’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ از حضرت مصلح موعودؓ
انبیائے کرام کی بعثت کا ایک ہی بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ مخلوق کو صفاتِ الٰہی کے ذریعے اُس کے خالق کی پہچان کرواکر اُس کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا کردیا جائے تاکہ وہ اخلاق پیدا ہوسکیں جن سے دنیا میں امن کا قیام ہو اور ایسی روحانی زندگی کو پروان چڑھایا جاسکے جو اپنی ذات میں اطمینان قلب عطا کرنے کے ساتھ ساتھ مرنے کے بعد بھی کامیابی کی ضمانت بن جائے۔ چنانچہ انبیائے کرام نہ صرف اپنی زبان سے دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں بلکہ عملاً اپنی ذات میں بھی ایک خدانما وجود ہوتے ہیں جو آیت اللہ کے رنگ میں اپنی پاکیزہ زندگیاں گزارتے ہوئے، اعجازی نشانات اور کرامات دکھاتے ہوئے اور تائید خداوندی کی فعلی شہادت کے ساتھ اپنی صداقت کا اعلان کرتے ہوئے اس دنیائے فانی سے کُوچ کرتے ہیں ۔ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی انہی راہوں پر قدم رکھا اور نہ صرف خود فنافی اللہ ہوکر اپنی زندگی بسر کی بلکہ علی الاعلان یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ مَیں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں ۔ کس دف سے مَیں بازاروں میں مُنادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں ۔ اور کس دوا سے مَیں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں ۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 21۔22)
حضورعلیہ السلام کی وفات کے بعد جماعتِ مومنین بھی اپنے عہد بیعت کے مطابق اُسی مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے جس کے لیے آپؑ مبعوث ہوئے تھے۔ چنانچہ تاقیامت جاری رہنے والے نظام خلافت میں جو بابرکت وجود بھی سریر آرائے خلافت ہوگا اُس کا بھی یہی مشن قرار پائے گا کہ زمانے کے حالات کے مطابق تمام تر ممکنہ ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے زمین پر موجود ہر فرد میں علمی طور پر ہستی باری تعالیٰ کا اور عملی طور پر صفاتِ باری تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کا ادراک پیدا کرے تاکہ عبودیت میں کمال حاصل کرنے والی احمدی نسلیں قیامت تک پیدا ہوتی چلی جائیں اور وہ اقوامِ عالم بھی اس روحانی مائدے سے فیض پانے والی بن جائیں جنہیں ابھی تک اس چشمۂ حیات کی خبر نہیں ہوئی! جنہیں یہ شعور حاصل نہیں ہوا کہ انہیں بلامقصد اور بلاجواز پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اُن کا پیدا کرنے والا ہمہ وقت اُن پر نگران ہے اور اس عارضی دنیا سے کُوچ کرنے کے بعد پھر اُسی کے حضور ہم سب نے پیش ہوکر جواب دہ ہونا ہے۔
تمام خلفائے عظام کی طرح سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بھی متعدد مواقع پر اپنے اچھوتے اور منفرد انداز میں اس اہم مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؓ نے جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۲۱ء کے موقع پر بھی ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ کے موضوع پر ایک بصیرت افروز اور حقائق و معارف سے لبریز خطاب فرمایا جس میں ہستی باری تعالیٰ کے آٹھ دلائل اور ان کے حوالے سے پیدا ہونے والے اعتراضات کے تفصیلی جواب ارشاد فرمائے۔ نیز بہت سی صفاتِ الٰہیہ کی نہایت جامع تشریح کرتے ہوئے ہستی باری تعالیٰ کے ناقابل تردید ثبوت پیش فرمائے۔ حضورؓ نے مختلف اقوام اور مذاہب مثلاً اہلِ یورپ، آسٹریلیا و کینیڈا کے قدیم باشندوں ، مسیحیوں ، زرتشتیوں ، ہندوؤں اور آریوں کے خدا تعالیٰ کے بارے میں تصوّرات بھی پیش فرمائے اور ان کے بالمقابل اسلام کی خوبصورت تعلیمات بیان کرتے ہوئے تقابلی جائزہ بھی پیش فرمایا۔ علاوہ ازیں اپنی اس تقریر میں حضورؓ نے شرک کی تعریف اور اس کی اقسام کا ذکر فرماتے ہوئے ان کا اصولی اور مدلّل ردّ بھی بیان فرمایا۔ اپنے اس اہم خطاب میں حضورؓ نے رؤیت الٰہی، اس کے مدارج، فوائد اور رؤیت کے حصول کے طریق اور ذرائع بھی بیان فرمائے۔
دراصل یہ صرف علمی مضمون ہی نہیں تھا بلکہ ایک صاحبِ تجربہ کا نہایت عالمانہ اور عشقِ الٰہی میں ڈوبا ہوا بصیرت افروز خطاب تھا جسے بعدازاں ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘کے نام سے شائع کیا گیا۔ پونے تین صد صفحات پر مشتمل یہی ضخیم کتاب آج ہمارے زیر تبصرہ ہے۔
اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓنے اس مضمون کی اہمیت کو یوں بیان فرمایا ہے کہ آج مَیں ایک ایسے مضمون کے متعلق تقریر کرنی چاہتا ہوں جو سب مضامین کا جامع ہے اور سب مضامین اس کے گرد چکر لگاتے ہیں اور سب اس کے تابع ہیں اور یہ ان کا متبوع ہے۔ مَیں اس وقت تک جس قدر مضامین بیان کرتا رہا ہوں وہ سب اس مضمون کے اجزاء اور اس کی شاخیں تھیں اور آئندہ بھی مجھے جو کچھ توفیق ملے اسی کی تشریح ہوگی۔ اس مضمون کو خواہ کس قدر بھی سنایا جائے ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک غیرمحدود ہستی سے تعلق رکھتا ہے اور اس وجہ سے غیرمحدود ہوگیا ہے۔ آپ لوگ جس قدر بھی اس مضمون پر غور کریں گے اس کے مطالب کو غیرمحدود پائیں گے اور نئے سے نئے مطالب آپ پر ظاہر ہوں گے۔سب انبیاءؑ نے اس مضمون کو بیان کیا ہے مگر بالآخر یہی کہا کہ لو مضمون بیچ میں ہی رہ گیا اور ہم جاتے ہیں ۔ غرض سب انبیاء اور اولیاء یہی کہتے آئے ہیں ، کہتے رہے ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم رہے گی، کہتی رہے گی اورمرنے کے بعد خلا میں بھی یہی مضمون ہوگا۔ یہ مضمون ہے: ذاتِ باری۔
دورِ حاضر میں خدا تعالیٰ کا انکار بہت بڑھا ہوا ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ اس کا بڑا سبب تو یہ ہے کہ گناہ کی کثرت کی وجہ سے تعلق باللہ نہیں رہا اور دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ انگریزی دان لوگ یورپ کے فلسفے سے متأثر ہوکر مذہب سے دُور جاپڑے ہیں اور دوسرے لوگوں نے ان کے اثر کو قبول کیا ہے۔یورپ کے فلسفیوں کے خداتعالیٰ سے دُور ہوجانے کا سبب یہ ہے کہ جب یورپ میں علمی ترقی ہونے لگی تو پادریوں نے بےوقوفی سے اس ترقی کو مذہب کے خلاف سمجھا اور اس کی مخالفت شروع کردی جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ مسیحیت کی بنیاد ایسے اصول پر ہے جن کو عقل ردّ کرتی ہے۔ اگر لوگوں کی توجہ عقل کی طرف ہوگئی تو اس کو کون مانے گا۔چنانچہ اُس پر بھی مسیحیت سے نکلنے کا فتویٰ دے دیا گیا۔ جس نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے آخر اُسے کفر کا فتویٰ لگاکر اس قدر تنگ کیا گیا کہ اُس نے ایک کتاب میں لکھا کہ اگرچہ انسانی عقل یہی خیال کرتی ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن یہ خیال میرے دل میں شیطان نے ڈالا تھا اور دراصل سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کے دلوں میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم خدا کے وجود یا عدم وجود کی بحث میں پڑیں ہی کیوں ؟ اب بھی ہم محنت سے کماتے ہیں اگر خدا کو مان کر بھی محنت ہی کرنی پڑے گی تو پھر کیا فرق پڑے گا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اگر خدا کو نہ مانا جائے تو دنیا سے امن اُٹھ جائے گا۔ جن لوگوں کے دلوں میں چوری کا خیال پیدا ہوتا ہے وہ خدا ہی کے ڈر سے رُکتے ہیں اس لیے اگرچہ واقع میں کوئی خدا نہیں مگر سیاستاً خدا کے خیال کو ضرور زندہ رکھنا چاہیے تاکہ دنیا میں امن قائم رہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ حالانکہ یہ خیال اپنی ذات میں دہریت ہے اور خداتعالیٰ کی پاک ذات سے تمسخر۔ کیونکہ اگر فی الواقع خدا نہیں ہے تو پھر دھوکا دے کر لوگوں کو گناہوں سے باز رکھنا خود ایک گناہ ہے۔ اور یہ بھی کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود ہی کوئی نہیں تو پھر گناہ کیا شَے ہے؟ اس سوال کا اصل جواب کہ ’خداتعالیٰ پر کیوں ایمان لایا جائے‘ یہ ہے کہ چونکہ خداتعالیٰ موجود ہے اس لیے اُس پر ایمان لانا چاہیے۔ دوسری صداقتوں کو جو ہم مانتے ہیں تو یہ سوچ کر تو نہیں مانتے کہ اُن کے ماننے میں کیا فائدہ ہے بلکہ اس لیے مانتے ہیں کہ سچائیاں ہیں اور سچائی کو معلوم ہونے کے بعد نہ ماننا جہالت اور حماقت ہے۔ سچائی پر غور کرنا اور اُسے پھیلانا بھی فرض ہے۔ پس جن کو خداتعالیٰ کی ہستی کا علم ہوا ہے ان کا حق ہے اور اُن پر فرض ہے کہ وہ دوسروں تک اس علم کو پہنچائیں اور کسی کا حق نہیں کہ اُن کی اس کوشش پر اعتراض کرے یا اس مسئلے پر غور کرنے کو عبث قرار دے۔
ایک جواب یہ ہے کہ خالق کے معلوم کرنے سے حقائق الاشیاء معلوم ہوتے ہیں اور دنیا کے علوم میں ترقی ہوتی ہے۔
ایک جواب یہ بھی ہے کہ یہ غور کرنا ہماری طرف سے شروع نہیں ہوتا بلکہ خداتعالیٰ اپنے ایلچی بھیج بھیج کر ہمیں اپنی طرف بلاتا ہے۔ پس جب بلاوا دوسری طرف سے آرہا ہے تو یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہم کیوں خداتعالیٰ کے وجود کے دریافت کرنے کی کوشش کریں ۔
منکرانِ خدا دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر خداتعالیٰ فی الواقع ہوتا تو چاہیے تھا کہ خداتعالیٰ کا خیال دنیا میں الہام کے ذریعے سے پیدا ہوتا مگر انسانی ارتقاء کی تاریخ بتاتی ہے کہ بالا ہستی کا خیال دنیا میں آہستہ آہستہ پیدا ہوا۔ پہلے اُن اشیاء کی پرستش شروع ہوئی جن سے انسان ڈرا ہے۔ پھر بالا ہستیوں کا خیال راسخ ہونے لگا اور جب کچھ علمی ترقی ہوئی تو بالا ہستیاں غیرمادی قرار پائیں اور جن چیزوں کی پہلے سے پرستش کی جاتی تھی وہ ان کا مظہر قرار پائیں ۔ اور آخری قدم یہ تھا کہ ایک واحد ہستی جو سب پر فائق تھی تجویز ہوئی۔ پس خداتعالیٰ کا خیال بندے کی مخلوق ہے نہ کہ کوئی بالا ہستی بندے کی خالق۔ چنانچہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب سے پہلا علم جو دنیا میں رائج ہوا ہے وہ علم ہیئت تھا کیونکہ سورج، چاند اور ستارے سب سے زیادہ انسانی عقل کو حیران کرنے والے تھے۔ اسی لیے سب سے پہلے اُنہی کو خدا قرار دیا گیا اور اُن کی چالوں پر غور شروع ہوا تاکہ معلوم ہوسکے کہ خدا کا منشا کیا ہے۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ خداتعالیٰ کا خیال ڈر اور حیرت سے پیدا ہوا ہے اور اس میں تدریجی ترقی ہوئی ہے۔ کیونکہ ایسا ہوتا تو بنی نوع انسان کو پہلا خوف درندوں سے ہوسکتا تھا۔ لیکن زیادہ تر پجاری سانپ کے ملتے ہیں ۔ شیروں اور بھیڑیوں کی پُوجا بہت کم ہوتی ہے جن کا خطرہ اور خوف انسان کو سانپ سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر یہ خیال بھی غلط ہے کہ خدا کا خیال خوف و حیرت سے شروع ہوا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو تاریخ ہمیں یہ نہ بتاتی کہ چاند سورج سے بہت پہلے جانوروں کی پرستش کی جاتی تھی۔ اور یہ بھی غلط ہے کہ دوسری چیزوں کی عبادت شروع ہوئی تو بعد میں ایک وراءالورٰی ہستی کا خیال پیدا ہوا۔ یہ خیال تاریخ ردّ کررہی ہے کیونکہ پرانی سے پرانی اقوام میں ہمیں ایک خدا کے خیال کا پتہ لگتا ہے۔
دنیا میں پرانی اقوام جو اَب تک محفوظ چلی آتی ہیں اُن میں سے سب سے پرانی میکسیکو کی قوم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک خدا ہے جس کا نام Awona Willona ہے جو سب کا خالق ہے اور سب پر محیط ہے اور سب باپوں کا باپ ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو اُس کے خیال کرنے سے وہ طاقت پیدا ہوئی جس سے کائنات وجود میں آئی۔ بعد میں عیسائیت اور اسلام میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا اور ہزاروں سال بعد سائنس نے بھی یہی دعویٰ کیا کہ پہلے بہت باریک ذرّات تھے جو اکٹھے ہونے لگے اور بادل بنے۔ پھر ایک جگہ ٹھوس ہوگئی کیونکہ وہاں زیادہ مادہ جمع ہوگیا۔ اس جگہ نے دوسرے ذرّوں کو کھینچنا شروع کیا اور کُرّہ بڑھنے لگا اور اُس میں گولائی آنے لگی۔ پھر اس بڑے کُرّے کے ٹکڑے ہوگئے۔ کوئی سورج بن گیا، کوئی چاند، کوئی ستارے۔
مختلف اقوام میں خدا کے تصور کے حوالے سے حضورؓ نے فرمایا کہ افریقہ کے ایک قدیمی قبیلے کا خیال ہے کہ ایک وراءالورٰی ہستی ہے جو سب کی خالق ہے اور اسے وہ Nyongmo کہتے ہیں ۔ افریقہ کا قبیلہ Zulu بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ایک غیرمرئی خدا ساری دنیا کا باپ ہے جس کا نام Unkulunkivlu ہے۔ پھر بابلیوں میں بھی یہی عقیدہ پایا جاتا ہے۔ ایک نہایت پرانے بابلی بادشاہ کی ایک دعا ملی ہے جس میں خداتعالیٰ کی ایسی تعریف اور اُس سے ایسی دعا کی گئی ہے جیسے نبی دعا کرتے ہیں ۔
اسی طرح کینیڈا کے قدیمی باشندے بھی ایک خدا کو مانتے ہیں ۔ پھر آسٹریلیا جو چند صدیوں سے ہی دریافت ہوا ہے۔ اُن کا ایک قبیلہ Arunta ہے جو ایک ایسے خدا کا قائل ہے جو آسمان پر رہتا ہے۔ اس کا نام Altjira ہے۔ اُن کا خیال ہے اُس خدا کی عبادت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ حلیم ہونے کی وجہ سے سزا نہیں د یتا۔ اسی طرح آسٹریا کے قدیم وحشی باشندے Nurrendireکو شریعت دینے والا خدا سمجھتے ہیں ۔ ہندوؤں میں بھی خدا تعالیٰ کی غیرمرئی طاقتوں کے متعلق خیال پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ درونا کے متعلق وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عالم الغیب اور غیرمحدود طاقتوں کا مالک ہے اور کوئی اُس کی حکومت سے باہر نہیں جاسکتا۔
اسی طرح حضورؓ نے متعدد ایسی شہادتیں بھی پیش فرمائی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک غیرمرئی طاقت کے بارے میں جو خیالات موجود ہیں یہ تدریجی ترقی سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ کسی ایک شخص کی معرفت جو اپنے آپ کو ملہم قرار دیتا تھا مختلف قبائل میں پھیلے۔ پھر آثار قدیمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بہت سی قومیں جن میں اب مشرکانہ خیالات ہیں ابتداء میں ان میں ایک خدا کی پرستش کی جاتی تھی۔ مثلاً اسلام بھی خالص توحید پر مبنی تھا مگر آہستہ آہستہ قبر پرست، درخت پرست، جنّ پرست اور ستارہ پرست لوگ پیدا ہوگئے۔ بعض اولیاءاللہ کے بارے میں ایسے مشرکانہ قصّے مشہور ہوگئے جو لٓااِلٰہ اِلَّااللّٰہ پر جانیں قربان کرنے والوں کی نسلیں بیان کررہی ہیں ۔ غرض عقلاً اور نقلاً یہ ہرگز محال نہیں کہ خداتعالیٰ کا خیال قدیم سے چلا آیا ہو بلکہ عقل اور نقل دونوں اس امرکی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ خیال قدیم سے اور الہام کے ذریعہ سے دنیا میں چلا آیا ہےاور مشرکانہ خیالات بعد کے ہیں ۔
پھر دہریہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر خدا موجود ہے تو اُس کو دکھادو۔ اس کا مجمل جواب صوفیاء نے یہ دیا ہے کہ خداتعالیٰ قریب ہے اور سب سے زیادہ قریب (حبل الورید سے بھی زیادہ قریب)، اور وہ دُور ہے اور سب سے زیادہ دُور۔ اور بہت قریب یا بہت دُور کی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں ۔ اس اعتراض کا حقیقی جواب یہ ہے کہ ہر چیز کے دیکھنے اور معلوم کرنے کا طریق الگ ہے۔ ہم نے کب کہا ہے کہ خدا کوئی مادی چیز ہے جسے مادی چیزوں کی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ تو وراءالورٰی ہستی ہے۔
پھر ہر چیز تو دیکھ کر نہیں مانی جاتی۔ گلاب کی خوشبوسونگھنے سے، آواز سننے سے پہچانی جاتی ہے۔بلکہ بعض چیزیں حواس خمسہ سے بھی معلوم نہیں کی جاسکتیں ۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ فلاں میں غصہ ہے۔ یہ تو کیفیت کا نام ہے جو دوسرے پر طاری ہو تو اس کا اندازہ قیاس سے لگایا جاسکتا ہے لیکن اگر خود کو غصہ آئے تو اندرونی حِسیں ہی اسے محسوس کرسکتی ہیں ۔ پھر اگر کسی کو درد ہے تو اُس کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔
پھر بعض چیزوں کے اثرات کو ہم تجربے سے معلوم کرسکتے ہیں مثلاً مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ اس جذب کی طاقت کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں لیکن وہ طاقت ہمیں حواس خمسہ سے معلوم نہیں ہوسکتی۔
خداتعالیٰ کی ذات کے بارے میں قرآن کریم میں آتا ہے لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔(الانعام:104)ابصار علم کو بھی کہتے ہیں ۔ اس لیے اس کا یہ مطلب ہوا کہ تم خدا کو ان ظاہری آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے علم اور فہم سے بھی نہیں دیکھ یا معلوم کرسکتے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ خود تم پر اپنا اثر ڈالے تو جس طرح لوہے پر مقناطیس کا اثر پڑنے سے مقناطیس کا پتہ لگ سکتا ہے اسی طرح تم خدا کے اثر سے اس کو معلوم کرسکتے ہو۔
اس کے بعد حضورؓ نے ہستی باری تعالیٰ کے آٹھ دلائل تفصیل سے بیان فرمائے ہیں اور ہر دلیل پر ہونے والے مختلف اعتراضات کے مدلّل جواب بھی بیان فرمائے ہیں ۔ حضورؓ نے اپنے جوابات کو فلسفے کے علمی دلائل اور سائنس کے اُن عقلی دلائل سے بھی مزین فرمایا ہے جن کا تعلق جدید سائنس یا قدیم خیالات سے ہے۔ چنانچہ بہت سے دلائل جنہیں دہریہ اپنے حق میں پیش کرتے ہیں اُن سے ہی خداتعالیٰ کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح آج سائنسدان اس دنیا کے وجود میں آنے کے جس نظریہ کو پیش کرتے ہیں یہی نظریہ قرآن کریم نے ڈیڑھ ہزار سال قبل پیش فرمادیا تھا۔ حضورؓ نے قرآن کریم کی تعلیمات کے ساتھ بھی سائنس کے مصدّقہ نظریات کی تطبیق کی ہے۔
حضورؓ ایک ماہر نفسیات کی طرح اپنے بیان کو مختلف واقعات سے بھی مزیّن فرماتے چلے جاتے ہیں جس سے نہ صرف مضمون کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے بلکہ ان دلائل کی تصدیق بھی ہوتی چلی جاتی ہے جو حضورؓ بیان فرما رہے ہیں ۔ مثلاً حضورؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے ساتھ ایک دہریہ پڑھا کرتا تھا۔ ایک دفعہ زلزلہ جو آیا تو اُس کے منہ سے بےاختیار ’رام رام‘ نکل گیا۔ میر صاحبؓ نے جب اُس سے پوچھا کہ تم تو خدا کے منکر ہو پھر تم نے ’رام رام‘ کیوں کہا؟ کہنے لگا غلطی ہوگئی یونہی منہ سے نکل گیا۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ دہریے جہالت پر ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کے ماننے والے علم پر۔
وجود باری تعالیٰ کے حوالے سے سبب اور مسبّب کی دلیل دیتے ہوئے حضورؓ یہ قصّہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی فلاسفر کو کوئی اَن پڑھ زمیندار مل گیا جو بدوی تھا۔ فلاسفر نے اُس سے پوچھا کہ کیا تم خدا کو مانتے ہو؟ اُس نے کہا: ہاں مانتا ہوں ۔ فلاسفر نے دلیل مانگی تو وہ کہنے لگا کہ جب جنگل میں مینگنی کو دیکھ کر اونٹ کی موجودگی کا پتہ لگایا جاتا ہے اور پاؤں کے نشانات سے پیدل چلنے والے کا پتہ لگتا ہے تو یہ ستاروں والا آسمان اور یہ زمین جس میں راستے بنے ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر کیوں نہ سمجھوں کہ خدا ہے!
حضورؓ نے ایک دلیل ہستی باری تعالیٰ کی یہ بھی دی ہے کہ انسان کو پیدائش کے ساتھ ہی نیکی اور بدی کی پہچان عطا کی گئی ہے جیسا کہ فرمایا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا (الشمس:9) چنانچہ مشہور مسیحی فلاسفر اے۔جے بلفور نے اسی دلیل کو لیا ہے اور کہا ہے کہ خوبصورت چیزوں کے حاصل کرنے کی خواہش انسانوں میں پائی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ہستی نے انسانوں میں یہ خواہش رکھی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مَیں نے ایک چور سے پوچھا کہ چوری کا مال کھانا تمہیں بُرا نہیں معلوم ہوتا؟ اُس نے کہا: بُرا کیوں معلوم ہو، کیا ہم محنت کرکے نہیں لاتے۔ فرماتے تھے کہ مَیں اَور باتیں کرنے لگ گیا اور جب مَیں نے سمجھا کہ اب پہلی بات بھول گیا ہوگا تو اُس سے پوچھا کہ چوری کتنے آدمی مل کر کرتے ہیں ؟ اُس نے کہا چار پانچ ہوتے ہیں ا ور سنار کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو مال کو پگھلا دے اور اُس کی شکل بدل دے۔ آپؓ نے کہا کہ اگر سنار اُس میں سے کچھ مال کھا جائے تو کیا کرتے ہو؟ اس پر وہ بےاختیار بولا کہ اگر سنار ہمارا مال کھا جائے تو ہم ایسے بےایمان کو مار نہ دیں ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرتِ انسانی کے اندر نیکی کا میلان اس طرح راسخ ہے کہ انسان خواہ کسی قدر بھی بگڑ جائے وہ میلان اُس کے اندر باقی رہتا ہے۔ پس فطرت میں برائی سے نفرت اور نیکی کی خواہش کا ہونا خدا کی ہستی کی بہت بڑی دلیل ہے۔
حضورؓ نے شہادت کی دلیل کو بھی ہستی باری تعالیٰ کی ایک مضبوط دلیل قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دنیا میں سارے فیصلے (مقدمات میں بھی اور علوم میں بھی) شہادت پر ہی ہوتے ہیں ۔ تمام سائنسی اور یقینی علوم کا بیشتر حصہ شہادت پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہستی باری تعالیٰ کے معاملے میں یہ دلیل باطل سمجھی جائے۔ اور پھر یہ بھی کہ خداتعالیٰ کی ہستی کی شہادت دینے والے بہترین چال چلن رکھنے والے نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورت یونس آیت 17 میں فرماتا ہے کہ اے رسول تُو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ مَیں نے تمہارے اندر ایک عمر بسر کی ہے، پھر بھی تم عقل نہیں کرتے اور میرے دعوے کو جھوٹا کہتے ہو۔
رسول کریمﷺ کے دشمنوں نے بھی اقرار کیا کہ آپؐ صادق و امین تھے۔ چنانچہ مکّہ میں ایک مجلس ہوئی کہ باہر سے جب لوگ حج پر مکّہ آئیں گے اور محمد(ﷺ) کے متعلق پوچھیں گے تو اُن کو کیا جواب دیں ، سارے ایک جواب بنالو تاکہ اختلاف نہ ہو۔ کسی نے کہا کہ یہ کہہ دو کہ اسے جھوٹ کی عادت ہے۔ اس پر نصر بن حارث کہنے لگا کہ یہ بات کوئی نہیں مانے گا اور لوگ جواباً کہیں گے کہ محمدؐ نے تم میں جوانی کی عمر بسر کی اور اُس وقت وہ تم سب سے زیادہ نیک عمل اور سچا سمجھا جاتا تھا، اب جب اُس کی کنپٹیوں میں سفید بال آگئے اور وہ تمہارے پاس ایک تعلیم لایا تو تم کہنے لگ گئے کہ وہ جھوٹا ہے۔ خدا کی قسم! ان حالات میں وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ اس پر سب نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور کوئی اَور اعتراض سوچنے لگے۔
اسی طرح ہرقل نے جب ابوسفیان سے رسول کریمﷺ کے متعلق پوچھا کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟ تو اُس نے کہا کہ آج تک تو نہیں بولا۔ اور کہا کہ آج تک کا لفظ مَیں نے اس لیے لگایا تھا تاکہ شبہ پڑسکے۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ پس اس طبقے اور اس درجے کے لوگ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے خدا سے الہام پایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو دنیا کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا ہے۔ یہ شہادت معمولی بات نہیں ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ہستی باری تعالیٰ کی آٹھویں دلیل صفات باری تعالیٰ کے حوالے سے پیش کی ہے جن پر غور کرنے سے ہزاروں ثبوت مل سکتے ہیں ۔چند صفات الٰہی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے حضورؓ نے خداتعالیٰ کی فعلی شہادت کو بیان فرمایا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں دعویٰ فرمایا کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلۃ:22) مَیں نے یہ مقرر کردیا ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہمیشہ غالب ہوں گے۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی سنّت یہ ہے کہ وہ عموماً ضعیف اور کمزور لوگوں کو نبی بناتا ہے جن کے پاس نہ کوئی فوج ہوتی ہے نہ ہتھیار، نہ دولت نہ جتّھا۔ اُن کے ذریعے دنیا کو مفتوح کراتا ہے۔ جن حالات میں رسول کریمﷺ نے عرب کو فتح کیا ہے ان کو سامنے رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ خدا کی مدد کے سوا آپؐ کو یونہی غلبہ حاصل ہوسکتا تھا۔آپؐ کے پاس نہ مال تھا نہ دولتِ علم۔ پڑھے ہوئے نہ تھے۔ آپؐ نے دعویٰ فرمایا تو لمبا عرصہ آپؐ اور آپؐ کے ماننے والوں پر ہر قسم کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ قتل کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں ۔ رات کے اندھیرے میں وطن بھی چھوڑنا پڑا لیکن چند سال بعد فاتحانہ حیثیت میں آپؐ واپس آئے۔ اس قسم کے غلبے کی مثال دنیا میں اَور کہاں ملتی ہے؟
موجودہ زمانہ میں دیکھو کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو خداتعالیٰ نے کھڑا کیا تو مولوی محمد حسین بٹالوی (جو اُس وقت ہندوستان میں بارسوخ عالم تھے)، انہوں نے کہا کہ مَیں نے ہی اس کو بڑھایا ہے اور مَیں ہی اسے تباہ کروں گا۔ مگر دیکھو کہ کون مٹ گیا اور کون بڑھا۔ مولوی محمد حسین صاحب کا اب کوئی نام بھی نہیں لیتا حالانکہ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت سے قبل جب وہ کہیں جاتے تھے تو لوگ سڑکوں پر جمع ہوجاتے تھے اور کھڑے ہوہوکر تعظیم کرتے تھے۔ غرض انہوں نے مخالفت کی تو گورنمنٹ بھی ناراض تھی کیونکہ حضورؑ نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور مہدی کے متعلق مسلمانوں نے جو غلط خیال بنائے ہوئے تھے اُن کی وجہ سے گورنمنٹ آپؑ پر بہت بدظن تھی۔ غرض ہر طرف سے آپؑ کی مخالفت ہوتی تھی۔ مولویوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور عوام نے اپنی طرف سے کمی نہ چھوڑی مگر نتیجہ کیا نکلا۔
ایک اعتراض خداتعالیٰ کی صفت تکلّم پر یہ کیا جاتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ انسانوں سے کلام کرتا ہے تو پھر مذاہب میں اختلاف کیوں ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے تو ایک ہی تعلیم ملتی ہے لیکن بعد میں آنے والے اس میں اپنی طرف سے باتیں ملادیتے ہیں اس لیے اختلاف ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مذاہب میں اختلاف کا کچھ حصہ زمانہ کی ضروریات کے ماتحت ہوتا ہے مگر دراصل وہ اختلاف نہیں کہلاسکتا۔ مثلاً طبیب ایک نسخہ لکھتا ہے مگر جب مریض کی حالت بدل جاتی ہے تو دوسرا لکھتا ہے۔ اسے اختلاف نہیں کہا جاسکتا بلکہ ضرورت کے ماتحت جیسا مناسب تھا ویسا کیا گیا۔ چنانچہ دیگر فرقوں میں جو بعض اختلافات ہیں اور بڑھ کر جھگڑے بن جاتے ہیں اُنہیں حضرت مسیح موعودؑ نے ایک ہی فقرے میں حل کردیا۔ چنانچہ آمین اونچی کہنی بھی جائز ہے اور نیچی بھی۔ ہاتھ اوپر باندھے جائیں یا نیچے، دونوں طرح جائز ہے۔ اسی طرح سب باتوں کا فیصلہ ہوگیا اور کوئی جھگڑا نہ رہا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بیسیوں واقعاتی شہادتیں پیش کرتے ہوئے متعدّد صفات باری تعالیٰ پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے یہ دعویٰ کیا کہ خدا مجھ پر علمِ غیب ظاہر کرتا ہے تو ایک پادری نے کہا کہ مَیں چند سوال لکھ کر بند کرکے رکھ دوں گا آپؑ خدا سے معلوم کرکے بتادیں کہ کیا سوال ہیں ۔ حضورعلیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ ہم تمہاری یہی بات مان لیتے ہیں بشرطیکہ عیسائیوں کی ایک جماعت اقرار کرے کہ صحیح جواب ملنے پر وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ ورنہ خدا تماشا نہیں کرتا کہ لوگوں کی مرضی کے مطابق جس طرح وہ کہیں نشان دکھاتا رہے۔
یہاں تک اس کتاب کے ابتدائی ابواب کے محض چند مضامین ہی اشارۃً پیش کیے جاسکے ہیں ۔ ورنہ اس کتاب کے ہر باب میں سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت میں ایسے عظیم الشان دلائل کا دریا بہادیا ہے جن کا انکار کرنا کسی صاحبِ بصیرت کے لیے ممکن ہی نہیں ۔ یہ مستند عقلی و نقلی دلائل عام فہم بھی ہیں اور فلسفے کے دلدادہ اور علومِ جدیدہ پر دسترس رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے بھی حجّت ہیں ۔ تاریخِ عالم کے زرّیں واقعات سے مزیّن یہ دلائل انسانی عقل کے قریباً ہر معیار پر پورا اُترنے کے ساتھ ساتھ خداتعالیٰ کی فعلی شہادت کے بھی عکاس ہیں اور بلاشبہ کسی چشمۂ حیات میں جاری مصفّٰی آب رواں کی طرح اپنے قاری کے قلب و ذہن کو اس طرح سیراب کرتے چلے جاتے ہیں کہ وہ ایک سحر میں گرفتار ہوکر اس مضمون میں محو ہو جاتا ہے۔ حضورؓ کا منفرد انداز بیان ایسا پُرلطف اور دل نشیں ہے کہ ذکرالٰہی اور صفات الٰہی کے بیان میں قاری کی روح وجد میں آنے لگتی ہے اور دل و نظر اُس خالق کون و مکان کے حضور اپنا سب کچھ پیش کردینے کے لیے بےقرار نظر آتے ہیں ۔
الغرض ہستی باری تعالیٰ کے حوالے سے جن لوگوں کے ذہنوں میں کوئی بھی اچھوتے سوال جنم لیتے ہیں اس کتاب کا مطالعہ اُن سب کے لیے مفید اور اطمینانِ قلب کا باعث ہے۔ نیز اُن افراد کے لیے بھی اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے جو ہستی باری تعالیٰ کے حوالے سے اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا میں پھیلتی ہوئی دہریت کا مؤثر سدّباب کرسکیں ۔ ہم احمدیوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعے خداتعالیٰ پر ایمان میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ صفاتِ الٰہی کے حوالے سے خالق حقیقی کے ساتھ ایک زندہ اور ذاتی تعلق پیدا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کتاب کا مطالعہ تمام مذاہب کے اُن پیروکاروں کے لیے بھی مفید ہے جو خداتعالیٰ کے پاکیزہ مُرسلین کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہیں ۔ اور اُن مسلمانوں کے لیے بھی اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے جو صفات الٰہی میں بعض اولیاءاللہ کو شریک قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اس طرح انجانے میں شرک کے مرتکب ہوسکتے ہیں ۔ نیز اس کتاب کا مطالعہ ایسے اہل علم کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہوگا جو مختلف مذاہب اور اقوام کے عقائد جاننے کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دیگر مذاہب کی تعلیمات کا موازنہ اور تقابلی جائزہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ اس طرح سے کیا جاسکے کہ اسلامی تعلیمات کی برتری اظہر من الشمس دکھائی دے۔
بسم اللہ الرحمان الرحیم
براہین احمدیہ پر آپ کا شمارہ پڑھا۔ بہت ہی کارآمد خزانہ آپ کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزا دےتمام لکھنے والوں کے اموال و نفوس میں بے پناہ برکٹ دالے۔ آمین
اللھم زد فزد