الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں ۔
وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ذہین و فہیم ہونے سے متعلق ایک جامع اورتحقیقی مضمون روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4، 5 اور 6؍مارچ 2015ء میں مکرم جمیل احمد بٹ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے مسیح موعودکی ایک علامت یہ بیان فرمائی تھی: ’یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ (مشکوٰۃ مجتبائی) یعنی وہ شادی کرے گا اور اس کو اولاد دی جائے گی۔
شادی کرنا اور اس کے نتیجہ میں اولاد کا پیدا ہونا ہر انسانی زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن اس کا بطور علامت ذکر ہونا ایسی پیشگوئی تھی جس کی تفصیل حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوئی اور اسے آپؑ نے 20فروری 1886ء کو تحریر فرما کر اخبار ’ریاض ہند‘ امرتسر میں شائع کروایا۔ یعنی ایک ایسے بیٹے کا پیدا ہونا جس کا نصف صد سے زائد ایسی صفات کا حامل ہونا جن میں سے بعض صفات کے پورا ہونے کے لیے لمبی عمر اور اعلیٰ حیثیت بھی ضروری تھی۔ اتنے مختلف النوع امکانات کا یکجا ہوجانا ایک انہونی بات تھی۔ اس بیٹے کی ان مذکورہ صفات میں سے ایک خبر یہ تھی کہ وہ ’سخت ذہین و فہیم ہو گا‘۔
حضرت مصلح موعودؓ اپنی عام زندگی میں بھی ایک زیرک انسان تھے۔ اتنا ہونا بھی اس علامت کو پورا کرسکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تابع آپؓ کو ایسی زندگی عطا ہوئی جس کا دائرہ کار اور اثر پذیری دنیا بھر پر محیط تھی۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں برصغیر اور کئی دیگر خطّوں کی مسلم اقوام نے آزادی کی کامیاب جدوجہد کی۔ حضورؓ کو اپنی خداداد ذہانت اور فہم کی بدولت اس سارے عرصے میں ان سارے محاذو ں پر انتہائی اہم اور روشن کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور بنی نوع انسان نے وسیع پیمانے پر آپؓ سے فیض پایا۔
ایک زیرک انسان
عقل و دانش انسان کو مشکل حالات میں زندگی کے معمولات کو بہتر طریق پر بجا لانے اور حالات کے مطابق درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت بخشتی ہے۔ اس خوبی کا مالک قائدانہ صلاحتیوں کا مالک ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی کامیاب و کامران زندگی کا ہر قدم یہ گواہی دیتا ہے کہ آپؓ سخت ذہین و فہیم تھے۔ دنیابھر سے سیاسی راہنما، مسلم قائدین، جماعتی عہدیدار اور مختلف پس منظر رکھنے والے سینکڑوں افراد روزانہ آپؓ سے مشوروں کے طالب ہوتے اور آپؓ کی فہم و فراست اور عقل و دانش سے فیض یاب ہوتے۔
حضرت مصلح موعودؓ کا ذہین وفہیم ہونا کم عمری سے ہی نمایاں تھا۔ پیدائشی احمدی ہوتے ہوئے آپؓ نے9 سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ گیارہ سال کی عمر میں آپؓ نے یہ عجیب تجربہ کیا۔ فرمایا: میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خداتعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں ۔ اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتارہاآخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے وہ گھڑی میرے لیے کیاخوشی کی گھڑی تھی۔
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں : حضرت مسیح موعو دؑ ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کر کے گھر واپس تشریف لائے تو حضرت میاں صاحب سے جن کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی ہو گی پوچھا: میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیاتقریر کی تھی؟ میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا تو حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے: ’’خوب یاد رکھا ہے۔‘‘
عام زندگی میں بھی آپؓ کی ذہانت اور فراست ہمیشہ حیران کن رہی۔ گھر میں عطر کی شیشیوں سے بھری چاربڑی الماریوں میں سے کسی خاص عطر کی شیشی کی یوں نشان دہی فرمانا کہ فلاں کونے کی الماری کے فلاں خانے کے بائیں کونے میں کٹ وک کی شیشی رکھی ہے۔ اورگھر سے باہر کیمبل پور جیسی دُور افتادہ جگہ پر اسٹیشن پر جمع احباب کا مقامی شخص کے تعارف کروانے میں غلطی پا کر آپؓ کا ملاقاتی کو صحیح نام سے مخاطب کرنا، سامعین کے لیے حیران کن تجربہ ہوتا۔
1960ء میں بیماری کے عالم میں آپؓ کے ایک ملاقاتی حکیم یوسف حسن صاحب کے لیے اس وقت ایسی ہی حیرت کا سامان ہوا جب آپؓ کے بتانے پر انہیں بمشکل یاد آیا کہ وہ زمانہ پہلے ایک دفعہ حضرت صاحب کی ایک بیٹی کے علاج کے لیے قادیان تشریف لائے تھے۔
مکرم مولانا عبدالرحمٰن انور صاحب 30سال آپؓ کے سیکرٹری رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں :
i۔یہ امر اکثر دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ بہت لمبی لمبی حساب کی میزانوں کو حضور پلک جھپکنے میں کر لیتے اور پیچیدہ حسابی معاملات تو منٹوں میں حل ہو جاتے۔
ii۔ بڑے بڑے تاجر جب حضور ؓکی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے تو حضورؓ کے مشوروں سے فائدہ اٹھاتے اورسر دھنتے۔
٭… حضورؓ میں عام سے واقعات کے پس پردہ بڑے امکانات کو اخذ کرنے کی زبردست صلاحیت تھی۔ چنانچہ آپؓ اگست 1924ء میں چار دن اٹلی میں ٹھہرے تو اس دوران آپؓ نے عام مشاہدے سے جو نتیجہ نکالا وہ آپؓ کے الفاظ میں یوں تھا: اس وقت فاشسٹ پارٹی کا پوری طرح غلبہ نہیں ہوا تھا جس کا علم ہمیں اس طرح ہوا کہ فاشسٹ پارٹی کا یہ نشان تھا کہ وہ سیاہ قمیض پہنتے تھے ۔مگر مَیں نے روم، وینس، اٹلی کے شہروں میں دیکھا کہ بہت کم لوگ تھے جو سیاہ قمیض پہنے ہوئے تھے یا سیاہ ٹائی یا بیج لگائے ہوئے تھے۔
اسی سفر کے دوران فلسطین میں اپنے مشاہدہ اور اس کا حیرت انگیز نتیجہ نکالنے کا ذکر یوں فرمایا: قوموں کی حرکت دیکھنے کا ذریعہ اسٹیشن ہوتے ہیں جہاں پر پتا لگ جاتا ہے کہ قوم کے اندر کیسی حرکت پائی جاتی ہے۔فلسطین کے ریلوے اسٹیشنوں پر مَیں نے آبادی کے لحاظ سے دس فیصدی یہودیوں کو نوّے فیصد کی تعداد میں دیکھا اور آبادی کے لحاظ سے نوے فیصد مسلمان اور عیسائی دس فیصد نظر آئے۔ قوموں میں حرکت بڑی اہمیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں سفر کرنے اور سیروا فی الارض کا بار بار ذکر آتا ہے۔
تحدیثِ نعمت
اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو جو دماغی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں ، ان کا بطور تحدیث نعمت آپؓ نے یوں ذکر فرمایا:
i۔ اگر کوئی پرانی بات بھی میرے مطلب کی ہو تو مجھے بہت یاد رہتی ہے۔کام کی چیز مجھے بیس سال کے بعد بھی یاد رہتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے پڑھتے یاسنتے وقت میں نے اس کی طرف دماغ کو متوجہ کیا۔ بعض دوستو ں کے خطوط کے جواب جب مَیں دودو تین تین ماہ کے بعد لکھواتا ہوں تو مَیں افسر ڈاک کو بتا دیتا ہوں کہ اس نے یہ نہیں بلکہ یہ لکھا ہے۔
ii۔ میں اپنے تجربے کی بِنا پر بھی اور اس علم کی بِنا پر جو خداتعالیٰ نے انسانی فطرت اور دماغ کے متعلق مجھے دیا ہے اور بغیر اس کے متعلق کوئی کتابیں پڑھنے کے مجھے ایسا باریک علم عطا کیاہے کہ بسا اوقات و ہ الہام کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ انسان کی شکل دیکھتے ہی اس کے تأثرات، جذبات، احساسات ایسے باریک طور پر میرے دل پر منکشف ہو جاتے ہیں کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ الہام خفی ہوتا ہے۔
iii۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو خدا تعالیٰ نے سلطان القلم قرار دیاتھا اس کے مقابلہ میں اس نے مجھے اتنا بولنے کا موقع دیاکہ مجھے سلطان البیان بنا دیا ۔
iv۔ مَیں خدا کے فضل سے بہت تیز لکھ سکتا ہوں اور مَیں نے کسی کو نہیں دیکھاکہ مجھ سے تیز لکھ سکتا ہو۔ میں مضمون کے سَو سوا سَو صفحے ایک دن میں لکھ سکتا ہوں ۔
v۔ کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو یا سیاست ہو، مَیں اس پر جب غور کروں گا ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچوں گا۔… اور چونکہ قرآن مجید کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں اس لیے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل کرنا نہیں پڑا۔
vi۔ میرے ناک کی حس غیر معمولی طور پر تیز ہے یہاں تک کہ میں دودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے۔
سیاسی زعماء اور اہل علم شخصیات سے تعلق
حضرت مصلح موعودؓ کی خدادا د دانش اور حکمت ایک مقناطیس کی مانند نامور سیاسی زعماء اور ادیبوں صحافیوں کے لیے کشش رکھتی تھی۔ ایک بار کی ملاقات انہیں آپؓ کا گرویدہ کردیتی۔ وہ آپؓ سے خط و کتابت کرتے اور دوبارہ ملاقات کی تمنّا رکھتے۔ اسی سبب آپؓ کا برصغیر کے چوٹی کے مسلم زعماء اور ہندو لیڈروں سے ذاتی تعلق تھا۔ اکثر یہ ملاقاتیں رسمی یا محض خیرسگالی کے لیے نہ تھیں بلکہ ان کا مقصد اہم مسائل کے حل کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے دانشمندانہ مشورہ کا حصول ہوتا۔ ان سیاسی زعماء میں قائداعظم محمد علی جناح، نواب سرذوالفقار علی خان، مولانا شوکت علی جوہر، مولوی ظفر علی خان، مولانا عبدالباری فرنگی محل، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا ابوالکلام آزاد، نواب بھوپال، خواجہ ناظم الدین، نواب لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، سر فیروز خان نون، نواب سر سعید احمد خان چھتاری، خان بہادر اللہ بخش (وزیراعلیٰ سندھ)، خان بہادر راجہ اکبر علی، خان عبدالغفار خان، شیخ محمد عبداللہ،مسٹر گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو،مسز سروجنی نائیڈو،پنڈت مدن موہن مالویہ، ڈاکٹر مونجے، لالہ جپت رائے اور مسٹر سری نواس آئنیگر شامل ہیں ۔
سردار شوکت حیات خان نے 1945ء میں قائداعظم محمد علی جناح کا ایک پیغام پہنچانے کے لیے قادیان کا سفر کیا جس کی روداد انہوں نے اپنی کتاب ’گمشدہ قوم‘ میں بیان کی۔
اسی طرح آپؓ سے مراسم رکھنے والے ادیب،شاعراور صحافیوں میں مولانا محمد علی جوہر، شمس العلماء خواجہ حسن نظامی، مولانا سید حبیب مدیر سیاست، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، علامہ احسان اللہ خان تاجور، منشی محمد الدین فوق مؤرخ کشمیر، سیماب اکبر آبادی، شوکت تھانوی، حفیظ جالندھری،مرزا فرحت اللہ بیگ، حکیم محمد یوسف حسن ایڈیٹر نیرنگ خیال، مولانا صلاح الدین احمد مدیر ادبی دنیا، وقار انبالوی، عبدالرحمٰن چغتائی، سید ابو ظفر نازش رضوی، جوش ملیح آبادی، سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی اورسید عبدالقادر پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور شامل ہیں ۔
حضورؓ نے مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بعض انگریز نمائندوں سے بھی ملاقات کی جن میں وزیر ہند مانٹیگو اور 1927ء میں گورنر پنجاب شامل تھے۔ 1946ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول سے آپؓ کی خط و کتابت رہی۔
حیرت انگیز دانش مندانہ راہنمائی
حضورؓ اپنی خداداد دانش اورفہمِ رسا کی بدولت اُمّت مسلمہ کی بہتری کی خاطر قومی اور ملکی معاملات پر گہری نظر رکھ کر ان کا حل تجویز کرتے اور اس حل پر عمل درآمد کے لیے راستہ بھی۔ پھر تکلیف اور مشقّت اٹھا کرازخود اپنی رائے، تجاویز اور راہنمائی متعلقہ لیڈروں تک پہنچانے کے لیے اقدام کرتے۔ نیز قومی اہمیت کی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں خود شریک ہوکر زیربحث گتھیوں کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کرتے۔ نمونے کے طور پر چند معاملات پیش ہیں :
i۔ ترکی حکومت کا خاتمہ: جنگ عظیم اوّل میں ترکی کی اسلامی حکومت کا جرمنوں سے اشتراک کر کے میدان جنگ میں کود پڑنا اپنے نتائج کے لحاظ سے بعد میں پوری اُمّت مسلمہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔آپؓ نے اس نتیجہ کو پہلے دن ہی دیکھ کر 9نومبر 1914ء کو ایک مضمون میں اسے بالکل بےسبب اور بے وجہ قرار دیا اور فرمایا: اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ معلوم نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ترکوں کو ان کی بداعمالیوں اور ظلموں کی سزا دینا چاہتا ہے۔
جنگ میں فتح کے بعد اتحادیوں نے انتہائی غیرمنصفانہ انداز میں سلطنت ترکی کے حصے بخرے کر دیے اور دیگر ذلّت آمیز شرائط مسلّط کیں ۔ اس کے ردّ عمل کے طور پر ہندوستان میں ہجرت، جہاد اور ترک موالات کی تجاویز پیش ہوئیں ۔حضرت مصلح موعودؓ نے ان سب تجاویز کو مسلمانوں کے حق میں نقصان دہ دیکھا اور جمعیت العلمائے ہند کے لیڈر مولانا عبدالباری فرنگی محل کی دعوت پرخلافت کمیٹی کے تحت منعقدہ کانفرنس 1920ء کے لیے ایک رسالہ بعنوان ’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘ میں ان مضرات کودرج فرمایا۔جس میں منجملہ یہ بھی لکھا: اس تجویز پر عمل کر کے مسلمانوں کی رہی سہی طاقت بھی ٹوٹ جاوے گی۔ پس سوائے اس کے کہ اس فیصلہ سے لاکھوں مسلمان اپنی روزی سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور تعلیم سے محروم ہوجاویں اور اپنے حقوق کو جو پہلے ہی تلف ہو رہے ہیں اَور خطرہ میں ڈال دیں اَور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔
تاہم حضورؓ کی رائے کو نظر انداز کرکے مسلمان لیڈروں نے مسٹر گاندھی کی قیادت میں یکم اگست 1920ءکو عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی اور ساتھ ہی مسٹر گاندھی کی مدح سرائی بھی۔ مولوی مودودی نے ’سیرت گاندھی‘پر کتاب لکھی۔ مولوی ظفر علی خان نے کہا: مہاتما گاندھی نے مسلمانوں پر جو احسان کیے ہیں ان کا عوض ہم نہیں دے سکتے۔ ہمارے پاس زر نہیں ، جان جب چاہیں ہم حاضر ہیں ۔
لیکن نتائج وہی نکلے جیسے حضورؓ نے خیال کیے تھے۔ چنانچہ اٹھارہ ہزار مسلمان اپنا گھربار اور اسباب اونے پونے بیچ کر افغانستان ہجرت کر گئے۔ وہاں سے واپس کیے گئے تو کچھ مر کھپ گئے، باقی تباہ حال، درماندہ، قلاش اور تہی دست واپس پہنچے۔ اگر اسے ہلاکت نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں ۔
ii۔ تحفّظِ ناموسِ رسالت: 1927ء میں ہندوستان میں ایک آریہ نے آنحضرت ﷺ کے خلاف ایک توہین آمیز کتاب ’رنگیلا رسول‘ اور ایک ہندو رسالہ ’ورتمان‘ میں ایک ہتک آمیز مضمون شائع کیا۔ آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس پر ان ناپاک حملوں کی روک تھام اور ان کے دفاع کے لیے حضورؓ نے کئی بار مسلمانان ہند کی راہنمائی فرمائی۔ مثلاً
A۔ 29مئی 1927ء میں آپؓ نے ایک پوسٹر بعنوان ’رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے ؟‘ شائع فرمایا جس میں آپؓ نے وقتی جوش دکھانے کی بجائے ہندوئوں سے مقابلے کے لیے تین حل تجویز کیے : ۱۔ مسلمان اپنی اصلاح کریں اور دین سے لاپرواہی چھوڑدیں ۔ ۲۔ پوری دلچسپی سے اسلام کی تبلیغ کریں ۔ ۳۔ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لیے سرتوڑ کوشش کریں ۔(آپؓ کا یہ پوسٹر حکومت نے ضبط کرلیا)
B۔23جون 1927ء کو آپؓ نے ایک مضمون بعنوان ’رسول کریم ﷺ کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض‘ تحریر فرمایا اور مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وقتی جوش کی بجائے استقلال کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تبلیغ کی طرف پوری توجہ دیں ، ہندوئوں کی دکانوں سے کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کی بجائے اپنی دکانیں بنائیں تاکہ مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو۔ اور اپنے سیاسی حقوق کے لیے کوشش کریں ۔
C۔ اس نازک وقت میں تحفظ ناموس مصطفیٰ ﷺ کے لیے ایک پُر امن اور مؤثر عملی تحریک کی طرف راہنمائی کے لیے آپؓ نے جولائی 1927ء میں ایک مضمون بعنوان ’کیا آپؓ اسلام کی زندگی چاہتے ہیں ؟‘ لکھا جس میں مسلمانوں کو بہت ہی اہم نصائح فرمائیں ۔ حضورؓ کی اس دانشمندانہ قیادت کا اس زمانے کے انصاف پسند مسلم پریس نے برملا اعتراف کیا۔ مثلاً اخبار ’مشرق‘ نے لکھا: جناب امام جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں ۔ آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلایا گیا۔ آپ ہی کی جماعت نے رنگیلا رسول کے معاملہ کو آگے بڑھایا سرفروشی کی اور جیل خانہ جانے سے خوف نہ کھایا۔ آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر پنجاب کو انصاف اور عدل کی طرف مائل کیا۔
D۔17جولائی 1927ء کو حضورؓ نے ایک مضمون بعنوان ’اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے‘لکھا اور جوش و جذبہ کے اظہار کے لیے متبادل راہیں تجویز کیں ۔ فرمایا: جو لوگ سول نافرمانی کے لیے تیارہوں وہ ذرا ہمت دکھائیں اور جو وقت ان کے پاس فارغ ہو اسے تبلیغ اسلام پر خرچ کریں ۔ اگر فارغ ہیں تو ہزاروں گائوں جن میں سودا ہندو بنئے سے لیاجاتا ہے وہاں جا کر ایک دکان کھول لیں اور اس طرح مسلمانوں کو ہندو دکاندار کے ذلت آمیز سلوک سے محفوظ کریں ۔ اے دوستو!یہ کام کا وقت ہے جیل میں جانے کا وقت نہیں ۔ بےفائدہ جوش سے اپنی قوتوں کو ضائع نہ کیا جائے اور خواہ مخواہ دشمن کے تیا ر کردہ گڑھوں میں نہ گرا جائے ۔
E۔ 22؍جولائی کو ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی جلسوں کے لیے اپنے پیغام بعنوان ’اسلام کے غلبہ کے لیے ہماری جدوجہد‘ میں حضورؓ نے فرمایاکہ ’اصل کام اس جلسہ کے بعد شروع ہو گا۔‘ آپؓ نے تجویز کیا کہ ’ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں کمیٹیاں بننا چاہئیں جو دلیری اور جرأت سے اسلامی حقوق کے لیے مناسب کوشش کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ تبلیغ، اتحاد باہمی، بنئے کے سود سے پرہیز، گورنمنٹ سے اپنی تعداد کے مطابق حقوق کا مطالبہ، سرحدی صوبہ کو نیابتی حقوق دلوانے کی کوشش کریں ۔‘
F۔جب ورتمان کے مقدمے میں مجرمان کو سزائیں ہوئیں تو یہ عام طور پر خوشی کا موقع اور جدوجہد کاماحصل سمجھا گیا۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ کا دانش مندانہ ردّعمل یوں شائع ہوا: میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا اپنے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال جیل خانہ کو نہیں قرار دیتا۔ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے کیونکہ میرا آقا دنیا کوجِلا دینے کے لیے آیا تھا، نہ کہ مارنے کے لیے۔ پس میں اپنے نفس سے شرمندہ ہوں کہ اگر یہ دو شخص اس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا ہوئی تھی تو کیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے؟ پس میں اپنے آقا سے شرمندہ ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش درحقیقت مسلمانوں کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے۔قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے نہ دل کا۔ اور میرے لیے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہ ﷺ کا بغض نکل کر اس کی جگہ آپؐ کی محبت قائم نہ ہو جائے۔
عالم اسلام کی فلاح وبہبود
عالم اسلام کے دیگر ممالک بھی آپؓ کے فہم و تدبر سے متمتع ہوئے۔جیسا کہ ان چند واقعات سے ظاہر ہے :
i۔ شاہ سعود کو مشورہ: آپؓ نے ایک موقع پر فرمایا: سلطان ابن سعود ایک سمجھ دار بادشاہ ہیں مگر بوجہ اس کے کہ یورپین تاریخ سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے وہ یورپین اصطلاحات کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔ ایک دفعہ جب وہ اٹلی سے معاہدہ کرنے لگے تو ایک شخص کو جو اُن کے ملنے والوں میں سے تھے، اُن کو مَیں نے کہا کہ میری طرف سے سلطان ابن سعود کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ معاہدہ کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں یورپین اقوام کی عادت ہے کہ وہ الفاظ نہایت نرم اختیا ر کرتی ہیں مگر ان کے مطالب نہایت سخت ہوتے ہیں ۔
ii۔ انڈونیشا کی آزادی: حضورؓ نے فرمایا: سماٹرا جاوا میں تحریک (آزادی) چل رہی ہے۔ اگر وہ کامیاب ہوجائے تو یہ جزائر اسلامی تعلیم کو پھیلانے اور اسلامی عظمت کو قائم کرنے میں بہت ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ اسلامی ممالک نے ان کی تائید میں بہت کم آواز اٹھائی ہے۔پس سخت ضرورت ہے کہ اخباروں میں ، رسالوں میں ، اجتماعوں میں مسلمان اپنے بھائیوں کے حق میں آواز اٹھائیں اور اُن کی آزادی کا مطالبہ کریں ۔ اگر اب ان کی امداد اور حمایت نہ کی گئی تو مجھے خدشہ ہے کہ ڈَچ ان کی آواز کو بالکل دبا دیں گے۔ اگر انڈونیشیا کے لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ اس آزادی کی جنگ میں آپ لوگ اکیلے نہیں لڑرہے بلکہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں تو وہ بہت زیادہ جدوجہد کریں گے اور امید کی جاسکتی ہے کہ ان کو جلد آزادی مل جائے۔
iii۔ فلسطین میں یہود کی آبادی: فلسطین میں اسرائیل کا قیام اس اسکیم کا منطقی نتیجہ تھا جس کے تحت مغربی طاقتوں نے اس سے پہلے سالوں میں اس خطے میں یہود کو بکثرت آباد کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے فہم وفراست سے اس سازش کو ابتدا ہی میں بھانپ لیا اور 1945ء میں اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے فرمایا: صدرٹرومین تاریں دے رہے ہیں کہ یہود کو فلسطین میں آباد ہونے دیا جائے۔ وہ خود 51 لاکھ مربع میل کے ملک پر قابض ہیں مگر اپنے ہاں یہودیوں کو آباد نہیں ہونے دیتے اور فلسطین کا علاقہ زیادہ سے زیادہ 50ہزار مربع میل سمجھ لو وہاں یہود کے آبادکرنے پر زور دے رہے ہیں ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ یہودی ہمارے ہاں آبسیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہود کو فلسطین میں بسنے دو ورنہ وہ کہاں جائیں ۔ یہ کہتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی اور دنیامیں کوئی نہیں پوچھتاکہ 99گنا زیادہ علاقہ رکھتے ہوئے امریکہ، 99گُنا زیادہ علاقہ رکھتے ہوئے آسٹریلیا اور 99گُنا زیادہ علاقے کی کالونیز رکھتے ہوئے انگریز کیوں یہود کو اپنے ممالک میں بسانے کے لیے تیار نہیں ؟
iv۔ قیام اسرائیل : اسرائیل کا قیام ہو جانے پر آپؓ نے اپنے فکرانگیز مضمون بعنوان اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَہ میں عالم اسلام کو اس مسئلہ کے حل کی طرف یوں متوجہ کیا: دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابلہ پر اکٹھا ہو گیا ہے کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھانہ ہو گا؟ ہمارے لیے یہ سوچنے کا موقع آگیا ہے کہ کیاہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہیے یا اکٹھا ہو کر فتح کے لیے کافی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اگر پاکستان کے مسلمان واقع میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی حکومت کو توجہ دلائیں کہ ہماری جائیدادوں کا کم سے کم ایک فی صد ی حصہ اس وقت لے لے۔ ایک فی صدی حصہ سے بھی پاکستان کم سے کم ایک ارب روپیہ اس غرض کے لیے جمع کر سکتا ہے۔ پاکستان کی قربانی کو دیکھ کر باقی اسلامی ممالک بھی قربانی کریں گے اور یقینا ًپانچ چھ ارب روپیہ جمع ہو سکے گا جس سے فلسطین کے لیے باوجود یورپین ممالک کی مخالفت کے آلات جمع کیے جا سکتے ہیں ۔
v۔ عالم اسلام کی تنظیم : 12دسمبر 1948ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے لاہور لاء کالج میں جسٹس ایس اے رحمان کی زیرصدارت ایک لیکچر بعنوان ’موجودہ حالات میں عالم اسلام کی حیثیت اور اس کا مستقبل‘ دیا۔حضورؓ نے فرمایا کہ جب اسلامی ممالک سے معاملہ پڑنے پر یورپ خود ان کی ایک جداگانہ حیثیت قرار دیتا ہے تو کیوں نہ اسلامی ممالک آپس میں اس قسم کا اتحاد کر کے صحیح معنوں میں ایک عالم اسلام قائم کر لیں جس کا ہر رکن اپنے ملک کی قومیت کے علاوہ اپنے آپؓ کو ایک بڑی قومیت یعنی عالم اسلام کا رکن قرار دے ۔
برّصغیر کے مسلمانوں کی عمومی خیر خواہی
i۔ مسلم لیگ اور کانگریس نے 1913ء میں میثاق لکھنؤ کے تحت ہر صوبے میں اقلیتوں کو زیادہ نشستیں دینے کے فارمولے پر اتفاق کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی فراست سے سب سے پہلے یہ محسوس کیا کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا ۔ چنانچہ ایک احمدی وفد نے وزیر ہند مسٹر مانٹیگو سے ملاقات کی اور یہ تجویز کیا کہ کوئی ایسا طریق انتخاب نہ اختیار کیا جائے جس سے کم اکثریت رکھنے والی جماعت کو نقصان پہنچے۔ یہ درست رائے تھی اور بالآخر قائد اعظم نے 1929ء میں اپنے 14نکات میں تیسرے نمبر پراسے شامل کیا۔
ii۔ ہندو مسلم فسادات کے پس منظر میں 14نومبر 1923ء کو لاہور میں ایک پبلک لیکچر میں حضورؓ نے مسلمانوں کے لیے سات خود حفاظتی اقدامات تجویز کیے اور ہندو مسلم صلح کے لیے سات اصول بیان فرمائے۔اس جلسہ کے صدر خان بہادر عبدالقادر صاحب تھے جنہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا: مرزا صاحب نے جامع اور پُر مغز تقریر فرمائی ہے اور اتفاق و اتحاد کے ہر پہلو پر نگاہ ڈالی ہے ۔
iii۔ حضرت مصلح موعودؓ کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 23مئی 1924ء میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ آپؓ نے اس موقع پر ایک اہم رسالہ بعنوان ’اساس الاتحاد‘ تحریر فرمایا جو وہاں تقسیم کیا گیا۔ آپؓ کا پیغام تھا کہ مسلم لیگ کا دروازہ ہر مسلمان کہلانے والے کے لیے کھلا رکھا جائے۔ آپؓ کا یہ مشورہ بالآخر مسلم لیگ نے تسلیم کیا اور مسلم لیگ کانفرنس میرٹھ میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس کا اعلان کیا۔
iv۔جولائی 1925ء میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس امرتسر میں زیر صدارت نواب اسمعٰیل خان صاحب بیرسٹر (ممبر لیجسلیٹو اسمبلی)منعقد ہوئی۔ دعوت نامہ موصول ہونے پر حضورؓ نے زیربحث مسائل پر اپنی رائے رسالہ بعنوان ’آل پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر‘ شائع کرکے ایک وفد کے ہاتھ بھجوایا۔ اس رسالہ کے مندرجات میں بِلاسُود بنکاری، بیت المال کا قیام، عورتوں کی تعلیم،مسلم چیمبر آف کامرس اور بورڈ آف انڈسٹریز کے قیام جیسے تصورات پیش کیے گئے ہیں ۔
v۔ دسمبر 1926ء میں ایک مسلمان کے ہاتھوں شدھی تحریک کے علمبردار پنڈت شردھانند کے قتل کے بعد ملک بھر میں ہندو مسلم کشیدگی بڑھ گئی تو حضورؓ نے وائسرائے ہند لارڈ ارون کے نام ایک خط کے ذریعہ اس کشیدگی کو کم کرنے لیے اہم تجاویز بھجوائیں ۔ نیز لاہور میں ایک لیکچر کے ذریعہ ہندو مسلم فسادات کی وجوہ، ان کا علاج اور ان پر قابو پانے کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز فرمایا۔آپؓ کا یہ لیکچر 2مارچ 1927ء کو زیر صدارت خان بہادر سرمحمد شفیع صاحب ہوا۔
vi۔ مئی 1927ء میں لاہور میں ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں دو سو افراد ہلاک اور تین سو زخمی ہوئے۔ حضورؓ نے ’فسادات لاہور پر تبصرہ‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں مسلمانانِ لاہور کی راہنمائی فرمائی جس میں یہ دُوررَس مشورہ بھی شامل تھا کہ مسلمان سکھ صاحبان سے تعلقات بڑھائیں ۔ حضورؓ نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے 32نکات پر مشتمل ایک اسکیم بھی تحریر فرمائی جس میں مسلمانوں کی معاشی ترقی کے لیے انتہائی مفید اور قابل عمل تجاویز شامل تھیں ۔
حضورؓ نے ایک پمفلٹ زیر عنوان ’اسلام کی آواز‘ بھی شائع فرمایا جس میں مسلمانوں کے لیے امن کی حقیقی راہ کی طرف راہنمائی فرمائی کہ مسلمانوں کی تربیت کریں اور انہیں مُرتد ہونے سے بچائیں ، نیز تبلیغ کی طرف توجہ دیں ۔
vii۔ 30اگست 1927ء کو شملہ میں منعقدہ ہندو مسلم اتحاد کانفرنس میں قائداعظم، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی، مولوی ظفر علی خان اور دیگر زعماء شریک ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی 7ستمبر کو دوسرے اجلاس میں ہندو مسلم اتحاد کے لیے 20اہم تجاویز پیش فرمائیں اور اُن بنیادی اصولوں کی نشان دہی فرمائی جن پر مسلمانوں کے اقتصادی حقوق کی حفاظت ہوسکتی تھی۔ مثلاً ہندو چھوت چھات کے توڑ کے لیے مسلمان دکانیں کھولیں ، ہندو ساہوکاروں سے نجات کے لیے مسلم کوآپریٹو بینک کھولنے، تعلیمی اداروں میں ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعداد کے مطابق کوٹہ کی تخصیص وغیرہ۔
viii۔چند مشہور اجلاس جن میں حضورؓ نے خود شرکت فرمائی یا اپنا تحریری مشورہ بھجوایا، درج ذیل ہیں :
A۔ لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقدہ 23مئی 1924ء۔ حضورؓ کا مضمون ’اساس الاتحاد‘ وہاں تقسیم کیا گیا۔
B۔ اگست 1927ء میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ سے اپنی مسلم پارٹیز کانفرنس کی تجویز پر راہنمائی چاہی جو آپؓ نے مکتوب کے ذریعہ عطا فرمائی۔
C۔ حضورؓ نے 5,4جولائی 1930ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس منعقدہ شملہ میں شریک ہوکر خطاب فرمایا۔
D۔لائل پور میں جون 1931ء میں زمیندارہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں حضورؓ کا مضمون بعنوان ’زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل‘ پڑھا گیا۔
E۔ 26؍مارچ 1948ء کو پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ اردو کانفرنس میں حضورؓ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔
(آئندہ شمارے میں جاری ہے)