ختمِ نبوت سے ہم کیا مراد لیتے ہیں؟
ختمِ نبوت سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں تمام کمالات نبوت ختم ہو گئے ہیں۔ اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعدنبوت کے مقام پر وہی شخص فائز ہو سکتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اُمّت میں سے ہو اور آپ کا کامل پَیرو ہو اور اس نے تمام کا تمام فیضان آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کی روحانیت سے پایا ہو اور آپ کے نور سے منوّر ہوا ہو۔ اس مقام میں کوئی غیریت نہیں اور نہ ہی یہ غیرت کی جگہ ہے۔ اور یہ کوئی علیحدہ نبوت نہیں اور نہ ہی یہ مقام حیرت ہے۔ بلکہ یہ احمد مجتبیٰ ہی ہے جو دوسرے آئینے میں ظاہر ہوا ہے۔ اور کوئی شخص اپنی تصویر پر جسے اللہ نے آئینہ میں دکھایا ہو غیرت نہیں کھاتا۔ کیونکہ شاگردوں اور بیٹوں پر غیرت جوش میں نہیں آتی۔ پس جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پا کر اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں فنا ہو کر آئے وہ درحقیقت وہی ہے کیونکہ وہ کامل فنا کے مقام پر ہوتا ہے اور آپ کے رنگ میں ہی رنگین اور آپ کی ہی چادر اوڑھے ہوتا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ہی اس نے اپنا روحانی وجود حاصل کیا ہوتا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فیض سے ہی اس کا وجود کمال کو پہنچا ہوتا ہے۔ اور یہی وہ حق ہے جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات پر گواہ ہے۔ اور لوگ نبی کریمؐ کا حسن ان تابعین کے لباس میں دیکھتے ہیں جو اپنی کمال محبت و صفائی کی وجہ سے آپ کے وجود میں فنا ہو گئے۔ اور اس کے خلاف بحث کرنا جہالت ہے کیونکہ یہ تو آپ کے ابتر نہ ہونے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثبوت ہے۔ اور تدبّر کرنے والوں کے لئے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جسمانی طور پر تو مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اپنی رسالت کے فیضان کی رُو سے ہر اس شخص کے باپ ہیں جس نے روحانیت میں کمال حاصل کیا۔
(خطبہ جمعہ فرمودو ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۰۳؍نومبر ۲۰۱۷ء)