سال ۱۹۲۳ء میں جماعتِ احمدیہ عالمگیر کی ترقیات کا مختصر جائزہ
۱۹۲۳ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں برصغیر کے اندر اور بیرونی سرزمینوں پر غیر معمولی اور اساسی سرگرمیوں کا سال رہا۔
اندرون ملک ، ایک اہم واقعہ یہ رہا کہ ملک کی وسطی ریاست اترپردیش کے متعدد شہروں اور ان کے نواح کے وسیع علاقوں میں جماعت کثرت سے پھیلی اور صدیوں سے آباد ملکانہ راجپوت کہلانے والی قوموں کے خلاف دشمنان اسلام کی طرف سے ایک گہری سازش بُنی گئی اور بہت احتیاط ،بڑی ہوشیاری اور نہایت آہستہ روی سے ان قوموں کو قابو میں لانے کے لیے سالہا سال تک حربے استعمال ہوتے رہے اور معاندین اسلام نے ان سادہ لوح لوگوں کو مرتد کرنے میں خاطر خواہ کامیابیاں بھی حاصل کر لیں ۔لیکن جب حضرت محمودؓ کی قیادت میں احمدی مجاہدین روانہ کیے گئے تو میدان عمل میں منظر ہی بدل گیا۔
تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ اس سال اول اول ماہ فروری میں علاقہ ملکانہ میں تحریک شدھی کا علم ہونے پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے سروے کے لیے وفد بھجوایا اور زمینی حقائق کا علم ہوتے ہی اولوالعزم خلیفۃ المسیح نے ۷؍مارچ کو تحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کیااور دودن بعد یعنی۹؍مارچ حضور نے شدھی کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیڑھ سو احمدی سر فروشوں کی تحریک فرمائی نیز مسلمان بھائیوں کو ارتداد کے چنگل سے بچانے کی اس اہم دینی مہم کے مختلف اخراجات کے لیے پچاس ہزار روپیہ کا مطالبہ فرمایا اور محض چند دن کے اندر ایک جامع سکیم کے تحت ہدایات جاری کرتے ہوئے ، مکمل تیاری کے ساتھ۱۲؍مارچ کو حضورؓ نے شدھی کے خلاف ملکانہ کے علاقہ میں پہلا وفد روانہ فرمایا جس میں ۱۹؍ افراد شامل تھے اور اس قافلہ کے قائد حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ تھے۔افراد جماعت کی ایثار و قربانی اور دین کودنیا پر مقدم رکھنے کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں تھا۔ ۲۶؍مارچ کو تحریک شدھی کے مقابلہ کے لیے مزید ۲۲مجاہدین کا دوسرا وفد آگرہ پہنچ گیا۔
خلافت احمدیہ کے زیر قیادت جماعت کے اندر اس ناحق اور پُر پیچ حملہ کا مقابلہ کرنے کا بہت زبردست ماحول پیدا ہوچکا تھا مثلاً ۱۶؍ اگست کو تحریک شدھی کی روک تھام کے لیے حضرت سید شفیع احمد دہلوی رضی اللہ عنہ نے دہلی میں ’’تعلیم المناظرین نائٹ کالج‘‘ کھولا جس میں ہر فرقہ کے لوگ مغرب کے بعد دس بجے رات تک تعلیم پاتے تھے اور مناظرے کا فن سیکھتے اور تین مہینے میں فتنہ ارتداد کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔
جماعت احمدیہ کی زبردست کوششوں کے نتیجہ میں جب میدان عمل میں ماحول یکسر بدلنے لگا تو ماہ ستمبر میں مخالف کیمپ کے آریوں نے تحریک شدھی کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ لیکن اس اعلان کی اطلاع ملنے پر۱۹؍ستمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے زبردست اعلان فرمایا کہ جب تک ایک بھی شدھ ہونے والا باقی ہے ہم اپنی مہم بند نہیں کریں گے۔
اس وسیع تناظر میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا یہ سال تحریک شدھی کے خلاف محاذ جنگ کی بے پناہ مصروفیات ، مجاہدین احمدیت کے کارہائے نمایاں اور اسلام کی شاندار فتوحات کا سال رہا۔ جو الگ سے بیان کا متقاضی ہے۔
بیر ون از ہندوستان
سال ۱۹۲۳ء میں بھی جماعت احمدیہ نے خلافت کے زیر سایہ اپنے نہایت محدود وسائل بلکہ قریباً بے سروسامانی کے حالات میں اپنی تبلیغی سرگرمیاں دنیا کے دور درازملکوں اور خطوں میں جاری رکھیں اورزمین کی متفرق آبادیوں میں بسنے والی اسود و احمر اقوام کو آسمانی نور سے منور کرنےکا سلسلہ جاری رہا۔ ذیل میں امریکہ، برطانیہ ، جرمنی، ماریشس کا کسی قدر تفصیلی ذکرکرنے سے قبل دنیا بھر کی احمدیہ جماعتوں کی بعض جھلکیاں پیش ہیں ۔
عرب دنیا سے مصر کی مثال لیں تو یہاں احمدیہ مشن قائم کرنے کےلیے حضرت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ابن حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ۱۹۲۲ء میں قاہرہ بھجوائے گئے، جنہوں نے نہایت مختصر عرصہ میں ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ میں اثر و رسوخ قائم کرتے ہوئے جماعت کی بنیادیں قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ سال ۱۹۲۳ء میں ان کی کارگزاری کی رپورٹس طبع ہوتی رہیں ۔ اور اس سال ۱۹۲۳ء کے آواخر میں آپ ہی کی ادارت میں ’’قصر النیل‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری ہوا۔
نائیجیریا میں قائم ہونے والی مقامی جماعت کی ترقیات اور وہاں احمدیت کی تبلیغ کے متعلق حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ کی رپورٹس اخبار الفضل کی زینت بنتی رہیں ۔ مثلاً ۱۹؍مارچ ۱۹۲۳ء کے الفضل میں مطبوعہ رپورٹ کے مطابق نائیجیریا میں غیرمسلموں کو تبلیغی خطوط لکھنے کے سا تھ عورتوں اور مردوں کی تربیتی کلاسزمنعقد کرنے، عورتوں کے لیے ہفتہ وار دروس کے پروگرام، ملکی جیل میں اسیر قیدیوں کے لیے وعظ کے پروگراموں ، اور ملک کے مختلف شہروں میں منعقدہ جماعتی پروگراموں کا پتاچلتا ہے۔افریقہ کے اسی ملک نائیجیریا میں بسنے والے مخلص احمدیوں کے چندہ سے مرکز احمدیت قادیان دارالامان میں تعمیر کیے گئے منارۃ المسیح پر گیس کے ہنڈے نصب کیے گئے جن سے روشنی کا خاطر خواہ انتظام ہوگیا ۔
افریقہ سے ہی دیکھیں تو ماہ اپریل ۱۹۲۳ء میں جماعت احمدیہ نیروبی افریقہ کی طرف سے اردو اور افریقی زبان میں ایک اخبار ’’البلاغ ‘‘کے نام سے ملک احمد حسین صاحب بیرسٹر ابن مکرم غلام حسین صاحب رہتاسی کی زیر ادارت نیروبی سے نکلنا شروع ہواجو جماعتی ترقی کا عکاس تھا۔
اخبار الفضل قادیان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہمارے پاس اس اخبار کے ۲نمبر پہنچے ہیں ۔ اس میں سلسلہ کے متعلق دردمندانہ تبلیغی مضامین لکھے گئے ہیں ۔ یہ اخبار امید ہے کہ افریقہ میں مفید کام کرے گا ۔ ان شاء اللہ۔ اس اخبار کو دیکھ کر ہمیں خوشی ہوئی کہ اردو زبان افریقہ میں بھی اپنا قبضہ کیے ہوئے ہے۔ خط اور طباعت بہت معمولی درجہ کی ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اس قدر دور افتادہ براعظم میں یہ بھی مغتنمات میں سے ہے۔ …‘‘(الفضل، ۳؍مئی ۱۹۲۳ءصفحہ ۷)
کچھ مرکز احمدیت قادیان کی مشرقی سرزمینوں کا ذکر ہوجائے، توماہ اگست میں قادیان میں پہلی بار سماٹرا کے طلباء تحصیل علم کے لیے آئے۔بعد میں ان میں سے تین طلباء نے احمدیت قبول کر لی۔الفضل نے ۲۱؍ اگست ۱۹۲۳ء کے شمارہ کے صفحہ اول پر ان کی آمد کا اعلان کرتے ہوئے طالب علموں کے متعلق مزید لکھاکہ ’’…عربی زبان میں اپنا ما فی الضمیر ظاہر کرسکتے ہیں ۔ امید ہے کہ اگر کچھ عرصہ انہوں نے مستقل رہائش اختیار کی تودینی علم کے حصول میں کامیاب ہوسکیں گے۔‘‘
امریکہ
اس سال کے آخر پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و امریکہ۴؍دسمبر۱۹۲۳ء کو کامیاب و کامران ہو کر وارد قادیان ہوئے۔ اخبار الفضل کے ۱۹۲۳ءکے شماروں میں مبلغ سلسلہ کی مرسلہ رپورٹس سے اس نئی زمین میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں کاپتا چلتاہے۔ بطور مثال ماہ جنوری ۱۹۲۳ءکی ایک رپورٹ کا ایک حصہ پیش کیا جاتا ہے، جس سے مبلغ سلسلہ کی قربانی کے معیار، مرکزسلسلہ سے وارفتگی،چھ سال سے بیوی بچوں سے جدائی، امریکہ میں احمدیوں کی تعداد، اوراُس وقت وہاں جاری سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس رپورٹ میں آپؓ نے تحریر فرمایا:’’… یہ سفر کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں اور کسی نفسانی لذت کے لیے نہیں بلکہ اشاعتِ اسلام کے واسطے اور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے حکم کی اطاعت کے واسطے ہے… اگر حضرتِ امام کا حکم مجھے اس ملک میں زیادہ رہنے کا ہو یا یہاں سے مثلاً جنوبی امریکہ یا جاپان چلا جانے کا حکم آجاوے تو میرا قلب اس حکم کو بخوشی ماننے کے واسطے ایسا ہی طیار ہے جیسا کہ قادیان کے واسطے۔ مرشدِ صادق کی اطاعت میں میرے لیے وطن اور غربت ایک ہے۔سفر ور حضر برابر ہے…
برادرِ عزیز چودھری فتح محمد صاحب کا تار ’’المسجد‘‘ کے نام آیا ہے کہ جلسہ کے واسطے رپورٹ بھیجو۔ یہ پہلا تار ہے جو اس پتہ پر آیا اور سلامت پہنچ گیا۔ شکاگو جیسے شہر میں جو ۲۶ میل لمبا اور ۱۵ چوڑا لگاتار ایک ہی شہر ہے۔ صرف ’’المسجد شکاگو‘‘ لکھنے سے تار مجھے پہنچ جاتا ہے۔ اس میں خرچ کم نیز مسجد کی شہرت۔‘‘
اپنی اس رپورٹ میں بعدازاں آپؓ نے احمدیہ مسجد شکاگو،مسلم سن رائز اور گزشتہ سال دیے گئے لیکچرز کے متعلق مختصراً تحریر فرمایا ہے۔ لیکچرز کے متعلق آپؓ نے تحریر فرمایا کہ گزشتہ سال قریباً دو سو لیکچرز دیے گئے ہیں ۔
اسی طرح امریکہ میں ہونے والی بیعتوں کے متعلق آپؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’نومسلمین کی تعداد اس وقت قریباً چار سو ہو گئی ہے اورروز افزوں ترقی ہو رہی ہے۔جن میں سے بہت سے نماز پڑھتے ہیں اور عربی سیکھتے ہیں ۔خاص شہر شکاگو میں اتوار کے دن قریباً ساٹھ ستر کس نماز میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ فرصت کا دن ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ان نو مبائعین کے اسماء حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مسلم سن رائز میں مستقل شائع فرماتے رہے۔
مشن ہاؤسز کے متعلق آپؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’شہر شکاگو کے علاوہ سینٹ لوئس اور شہر ڈیٹرائٹ میں دو جگہ مشن کی شاخیں کھولی گئی ہیں اور ہر دو جگہ وہاں کے نو مسلموں نے اپنے خرچ سے لیکچراروں کے واسطے ہال اور کتب خانے بہم پہنچائے ہیں اور تبلیغ کا کام کرتے ہیں ۔ ہر دو جگہ دو امیر مقرر کر دیے گئے ہیں ۔ایک کا اسلامی نام شیخ احمد دین ہے اور دوسرے کا اسلامی نام شیخ عبدالسلام ہے۔ یہ ہر دو صاحب پہلے عیسائی پادری تھے اب مسلم مشنری ہیں اور محض محبت سے کام کرتے ہیں ۔ ہماری طرف سے انہیں کوئی مالی امداد نہیں دی جاتی۔‘‘(مطبوعہ الفضل ۲۵؍جنوری۱۹۲۳ء)
یادرہے کہ اسی سال ۱۹۲۳ءکے آغاز میں ۷؍جنوری کو مبلغ سلسلہ حضرت مولوی محمد دین صاحب امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لیے روانہ ہوئے تھے اور میدان عمل میں پہنچتے ہی اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہوگئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے روانگی کے وقت آپ کو مفصل ہدایات و نصائح لکھ کر دیں ۔جن کا خلاصہ یہ تھا کہ نو مسلموں کو اسلامی اخلاق کا پابند بنائیں ۔ ان کا مرکز اور خلیفہ وقت سے عاشقانہ تعلق اور قربانی کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور دعا پر زور دیں ۔ سیاہ اور سفید نسل والوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں ۔ سیاست سے الگ رہیں ، قرآن مجید پر تدبر کریں ۔ ایسی تمام مجالس سے بچیں جو لغو کاموں پر مشتمل ہوں ۔ اپنی زندگی سادہ اور بے تکلف بنائیں ۔ پہلے مبلغین کی خدمات کا دل، زبان اور قلم سے اعتراف کریں ۔ یہ امر خوب یاد رکھیں کہ ہم آدمیوں کے پرستار نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں ۔اسی سلسلہ میں حضورؓ نے ایک اہم نصیحت یہ فرمائی کہ خلیفہ وقت کی فرمانبرداری اپنا شعار بنائیں اور یہی روح اپنے زیر اثر لوگوں میں پیدا کریں ۔
روس
’’بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ ‘‘ کے عنوان سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قلم سے اخبار الفضل کے ۱۴؍اگست۱۹۲۳ء کوایک مضمون شائع ہوا۔جس میں حضورؓ نے بتایا کہ کس طرح ۱۹۱۹ء میں ایک احمدی مکرم فتح محمد صاحب جو انگریزی فوج میں نائک کے عہدہ پر ملازم تھےاور اپنی فوج کے ساتھ ایران میں گئے وہاں سے بولشویکی فتنہ کی روک تھام کے لیے حکام بالا کے حکم سے ان کی فوج روس کے علاقہ میں گھس گئی اور کچھ عرصہ تک وہیں رہی۔ روسی علاقہ میں انگریزی فوجوں کی پیش دستی کو مخفی رکھا گیا۔ ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص فوج میں احمدی ہو گیا اور اس کو ایک موقع پر روسی فوجوں کی نقل و حرکت کے معلوم کرنے لیے چند سپاہیوں سمیت ایک ایسی جگہ کی طرف بھیجا گیا جو کیمپ سے کچھ دور آگے کی طرف تھی۔ وہاں سے اس شخص نے فتح محمد صاحب کے پاس آکر بیان کیا کہ ہم لوگ پھرتے پھراتے ایک جگہ پر گئے جہاں کچھ لوگ شہر سے باہر ایک گنبد کی شکل کی عمارت میں رہتے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس عمارت کے اندر ایسے آثار ہیں جیسے مساجد میں ہوتے ہیں لیکن کرسیاں بچھی ہوئی ہیں جو لوگ وہاں رہتے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ یہ جگہ تو مسجد معلوم ہوتی ہے پھر اس میں کرسیاں کیوں بچھی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ مبلغ ہیں اور چونکہ روسی اور یہودی لوگ ہمارے پاس زیادہ آتے ہیں ۔ وہ زمین پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ اس لئے کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں ۔ نماز کے وقت اٹھا دیتے ہیں ۔ ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں ۔ اس پر اس دوست کا بیان ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ چونکہ یہ مذہبی آدمی ہیں میں ان کو تبلیغ کروں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح اور انبیاء فوت ہو گئے ہیں اسی طرح وہ فوت ہو گئے ہیں ۔ اس پر میں نے پوچھا کہ ان کی نسبت تو خبر ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں اس امت میں سے ایک شخص آجائے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ عقیدہ تو ہندوستان میں ایک جماعت جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مانتی ہے اس کا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ بھی انہی کے ماننے والے ہیں ۔ فتح محمد صاحب نے جب یہ باتیں اس نو احمدی سے سنیں تو دل میں شوق ہوا کہ وہ اس امر کی تحقیق کریں ۔ اتفاقاً کچھ دنوں بعد ان کو بھی آگے جانے کا حکم ہوا اور وہ روسی اشک آباد میں گئے۔ وہاں انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا یہاں کوئی احمدی لوگ ہیں ۔ لوگوں نے صاف انکار کیا کہ یہاں اس مذہب کے آدمی نہیں ہیں ۔ جب انہوں نے یہ پوچھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ ماننے والے لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تم صابیوں کو پوچھتے ہو وہ تو یہاں ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک شخص کا پتا بتایا کہ وہ درزی کا کام کرتا ہے اور پاس ہی اس کی دکان ہے یہ اس کے پاس گئے اور اس سے حالات دریافت کیے۔ اس نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں ۔ یہ لوگ تعصب سے ہمیں صابی کہتے ہیں ۔ جس طرح رسول کریمﷺ کے دشمن ان کے ماننے والوں کو صابی کہتے تھے۔ انہوں نے وجہ مخالفت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی مماثلت پر ایک شخص اسی امت کا مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور وہ ہندوستان میں پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ لوگ ہمیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ۔ شروع میں ہمیں سخت تکالیف دی گئیں ، روسی حکومت کو ہمارے خلاف رپورٹیں دی گئیں کہ یہ باغی ہیں اور ہمارے بہت سے آدمی قید کیے گئے لیکن تحقیق پر روسی گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ ہم باغی نہیں ہیں بلکہ حکومت کے وفادار ہیں ۔ تو ہمیں چھوڑ دیا گیا۔ اب ہم تبلیغ کرتے ہیں اور کثرت سے مسیحیوں اور یہودیوں میں سے ہمارے ذریعہ سے اسلام لائے ہیں لیکن مسلمانوں میں سے کم نے مانا ہے۔ زیادہ مخالفت کرتے ہیں ۔ جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ فتح محمد صاحب بھی اسی جماعت میں سے ہیں تو بہت خوش ہوا۔ سلسلہ کی ابتدا کا ذکر اس نے اس طرح سنایا کہ کوئی ایرانی ہندوستان گیا تھا۔ وہاں اسے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب ملیں وہ ان کو پڑھ کر ایمان لے آیا اور واپس آکر یزد کے علاقہ میں جو اس کا وطن تھا، اس نے تبلیغ کی، کئی لوگ جو تاجروں میں سے تھے ایمان لائے وہ تجارت کے لیے اس علاقہ میں آئے اور ان کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو حال معلوم ہوا اور ہم ایمان لائے اور اس طرح جماعت بڑھنے لگی۔
یہ حالات فتح محمد صاحب مرحوم نے لکھ کر مجھے بھیجے۔ … جس وقت یہ خط مجھے ملا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کہ بخارا کے امیر کی کمان آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اسی رنگ میں پوری ہو رہی ہے اور میں نے چاہا کہ اس جماعت کی مزید تحقیق کے لیے فتح محمد صاحب کو لکھا جائے کہ اتنے میں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے مجھے اطلاع ملی کہ سرکاری تار کے ذریعہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ فتح محمد صاحب میدان جنگ میں گو لی لگنے سے فوت ہو گئے ہیں ۔ اس خبر نے تمام امید پر پانی پھیر دیا اور سر دست اس ارادہ کو ملتوی کر دینا پڑا۔ مگر یہ خواہش میرے دل میں بڑے زور سے پیدا ہوتی رہی اور آخر ۱۹۲۱ء میں مَیں نے ارادہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو اس علاقہ کی خبر لینی چاہیے۔
چونکہ انگریزی اور روسی حکومتوں میں اس وقت صلح نہیں تھی اور ایک دوسرے پر سخت بدگمانی تھی اور پاسپورٹ کا طریق ایشیائی علاقہ کے لیے تو غالباً بند ہی تھا۔ یہ دقت درمیان میں سخت تھی اور اس کا کوئی علاج نظر نہ آتا تھا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو اس کام کو کرنا چاہیے اور ان احباب میں سے جو زندگی وقف کر چکے ہیں ایک دوست میاں محمد امین صاحب افغان کو میں نے اس کام کے لیے چنا اور ان کو بلا کر سب مشکلات بتا دیں اور کہہ دیا کہ آپ نے زندگی وقف کی ہے۔ اگر آپ اس عہد پر قائم ہیں تو اس کام کے لیے تیار ہو جائیں ۔ جان اور آرام ہر وقت خطرہ میں ہوں گے اور ہم کسی قسم کا کوئی خرچ آپ کو نہیں دیں گے آپ کو اپنا قوت خود کمانا ہو گا۔ اس دوست نے بڑی خوشی سے ان باتوں کو قبول کیا۔ اور اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لیے اور سلسلہ کی تبلیغ کے لیے بلا زادراہ فوراً نکل کھڑے ہوئے۔ کوئٹہ تک تو ریل میں سفر کیا۔ سردی کے دن تھے اور برفانی علاقوں میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ مگر سب تکالیف برداشت کرکے بلا کافی سامان کے دو ماہ میں ایران پہنچے اور وہاں سے روس میں داخل ہونے کے لیے چل پڑے۔ آخری خط ان کا مارچ۱۹۲۲ء کا لکھا ہوا پہنچا تھا اس کے بعد نہ وہ خط لکھ سکتے تھے نہ پہنچ سکتا تھا۔ مگر الحمدللہ کہ آج ان کا لکھا ہوا خط ملا ہے۔ جس سے یہ خوشخبری معلوم ہوئی ہے کہ آخر اس ملک میں بھی احمدی جماعت تیار ہو گئی ہے اور باقاعدہ انجمن بن گئی ہے۔
برادرم محمد امین خان صاحب کے پاس پاسپورٹ نہ تھا۔ اس لیے وہ روسی علاقہ میں داخل ہوتے ہی روس کے پہلے ریلوے سٹیشن پر انگریزی جاسوس قرار پائے۔ گرفتار کیے گئے۔ کپڑے اور کتابوں اور جو کچھ پاس تھا۔ وہ ضبط کر لیا گیا اور ایک مہینہ تک آپ کو وہاں قید رکھا گیا۔ اس کے بعد آپ کو اشک آباد کے قید خانہ میں تبدیل کیا گیا۔ وہاں سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں آپ کو براستہ سمرقند تاشقند بھیجا گیا اور وہاں دو ماہ تک قید خانہ میں تبدیل کیا گیا۔ اور بار بار آپ سے بیانات لیے گئے تا یہ ثابت ہو جائے کہ آپ انگریزی حکومت کے جاسوس ہیں اور جب بیانات سے کام نہ چلا تو قسم قسم کی لالچوں اور دھمکیوں سے کام لیا گیا اور فوٹو لیے گئے تا عکس محفوظ رہے اور آئندہ گرفتاری میں آسانی ہو اور اس کے بعدسرحد افغانستان کی طرف لے جایا گیا اور وہاں سے ہرات افغانستان کی طرف اخراج کا حکم دیا گیا مگر چونکہ یہ مجاہد گھر سے اس امر کا عزم کرکے نکلا تھا کہ میں نے اس علاقہ میں حق کی تبلیغ کرنی ہے اس نے واپس آنے کو اپنے لیے موت سمجھا اور روسی پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا اور بھاگ کر بخار اجا پہنچا۔
دو ماہ تک آپ وہاں آزاد رہے لیکن دو ماہ کے بعد پھر انگریزی جاسوس کے شبہ میں گرفتار کیے گئے اور تین ماہ تک نہایت سخت اور دل کو ہلا دینے والے مظالم آپ پر کیے گئے اور قید میں رکھا گیا اور بخارا سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں سرحد ایران کی طرف واپس بھیجا گیا۔
اللہ تعالیٰ اس مجاہد کی ہمت میں اور اخلاص اور تقویٰ میں برکت دے۔ چونکہ ابھی اس کی پیاس نہ بجھی تھی اس لیے پھر ایک ریلوے سٹیشن سے روسی مسلم پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا۔ اور پا پیادہ بخارا پہنچا۔ بخارا میں ایک ہفتہ کے بعد پھر ان کو گرفتار کیا گیا اور بدستور سابق پھرواپس لایا گیا اور وہاں سے سمرقند پہنچایا گیا۔ وہاں سے آپ پھر چھوٹ کر بھاگے اور بخارا پہنچے اور۱۳؍مارچ۱۹۲۳ء کو پہلی دفعہ بخارا میں اس جماعت کے مخلصین کو جو پہلے الگ الگ تھے اور حسب میری ہدایات کے ان کو پہلے آپس میں نہیں ملایا گیا تھا، ایک جگہ اکٹھا کرکے آپس میں ملایا گیا اور ایک احمدیہ انجمن بنائی گئی اور باجماعت نماز ادا کی گئی اور چندوں کا افتتاح کیا گیا۔
ماریشس
دنیا کا کنارہ کہلانے والے اس ملک میں ۱۹۱۳ء میں ایک سکول ٹیچر کو احمدیت کا پیغام ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے اشتہار کی صورت میں پہنچا۔رسالہ ریویو کے چند پرچے، ’’ازالہ اوہام ‘‘اور چنددیگر کتب اس دور دراز جزیرہ پر قادیان سے پہنچیں ۔ بعد مطالعہ و تحقیق تینوں افراد نے بیعت کی۔ ۱۹۱۵ء میں مرکز سے ماریشس میں مبلغ بھجوانے کی درخواست کی گئی تو جولائی ۱۹۱۵ء میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو وہاں بھجوادیا گیا۔اور احمدیت کی تبلیغ اور ترقی کا حسین سفر شروع ہوگیا۔ سال ۱۹۲۳ء میں ماریشس کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ اور ۷؍دسمبر۱۹۲۳ء کو حضرت مولوی حافظ عبیداللہ صاحب مبلغ ماریشس کے انتقال کی المناک اطلاع ملی۔آپ مرکز سے دور بیرونی ممالک میں مصروف کار جماعت احمدیہ کے پہلے شہید مبلغ ٹھہرے۔ آپ کی ولادت ۱۸۹۲ء میں ہوئی تھی اور آپ کے والد حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ؓ نے آپ کو بچپن میں ہی وقف کردیا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کے اوصاف اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’ہماری ہندوستان کی جماعت میں تاحال اس قسم کے نمونے بہت کم ہیں جو صحابہ میں پائے جاتے ہیں اور پھر ایسے بہت کم ہیں جو خدمات دین کے اقرار کو نباہنا جانتے ہوں … مگر مولوی عبیداللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ دین کے لیے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نباہنا دونوں باتوں کو جانتا تھا۔ ہماری جماعت میں پہلے شہید حضرت سید عبداللطیف تھے یا دوسرے کہ ان سے پہلے ان کے ایک شاگرد شہید ہوئے تھے مگر وہ ہندوستان کے نہ تھے بلکہ ہندوستان کے باہر کے تھے۔ ہندوستان میں شہادت کا پہلا موقع عبیداللہ کو ملا‘‘(اخبار الفضل قادیان ۱۴؍ دسمبر ۱۹۲۳ء)
جرمنی
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک عرصہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کے لیے جدوجہد فرما رہے تھے۔ آخر ستمبر۱۹۲۲ء میں مولوی مبارک علی صاحب لندن سے برلن جرمنی بھیجے گئے۔ انہوں نے حضور کی ہدایت پر وہاں زمین کا انتظام کر لیا۔ جس پر حضورؓ نے۲؍فروری۱۹۲۳ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر خواتین کے چندہ سے ہوگی۔ اس تحریک نے احمدی خواتین کا مطمح نظر بلند کرکے ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت و للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا کر دیا کہ متحدہ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو صرف اور صرف قرون اولیٰ کی صحابیات میں !!
افسوس جرمنی کی غیر مستقل سیاسی صورت حال اور بعض دوسری ناگزیر مشکلات کی وجہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کا کام بند کر دینا پڑا۔ مگر احمدی خواتین کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں ۔ بلکہ ان کے چندہ سے لندن میں مسجد تعمیر ہوئی۔ جو یورپ میں جماعت احمدیہ کی سب سے پہلی مسجد ہے۔اور اس مسجد کے درو دیوار کوایک غیر معمولی عرصہ تک صبح و شام خلافت احمدیہ کی غیر معمولی خدمت کی سعادت ملی۔
سال ۱۹۲۳ءکے آخر میں مولوی مبارک علی صاحب بی۔ اے بنگالی اور ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کی کوشش سے یورپ میں دوسرا اسلامی مشن جرمنی میں قائم ہوا۔ مولوی مبارک علی صاحب جو۱۹۲۰ء سے لندن میں تبلیغ اسلام کر رہے تھے۔ لندن سے برلن بھجوائے گئے اور ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کو حضرت مصلح موعود نے قادیان سے ۲۶؍نومبر۱۹۲۳ء کو روانہ فرمایا جو۱۸؍دسمبر کو برلن پہنچے۔
جرمنی میں اول اول بعض یونیورسٹی پروفیسروں اور قابل مصنفوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور ان کے دیکھا دیکھی برلن کے کالجوں کے پروفیسر اور طلباء میں بھی تحقیق سلسلہ کی جستجو پیدا ہو گئی۔
حضرت مصلح موعود ؓکا ارادہ یہاں شاندار اسلامی مرکز قائم کرنے کا تھا اور اسی لیے مسجد برلن کی تحریک بھی آپ نے فرمائی مگر جرمنی کے حالات یکایک بدل گئے۔ کاغذی روپیہ عملی طور پر منسوخ کر دیا گیا اور سونے کا سکہ جاری کیا گیا۔ جس کی وجہ سے قیمتوں میں دو تین سو گنا اضافہ ہو گیا۔ ایک طرف مبلغ کا خرچ۶؍پونڈ کی بجائے کم از کم۲۵؍پونڈ تک جا پہنچا۔ دوسری طرف مسجد برلن کی تعمیر کے لیے جس کا پہلے تیس ہزار روپیہ کا اندازہ کیا گیا تھا پندرہ لاکھ روپے کے اخراجات بتائے جانے لگے۔
ان حالات کی بنا پر حضورؓ نے تعمیر مسجد کا کام ملتوی کرا دیا اور فیصلہ فرمایا کہ یورپ میں دو مرکز رکھ کر طاقت تقسیم کرنے کی بجائے دارالتبلیغ لندن ہی مضبوط کیا جائے اور اسی سے وسط یورپ میں تبلیغ اسلام ہو۔ یہ فیصلہ مارچ۱۹۲۴ء میں ہوا، اور مئی۱۹۲۴ء میں یہ دارالتبلیغ بند کر دیا گیا اور جرمنی کے مبلغ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے انگلستان چلے گئے مگر بالاخر ربع صدی کے بعد۱۹۴۹ء میں چودھری عبداللطیف صاحب بی۔ اے کے ذریعہ اس مشن کا دوبارہ احیاہوا۔
یوں ایک سال کے مختصر عرصہ، جسے قوموں کی تاریخ میں پلک جھپکنے سے بھی کم شمار کیا جاتا ہے، میں جماعت احمدیہ کا ترقی و کامرانی کا سفر، روئے زمین کی متفرق آبادیوں میں بسنے والی اقوام کو قرآن کریم کے نور سے منور کرنے کا مشن، خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی ہدائیت و نگرانی میں احمدیت کے نور کو دنیا کے کناروں تک پھیلانے کاپختہ عزم اور جامع منصوبہ ایک حیران کن رفتار کے ساتھ جاری رہا۔ نہ تو مالی وسائل کی تنگی اس آسمانی جماعت کی راہ روک سکی، اور نہ ہی دنیاوی حکومتوں اور طاقتوں کی مخالفت، خدمت گاروں کی بار بار کی گرفتاریاں ، اور بے نفس مبلغین کی شہادتیں حضرت اولوالعزم خلیفہ برحق رضی اللہ عنہ اور آپ کی جماعت کو کسی کام سے باز رکھ سکیں ۔
یونہی جاری رہے روشن کا سفر