امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ فن لینڈ کی(آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۱۲؍فروری۲۰۲۳ء کو فن لینڈ جماعت کے خدام اور اطفال کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ فن لینڈ کے شہر EspooمیںOpinmäkiنامی سکول سے خدام اور اطفال نے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ سے ہوا۔ اس کے بعد حدیث مع اردو ترجمہ پیش کی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کیا گیا جس کے بعد تین خدام نے ایک ترانہ پیش کیا۔
بعد ازاں صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ فن لینڈ نے خدام الاحمدیہ کے حوالے سے ایک مختصر رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے بتایا کہ فن لینڈ میں کُل ۱۰۲؍خدام ہیں جن میں سے ۷۱؍آج کی آن لائن ملاقات میں شامل ہیںجبکہ اطفال کی کُل تعداد ۱۳؍ ہے جس میں سے۱۲؍آج کی ملاقات میں شامل ہیں۔
اس کے بعد مختلف امور پر خدام اور اطفال کو حضور انور سے سوالات کرنے کا موقع ملا۔
ایک سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے کس طرح بات کی جا سکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہم سے بات کرے اور ہماری دعائیںقبول کرے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کا ایک طریق قبولیت دعا کی صورت میں ہوتا ہے۔بسااوقات کسی خواب کے ذریعے دعا قبول ہوتی ہے۔جن لوگوںکا اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق ہوتا ہے انہیں بسا اوقات کشف کے ذریعہ یا بعض اور ذرائع سے اللہ تعالیٰ کی آواز سنائی دیتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کے مختلف طریق ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک شعر ہے:
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
بعض نیک لوگوں کو کشفی نظارے دکھائے جاتے ہیں یا انبیاء پر بعض معاملات بذریعہ وحی کھولے جاتے ہیں۔
ایک سوال کرنے والے نے عرض کیا کہ اس کا پختہ ایمان ہے کہ اس زمانے میں خلیفہ وقت ہی اللہ تعالیٰ کےسب سے مقرب بندے ہیں اور سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کی کس طرح راہنمائی فرماتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کروں تو اللہ تعالیٰ دل کو تسلی دیتا ہے۔ بسا اوقات کسی خواب کے ذریعہ تسلی دلائی جاتی ہے ۔اگر اللہ چاہے تو وہ بول بھی سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے مختلف طریق ہیں جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے تو پھر جن لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا وہ وہاں ہمیشہ کیسے رہ سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سب سے پہلے ہمیشگی کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک دن انسان کے پچاس ہزار دن کے برابر ہے۔ انسان کے لحاظ سے پچاس ہزار سال ایک غیر محدود تعداد ہی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب جنت ختم ہو جائے لیکن صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ایسا وقت کب آئے گا۔ ہمیں اس کاعلم نہیں ۔جب ہم کہتے ہیں کہ جنت ہمیشہ رہے گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مدت اتنی طویل ہے کہ انسانی سمجھ سے باہر ہے۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ غصے پہ کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟
اس پرحضور انورنے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ کیا آپ اس وقت غصہ میں ہیں؟ جس پر اس خادم نے نفی میں جواب دیا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بس ہمیشہ اسی طرح رہا کرو۔ جب غصہ چڑھےتو استغفار کیا کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر غصہ چڑھتا ہے تو تم بیٹھ جاؤ۔زیادہ غصہ چڑھے تو لیٹ جاؤ۔ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے منہ پہ مارو تو تمہارا غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہو جائے گا۔
حضور انور نے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ کیاشادی ہو گئی ہے؟ جس پر اس خادم نے عرض کیا کہ نکاح ہو گیا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ شادی کے بعد اس حوالے سے خیال رکھنا۔ استغفار کرتے رہنا۔ استغفار کرو اور ٹھنڈا پانی پیو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے غصے میں زیادہ اچھلنے کودنے کی بجائے بیٹھ جاؤتا کہ غصہ تھوڑا ساٹھنڈا ہو جائے۔ یہی طریقہ ہے۔ باقی آدمی کو بعض چیزوں پہ غصہ آتا ہے۔ بعض دفعہ جائز غصہ بھی ہوتا ہے لیکن اس میں یہ نہیں ہوتا کہ انسان مغلوب الغضب ہو کے بغیر سوچے سمجھے جنونیوں کی طرح اگلے کے پیچھے پڑ جائے۔ وہ غصہ کسی کی اصلاح کی خاطر،اس کی تربیت کرنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ہےاور وہ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ دل میں نہیں رکھا جاتا۔ اصلاح کی خاطر اگر کبھی کبھی غصہ آ جاتا ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن غصہ کی مستقل عادت بن جانا اور ہر بات پہ چڑ کے اور غصہ سے بولنا اور اگلا بھی ہر وقت پریشان ہی رہے ،تمہارے سے ڈر کے رہے ، یہ کہے کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ وہ تو بڑا غصہ والا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے اصلاح کی خاطر کبھی کبھی غصہ آ جانا اور وہ بھی وقتی طور پہ یہ اَور بات ہے۔ پھر جنونی کیفیت طاری نہیں ہونی چاہیے۔ عقل سے کام لینا چاہیے۔ انسان کومغلوب الغضب نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ چیز غلط ہے۔ باقی انسانی فطرت ہے تھوڑا بہت غصہ تو آتا ہی رہتا ہے اور اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج بتایا ہے کہ اگر ناجائز غصہ ہے تو استغفار پڑھو ،بیٹھ جاؤاور ٹھنڈا پانی پیو۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ شادی شدہ زندگی میں بعض اوقات لڑکے یا لڑکی کے ماں باپ کی مداخلت کی وجہ سے یا قریبی رشتہ داروں کی مداخلت کی وجہ سے بعض مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اگر لڑکا اور لڑکی میں عقل ہے تو مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ان کو خیال رکھنا چاہیے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں طرف کے والدین کو خیال رکھنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو بیاہ دیا ہے تو اب ان کو آرام سےزندگی گزارنے دیں۔ ان کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں اور اگر کوئی بالکل ہی ٹیڑھے ہیں اوردخل اندازی کر دیتے ہیں تو خاوند اور بیوی ،لڑکااور لڑکی کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے دوسروں کی باتوں میں نہیں آنا۔ لڑکی کو خاوند کے ساتھ اپنی باتیں اپنے ماں باپ سے نہیں کرنی چاہئیں اور لڑکے کو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے نہیں کرنی چاہئیں۔ آپس کے راز کو راز رکھو۔ ایک دوسرے پہ اعتماد پیدا کرو اور آپس میں یہ معاہدہ کر لو کہ ہم نے کسی کی نہ بری بات سننی ہے،نہ دیکھنی ہے،نہ اس کے خلاف بولنا ہے۔ اچھی شادی شدہ زندگی گزارنی ہے تواپنی آنکھیں، زبان اور کان بند کر لو۔ بڑے آرام سے رہو گے۔ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرو،لحاظ رکھو تو پھر اگر دوسرے لوگ دخل اندازی بھی کریں گے تو ان کی باتیں نہیں سنو گے۔ان کو کہہ دو کہ میں نے اپنے خاوند یا اپنی بیوی کے خلاف بات نہیں سننی۔یہی ایک طریقہ ہے۔ اگر بڑوں کو عقل نہیں آتی تو چھوٹوں کو عقل کرنی پڑے گی۔ اگر ہر ایک کی باتیں سننے لگے ،ایک دوسرے سے سوال پوچھنے لگ گئے،اعتمادمیں کمی ہونے لگ گئی تو پھر لڑائی جھگڑے ہی شروع ہوتے رہیں گے۔پھر اور کچھ نہیں ہو گا۔ لڑکے میں برداشت کا مادہ زیادہ ہونا چاہیے۔ بعض دفعہ گھر میں اونچ نیچ ہو بھی جاتی ہے تو برداشت کرو۔
ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص تھا اس کو ایک لڑکا ملا اس نے کہا بابا جی سنا ہے آپ کی شادی کو تیس سال ہو گئے ہیں اور کبھی لڑائی نہیں ہوئی،کبھی تعلقات خراب نہیں ہوئے، کیا وجہ ہے؟ کہتا ہے شادی کے دن میں نے اپنی بیوی کو کہا تھا اگر کبھی مجھے غصہ چڑھے تو تم بجائے آگے سے جواب دینے کے کچن میں چلی جانا اور جب تمہیں غصہ چڑھے گا تو میں بھی تمہیں جواب نہیں دوں گا میں اوپر اپنے گھر کے ٹیرس (terrace)پہ چلا جایا کروں گا۔ تو کہتا ہے گذشتہ تیس سال سے میں ٹیرس پہ بیٹھا ہواہوں۔اس لیے مرد کو ہی حوصلہ دکھانا پڑتا ہے۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ آج کل جماعت کے اوپر ظلم و ستم بہت بڑھ گئے ہیں۔آخر کب تک جماعت کو ان مظالم سے چھٹکارا مل سکے گا؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ جب آپ اپنی دعاؤں کو انتہا پر پہنچا دیں گے۔پہلے اپنا جائزہ لیں۔آپ نے کس حد تک اللہ سے تعلق پیدا کر لیا ہے۔ ’’ہم قوم موسیٰ کی طرح یہ نہیں کریں گے‘‘ نظمیں تو گا دیتے ہو ،ترانے پڑھ دیتے ہولیکن کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کر رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ہم حق ادا کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اخلاق اور کردار کے بہتر کرنے کی جوتعلیم قرآن کریم میں دی ہے اس پہ ہم سو فیصد عمل کر رہے ہیں؟ کیا ہم جماعت کی ترقی کے لیے اور ظلموں سے چھٹکارے کے لیےاللہ تعالیٰ سے رو رو کے دعا کر رہے ہیں ؟ یہ تو ہمارے پہ بھی dependکرتا ہے ۔ باقی یہ وقت لیتا ہے۔ بعض دفعہ ٹرائل (trial)لمبے ہو جاتے ہیں۔ مَیں نے بتایا تھا کہ ایک دفعہ مَیں نے دعا کی کہ ’’کب چھٹکارا ملے گا؟‘‘تو مجھے تو اللہ میاں نے یہی بتایا کہ اگر ساری جماعت تین دن یونس کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے۔ہر ایک بچہ ،بڑا، بوڑھا ،جوان اللہ تعالیٰ کے آگے چلائے گا تو تین دن میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا قصور ہے۔ ایک دو کی دعاؤں سے کام بھی نہیں ہونا۔ ہاں آہستہ آہستہ دعاؤں سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں تھیں اس کے باوجود مکے میں تیرہ سال سختیاں برداشت کرنی پڑیں ۔مدینے میں بھی فتنے اٹھتے رہے۔ اس کے بعد بھی فتنے اٹھتے رہے اور آخر مسلمانوں کے ایمان اور دعاؤں کی وجہ سے پھر آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہو گئے۔ یہ تو ہم پہ dependکرتا ہے کہ ہم کس حد تک اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہیں ۔کس حد تک دعائیں کرنے والے ہیں۔ باقی انشاء اللہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ یہ وقت معین ہے کہ اس وقت تک ہونا ہے تو اس وقت تک انشاء اللہ ہو گا ۔ لیٹ تو ہو سکتا ہے۔موسیٰؑ کی قوم نے بھی انکار کر دیا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ نےچالیس سال تک ان کو دھکے کھلائے۔ ہم نے انکار تو نہیں کیا۔ ہم میں سے بہت نیک لوگ بھی ہیں، بہت دعائیں کرنے والے ہیں، بہت بزرگ قسم کے لوگ ہیں اور ہر جماعت میں ایسے لوگ ہیں۔ ہر طرح کی قربانیاں کرنے والے ہیں۔
اب دیکھو !پچھلے دنوں میں افریقہ میں لوگوں نے قربانی کی ایک مثال قائم کر دی۔ وہ قربانی ایسی ہے جو حقیقت میں صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ کی قربانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تھی کہ سامنے دیکھتے ہوئے جھوٹ کا انکار کیا ، حق پہ قائم رہے اور اپنی جان دے دی۔ اسی طرح ۷۴ء میں گوجرانوالہ میں بعض واقعات ایسے ہوئے تھے جہاں لوگوں نے اس طرح قربانی دی تھی۔اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ترقی دی۔ پھر جب بھی ہمارے خلاف سختیاں ہوئی ہیں اگر جماعت ایک جگہ سے دبائی جاتی ہے تودوسری جگہ ترقیات مل رہی ہوتی ہیں۔ یا تو کہو کہ جماعت پھیل نہیں رہی۔ آپ لوگ یہاں آگئے۔یہاں پاکستان سے بہتر حالت میں ہیں ۔ یہاں اگر آپ لوگ دین پر قائم رہیں اور آپ کی نسلیں دین پہ قائم رہیں تو مزید پھلیں،پھولیں،بڑھیں گے اور ایک وقت آئے گا جب آپ پاکستان میں بھی آزادی سے جا سکیں گے اور وہاں کے نام نہاد ملاں اور نام کے اسلام کے علمبردار آپ لوگوں کے سامنے سرنگوں ہوں گے۔ انشاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا۔یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کتنا عرصہ لینا ہے لیکن جو ہمارا فرض بنتا ہےہمیں وہ ادا کرنا چاہیے۔ باقی اللہ تعالیٰ انشاء اللہ تعالیٰ حالات بدلے گا۔
ایک سوال کیا گیا کہ بسا اوقات کسی کام پر توجہ قائم رکھنا اور اس میں مستقل مزاج ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سستی کو دور کرو۔کسی بھی کام میں مستقل مزاجی حاصل کرنے کے لیے عزم اور درست نیت ہونی چاہیے۔
حضور انور نے اس سلسلے میں محنت اور دعا کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے کلید قرار دیا۔
اکاؤنٹنگ (accounting)اور بک کیپر (book keeper) کے طور پر کام کرنے والےایک خادم نے سوال کیا کہ میرے کچھ کلائنٹس (clients)کھانے کا کاروبار کرتے ہیں جس میں شراب وغیرہ بھی بکتی ہے اور بعض دفعہ ٹیکس بچانے کے لیے وہ غلط بیانی سے بھی کام لیتے ہیں۔ کیا مجھے ایسے کلائنٹس کا کام کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اوّل تو یہ ہے کہ اگرٹیکس بچانے کے لیے آپ کو کہتے ہیں کہ تم ہماری یہ انکم نہ ڈالو اور غلط انفارمیشن دیتے ہیں تو ان کا کام نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کا کام صاف ستھرا ہونا چاہیے۔
دوسرا یہ ہے کہ جو غیر حلال چیزوں کا کام کرتے ہیں تواس میں آپ براہ راست involveتو نہیں ہیں۔ صرف ان کے اکاؤنٹس دیکھ رہے ہیں۔ وہ اکاؤنٹس دیکھنے کی حد تک آپ کر سکتے ہیں ۔نہیں تو پھر تو بینکنگ کے نظام میں سود کا نظام بھی حرام ہے ۔اَور بہت ساری چیزیں ہیں۔ آج کل پورا مالی نظام بگڑ گیا ہے۔ اس میں بہت ساری مشکلیں پیش آجائیں گی۔ سود بھی تو حرام ہے۔ اب آپ نے کوٹ پہنا ہوا ہے ،کپڑے پہنے ہوئے ہیں ،اس میں کئی بزنس میں کتنے سود involveہوں گے۔ تو اکاؤنٹ کیپنگ رکھنےکی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کو یہ پتا لگ جائے کہ یہ غلط ہے اور مجھے غلط گائیڈ (guide)کر رہا ہے اورٹیکس بچانے کے لیے صحیح انفارمیشن نہیں دے رہا یا کہتا ہے کہ کسی طرح یہاں سے میرا ٹیکس بچاؤ تو یہ جائز نہیں۔ اگر قانون کے اندر رہتے ہوئے بعض ٹیکس بچا سکتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر جھوٹ بول کر اس کو بچانے والی statement یا returnبنا کے دینے ہیں تو وہ غلط ہے۔
فرشتوں کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ فرشتوں کو حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا لیکن ابلیس جو جنّوں میں سے تھا اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر دیا اور اپنے آپ کو برتر سمجھا۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ شیطان انسان کو غیر اخلاقی حرکتیں کرنے کے لیے اکساتا ہے جبکہ اس کے برعکس فرشتے اللہ تعالیٰ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے ہیں اورصرف اچھے کام کرتے ہیں۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ بعض لوگوں نے گھروں میں کتے بلیاں وغیرہ رکھے ہوتے ہیں اور وہ ان کو پیار سے گود میں بھی بٹھاتے ہیں۔ کیا اس طرح کپڑے پاک رہتے ہیں اور ان کپڑوں میں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ شوقیہ رکھنا ہو تو اس کا کوئی مقصد نہیںلیکن کسی کام کے لیے کتے رکھنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ بلیاں تو گھروں میں پھرتی رہتی ہیں اور عموماً ہر جگہ پھر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن کیونکہ یہ گند وغیرہ کرتی ہیں اس لیے ان کی ایک الگ جگہ ہونی چاہیے۔جو لوگ کتے بلیاں رکھتے ہیں وہ ان کوایسی تربیت دے دیتے ہیںکہ ان کو پتا ہے کہ اگر انہوں نے گند وغیرہ کرنا ہے تو باہر جا کر ایک جگہ پہ پاخانہ پیشاب کریں۔
اسی طرح کتے ہیں ان کو گھروں کے اندر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ باہر ایک جگہ بنا کے رکھیں جہاں سردیوں میں سردی سے بھی بچت ہو اور وہاں وہ رہیں۔ باقی اس کو ہاتھ لگا لینا ، اس پر ہاتھ پھیر لینا،اس کوہاتھوں سے پیار کر لینا اس میں تو کوئی ہرج نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی جو لوگوں نے بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ رکھے ہوتے تھے ان کے لیے کتے رکھے ہوتے تھے اور وہ کتے سارا دن ان کے ساتھ پھرتے رہتے تھے اور بعض دفعہ ان کے کپڑوں کو ٹچ (touch)بھی کر لیتے ہوں گے۔ وہ ان کو ہاتھ بھی لگا لیتے تھے۔ اس کے بعد وہ مسجد میں آتے تھے۔مدینے میں آکر وضو کرتے تھے اور انہی کپڑوں میں ظہر عصر کی نماز پڑھ لیتے تھے۔ اگر تو واضح طور پر گند نہیں لگا ہوا تو صرف ٹچ کرنے سے گند نہیں ہو جاتا۔ اوپر سے سکن(skin) تو عموماً صاف ہی ہوتی ہے۔ باقی جو کتے بلیاں رکھیں تو وہ ان کو صاف بھی رکھیں۔ آج کل تو بڑا اچھا نظام ہے۔ کتے بلیوںکو نہلانے کے لیے انہوں نے شیمپو (shampoo)بھی بنائے ہوئے ہیں۔لیکن گھروں کے اندر کیونکہ گند ہوتا ہے اس لیے وہاں نہیں آنا چاہیے۔ بعض دفعہ تو ان کے بال ایسے جھڑتے ہیں کہ hooverبھی اس کواکٹھا نہیں کر سکتا ۔ ہووروں کے اشتہاروں پہ لکھا تو ہوتا ہے کہ یہ cat،dogاور petsکے بالوں کو اکٹھا کر لے گا لیکن اکٹھا کوئی نہیں کرتا۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ گند رہ جاتا ہے۔ اس سے بعض دفعہ الرجیاں اوربیماریاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ باہر ہی رکھیں۔ یہ لوگ تو کتوں کے منہ پہ پیار بھی کر لیتے ہیں۔وہ چیزیں غلط ہیں۔ باقی ہاتھ لگا لینا یا اپنے ساتھ لگا لینا یا ٹانگ سے اگر کسی کتے نے رگڑ کھا لی اور اس کو اپنے ساتھ لگا کر کسی نے ہاتھ کپڑے کومل لیا تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ شکار کے لیےیاپہرے کے لیے کتے رکھنے چاہئیں۔ صرف شوق پورا کرنے کے لیے رکھنا ہے تواس سےبچنا چاہیے۔لیکن بلیاں تو ہر ایک نے رکھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی لوگوں نے گھروں میںبلیاں رکھی ہوتی ہیں ۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ ایک واقف نو کی حیثیت سے مجھے سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اور کون سا ہنر سیکھنا چاہیے جو جماعت اور معاشرے کے کام آ سکے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ جو بھی انسان بنے اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہونا چاہیے،اس کو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے تا کہ اللہ کا حق ادا کر سکے۔ اس کے بعد اچھے اخلاق ہونے چاہئیں تا کہ بندوں کے حق ادا کر سکے۔ اور یہی چیزیں ہیں جو تبلیغ میں بھی کام آتی ہیں۔
آپ عبادت کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد بھی کرے گا ۔لوگ بھی پہچانیں گے کہ یہ شریف بندہ ہے۔ اچھے اخلاق ہوں گے تولوگ متاثر ہوں گے،توجہ پیدا ہو گی کہ یہ شریف آدمی ہے اور یہ چیزیں ایسی ہیں کہ پھر انسان کے لیے تبلیغ کے رستے کھلتے ہیں۔
باقی جہاں تک ہنر کا سوال ہے توہر ایک کا اپنا اپنا شوق ہوتا ہے ۔کوئی نہ کوئی ہنر سیکھو جو انسانیت کی بہتری کے لیے مناسب ہواورجس سے ان کی خدمت ہو۔سخت جانی کی عادت ہوتو انسان کوئی بھی کام کر لیتا ہے۔
ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے والنٹیئرز (volunteers)مختلف ممالک میں جاتے ہیں کوئی ٹیچر ہے، دوسرے پیشوں کے لوگ ہیں وہ جا کر وہاں والنٹیئر کرتے ہیں،سامان اٹھاتے ہیں۔ اب ہنر تو انہوں نے کوئی نہیں سیکھا ہوتا لیکن انسانیت کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔اس کا فائدہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی کو کوئی اور ہنر آتا ہو کوئی میسن (mason)ہے،کارپینٹر (carpenter)ہے،پلمبر (plumber)ہے اوران کو ہنر آتا ہے تو وہاں resettlement اور rehabilitate کے لیے جو ضرورت ہو وہ کام کر دیتے ہیں۔ تو یہ ہر نوعیت پہ منحصر ہے کہ کس جگہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ انسان کو ہر ایک کام کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جو بھی اس کو کام ملے، چھوٹی موٹی سدھ بدھ ہو وہ خدمت کرنے کے لیےکر لے،چاہے مزدوری کرنی پڑے ۔ باقی اپنے پیشے میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔
ایک وقف نو نے سوال کیا کہ ایسے واقفین نو کے لیے حضور کی کیا راہنمائی ہے جو پڑھائی مکمل کرنے کے قریب ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو واقفین نو پندرہ سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے وقف کی تجدید کریں اور جب اپنی پڑھائی مکمل کر لیں تو جماعت کو مطلع کریں کہ انہوں نے پڑھائی مکمل کر لی ہے اور وہ جہاں جماعت کہے خدمت کرنے کے لیے حاضر ہیں۔
اگرجماعت کو ڈاکٹروں کی ضرورت ہو گی تو کسی جماعتی ہسپتال میں ان کا تقرر کر دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر ٹیچرز، انجینئرز، ریسرچرزیا سائنسدانوں کی ضرورت ہو گی تو اس حساب سے ان کا تقررکیا جائے گا۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نفس کی درمیانی حالت کے بارے میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’لوامہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں۔ ان کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ ان کی لڑائی نفس کے ساتھ شروع ہوتی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب ہوتے ہیں۔ تا ہم یہ لوگ محل مداح میں ہوتے ہیں کیونکہ ان سے نیکیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور خوف خدا بھی ان کے دل میں ہوتا ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ اس حالت سے نفس مطمئنہ تک کا سفر اختیار کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ یہاں بیٹھے نہ رہو۔ کوشش یہ کرو کہ شیطان سے لڑائی زیادہ ہو اور نیکی کی طرف عمل زیادہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ پھر نفس لوامہ سے مطمئنہ میں جانے کے لیے جو لڑائی ہے اس میں کوشش یہ ہو کہ لڑائیوں میں زیادہ تر غالب آنے کی کوشش کرو اور ایک وقت آئے جب شیطان کو پیچھے دھتکار دو۔ جب آ جائے تو پھر اللہ تعالیٰ سے ساتھ مدد بھی مانگو ۔اللہ کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ انسان اپنی کوشش سے کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس لیے مستقل مزاجی سے اگر دعاؤں کی طرف لگے رہو گے تو شیطان کا حملہ کم ہوتا جائے گا اور حملہ کم ہوتے ہوتے ایک وقت آئے گا کہ شیطان بالکل ہی زیر ہو جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھنے لگ جائیں گے۔ پھر انسان وہی کام کرے گا جو خدا اور اس کا رسول چاہتے ہیں تو وہ ان میں پھر مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ کی حالت میں آجائے گا اور وہیں سے پھر مطمئنہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ یہ تو آپ کی لڑائی ہے جیسے کشتی کے مقابلہ میں کہتے ہیں کہ best of fiveیا best of threeگیمیں ہوتی ہیں۔ اس میں دو میں آپ جیتے اور ایک میں شیطان جیت گیا یا دو میں شیطان جیت گیا ایک میں آپ جیت گئے یہ تو پھر برابر کا معاملہ ہو جائے گا ۔ کوشش یہ کرو کہ 2-1سے جیتتے رہو اور پھر آہستہ آہستہ اگلے stepمیں چلے جاؤ گے۔ دنیاوی کیٹگریز (categories)جوبنی ہوئی ہیں اسی حساب سے ان کو دیکھو۔یہاں بھی روحانی کیٹگریز بنی ہوئی ہیں۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ جب کسی شخص کو جماعتی عہدے کے لیے چنا جاتا ہے اور اس کو معلوم ہو کہ وہ کسی مجبوری کی وجہ سے اپنی ذمہ داری کاصحیح طرح حق ادا نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے جماعتی کاموں میں ہرج پیدا ہوتا ہے اور اس کے برعکس وہ انکار کرنے سے بھی ڈرتا ہے تو اس صورت میں اس کو کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اگر تو بہت مجبوری ہے تو پھر معذرت کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے اور اگر کوئی مجبوری نہیں ہے صرف نفس کا دھوکا ہی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں کام سرانجام دے سکوں۔ اگر صرف یہی خوف و خطرہ ہے کہ میں بیوی بچوں کا حق ادا نہیں کر سک رہا تو پھر یہ نفس کے دھوکے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ ہیں جو بیوی بچوں کا حق ادا کرتے ہیں اور جماعت کی خدمت کا بھی حق ادا کرتے ہیں۔ بیوی کو اگریہ realiseکرا دو کہ دین کی خدمت میں بھی ایک ثواب ہے تو پھر وہ سمجھ جائے گی اور تعاون کرے گی۔بیویوں کو بھی تعاون کرنا چاہیے۔ بچوں کو ان کا حق دینا چاہیے۔ اگر سستی کی وجہ سے حق ادا نہیں کر رہے تو اس سستی کو دور کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ آپ کی سستی کو دور کرے۔ جو بھی مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان مسائل کو حل کر دے اور آپ کو خدمت کی توفیق دے۔ اور اگر ان سب چیزوں کے باوجود پریشان ہیں،بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو پھر بھی پریشان حال ہی رہتی ہیںکہ یہ ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا،پھر ٹھیک ہے معذرت کر دیں۔اور کیاہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ پہ کچھ توکل کرو ۔ خدمت کرنی ہے تو ہم نے ہی کرنی ہے اَور کس نے کرنی ہے؟ ہم نے کوئی باہر سے تو نہیں بلانا کہ جماعت احمدیہ کی خدمت کرو۔ آپ نے ہی کرنی ہے ۔ بس پھر قربانی تو کرنی پڑے گی۔
ان لوگوں کی تو خدمت یہی ہے کہ کل ایک بےچارے بندے کو الزام لگا کے کہ اس نے توہین قرآن کی ہے، لوگوں نےپہلے اسے پولیس تھانے سے نکال کرننگا کیا، اسے سڑکوں پہ کھینچا ،اس کے بعد اس کوزندہ جلا دیا۔یہ تو ان کے کام ہیں۔ اگر ہم نے ان سے مدد لینی شروع کر دی تو پھر ہمارا بھی یہی حال ہوگا۔ اس لیے عاجز بن کے خدمت کرو اور اپنے گھر میں آپ لوگ ایسی تربیت کریں کہ بیوی بچوں کو بھی یہ realiseہو جائے کہ خدمت دین میں فضل الٰہی ہے اوراس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو اور نہ پریشان ہو۔ بہت ہی جذباتی کیفیت ہوتی ہے تو مجھے خط لکھ دیا کریں پھر میں آپ کو بتا دیا کروں گا کہ اس حال میں کیا کرنا ہے۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا السلام علیکم۔ اللہ حافظ۔