یہ بھی تو صدقہ ہے!
ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کو صدقہ قرار دیا ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں صدقہ دینے والوں کو اجرعظیم کی نوید سنائی ہےوہاں صدقہ کےبڑھانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے: اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَالۡمُصَّدِّقٰتِ وَاَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَلَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ (الحدید:19)یقیناً صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جنہوں نے اللہ کو قرضہ حسنہ دیا، ان کے لئے وہ بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لئے ایک باعزّت اجر ہے۔
پھرمغفرت کا ذریعہ بھی اسی عمل کوقرار دیاجیسا کہ فرمایا: …وَالۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَالۡمُتَصَدِّقٰتِ…اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّاَجۡرًا عَظِیۡمًا(الاحزاب: 36)…صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں …اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجرِعظیم تیار کئے ہوئے ہیں۔
پاکیزگی کا موجب بھی صدقہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا: خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا۔ (التوبہ: 103)تُو ان کے مالوں میں سے صدقہ قبول کرلیا کر، اس ذریعہ سے تُو اُنہیں پاک کرے گااور اُن کا تزکیہ کرے گا۔
ہمارے پیارےنبیﷺ نے صدقے کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ عَنْ مِيْتَةِ السُّوْءِ۔ (سنن ترمذي، كتاب الزكاة، باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّدَقَةِ)کہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا اور بری موت سے بچاتا ہے۔ گناہوں کے مٹانے کا ذریعہ بھی یہی نیک عمل ہے۔ جیسا کہ آپﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيْئَةَ، كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ‘‘(سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، بَابُ الْحَسَدِ)صدقہ گناہوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدقہ صرف سوالی کے ہاتھ پر دینار یا روپیہ رکھنے کا نام ہے یا اس کے علاوہ اور بھی عمل ہیں جوکہ صدقہ کہلاتے ہیں؟ قرآن کریم نے تو عورت کودیےجانے والے حق مہر کے لیے بھی صدقہ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ جیساکہ آتا ہے: وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً…۔ (النساء: 5)یعنی عورتوں کو ان کے مہر دِلی خوشی سے ادا کرو۔
ایک دفعہ ایک احمدی خاتون نے خاکسار کواپنی خواب فون کے ذریعہ سنائی اوراس کی تعبیر دریافت کی۔ خاکسار نے خواب سننے کے بعد عرض کی کہ اگر ممکن ہو سکے تو صدقہ نکال دیں۔ اس عورت کا خاوند بھی فون پر موجود تھا۔ جب اس نے میرا جواب سنا تو کہنے لگا کہ میری بیوی تو پہلے ہی بہت صدقہ کرتی ہے۔ ابھی پاکستان سے ہو کر آئی ہے اور اپنا سارا زیور گاؤں کی ایک غریب بچی کی شادی کے موقع پر دے دیاہے اور بس اب میں ہی رہتا ہوں اگر اس کے بس میں ہو تو یہ مجھے بھی صدقہ میں دے دے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو احمدی خواتین میں موجود ہے۔ لیکن کیا ایسا تو نہیں کہ ہم نے صدقے کے وسیع مفہوم و معنی کو محدود کردیاہے؟ ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کو صدقہ قرار دیا ہے۔ جہاں نیکی کی تلقین کرنے کو صدقہ کہا ہے وہاں پر برائی سے بچنا بھی صدقہ قرار دیا ہے۔ صلح کرانا بھی صدقے کے زمرے میں اورپاک الفاظ کےاستعمال کو بھی صدقےکی صف میں شامل کیا ہے۔ اپنےپر، اپنی اولاد پر، اپنی بیوی پراوراپنے نوکر پر خرچ کرنے کو صدقہ کی صف میںلا کھڑا کیا ہے۔ سوار کو سواری پرسوار کرانا بھی صدقہ اور نماز کے لیے مسجد کی طرف اٹھنے والا ہر قدم بھی صدقہ کہا ہے۔ یہاں تک کہ تسبیح و تحمیداورلا الہ الااللّٰہکہنا بھی صدقہ ہے۔ آنحضرتﷺ کے چند ایک ارشادات صدقہ کےلفظ کے وسیع مطالب ومفہوم اور تشریح و تفسیر کو سمجھنے کے لیےیہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
سَعِيْدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ عن ابیہ، عن جدہ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ۔ قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: فَيَعْمَلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ۔ قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَوْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: فَيُعِيْنُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوْفَ۔ قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: فَيَأْمُرُ بِالْخَيْرِ أَوْ قَالَ بِالْمَعْرُوفِ۔ قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ۔ (صحيح البخاري، كِتَاب الْأَدَبِ، بَابُ كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ)سعید بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ اشعریؓ نےبیان کیا ان سے ان کے والد نے اور ان سے ان کے داداسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ اگرکسی کے پاس صدقہ دینے کے لیے کچھ بھی میسر نہ ہو۔ توآپؐ نے جواب دیاکہ پھروہ اپنے ہاتھ سے کام کرے اور اس سےاپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی ادا کرے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیاکہ اگروہ اس کی طاقت نہیں رکھتا یا کہا کہ اگروہ ایسا نہ کر سکے۔ تونبی کریمﷺ نے فرمایا کہ پھر کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرے۔ صحابہ کرامؓ نے پھر پوچھاکہ اگروہ اس کی بھی طاقت نہ رکھتاہو۔ تو آپؐ نےجواب دیتے ہوئے فرمایا کہ پھروہ بھلائی کی طرف لوگوں کو بلائے یا معروف باتوں کے کرنے کی تلقین کرے۔ پھر عرض کیا گیاکہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکےتو۔ اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا پھر وہ شروبرائی سے دوررہے کیونکہ اس کا ایساکرنااس کے لیے صدقہ ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيْهِ الشَّمْسُ يَعْدِلُ بَيْنَ الِاثْنَيْنِ صَدَقَةٌ، وَيُعِيْنُ الرَّجُلَ عَلَى دَابَّتِهِ فَيَحْمِلُ عَلَيْهَا أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ خَطْوَةٍ يَخْطُوهَا إِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ، وَيُمِيطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ۔ (صحيح البخاري، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَابُ مَنْ أَخَذَ بِالرِّكَابِ وَنَحْوِهِ)حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتےہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ انسان کےلیے ہر ایک جوڑ پر صدقہ دینا لازم ہے۔ اسی طرح ہر روز جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانا بھی صدقہ ہے۔ کسی کوسواری پرسوار کرانایا اس کا سامان اٹھا کر سواری پر رکھنے میں مدد دینا بھی صدقہ ہے۔ طیب بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ ہر قدم جو نماز پر جانے کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے۔ اسی طرح تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹادینابھی صدقہ ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُلُّ سُلَامَى عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ يُعِيْنُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِهِ يُحَامِلُهُ عَلَيْهَا، أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ وَكُلُّ خَطْوَةٍ يَمْشِيْهَا إِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ، وَدَلُّ الطَّرِيْقِ صَدَقَةٌ۔ (صحيح البخاري، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ حَمَلَ مَتَاعَ صَاحِبِهِ فِي السَّفَرِ)ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ انسان کے ہر ایک جوڑ پرہرروز صدقہ دینا لازمی ہے۔ کسی شخص کواس کی سواری پرسوار کرانےمیں مدد کرنا یا اس کا بوجھ اٹھا کر سواری پر رکھ دینا بھی صدقہ ہے۔ پاک صاف کلمہ کہنا اور اسی طرح ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے۔ کسی راہگیر کو راستہ دکھانابھی صدقہ ہے۔
عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ۔ ( صحيح البخاري، كِتَاب الْأَدَبِ، بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَخِدْمَتِهِ إِيَّاهُ بِنَفْسِهِ)حضرت ابوشریح کعبیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ خاص مہمان نوازی ایک دن اور رات جبکہ اس کی ضیافت تین دن تک ہے۔ اس کے بعد مہمان کا ٹھہرنا صدقہ ہے۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُوْرِ بِالْأُجُوْرِ، يُصَلُّوْنَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُوْمُوْنَ كَمَا نَصُوْمُ، وَيَتَصَدَّقُوْنَ بِفُضُوْلِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ: أَوَ لَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُوْنَ، إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيْحَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَكْبِيْرَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَحْمِيْدَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَهْلِيْلَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ صَدَقَةٌ، وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ، وَيَكُونُ لَهُ فِيْهَا أَجْرٌ؟، قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيْهَا وِزْرٌ، فَكَذَالِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ۔ ( صحيح مسلم، كِتَاب الزَّكَاةِ، باب بَيَانِ أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَةِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْمَعْرُوفِ)حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ چند اصحاب آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! مال دار تو سب کچھ لے گئے، وہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں، وہ روزےرکھتے ہیں جیسا کہ ہم رکھتے ہیں اس کے علاوہ اپنے زائد مالوں سے وہ صدقہ بھی دیتے ہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھی تو صدقہ کااہتمام کر دیا ہے۔ ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، ہر تحمید صدقہ ہے اورلا الہ الااللّٰہ کہنا بھی صدقہ ہے۔ اسی طرح اچھی بات کہنااور بری بات سےروکنا بھی توصدقہ ہے۔ پھر فرمایا: انسان کے بدن کے ہرحصہ میں صدقہ ہے۔ صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ!جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ہم صحبت ہوتا ہے تو کیا وہ اجر کا مستحق ہے؟ آپؐ نے فرمایا !ہاں کیوں نہیں !جب وہ یہی کام حرام طریق سے کرتا ہے تو سزا وار ٹھہرتا ہے۔ اس کے برعکس جب وہ حلال طریق پر کرتا ہے تو ثواب پاتا ہے۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، إِلَّا كَانَ مَا أُكِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَكَلَتِ الطَّيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَلَا يَرْزَؤُهُ أَحَدٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ۔ ( صحيح مسلم، كِتَاب الْمُسَاقَاۃ، باب فَضْلِ الْغَرْسِ وَالزَّرْعِ)حضرت جابرؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان درخت لگائے اوراس میں سے اگر کوئی شخص کھاتا ہے تو یہ بھی اس لگانے والے کے حق میں صدقہ لکھا جاتا ہے۔ اور اگر چوری ہو جائے تو بھی صدقہ۔ اسی طرح اگرکوئی درندہ کھا جائے تو بھی صدقہ ہے۔ اگر پرندہ کھاتا ہے تو بھی صدقہ بن جاتا ہے۔ اوراگر کوئی کسی کو ملنے جاتا ہےتو اس کو بھی صدقہ شمار کر لیا جاتا ہے۔
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا أَنْفَقَ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةً وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً۔ ( صحيح مسلم، كِتَاب الزَّكَاةِ، باب فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الأَقْرَبِينَ وَالزَّوْجِ)حضرت ابومسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنےگھر والوں پرکچھ ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى فَذَكَرَ خِصَالًا وَقَالَ: مَنْ مَنَحَ مَنِيْحَةً، غَدَتْ بِصَدَقَةٍ، وَرَاحَتْ بِصَدَقَةٍ صَبُوْحِهَا وَغَبُوْقِهَا۔ (صحيح مسلم، كِتَاب الزَّكَاةِ، باب فَضْلِ الْمَنِيحَةِ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے بری باتوں و خصائل سے منع فرمایا اور فرمایا: جس نے دودھ پلانے والا جانور کسی کو دودھ کی غرض سے دیا تویہ عمل اس کے لیےصبح و شام صدقہ ہے۔ صبح کے وقت صبح کا دودھ پینے سے اور شام کے وقت شام کا۔
عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُوْلُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِيْ رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ احْتَرَقْتُ احْتَرَقْتُ، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَأْنُهُ؟، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَهْلِي، قَالَ: ’’تَصَدَّقْ‘‘، فَقَالَ وَاللّٰهِ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ مَالِي شَيْءٌ وَمَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ، قَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسَ فَبَيْنَا هُوَ عَلَى ذَالِكَ، أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوْقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟، فَقَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:تَصَدَّقْ بِهٰذَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَغَيْرَنَا، فَوَاللّٰهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ مَا لَنَا شَيْءٌ، قَالَ: فَكُلُوْهُ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَام، باب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الْجِمَاعِ فِي نَهَارِ رَمَضَان)حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کے پاس مسجد میں رمضان کے مہینے میں آیااور کہنے لگا:اے اللہ کے رسولؐ ! میں جل گیا، میں جل گیا، (یعنی مجھ سے گناہ سرزد ہو گیا)۔ آپﷺ نے پوچھا کیا ماجرا ہے؟ اس نے عرض کی کہ میں نے اپنی بیوی سےمجامعت کرلی ہے۔ آپؐ نے اس کو صدقہ دینے کا ارشادفرمایا۔ اس شخص نے عرض کی کہ خدا کی قسم! اے اللہ کےنبی! میرے پاس کچھ بھی نہیں ہےاور نہ میں کچھ دے سکتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ گیا۔ اس حال میں ایک شخص ایک گدھے کوہانکتا ہوا نمودار ہواجو کہ غلہ سے لدا ہوا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا وہ جلنے ولا شخص کہاں ہے جو ابھی یہاں آیا تھا؟ وہ کھڑا ہو گیا۔ آپﷺ نے اس کوفرمایا:اس کولےجاؤاور صدقہ دے دو۔ یہ سن کراس نے کہا کہ کیا ہمارے سوا اس کا کوئی اور بھی مستحق ہے؟ اللہ کی قسم !ہم لوگ بھوکے ہیں اور ہمارے پاس کچھ بھی کھانےکو نہیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: اس کولے جاؤ اورکھاؤ۔
أَبِي بُرَيْدَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: فِي الْإِنْسَانِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ مَفْصِلًا فَعَلَيْهِ أَنْ يَّتَصَدَّقَ عَنْ كُلِّ مَفْصِلٍ مِنْهُ بِصَدَقَةٍ، قَالُوا:وَمَنْ يُطِيْقُ ذَالِكَ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ؟ قَالَ: النُّخَاعَةُ فِي الْمَسْجِدِ تَدْفِنُهَا وَالشَّيْءُ تُنَحِّيْهِ عَنِ الطَّرِيْقِ، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فَرَكْعَتَا الضُّحَى تُجْزِئُكَ۔ (سنن ابي داؤد، أبواب السلام، باب فِي إِمَاطَةِ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ)حضرت ابو بریدہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہےکہ انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور انسان کو چاہیے کہ ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ دے۔ صحابہؓ نے عرض کیا اے اللہ کے نبیﷺ ! اتنی طاقت توکسی کو نہیں !آ پؐ نے فرمایا: مسجد میں تھوک وغیرہ کو چھپا دینا اورموذی چیز کو راستے سے ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو چاشت کی دو رکعت ادا کرنا ہی کافی ہے۔
عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ رَجُلٍ عِنْدَهُ رَضِيٍّ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا مِنَ امْرِءٍ تَكُوْنُ لَهُ صَلَاةٌ بِلَيْلٍ يَغْلِبُهُ عَلَيْهَا نَوْمٌ إِلَّا كُتِبَ لَهُ أَجْرُ صَلَاتِهِ، وَكَانَ نَوْمُهُ عَلَيْهِ صَدَقَةً۔ ( سنن ابي داؤد، أبواب قيام الليل، باب مَنْ نَوَى الْقِيَامَ فَنَامَ)حضرت سعید بن جبیرؓ نے ایک ایسے شخص سے جو ان کے پسندیدہ تھےروایت کی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص رات کو تہجد کے لیے اٹھتا ہو۔ لیکن اگر کسی رات نیند کےغلبہ کی وجہ سےوہ نہیں اٹھ سکاتو اس کے لیے نماز کا ثواب لکھا جائے گااور اس کی نیند اس پر صدقہ بن جائے گی۔
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قال نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَةٌ۔ (سنن ابي داؤد، كِتَاب الْأَدَبِ، باب فِي الْمَعُونَةِ لِلْمُسْلِمِ)حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر معروف واچھی بات صدقہ ہے۔
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي وَحْدَهُ، فَقَالَ:أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ۔ (سنن ابي داؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ، باب فِي الْجَمْعِ فِي الْمَسْجِدِ مَرَّتَيْنِ)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: کیا کوئی ہےجو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نمازبا جماعت اداکرے۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقْيُ الْمَاءِ۔ (سنن ابن ماجه، كتاب الأدب، بَابُ فَضْلِ صَدَقَةِ الْمَاءِ)حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اےاللہ کے رسول! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےجواب میں فرمایا: پانی پلانا۔
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ: الْمَاءُ وَالْمِلْحُ وَالنَّارُ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ هٰذَا الْمَاءُ قَدْ عَرَفْنَاهُ فَمَا بَالُ الْمِلْحِ وَالنَّارِ، قَالَ: يَا حُمَيْرَاءُ! مَنْ أَعْطَى نَارًا، فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيْعِ مَا أَنْضَجَتْ تِلْكَ النَّارُ، وَمَنْ أَعْطَى مِلْحًا، فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيْعِ مَا طَيَّبَ ذَالِكَ الْمِلْحُ، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ يُوْجَدُ الْمَاءُ، فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَةً، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ لَا يُوجَدُ الْمَاءُ، فَكَأَنَّمَا أَحْيَاهَا۔ (سنن ابن ماجه، كتاب الرهون، بَابُ الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاَثٍ)ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھااےاللہ کے رسولﷺ ! کون سی چیز ایسی ہےجس کا روکنا جائز نہیں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: پانی، نمک اور آگ۔ میں نے پھرپوچھااے اللہ کے رسولﷺ ! پانی کے بارے میں تو ہمیں معلوم ہے( یعنی اس کاروکنا جائز نہیں )۔ لیکن نمک اور آگ کا روکناکیوں جائز نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: اے حمیرا! جس نے آگ دی گویا کہ اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جو کہ اس پر پکایا گیا۔ اورجس نے نمک دیا گویا کہ اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جس کو اس کے دیے گئےنمک نے ذائقہ دار بنایا۔ اور جس نے کسی مسلمان کوایک گھونٹ پانی پینے کو دیا جہاں پانی میسر ہو توگویا کہ اس نے ایک غلام کو آزاد کیا۔ لیکن جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ ایک گھونٹ پانی پینے کودیا جس جگہ پانی نہ ملتا ہو تو ایسا ہے، جیساکہ پلانے والےنے اس کوایک نئی زندگی عطا کی۔
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِيْ أَنْ يَّقُومَ فَيُصَلِّيَ مِنَ اللَّيْلِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ حَتَّى يُصْبِحَ، كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ۔ (سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، بَابُ: مَا جَاءَ فِيمَنْ نَامَ عَنْ جُزْئِهِ مِنَ اللَّيْلِ)حضرت ابوالدرداءؓ سے رویت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بستر پرسونے سے پہلےیہ ارادہ رکھتا ہو کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا۔ لیکن نیند کے غلبہ کی وجہ سے (وہ اٹھ نہ سکااور)صبح ہو گئی۔ تو اس کا اجر اس کی نیت کے مطابق اس کو ملے گا۔ جبکہ اس کی نیند اس کے رب کی طرف سے اس پر صدقہ ہو گی۔
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، فَهُوَ صَدَقَةٌ۔ (سنن ابن ماجه، كتاب التجارات، بَابُ الْحَثِّ عَلَى الْمَكَاسِبِ)حضرت مقدام بن معدیکرب زبیدیؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: آدمی کی بہترین کمائی اس کے ہاتھ کی کمائی ہے۔ ایک آدمی کا اپنے مال میں سے اپنی ذات پر، اپنی بیوی پر، اپنے بچوں پر اور اپنے خادم پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقُوا۔ فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ! عِنْدِيْ دِينَارٌ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ۔ قَالَ: عِنْدِيْ آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ۔ قَالَ: عِنْدِيْ آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ۔ قَالَ: عِنْدِيْ آخَرُ۔ قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ۔ قَالَ: عِنْدِيْ آخَرُ۔ قَالَ: أَنْتَ أَبْصَرُ۔ (سنن نسائي، كتاب الزكاة، بَابُ تَفْسِيرِ ذَالِكَ)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صدقہ دو! ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپؐ نے فرمایا!اس کو اپنے نفس پر صدقہ کرو۔ اس نےعرض کیا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے اپنی بیوی پر صدقہ کردو۔ اس نےپھرعرض کی: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے اپنے بیٹے پر صدقہ کرو۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے اپنے خادم پر صدقہ کر و۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اوربھی توہے۔ آپﷺ نے اس کو کہا: تم بہتر جانتے ہو(یعنی جہاں ضرورت ہو وہاں خرچ کرو)۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيْكَ لَكَ صَدَقَةٌ۔ وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ۔ وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيْءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيْكَ لَكَ صَدَقَةٌ۔ (سنن ترمذي، كتاب البر والصلة، باب مَا جَاءَ فِي صَنَائِعِ الْمَعْرُوفِ)حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارا مسکراتے چہرے سے اپنے بھائی کو ملنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ معروف باتوں کا کہنا اور برائی سے روکنا تمہارےلیےصدقہ ہے۔ بھولنے والی جگہ سے کسی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ بینائی سے محروم اور کم دیکھنے والے کوتمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ تمہارا پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے دور کردینا تمہارے لیے صدقہ ہے۔ اپنےپانی کے ڈول میں سے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنابھی تمہارے لیے صدقہ ہے۔
٭…٭…٭