ان الفاظ میں ہے کہ’’جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جان ؓ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغِ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں ۔ تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعتِ اسلام کا کام سرانجام پاتا ہے اُس کے اعلان کے لیے ہمیشہ ہمہ تن منتظررہتی تھیں اوراعلان ہوتے ہی بلاتوقّف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کردیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں وعدہ جب تک ادا نہ ہوجائے دل پر بوجھ رہتا ہے۔ دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق و شوق کا عالَم تھا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد 14صفحہ105،ایڈیشن 2007ء)
ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اماں جانؓ کی مالی قربانیوں کے متعلق فرمایا:’’والدہ صا حبہ اپنے چندوں میں جہاں تک میرا تجربہ اور علم ہے اس نسبت کے لحاظ سے جو دوسرے مرد ادا کرتے ہیں میرے نزدیک بہت سے مردوں سے بڑھی ہوئی ہیں ‘‘(الفضل 27؍اپریل 1922ء صفحہ 7کالم 1)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ
آپؓ کا وجود شعائر اللہ میں سے تھا اور اللہ تعالیٰ کے متعدد نشانات کا مظہر تھا۔ آپؓ لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں سے ہیں ۔ آپؓ کا نام فہرست میں دوسرے نمبر پردرج ہے۔ آپؓ لجنہ اماء اللہ لاہور کی 1958ء سے1967ء تک صدر رہیں ۔ آپ کی عاملہ نے آپؓ کی ہدایات کی روشنی میں کام کرتے ہوئے ترقی کی منزل کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔ آپؓ مالی قربانیوں میں بھی حصہ لیتی رہیں ۔ ( ماخوذ ازتاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ539)
صاحب رؤیا و کشوف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیات میں کثرت سے ایسی خواتین تھیں جن کا زندہ خدا سے تعلق پیدا ہوا۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا وجود ان میں سے ایک ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت ان کی عمر سوا گیارہ سال تھی۔اس چھوٹی سی عمر میں آپ نے اس قرب کی وجہ سے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربت سے حاصل تھا مسیح پاک علیہ السلام کی ہر حرکت،سکون،فعل اور عمل کو بغور اور محبت سے دیکھا اور اپنی یاداشت میں محفوظ رکھا اور آپ کے ذریعہ سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی اہم روایات،اہم واقعات پہنچے۔آپ صاحب رؤیا و کشوف تھیں ۔
حضرت حسین بی بی صاحبہؓ
حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت حسین بی بی صاحبہ ؓنے سچی خوابوں سے ہی احمدیت قبول کی اور سچی خوابوں کی ہی بنا پربیعتِ خلافت کی۔ سلسلہ احمدیہ کے لیے بے حد غیرت رکھنے والی اور قربانی دینے والی خاتون تھیں ۔آپؓ کا نام منارۃ المسیح پر ذیل کے الفاظ میں کندہ ہے ’’44۔حسین بی بی والدہ آنریبل سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ‘‘
آپؓ کو رسوم وبدعات سے بے حد نفرت تھی۔خالص موحدانہ زندگی ہمیشہ بسر کی۔بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اوررحم کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت وافرعطا فرمایا تھا۔یتامیٰ اور مساکین کے لیے اپنے ہاتھ سے پارچات تیار کرتی رہتی تھیں ۔ ( تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 9)
حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ اپنی والدہ ماجدہ کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں :’’…انہوں نے عہدِ اخلاص و وفا رؤیا میں ہی باندھا۔پھر بیعت کے الفاظ میں اس کی تجدید کی اور اس کی ظاہری شہادت قائم کی اور پھر آخری سانس تک اُسے اس طریق سے نبھایا کہ جیسے اُس کا حق تھا۔بیعت کے بعد ہر دن جو اُن پر چڑھا بلکہ ہر لحظہ جو اُن پر گزرا، وہ اُن کے ایمان اور اخلاص کی ترقی پر شاہد ہوا۔اُن کا ایمان شروع ہی سے عشق کی جھلک اپنے اندر رکھتا تھا اور رفتہ رفتہ اس عشق نے اس قدر ترقی کی کہ انہیں ہر بات میں ہی اللہ تعالیٰ کا جلال اور قدرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نُور اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت نظر آتی تھی۔
بیعت کے بعد اُن کےعمل میں بھی جلد جلد تبدیلی ہوتی گئی۔ اصل تربیت تو اُن کی اللہ تعالیٰ نے رؤیا اور کشوف کے ذریعہ ہی جاری رکھی۔ لیکن ظاہر میں بھی جب کبھی کوئی حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام یا حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ یا اُن کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اُن تک پہنچ جاتا، وہ فوراً مستعدی سے اس پرعمل پیرا ہو جاتیں ۔ اُن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے طبیعت بالکل جادۂ تسلیم ورضا پر چلنے والی عطا فرمائی تھی۔ اُن کی طبیعت میں ان امور کے متعلق چون و چرا پیدا ہوتا ہی نہیں تھا۔‘‘ (میری والدہ صفحہ 27تا28)
قرآن سیکھنے کی لگن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد خدائی وعدہ کے مطابق جماعت کے مرد اور عورتیں حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ہاتھ پر جمع ہوگئے۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓکی دلی خواہش تھی کہ عورتیں دین سے واقف ہوں ، قرآن سیکھیں ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واقف ہوں اوران پر عمل کریں چنانچہ آپؓ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خواتین میں قرآن و حدیث کا درس دیا کرتے تھے۔اس زمانے کا ریکارڈ اور عورتوں میں بیداری کے حالات بہت کم محفوظ ہیں ۔جماعت کے ہفتہ وار اخبارات الحکم اور البدر کے حوالے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں مستورات میں ایک حد تک بیداری پیدا ہونی شروع ہوگئی تھی۔ (ماخوذ از تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 17)
1913ء کے اخبار الفضل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ تادیب النساء ‘‘کے عنوان سے پورا ایک صفحہ خواتین کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔جس کے پہلے شمارے میں مضمون بعنوان’’کون ذمہ دار ہے ‘‘میں بیان کیا گیا ہے ’’ اس وقت مسلمانوں کی حالت کیوں خراب ہے…اس لیے کہ جب وہ بچہ تھے تو مائوں سے انہیں دین کی تعلیم نہیں ملی اورجب مدارس میں گئے تو پھر دہریت کی صدائیں کان میں آنے لگیں ۔ایسی صورت میں اگر ان کے دلوں میں غیریت دینی پیدا ہو تو کیونکر؟حمایت اسلام کریں تو کس لئے؟…اگر دین کا خیال ہے اگر اسلام سے محبت ہے اگر قرآن شریف کا عشق ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کو دل بھلا نہیں چکے تو اس طرف توجہ کرو اور حکم الٰہی کے ماتحت اپنی اپنی بساط کے مطابق عورتوں کو دین سے آگاہ کرو اور ان کے اسلام کی محبت بٹھا دو۔پھر وہ خود بچوں کو تعلیم دے لیں گی عورتوں کو تعلیم دینی مردوں کا فرض تھا انہیں جگانا ان کا کام تھا۔لیکن تعجب ہے کہ انہوں نے تواس کام کی طرف توجہ نہ کی۔خود عورتیں اب اس نقص کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔لیکن بوجہ ناوافقی کے بجائے اصلاح کے اور خرابیاں پیدا کررہی ہیں ۔مرد عورتوں کی غلطی پر لٹھ کے مارنے پر تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن ان کی اصلاح کی بالکل فکر نہیں کرتے حالانکہ ان کی اصلاح کی ذمہ داری خدا نے ان پر رکھی تھی اور اب عورتوں کی گری ہوئی حالت اور نئی نسلوں کے دین سے بے تعلقی کے یہی ذمہ دار ہیں ۔‘‘ (الفضل 19؍جون 1913ء صفحہ 11کالم 3)
اس سے ظاہر ہے کہ حضورؓ کے دل میں اس بات کی کتنی تڑپ تھی کہ احمدی عورتیں تعلیم و تربیت کے لحاظ سے کسی طرح دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہ رہیں ۔اس حوالے سے یہ بھی ظاہر ہے کہ رسالہ احمدی خاتون نے بھی اس زمانہ کی احمدی خواتین کا کردار بنانے میں بڑا حصہ لیا۔خواتین میں شعوری بیداری،حصول علم کے لیے تڑپ کی ایک جھلک ہمیں ابتدائی دور کے ان دو واقعات میں یوں ملتی ہے۔
حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے گھر والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی لیکن ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں ہم پر کچھ عنایت ہونی چاہئے کہ ہم بھی آپؑ کی صحبت سےکچھ فیض حاصل کریں ۔ اس سے پہلے حضور علیہ السلام نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرمادی جو بطور درس تھی، چند روز بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ اورمولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں ۔(ماخوذ از سیرت مہدی، جلد اول، حصہ سوم صفحہ776-777)
دوسرا واقعہ ایک تیرہ سالہ بچی کا ہے جس کےسر سے والد محترم کا سایہ 13؍مارچ 1914ء کو اُٹھا اور وہ 14؍مارچ 1914ء کو نو منتخب خلیفہ کوایک خط لکھتی ہے۔ ’’گزارش ہے کہ میرے والد صاحب نے مرنے سے دو دن پہلے مجھے فرمایا کہ ہم تمہیں چند نصیحتیں کرتے ہیں ۔ میں نے کہا فرمائیں ۔ میں ان شاءاللہ عمل کروں گی۔ تو فرمایا بہت کوشش کرنا کہ قرآن آ جائے اور لوگوں کو بھی پہنچے۔ اورمیرے بعد اگرمیاں صاحب خلیفہ ہوں تو ان کو میری طرف سے کہہ دینا کہ عورتوں کا درس جاری رہے اور میں امیدوار ہوں آپ قبول فرمائیں گے۔ میری بھی خواہش ہے اور کئی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی خواہش ہےکہ میاں صاحب درس کروائیں ۔ آپ برائے مہربانی اگر صبح ہی شروع کرا دیں ۔ میں آپ کی نہایت مشکور ہوں گی۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ کا اس وقت عورتوں میں درس دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اپنے استاد اور آقا کی وصیت کے مطابق عورتوں میں درس قرآن شروع کیا۔ اور اس تڑپ سے تحریک کرنے والے کی دینی تعلیم و تربیت کرکے جماعت کی خواتین کے لیے نمونہ بنانے کے لیے آپ نے محترمہ امۃالحئی صاحبہ سے شادی کرلی۔ جو آپ کی توقعات پر پوری اتریں ۔آپؓ فرماتے ہیں کہ’’میں نے ارادہ کیا کہ فوراً ان کو تعلیم دوں مگر وہ اس شوق میں مجھ سے بھی آگے بڑھی ہوئی تھیں ۔‘‘(ماخوذ ازمحسنات صفحہ46تا48)
اخبار الفضل کا اجرا
الفضل کن حالات میں جاری ہوا اوراس کے لیے سلسلہ کی دو معزز خواتین نے کیا گرانقدر قربانیاں دیں وہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں اور آنے والی نسلیں ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتیں ۔
حضرت ام ناصر صاحبہ کی عظیم الشان قربانی تاریخ احمدیت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اخبار الفضل کا اجرا 18؍جون 1913ء کوہوا۔ آپ خواتین میں علم پھیلانے کی اپنے شوہر کی لگن کو خوب سمجھتی تھیں ۔ آپ نے اپنا گھر، اپنی صلاحیت،اپنا وقت سب کچھ وقف کر دیا اور مال تو بہت زیادہ قربان کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ اپنی اس حرم اور اپنی بیٹی صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کےبے نظیر ایثار اور قربانی کا ذکر اس طرح بیان فرماتے ہیں :’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ …انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔ الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا۔‘‘(یادایام، انوار العلوم جلد8 صفحہ369)تاریخ احمدیت سے معلوم ہوتا ہے کہ الفضل کے لیے جن مبارک ہستیوں نے سرمایہ مہیا کیا ان میں دو اور وجود بھی تھے۔ایک تو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ۔آپؓ نے اپنی ایک زمین مالیتی ایک ہزار روپے الفضل کے لیے عنایت فرمائی۔دوسرے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ جنہوں نے نقد رقم کے علاوہ زمین بھی دےدی جو 1300روپیہ میں فروخت ہوئی۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 446)
اس ضمن حضرت اماں جانؓ کی قربانی بھی بہت عظیم تھی۔حضرت اماں جان ؓکے عظیم احسان کا ذکرحضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی۔ مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہےاور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے۔‘‘(یادایام،انوارالعلوم جلد8صفحہ370تا371)
الفضل کے سب سے پہلے پرچے مورخہ 19؍جون 1913ء میں اپنے مضمون الفضل کے جو اغراض و ترتیب بیان فرمائی اس کے ساتھ یہ بھی تحریر فرمایا ’’دو کالم عورتوں کے لئے ہوں گے‘‘’’اس صفحہ پر نیچے نوٹ پر درج ہے عورتوں کے لئے دو کالم بہت تھوڑے ہیں لیکن چونکہ عورتیں سلسلہ کے اخبارات پڑھتی ہیں ان کی دلچسپی اور فائدے کے لئے دو کالم رکھ دیے گئے ہیں ورنہ اس کے لئے شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم نے احمدی خاتون کے نام سے ایک الگ رسالہ جارہی کررکھا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘‘(الفضل 19؍جون 1913ءصفحہ 3کالم 3)
قلمی و علمی جہاد میں سرگرم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں مستورات کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جن کےدلوں میں حصول علم کی معدوم سی روشنی تو تھی مگر یہ توابھی شعلہ نہیں بنی تھی۔اگرچہ مدرسہ البنات قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہی جاری ہوچکا تھا لیکن اس نے مدرسہ کی باقاعدہ شکل اختیار نہ کی تھی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے زمانہ میں 1909ء میں باقاعدہ جماعت بندی ہوئی لیکن اس وقت تعلیم کا اس قدر کم رواج تھا کہ گرل سکول میں طالبات کی کل تعداد 35تھی۔(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 22)
حضرت اُمّ ناصر سیّدہ محمودہ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا گھر بھی ایک درسگاہ تھا۔ قرآن مجید اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس دیتیں ۔ سینکڑوں لڑکیوں نے آپ سے قرآن مجید پڑھا۔ آپ ’’احمدی خاتون‘‘کے لیے مضامین بھی لکھتی تھیں ۔ آپ وہ مبارک ہستی تھیں جن کو حضرت مسیح موعودؑسے فیض تربیت حاصل ہوا۔ جسے حضرت مصلح موعودؓ نے مزید صیقل کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل سے آپ نے اپنی اولاد کی ایسی تربیت فرمائی کہ ایک سے ایک روشن چاند ستاروں کی طرح چمکے ہیں ۔(محسنات مصنفہ بشریٰ بشیر صفحہ48)
محترمہ استانی میمونہ صوفیہؓ صاحبہ عاشق قرآن تھیں بہت پرسوز آواز پائی تھی۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر خوش الحانی سے تلاوت کرتیں ۔ سینکڑوں لڑکیوں نے آپ سے قرآن پاک پڑھا۔محترمہ سارہ درد صاحبہ اہلیہ مولانا عبدالرحیم دردصاحبؓ کاصحن بھی ہر وقت قرآن مجید سیکھنے والے بچوں اور لڑکیوں سے بھرا رہتا۔ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ اردو لکھنا پڑھنا اور تربیتی امور میں راہنمائی کرنا بھی آپ کا شعار تھا۔(محسنات صفحہ50)
استانی سکینۃ النساء صاحبہؓ اہلیہ قاضی ظہور الدین اکمل جو لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی ممبرات میں سے تھیں کا شمار اس زمانے کی اہل قلم خواتین میں ہوتا تھا۔انہوں نے چودہ پندرہ سال کی عمر سے اخبارات و رسائل میں مضامین بھجوانے شروع کردیے۔اور البدر اور الحکم کے اجرا کے بعد آپ اس قلمی جہاد میں شامل ہوگئیں ۔حتیٰ کہ آپ نے’’ البدر‘‘ میں ’’خواتین کا کالم‘‘یا ’’ایک صفحہ خواتین ‘‘کا مطالبہ کردیا۔ لکھتی ہیں :’’مکرم ایڈیٹر صاحب البدر!آپ کا معزز اخبار گھر بار جیسا مجھ کو پیارا ہے۔بخدا میرے دل کو اس سے تسکین رہتی ہے۔لہٰذا آج ایک تجویز لکھتی ہوں …وہ یہ ہے کہ اگر آپ البدر میں ایک کالم یا صفحہ خاتونوں کا بھی نکال لیں تو ہماری بہنیں بھی مضامین لکھا کریں ۔‘‘ (ماخوذازالبدر24؍جولائی1904ءبحوالہ تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 10)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر قدم رکھتے ہی عورتوں کی تربیت اور تعلیم کی طرف اپنی خصوصی توجہ منعطف فرمادی۔12؍اپریل 1914ء پنجاب اور ہندوستان کے نمائندے قادیان دارالامان میں جمع ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس میں اس امر پر بڑا زور دیا کہ کوئی مرد عورت ایسا نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔(منصب خلافت صفحہ 36لیکچرفرمودہ 12؍اپریل 1914ء بمقام قادیان)
معروف لجنہ کی خدمت قرآن
زینب بی بی صاحبہ اہلیہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے عیسائی عورت کوکھسک جانے پر مجبور کر دیا۔ واقعہ یوں ہے کہ جب آپ نے بیعت کی تو ان دنوں کھاریاں کا قصبہ عیسائی مشنریوں کا نشانہ تھا۔ عیسائی عورتیں آ آ کر مسلمان عورتوں سے پوچھتی تھیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں ۔ جاہل عورتیں جن کو قرآن کا کچھ پتانہیں تھا اور سن کر غلط عقیدہ قائم کر لیا تھا کہہ دیتیں کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں ۔ اس پر عیسائی عورتیں ان کو کہتیں جو زندہ ہو وہی بڑا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ان کو عیسائیت کی تبلیغ کرتیں جس کا جواب جاہل مسلمان عورتوں کے پاس کچھ نہ تھا۔ زینب بی بی صاحبہ نے جب بیعت کر لی تو چند روز بعد ایک عیسائی عورت تبلیغ کرنے کی خاطر آپ کے محلہ میں آئی اور سوال جواب شروع کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اس کا ثبوت قرآن مجید پیش کرتا ہے۔آپ نے کچھ ایسے مؤثر رنگ میں یہ جواب دیا کہ اس عورت نے کھسک جانے میں ہی خیر سمجھی اور پھر بھولے سے بھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔جب لجنہ کا قیام کھاریاں میں ہوا تو آپ ہی لجنہ کی پہلی صدر مقرر ہوئیں ۔(ماخوذ ازتاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 10-12)
صحابیہ غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ میاں اللہ بخش صاحب امرتسریؓ جو 313 صحابہ میں سے تھے۔ آپ کو دار المسیح ٹھہرنے کا موقع ملا۔ آپ اپنے خاوند کی وفات کے بعد اپنے داماد ملک مولا بخش صاحب کے پاس رہیں اور آخر تک بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتی تھیں ۔(ماخوذاز تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ12-13)
کریم بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواری نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا مدرسہ کھول رکھا تھا۔گاؤں کے چھوٹے بچے اور مستورات بھی قرآن مجید پڑھنے کے لیے آتیں ۔(ماخوذاز تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ13)
حضرت ام داؤد محترمہ سیدہ صالحہ بیگم اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق ؓحضرت صوفی احمد جان صاحب کی پوتی اورحضرت پیرمنظورمحمد صاحب کی بیٹی تھیں ۔آپ قرآن مجید میں حضرت مسیح موعودؑ کی شاگرد تھیں ۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ قرآن مجید پڑھا پھر آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت میر صاحب کے علمِ قرآن مجید سے فائدہ اٹھایا۔ آپ ہی کے لیے آپ کے والد صاحب نے قاعدہ یسرنا القرآن ایجاد کیا جو ان گنت بچوں کی تعلیم القرآن کا ذریعہ بنا۔ آپ نے بڑی تعداد میں عورتوں اور بچیوں کو ترجمۃ القرآن پڑھایا۔ قادیان کے محلہ دارالانوار اور دیگر دیہات کے سینکڑوں بچے قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے آتے۔(ماخوذ ازمحسنات صفحہ48-49)
محترمہ استانی مریم بیگم اہلیہ حضرت حافظ روشن علیؓ ابتدائی چودہ ممبرات میں سے تھیں ۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں قائم ہونے والے مدرسۃ البنات کی طالبہ تھیں ۔ ابتدائی چار درسگاہوں میں سے ایک آ پ کے گھر پر قائم تھی۔ آپ قرآن مجید کی تعلیم میں خاص دلچسپی لیتی تھیں ۔(ماخوذ ازمحسنات صفحہ49تا50)
جذبہ قربانی سے سرشار
مالی قربانی کے متعلق اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 4میں فرماتا ہے:وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ (البقرہ:4)اور جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔پھر فرمایا: وَاَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ (البقرہ: 196)اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئیں ) ہلاکت میں نہ ڈالو۔
مالی قربانی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اس کے منہ کے لئے یہ خدمت ہے … خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنے قریبیوں کو اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعہد اور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور مسکینوں کو فقر و فاقہ سے بچاتے ہیں اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں ۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد10صفحہ357)
کپور تھلہ کی جماعت نہایت مخلص جماعت تھی اور ہر قربانی میں پیش پیش رہتی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تبلیغی اشتہار کے لیے آپ سے فرمایا کہ ساٹھ روپے کی ضرورت ہے آپ کی جماعت یہ انتظام کرسکے گی ؟ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ اور ان کی اہلیہ نے اس کے لیے کیسی شاندار قربانی پیش کی اس کا ذکر انہی کی زبانی سنیے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ ایک دفعہ اوئل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی۔ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلا آیا ہوا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھے بلایا اورفرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے۔ کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی۔ میں نے عرض کیا حضرت انشاء اللہ کر سکے گی۔ اور میں جا کر روپے لاتا ہوں ۔ چنانچہ میں فوراً کپور تھلہ گیا۔ اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کر نے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لا کر پیش کر دیئے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو دعا دی۔ چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ ’’منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی‘‘ منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’حضرت کون سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں ‘‘حضرت صاحب نے فرمایا’’یہی جومنشی ظفر احمد صاحب جماعت کپور تھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے‘‘ منشی صاحب نے کہا ’’ حضرت! منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا۔ اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا‘‘ اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کر دی۔‘‘ (حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپور تھلوی صفحہ 24تا23)
خلفائے احمدیت نے اپنی تاثیر قدسی سے احمدی مستورات میں جو انقلاب پیدا کیا، اُن میں بھی مالی قربانیوں کا ذکر بڑی کثرت سے ملتا ہے۔جس میں سے چند نمونے خاکسار نے پیش کیے ہیں ۔اسی حوالے سے مزید چند امور پیش خدمت ہیں ۔
خواتین کی مالی قربانیوں کی مثالیں زنانہ دعوت الی الخیر فنڈ
الفضل نے 25؍فروری 1914ء کو ایک لجنہ کی تحریک کا اعلان شائع کیا کہ عورتوں کا یہ چندہ تبلیغ اور سلسلہ کے کاموں میں خرچ کیا جائے گا۔ اس فنڈ کی ابتداء حضرت ام المومنینؓ کے چندہ سے کی گئی جو دو روپے تھا۔ یہ تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی طرف سے 7؍جنوری 1914ء کے الفضل میں شائع ہوئی تھی۔(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ23)
آپؓ نے زیرعنوان ’’من انصاری الی اللّٰہ‘‘ لکھا: ’’دعوت الی الخیر کی تحریک جب میں نے شروع کی تو مجھے یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ وہ اس کام میں پورے زور سے مدد کریں …اس لئے میں نےچاہا کہ ایک دعوت الی الخیر کا زنانہ فنڈ کھولا جائے۔جس میں عورتوں کے چندہ شائع کیے جائیں اور عورتوں میں تحریک کی جائے کہ وہ بھی اس دینی کام میں ہمارا ہاتھ بٹائیں ۔آجکل دین کی سب سے پہلی مدد مالی مدد ہے اور اس کام میں تو کم سے کم فوراً حصہ لے سکتی ہیں ۔میری اس تحریک کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مدد مل گئی کہ حضرت ام المومنین نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے اور میں زنانہ دعوت الی الخیر فنڈ کی ابتدا اسی رقم سے کرتا ہوں ۔‘‘(الفضل قادیان مورخہ 25؍فروری 1914ءصفحہ 11کالم 3)
مسجد لندن کے لیے چندے کی تحریک
1920ءکا سال تاریخ احمدیہ میں ایک اہم حیثیت کا حامل ہے کیونکہ امسال 6؍جنوری 1920ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے انگلستان میں مسجد بنانے کے متعلق جماعت میں تحریک فرمائی اور خرچ کا اندازہ 30 ہزار روپے بتایا 7؍جنوری کی صبح مستورات میں حضور ؓنے یہی تحریک فرمائی گو ابتدا میں یہ تحریک مستورات کے لیے مخصوص نہ تھی لیکن بعد ازاں آپ نے یہ مسجد لندن عورتوں سے منسوب فرمادی۔( ماخوذ ازالفضل 12؍جنوری 1920ءصفحہ 1کالم 1)حضورؓ کی تحریک پر خدا کے فضل سے بہت سی بہنوں نے حصہ لیا اور عورتوں کا چندہ دو ہزار سے بڑھ گیا اور قریباً سب کا سب فوراً وصول ہوگیا۔(الفضل قادیان 22؍جنوری 1920ءصفحہ چار کالم 1)
لجنہ اماء اللہ کی بنیاد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 15؍دسمبر 1922ء کو ایک مضمون تحریر فرمایاجس کی اولین مخاطب قادیان کی مستورات تھیں لیکن در حقیقت یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیادی دستاویز تھی۔ اس سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے زمانے میں جو تحریکیں ہوئی تھیں سب مردوں کے لیے تھیں ۔ یہ عورتوں کے لیے پہلی علمی دینی تمدنی تحریک تھی۔ اس مضمون کے حرف حرف سے خدمت اسلام کا توانا عزم و حوصلہ جھلکتا ہے۔ آپؓ نے طبقۂ اناث کو ایک لائحہ عمل دیا:’’اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ عورتوں میں اب تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیے جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکیں ۔‘‘
اس مقصد کے حصول کے لیے سترہ ضروری اموراس اولوالعزم ہستی نے تجویز فرمائے ان میں علم حاصل کرنا اور دوسروں تک علم پہنچانا، اسلام کی حقیقی تعلیمات جاننا اور ان پر عمل کرنا، جماعت میں اتفاق اور وحدت کی روح قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہنا، اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی ہمہ وقت سعی کرنا، بچوں میں خدا اور رسولِؐ خدا، حضرت مسیحِ موعودؑ اور خلفائے کرام کی محبت پیدا کرنا، خلافت کی اطاعت کا درس دینا اور سب سے اہم یہ دعا کرنا کہ ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں خالقِ حقیقی نے مد نظر رکھے ہیں ۔ آخر میں آپ نے لکھا تھا کہ جو اس تحریک کے مندرجات سے متفق ہیں وہ دستخط کردیں ۔ اس پر چودہ خواتین نے دستخط کیے پہلا نام یہ تھا ’’حضرت ام المؤمنین ام محمود نصرت جہاں بیگم‘‘، یہ دستخط کنندگان حضورؓ کے ارشاد پر 25؍دسمبر 1922ء کو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے گھر جمع ہوئیں ۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے بھی خطاب فرمایا لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ تنظیم کا نام لجنہ اماءِ اللہ، اللہ کی لونڈیوں کی انجمن تجویز فرمایا۔ آپؓ نے لجنہ کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیے اور نصیحتیں کیں ۔
حضرت اماں جانؓ لجنہ کی پہلی پریذیڈنٹ منتخب ہوئیں ۔ منتخب ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسیٔ صدارت پر بٹھا دیا۔(الفضل 8؍فروری 1923ء)
(تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ اول صفحہ66-72)
یہ ناممکن ہے کہ اس دور اولین کی مستورات کی تمام خدمات کا خلاصہ چند الفاظ میں بیان کیا جاسکے۔ہر چند کہ میری کوشش رہی کہ اس دور کے بعض واقعات کی ایک جھلک پیش کرسکوں جن سے ہماری تاریخ روشن ہے اور یہی ہمارے تابناک مستقبل کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک نمونوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔