حضرت عمرؓ کی محبت و خدمت قرآن
حضرت رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کے نشانوں میں سے ایک بہت ہی تابندہ نشان حضرت عمرؓ تھے۔ مکہ کا ایک عام سا سردار جس کو شاید سارا شہر بھی نہ جانتا ہو، آج اسے عالم میں ایک عظیم الشان حاکم کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔جن لوگوں نے دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ اور سیاست اور مذہبی خیالات پر گہرے اثرات ڈالے ہیں آپ ان میں سے ایک ہیں۔ جس کا عدل بھی آفاقی ہے، جس کا سوشل سسٹم اور سادگی بھی قابل تقلید ہے، جس کا علم قرآن اور فہم اسلام بھی قابل رشک ہے، جس کی بہادری، جرأت اور غیرت بھی ناقابل فراموش ہے۔
اسلام میں خلافت کا آغاز تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ہوا مگر باقاعدہ حکومتی نظام کی داغ بیل آپ کے بعد حضرت عمرؓ سے پڑی جنہوں نے دس سال کے اندر اندر مسلمانوں کو وہ بے پناہ طاقت عطا کی، جس پر آج بھی مخالفین انگشت بدنداں ہیں۔جس نے اس زمانہ کی عالمگیر ایرانی اور رومی سلطنتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا اور توحید کی صدا ہر جانب پھیلا دی۔
اس عظیم الشان خلیفہ کی شخصیت کی متعدد جہات ہیں مگر اس کے کارنامے قلم بند کرتے ہوئے مؤرخین کا قلم زیادہ تر جغرافیائی فتوحات پر اٹک جاتا ہے۔ اور اس کی نظر سے بطور خلیفہ راشد اور عظیم روحانی مصلح وہ کارنامے اوجھل ہو جاتے ہیں جو اسلام کی جان اور ایک مسلمان کی روح ہیں۔ یعنی تعلق باللہ، محبت قرآن، اور محبت رسول وغیرہ۔ اور پھر ان صفات کو مسلمانوں کا جزو بنانے کے لیے عملی انتظامات جو خلافت راشدہ کا اصل مقصود ہیں۔ اس مضمون میں صرف ایک پہلو یعنی حضرت عمرؓ کی محبت اور خدمت قرآن پر گفتگو کرنا مقصود ہے۔
حضرت عمر تو خود کشتہ قرآن تھے جیسا کہ ان کے قبول اسلام میں ذکر آتا ہے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ قبول اسلام سے پہلے میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا تو آپ بیت اللہ میں سورۃ الحاقہ کی تلاوت کر رہے تھے۔ میں اس کلام کے حسن اور خوبی پر بہت متعجب ہوا اور دل میں کہا کہ یہ شخص شاعر نہیں ہو سکتا۔ اس وقت سے اسلام میرے دل میں گھر کر گیا۔(مجمع الزوائد و منبع الفوائد کتاب المناقب مناقب عمر باب فی اسلامہ جلد 9 صفحہ 62 حدیث نمبر 14407)
اس کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات ہوئے جب قرآنی آیات نے آپ کو فتح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مشہور روایت ہے کہ بہن کے قبول اسلام کی خبر ملنے پر پہلے تو اسے گھر جا کر مارا مگر جب اس کے استاد حضرت خبابؓ سے قرآن کریم کی چند آیات سنیں تو فوراً رام ہو گئے اور رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ یہ کون سی آیات تھیں ایک سے زیادہ مقامات پر ان کا مختلف ذکر ملتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ سورۃ طہ کی آیات تھیں۔ (تاریخ الخلفاء) بعض میں سورۃ الرحمٰن کا ذکرملتا ہے۔ (سیرۃ الحلبیہ) بعض میں سورۃالعلق اور بعض میں سورۃ الحدید کا بھی ذکر آتا ہے۔ (مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 62 حدیث نمبر ۱۴۴۱۳ اور ۱۴۴۰۰۷)سورۃ الصف کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (تاریخ الخلفا٫ جلد 1 صفحہ 92) آیات کوئی بھی ہوں انہوں نے عمر کے دل کو فتح کیا اور پھر وہ قرآن کے عاشق ہو گئے۔
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب بھی باہر سے گھر آتے تو سب سے پہلے قرآن کھولتے اور تلاوت کرتے (کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الاقوال فصل فی آداب التلاوۃ جلد 2 ص 316 حدیث نمبر 4107)حضرت عمرؓ راتوں کو اپنی نماز تہجد میں بلند آواز سے تلاوت کرتے تھے جبکہ حضرت ابو بکرؓ آہستگی سے پڑھتے تھے۔ رسول کریمﷺ نے دونوں سے اس کی وجہ پوچھی تو ابوبکر نے کہا میں تو اللہ سے رازونیاز کرتا ہوں اور حضرت عمر نے کہا میں شیطان کو بھگاتا ہوں اور سونے والوں کو جگاتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر کو نصیحت فرمائی کہ اپنی آواز کچھ بلند کرو اور حضرت عمر سے فرمایا کہ تم آواز کچھ دھیمی کرو۔ (صحیح البخاری کتاب قیام اللیل باب فی رفع الصوت حدیث نمبر1329)
تلاوت اور خشیت
حضرت عمر ؓقرآن کریم کی تلاوت نہایت دل سوزی سے کرتے تھے۔ تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت اور ہیبت آپ پر طاری رہتی مسلسل روتے روتے ہچکی بندھ جاتی۔ مقتدی بیان کرتے ہیں کہ نماز کی امامت کرتے وقت سورت یوسف کی آیات إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّٰهِ(يوسف: 87) پڑھتے ہوئے ایسی رقت طاری ہوتی کہ رونے کی آواز پچھلی صفوںمیںسنائی دیتی قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ شَدَّادٍ، ’’سَمِعْتُ نَشِيْجَ عُمَرَ، وَأَنَا فِي آخِرِ الصُّفُوفِ‘‘ (بخاری کتاب الاذان باب اذا بکی الامام )ایک دفعہ سورۃ التکویر کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ تمام اعمال ظاہر کر دیے جائیں گے، تو غش کھا کر گر پڑے۔ (ازالۃ الخفاء جلد 2صفحہ 174) اسی طرح ایک دفعہ اس آیت پر: وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا۔ (الفرقان:14) اس قدرخضوع وخشوع طاری ہوا کہ اگر کوئی ان کے حال سے ناواقف شخص دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ اسی حالت میں روح پرواز کر جائے گی۔رقت قلب اورعبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز صبح کی نماز میں سورۂ یوسف شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے وَابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ (سورت یوسف:85) تو زاروقطار رونے لگے، یہاں تک کہ تلاوت ختم کرکے رکوع پر مجبور ہوگئے۔ (کنز العمال کتاب الفضائل باب فضائل فاروق جلد 12صفحہ 589 حدیث نمبر 35831 تا 35833 )
ایک دفعہ حضرت عمر ؓکے سامنے کسی نے یہ تلاوت کی اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّا لَہٗ مِنۡ دَافِعٍ(الطور: 9،8 )’’یہ تیرے رب کا عذاب یقینی ہوکر رہنے والا ہے اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں”تو بے تحاشا رونے لگے اور پھر غش کھا کر گر پڑے (الرقۃ والبکا٫از ابن ابی الدنیا۔البکا٫ عند قرا٫ۃ القرآن حدیث نمبر 100 )
ادب اور شعر سے بہت دلچسپی تھی ایک رات حضرت عبداللہ بن عباس سے دیر تک شعر سنتے رہے پھر فرمایا اب قرآن پڑھ کر سناؤ۔(الفاروق صفحہ396)
حضرت عمر ؓکو قرآن کریم کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا اور آپ حافظ قرآن بھی تھے۔ آپ کے ساتھ رہنے والے ایک تابعی قبیصہ بن جابر گواہی دیتے ہیں کہ میں حضرت عمر ؓکے ساتھ رہا ہوں میں نے آپ سے زیادہ کتاب اللہ کو پڑھنے والا، اللہ کے دین کو سمجھنے والا اور اس کی درس و تدریس کرنے والا آپ سے اچھا کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ دمشق الکبیر ابن عساکرجلد 19 صفحہ 182 حالات زیاد بن عبید) یہی حضرت عمر ایک وقت میں ایک صحابی کو غصہ سے کھینچتے ہوئے رسول اللہ ؐکی خدمت میں لائے کیونکہ وہ قرآن اس طرح نہیں پڑھ رہا تھا جیسے رسول اللہﷺ نے حضرت عمر کو سکھایا تھا۔ رسول اللہﷺنے فرمایا قرآن سات قرا٫توں پر اترا ہے اس لیے یہ بھی ٹھیک پڑھ رہا ہے اور میں نے اسے اسی طرح سکھایا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الخصومات باب الخصوم حدیث نمبر 2419)
رسول اللہ ﷺ کو ایک بار اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا کہ عمر کو قرآن پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺنے حضرت عمر کو بلایا اور فرمایا کہ میرے پاس موجود رہو تاکہ جب بھی قرآن کی تازہ آیات نازل ہوں میں تمہیں پڑھ کر سناؤں۔ (مسند البزار جلد 10 صفحہ 470 مسند سمرہ بن جندب حدیث نمبر 4663)
قرآن سے موافقت
قرآن سے ایسی موافقت اور توارد تھا کہ کئی مواقع پر آپ کی رائے کے موافق قرآنی احکامات نازل ہوئے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تتکلم الملائکۃ علی لسانہ(مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 67حدیث نمبر 14439)فرشتے اس کی زبان سے بولتے ہیں۔ حضرت عمر خود فرماتے ہیں کہ تین بار میرے رب نے میری تائید میں قرآن اتارا۔یہ 3 باتیں مختلف جگہوں پر فرق کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اگر صرف صحاح ستہ کی روایات کو لیا جائے تو وہ 5بنتی ہیں۔
1۔ازواج النبیؐ کے حجاب کے بارے میں2۔ازواج النبی کو علیحدگی کا اختیار دینے کے بارے میں3۔ مقام ابراہیم کو نماز گاہ ہ بنانے کے متعلق 4۔ منافقوں کے جنازہ کے متعلق 5۔شراب کی حرمت کے متعلق ۔
اس کے علاوہ بھی سیرت نگاروں نے موافقات کا ذکر کیا ہے۔ علامہ سیوطی نے ایسی 21 موافقات جمع کی ہیں مثلاً بدر کی جنگ میں باہر نکلنے کے متعلق۔واقعہ افک کے بہتان عظیم ہونے،اور رسول اللہ کا فیصلہ آخری ہونے کے متعلق۔(تاریخ الخلفا٫ جلد 1 صفحہ 199 )
لیکن یاد رہے کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان کی قوت ادراک رسول اللہ سے بڑھ کر تھی بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ حکم رب کے نزول سے پہلے اپنی رائے برملا ظاہر کر دیتے تھے۔ مگر رسول اللہﷺ ایک شرعی نبی تھے اور اپنی پسند اور خواہش کو مخفی رکھتے تھے جب تک خدا کی منشاء ظاہر نہ ہو جاتی تھی۔ ورنہ دشمن یہ اعتراض کرتے تھے کہ آپ اپنی مرضی کے موافق قرآن بنا لیتے ہیں۔ جیسا کہ کعبہ کو قبلہ بنانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا( البقرہ: 145 )
جمع قرآن میں اہم کردار
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں جنگ یمامہ میں 70 حفاظ قرآن شہید ہو گئے تو حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ جنگیں جاری ہیں اور لڑائیوں میں مزید حفاظ بھی شہید ہوں گے۔ اس طرح خطرہ ہے کہ قرآن کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ اس لیے مناسب ہے کہ قرآن کو تحریری طور پر بھی جمع کر لیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے تو متذبذب رہے مگر حضرت عمرؓ کے اصرار پر مان گئے اور حضرت زید بن ثابتؓ کو مقرر فرمایا کہ قرآن کو زبانی روایت کے مطابق تحریری شہادتوں کے ساتھ جمع کرو۔ چنانچہ سارے قرآن کو تحریری طور پر ایک جگہ اکٹھا کر کے نسخہ تیار کیا گیا جو پہلے حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمرؓ کے پاس رہا۔ پھر آپ نے حضرت حفصہ ؓکے پاس رکھوا دیا جہاں سے حضرت عثمان ؓنے حاصل کیا اور اس کی نقلیں کروا کر عالم اسلام میں بھیج دیا۔ (بخاری کتاب التفسیر باب لقد جاءکم رسول)
قرآن کو حدیث پر مقدم رکھنا
حضرت عمرؓ قرآن کریم کا مقام و مرتبہ خوب سمجھتے تھے۔ آپ کا یہ جملہ مشہور ہے حسبنا کتاب اللّٰہ۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے آخری ایام میں فرمایا کاغذ قلم لاؤ میں تمہارے لیے ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔ حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ بیمار ہیں اور تمہارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس پر اختلاف ہو گیا اور شور شرابہ ہوا جس پر رسول اللہﷺ نے سب کو چلے جانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد آپ چند دن اور زندہ رہے مگر دوبارہ کسی تحریر لکھوانے کا ارادہ نہیں کیا۔ (بخاری کتاب العلم باب کتابۃ العلم حدیث نمبر 114 و مسلم کتاب الوصیہ باب الوصیہ لمن لیس لہ شیء حدیث نمبر 4234)گویا حضرت عمرؓ کی اس بات کو قبول فرمایا کہ کتاب اللہ ہی کافی ہے۔
ایک بار مطلقہ عورت کو رہائش دینے کے بارے میں ایک صحابیہ نے رسول اللہﷺ کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی جو بظاہر خلاف قرآن نظر آتی تھی۔ حضرت عمرؓ کی مجلس میں معاملہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہم قرآن کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے۔ معلوم نہیں اس عورت کو صحیح بات یاد رہی یا بھول گئی۔(صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقۃ ثلاثاً حدیث نمبر 1480 )
آپ اپنے زمانہ میں صحابہ کو حکم دیتے تھے کہ رسول اللہﷺسے کم روایت کریں تا کہ لوگ احادیث میں مشغول ہو کر قرآن کو حفظ کرنے سے غافل نہ ہوں۔حضرت قرظہ بن کعب روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر نے ہمیں عراق روانہ کیا تو خود ہمیں رخصت کرنے کے لیے دور تک تشریف لائے اور پوچھا کہ تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیوں آ رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا ہماری عزت بڑھانے کے لیے۔ فرمایا یہ ٹھیک ہے لیکن یہ مقصد بھی ہے کہ تم لوگ ایسی جگہ جا رہے ہو جہاں لوگ بہت خوبصورتی سے قرآن پڑھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم انہیں احادیث سنا کر قرآن سے دور کر دو۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ سے کم روایت کرنا۔ (تذکرۃ الحفاظ للذھبی جلد 1 صفحہ 12)حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ لما ولي عمر قال : أقلوا الرواية عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلّا فيما يعمل به۔حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنےتو انہوں نے حکم دیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کم روایات بیان کی جائیں سوائے عملی احکامات کے۔(مصنف عبد الرزاق جلد 11 صفحہ 262۔حدیث نمبر 20496 باب الکذب علی النبیؐ )
فہم قرآن
رسول کریم ﷺ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ نے دودھ پیا اور سیر ہو کر پیا یہاں تک کہ وہ آپ کے ناخنوں سے نکلنے لگا۔ پھر آپ نے وہ دودھ کا پیالہ حضرت عمر کو دیا اور انہوں نے بھی سیر ہو کر پیا۔(صحیح البخاری کتاب العلم باب فضل العلم حدیث نمبر 82 )۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ رؤیا بھی دیکھا کہ بعض لوگوں نے چھوٹی چھوٹی اور تنگ قمیصیں پہنی ہوئی ہیں مگر حضرت عمر کی قمیص بہت لمبی ہے۔ اتنی لمبی کہ وہ ٹخنوں سے نیچے گھسیٹتے ہوئے آ رہے ہیں(صحیح البخاری کتاب الایمان باب تفاضل اہل العلم حدیث نمبر 23 )۔ رسول اللہؐ نے ان دونوں خوابوں کی تعبیر علم اور دین سے کی۔ مراد یہ تھی کہ انہیں کثرت کے ساتھ فہم قرآن اور علم شریعت عطا کیا جائے گا۔ بلکہ انہیں ایسے احکام جن کا تعلق حکومت اور ریاست سے ہے ان کو نافذ کرنے کی توفیق بھی ملے گی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں نہ صرف کثرت کے ساتھ فتوحات ہوئیں بلکہ حضرت عمر نے اسلام کے حکومتی احکامات کو نافذ بھی کیا اور قرآن کریم سے استنباط کرتے ہوئے ایسے فتاویٰ اور احکام جاری کیے جو آج بھی حکومتوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
حضرت عمرؓ کی عراق میں فتوحات کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ زمینیں مسلمان فوجیوں میں تقسیم کر دی جائیں یا حکومت کی ملکیت ہو گی۔ اور پرانے باشندوں کے قبضے میں رہیں اور آمد حکومت کو ادا کر دی جائے۔ حضرت عمر نے کئی دن تک صحابہ سے مشورہ کیا پر فیصلہ نہ ہوا۔ بالآخر حضرت عمر نے آیت قرآنی لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَاَمۡوَالِہِمۡ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضۡوَانًا (الحشر:9)سے استدلال کیا کہ فتوحات میں آئندہ نسلوں کا بھی حق ہے۔ تب آپ نے ایک زبردست تقریر فرمائی جس پر سب صحابہ نے اتفاق کیا اور حضرت عمر کے فہم قرآن سے یہ مسئلہ حل ہو گیا۔(الفاروق جلد2 صفحہ 199)
آپ کو قرآن اور اس کے مطالب سمجھنے کا گہراشوق تھا اور فقہی مسائل پر بھی غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ اور سمجھ نہ آتی تو رسول اللہ ﷺ سے دریافت بھی کرتے رہتے اور جب تک تسلی نہ ہوتی تو رکتے نہ تھے۔ کیونکہ ان کی طرح دیگر اصحاب ایسی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ کلالہ کے مسئلہ کو رسول اللہ ﷺ سے بار بار دریافت کیا۔ ایک بار اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ ام المؤمنین کو بھی اس بارے میں ایک تحریر دی کہ رسول اللہﷺ سے پوچھنا۔(الفاروق)
حضرت عمر مسائل شرعیہ کی نسبت ہمیشہ مصالح اور حکمتوں پر غور وفکر کرتے رہتے تھے اور رسول اللہ ﷺ سے بھی پوچھتے رہتے تھے مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ سفر میں قصر نماز کی بنا یہ ہے کہ دشمن کے حملے کا خطرہ تھا وَاِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا(النساء: 102)مگر جب راستے محفوظ ہو گئے تو حضرت عمر نے رسول اللہ ﷺ سے قصر کرنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا یہ خدا کی رحمت اور انعام ہے۔(صحیح مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین باب صلوٰۃ المسافرین حدیث نمبر 686 )
عمرۃ القضاء کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان ایک مقام پر دوڑنے (رمل) کا ارشاد فرمایا تا کہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان بیماری کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں۔(بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضا٫ حدیث نمبر 4256 )یہ معاملہ وقتی امر تھا حضرت عمر اس مضمون کو خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا مَا لَنَا وَلِلرَّمَلِ إِنَّمَا كُنَّا رَاءَيْنَا بِهِ المُشْرِكِيْنَ وَقَدْ أَهْلَكَهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ قَالَ شَيْءٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَتْرُكَه(صحیح البخاری کتاب الحج باب الرمل فی الحج والعمرۃ حدیث نمبر 1605 ) یعنی اب ہمیں رمل کی کیا ضرورت ہے اس کے ذریعہ ہم مشرکین کو قوت دکھاتے تھے اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا ہے۔ پھر فرمایا: یہ ایک ایسا کام ہے جو رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اس کو چھوڑنا ہم پسند نہیں کرتے۔
علما٫ سے منقول ہے کہ جس قدر مسائل حضرت عمرؓ سے صحیح روایات کے ذریعہ منسوب ہیں ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے ان میں سے ایک ہزار ایسے ہیں جو بہت اہم ہیں اور ان تمام مسائل میں ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی ہے حضرت شاہ ولی اللہ نے ان کی مدد سے فقہ فاروقی پر مشتمل رسالہ لکھ کر اپنی کتاب ازالۃ الخفا٫ میں شامل کر دیا ہے۔شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ صحابہ میں سے جن بزرگوں کی فقہ کا رواج ہوا وہ سب حضرت عمرؓ کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جن کی روایات اور فتاویٰ پر فقہ حنفیہ کی بنیاد ہے وہ حضرت عمر ؓکے خاص شاگرد تھے۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت زید بن ثابتؓ جیسے مجتہدین صحابہ بھی ا ن سے فیض پاتے تھے۔
عمل بالقرآن
محبت قرآن کا لازمی نتیجہ قرآنی احکامات کی تعمیل ہے۔ اس لیے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وقافًا عند القرآن یعنی آپ قرآنی حکم سنتے ہی رک جاتے تھے اور اپنی رائے بدل لیا کرتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال رسول اللہﷺ کی وفات کے وقت آپ کا طرز عمل ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کی وفات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے مگرجب حضرت ابوبکرؓ نے آیت وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَمَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَسَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ(آل عمران:145)پڑھی تو آپ نےایک لمحہ کے توقف کے بغیر فوراً سب نبیوں سمیت حضرت رسول کریمﷺ کی وفات کو قبول کر لیا۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ حدیث نمبر 4454)
ایک بار ایک دیہاتی نے کہا: اے عمر آپ انصاف نہیں کرتے۔ حضرت عمر ؓنے ناراضگی سے دیکھا تو ایک شخص نے یہ آیت پڑھ دی کہ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ(الاعراف:200) تو حضرت عمر کا غصہ اسی وقت ٹھنڈا ہو گیا۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف)
یہ تو نمونہ کے طور پر دو مثالیں ہیں ورنہ حضرت عمرؓ کی ساری زندگی قرآن کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی آپ رسول کریمﷺ اور ابو بکر کے بعد قرآن کی سب سے سچی اور تابندہ تصویر تھے، تقویٰ کے بلند مقام پر فائز تھے، روحانیت میں بے مثال تھے،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جیتی جاگتی کہانی تھے جس کے ذکر سے آپ کی سیرت و سوانح کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔
تعلیم قرآن
حضرت عمرؓ نہ صرف خود سچے عاشق قرآن تھے بلکہ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے دنیا کو قرآن کی تعلیم اور اس کے نور سے منور کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اس کے لیے سرکاری سطح پر کئی قدم اٹھائے۔
1۔عبادت اور علم دین سکھانے کے لیے سب سے پہلی ضرورت مناسب عمارت کی ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں قریباً 4 ہزار مساجد تعمیر کرائیں۔ (الفاروق صفحہ 228)جب کوفہ آباد کیا تو اس میں بہت بڑی مسجد تعمیر کرائی جس میں 40 ہزار افراد نماز پڑھ سکتے تھے عمارت کے باہر بہت بڑا سائبان بھی بنایا گیا (الفاروق صفحہ 232)آپ نے اس شہر کے رہنے والوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ چنانچہ یہی وہ شہر ہے جس میں فن نحو کی ابتدا ہوئی اور ابو الاسود دوئلی نے نحو کے ابتدائی قواعد یہیں مرتب کیے۔ فقہ حنفیہ کی بنیاد اسی شہر میں رکھی گئی۔ امام ابو حنیفہ، امام محمد، اور اما م ابو یوسف کی مشارکت سے جو عظیم علمی خزانہ پروان چڑھا وہ اسی شہر میں تھا۔ حدیث اور دیگر اسلامی علوم کے بڑے بڑے ائمہ یہیں پیدا ہوئے۔ (الفاروق جلد2 صفحہ 233)اسی طرح حضرت عمرؓ نے تمام مفتوحہ ممالک میں ابتدائی مدارس قائم کیے جن میں قرآن کریم، اخلاقیات اور عربی کی تعلیم دی جاتی تھی۔
2۔ اسی طرح آپ نے ہر جگہ قرآن مجید کا درس جاری کیا اور معلم اور قاری مقر ر کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کیں اور یہ امر بھی حضرت عمر کی اولیات میں شمار کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی بار مذہبی اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں۔ مدینۃ الرسول میں چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لیے جو مکاتب قائم کیے گئے ان کے معلمین کی تنخواہیں 15، 15درہم ماہوار تھیں مگر انفرادی طور پر قرآن پڑھانے کے لیے رقم لینے سے منع کرتے تھے۔(کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الافعال فصل فی آداب التلاوۃ جلد 2 صفحہ 336 حدیث نمبر 4179 ) خانہ بدوش مسلمانوں کے لیے قرآن کی تعلیم کا جبری انتظام کیا گیا۔ چنانچہ ایک شخص کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت قبائل میں پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآن کا کوئی حصہ یاد نہ ہو اس کو تنبیہ کریں۔
3۔بعض بزرگ صحابہ کو حضرت عمرؓ نے دور دراز اسلامی ممالک میں بھیجا تاکہ لوگوں کو قرآن سکھائیں۔ مثلاً آپ نے معاذ بن جبلؓ، عبادہ بن صامتؓ اور ابو درداء ؓ کو شام بھیجا اور ہدایت کی کہ ایک شہر میں جائیں، ایک عرصہ وہاں قیام کریں اور جب کچھ شاگرد بن جائیں تو پھر وہ مزید دو شہروں میں چلے جائیں۔
ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ تیس بڑے صحابہ وہاں موجود تھے جو لوگوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ اور جب انہیں کسی مسئلہ میں الجھن ہوتی تو معاذ بن جبل کی طرف رجوع کرتے۔ (تذکرۃ الحفاظ ذہبی جلد 1صفحہ 20)
حضرت ابو درداءؓ جب مسجد میں درس دینے کے لیے آتے تو طالبان علم کا اس قدر ہجوم ہوتا تھا جیسے بادشاہ کے ساتھ لوگ کثرت سے ہوتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد 1صفحہ 12)۔ علامہ ذہبی نے حضرت ابو الدرداءؓ کا طریقہ تعلیم بھی لکھا ہے۔ وہ فجر کی نماز کے بعد جامع مسجد میں بیٹھ جاتے اور ان کے گرد قرآن پڑھنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ وہ دس دس لوگوں کے گروپ بنا کر ایک شخص کو ان کا معلم مقرر کرتے اور خود سب کی نگرانی کرتے۔جب کوئی شخص پورا قرآن یاد کر لیتا تو حضرت ابو الدرداءؓ اس کو اپنی ذاتی شاگردی میں لے لیتے۔ ایک دن انہوں نے گنتی کروائی تو 1600 طالبعلم ان کے حلقہ درس میں موجود تھے۔
4۔حضرت عمرؓ کے زمانہ میں حفاظ قرآن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی۔ ایک بار اپنے فوجی کمانڈروں کو یہ ہدایت بھیجی کہ قرآن کے حفاظ کو میرے پاس بھیجو تاکہ میں ان کو مختلف علاقوں میں قرآن سکھانے کے لیے بھیجوں۔ تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے لکھا کہ صرف میری فوج میں 300 حفاظ موجود ہیں۔(کنز العمال جلد 1 صفحہ 228 بحوالہ الفاروق)
5۔حضرت عمرؓ نے قرآنی علوم عام کرنے کے لیے یہ ہدایت بھی جاری کی کہ چند سورتوں کو سیکھنا ضروری قرار دیا۔ مثلاً سورۃ البقرہ، النساء، المائدہ، سورۃ النوراور الاحزاب کیونکہ ان میں شریعت کے بنیادی احکامات مذکور ہیں۔(کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الافعال حدیث نمبر 4106) اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ یہ سورتیں اچھی طرح سیکھ لیں ان کے لیے انعامات مقرر کیے جائیں۔ اپنی فوجوں کو جو ضروری ہدایات بھیجتے ان میں یہ بھی تھا کہ قرآن پڑھنا سیکھیں۔
6۔ وقتاً فوقتاً قرآن خوانوں کا ریکارڈ ملاحظہ فرماتے رہتے۔
7۔قرآن سیکھنے کے لیے بہت ضروری امر اعراب اور صحت تلفظ کا معاملہ ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے ہر جگہ احکام بھیجے کہ صحت الفاظ اور صحت اعراب کی تعلیم بھی دی جائے۔ نیز یہ بھی ہدایت کی کہ جو شخص لغت کا عالم نہ ہو وہ قرآن نہ پڑھائے۔ (الفاروق جلد2صفحہ 267)
8۔حضرت عمرؓ کے وقت میں نئی نئی قومیں اسلام میں داخل ہو رہی تھیں اور قرآن کو صحیح طرح سیکھنے کے لیے ضروری تھا کہ عربی گرامر اور تلفظ اور سنت رسول ﷺ کی تعلیم بھی دی جائے۔حضرت عمرؓ نے اس طرف بھی پوری توجہ دی اور حکم صادر کیا کہ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَالسُّنَّةَ وَاللَّحْنَ كَمَا تَعَلَّمُوْنَ الْقُرْآنَ(جامع بيان العلم وفضلہ جلد 2 صفحہ 1009 حدیث نمبر1921)یعنی علم وراثت اور سنت نبویؐ اور تلفظ کو اسی طرح سیکھو جس طرح قرآن سیکھتے ہو۔
8۔قرآن کے ساتھ ہی یہ بھی لازم تھا کہ نو مبائعین اسلامی عبادات اور عملی احکام بھی سیکھیں اس کے لیے حضرت عمرؓ نے علم فقہ کی طرف خصوصی توجہ دی بلکہ یہ کہا جائےکہ آپ نے ضرورت زمانہ کے مطابق حدیث کی نسبت فقہ پر زیادہ توجہ دی تو یہ غلط نہ ہو گا کیونکہ لوگ ابھی نیا نیا قرآن سیکھ رہے تھے۔اور حدیثوں کی بجائے سنت کی تفہیم زیادہ ضروری تھی۔
9۔آپ نے جہاں علمی مدارس قائم کیے وہاں شریعت اسلامیہ کو پراگندگی سے بچانے کے لیے ہر کسی کوخود درس دینے یا فتویٰ دینے کی اجازت نہ ہوتی تھی بلکہ انہوں نے خاص افراد مقرر کیے جو لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے مثلاً فرمایا جو قرآن ناظرہ سیکھنا چاہے وہ ابی بن کعب کے پاس جائے جو علم وراثت سیکھنا چاہے وہ زید کے پاس اور جو فقہ کی کوئی بات پوچھنا چاہے وہ معاذ کے پاس جائے اور آپ مقرر کردہ مفتیوں کے فتاویٰ کی جانچ پڑتال بھی کرتے رہتے تھے۔(الفاروق صفحہ221)قرآن کو ہر قسم کی مداخلت سے بچانے کے لیے کئی اقدام کیے مثلاً ایک دفعہ دیکھا کہ ایک شخص نے اپنے قرآن پر ہر آیت کے ساتھ تفسیر بھی لکھی ہوئی ہے تو اس کو روک دیا تاکہ یہ قرآن کا حصہ ہی نہ سمجھ لیا جائے۔ ایک شخص کے پاس بہت ہی باریک لکھائی میں قرآن تھا تو اس کو بھی ناپسند کیا۔(کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الافعال جلد 2 صفحہ 316 حدیث نمبر 4017،4015)
10۔حاملین قرآن کا اعزاز
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے حضرت عمرؓ نے قرآن کی محبت دلوںمیں پیدا کرنے کے لیے بہت سے قدم اٹھائے ان میں سے ایک بہت فطری قد م یہ تھا کہ آپ قرآن کے حاملین،حفاظ اور علما٫کی بہت قدر کرتے تھے، ان کو اپنے دربار میں اور مشوروں میں شامل کرتے، حکومتی سطح پر انہیں عہدے دیتے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان کی طرح قرآن میں دلچسپی لیں۔
آپؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو اپنے دربار میں خاص عزت دیتے تھے جب کہ ان کی عمر چھوٹی تھی اور بڑی عمر کے بعض لوگ اس پر جز بز ہوتے تھے۔ ایک بار کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ ہمارے بچوں کو یہ اعزاز نہیں دیتے تو آپ نے اس کی وجہ ابن عباس کا علم قرآن قرار دیا اور نمونہ کے طورپر ان سے ایک آیت کا مطلب پوچھا جس کا صحیح جواب صرف ابن عباس نے دیا اورحضرت عمر نے واضح کر دیا کہ میرے دربار میں عزت کا باعث صرف قرآن ہے۔(صحیح البخاری کتاب المغازی حدیث نمبر 4294 )
حضرت عمر ؓ نے مکہ پر نافع بن عبد الحارث کو عامل مقرر کیا۔ ایک بار حضرت عمرؓ مکہ آئے تو نافع استقبال کے لیے دور تک چلے گئے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کس کو مکہ پر نگران بنا کر آئے ہو؟ انہوں نے کہا عبد الرحمٰن ابن ابزیٰ کو۔ وہ ایک غلام تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا وہ کتاب اللہ کا سب سے بڑا عالم ہے اور دین کا سب سے زیادہ واقف اور قاضی ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر ایسا کیا ہے تو ٹھیک ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے بہت سی قوموں کو بلند رتبےعطاکرے گا اور کئی قوموں کو گرائے گا۔(سنن ابن ماجہ باب فضل من تعلم القرآن۔ جلد 1 صفحہ 79 حدیث نمبر 218)
تراویح کا عظیم نظام
قرآن کریم کے حوالہ سے آپ کی ایک زبردست خدمت تراویح کے نظام کا قیام ہے رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو چند دن نماز تہجد کے وقت باجماعت نوافل پڑھائے تھے مگر بعد میں اس خیال سے چھوڑ دیے کہ لوگ اسے فرض نہ سمجھ لیں۔ حضرت عمر نے اپنی خلافت میں دیکھا کہ لوگ مسجد میں اپنی اپنی نفل نماز میں مشغول ہیں کچھ انفرادی اور کچھ باجماعت۔ تو آپ نے حضرت ابی بن کعبؓ کو مقرر فرمایا کہ ان کی امامت کرائیں ایک دفعہ لوگوں کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا یہ سونے والوں سے بہتر کام کر رہے ہیں۔ ( صحیح البخاری کتاب صلوۃ التراویح باب فضل من قام رمضان حدیث نمبر 2010) یہی سلسلہ آگے چل کر تراویح کے نام سے موسوم ہوااور قرآن پڑھنے کے حوالہ سے اس عمل نے امت محمدیہ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
حضرت عمرؓ کے وقت میں جب نماز تراویح کا باقاعدہ آغاز ہوا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ تراویح میں فی رکعت تیس آیات پڑھی جائیں تاکہ دس دن میں قرآن مکمل ہو اور پورے رمضان میں قرآن کے تین دور مکمل ہوں۔ (المبسوط للسرخسی جلد2صفحہ146)
تراویح کی رکعتوں کے بارے میں اصولاً یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رسول کریم ﷺ تہجد کے وقت آٹھ رکعات پڑھتے تھے اور یہی آپ کا دوامی عمل تھا تاہم آپ نے بعض اوقات اسے رات کے اول حصے میں بھی پڑھا۔ پس آٹھ رکعات تراویح پڑھنا رسول اللہؐ کی سنت کے مطابق ہے مگر چونکہ تراویح نفل نماز ہے اس لیے اگر کوئی زیادہ رکعت پڑھنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانہ میں لوگ بیس رکعت پڑھنے لگے تھے تاکہ ہر رکعت کی قراء ت جلدی ختم ہو اور ایک ہی رکعت میں لوگوں کو دیر تک کھڑے نہ رہنا پڑے کیونکہ لمبی قراء ت کی وجہ سے بعض اوقات لوگ تھک جاتے تھے۔(فقہ احمدیہ صفحہ209,208)
(20تراویح ٭30آیات= 600آیات
٭ 10 دن= 6000 آیات)
واضح رہے کہ قرآن کریم کی کل آیات چھ ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ بعض کے شمارمیں چھ ہزار چھ سو کے قریب ہیں۔ (اس اختلاف کی وجہ آیات کی کمی بیشی نہیں بلکہ گنتی کے طریق میں فرق ہے)
حضرت عمرکے حکم پر عمل کے لیے آیات کے آخر پر نشان لگانے کا آغاز ہوا اور پانچ آیتوں اور دس آیتوں کے بعد باقاعدہ نشان لگائے گئے۔حضرت عثمان نے غالباً نئے آنے والے اور کمزور لوگوں کا خیال کرتے ہوئے تراویح میں فی رکعت دس آیتیں پڑھنے کا حکم دیا۔(اتحاف السادہ شرح احیاء العلوم بحوالہ عرض الانوار صفحہ105)
انڈیا آفس لائبریری لندن میں عثمانی عہد کا جو قرآن موجود ہے اس میں دس آیتوں کے بعد نشان ہے اور دو سو آیتوں کے بعد حاشیہ پر نشان ہے۔(بحوالہ تاریخ القرآن عبدالصمد صارم صفحہ125)
اس طرح رمضان میں قرآن کریم کا ایک دور مکمل ہوتا تھا۔ آغاز میں اسی پر عمل ہوتا رہا بعد میں یہ خیال ابھرا کہ آیات کی گنتی کو مدنظر رکھنے کی بجائے جہاں مضمون مکمل ہو وہاں پر وقف کیا جائے اور اتنا حصہ ایک رکعت میں تلاوت کیا جائے۔ اس طرح قرآن کریم کے 540 رکوعات قائم ہوئے اور بعض کے خیال میں 551تھے۔
لیکن اس دور میں ابھی قرآن کریم پر باقاعدہ رکوعوں کے نشان نہیں لگائے گئے تھے۔ یہ سارا عمل زبانی تھا تحریر میں نہ تھا۔ تحریر میں رکوع کا یہ (ع) نشان بعد کے علماء کی ایجاد ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ نشان امام ابوعبداللہ محمد بن محمد بن طیفور السجاوندی (متوفی آخر صدی ششم ہجری) کی ایجاد ہے۔(عرض الانوار صفحہ105)
اور اس کو رکوع اس لیے کہتے ہیں کہ یہ حصہ قرآن ایک رکعت میں تلاوت کیا جاتا ہے اور اس کے بعد نمازی رکوع میں جاتا ہے۔(المبسوط للسرخسی جلد2 صفحہ146)
قاضی عمادالدین کہتے ہیں کہ مشائخ بخاری نے قرآن کو 540رکوعات میں تقسیم کیا ہے اور ہر رکوع کے اختتام پر نشان بنا دیےہیں تاکہ قرآن ستائیسویں رمضان کو ختم ہو جائے۔کیونکہ عام طور پر ستائیسویں رمضان کو لیلة القدر سمجھا جاتا ہے۔
(تراویحx20 رکوع= 20 رکوع x ۔27روزے = 540 رکوع)
یعنی اس طرح تراویح کی ہر رکعت میں ایک رکوع پڑھا جائے تو روزانہ بیس تراویح کے لحاظ سے ستائیسویں رمضان کو قرآن کریم کا دور مکمل ہو جائے گا۔ اس طرح کل 540 رکوع بنتے ہیں۔(المبسوط للسرخسی جلد2 صفحہ146 و فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیریہ جلد اول صفحہ188 مطبوعہ 1933ء نولکشور لکھنوٴ و فتاویٰ قاضی خان صفحہ171)
یہاں یہ بات دلچسپی کے قابل ہے کہ سنٹرل لائبریری بہاولپور میں قرآن کریم کا ایک قدیم قلمی نسخہ موجود ہے جو چھٹی صدی ہجری میں روسی ترکستان میں لکھا گیا۔ اس قرآن کریم کے متن میں آیات کے نشان سنہری، رکوع کے نشان سرخ، بیان نزول سورت کے الفاظ نیلی روشنائی میں ہیں جبکہ تمام اعراب سرخ رنگ کے لگائے گئے ہیں۔(سیارہ ڈائجسٹ قرآن نمبر جلد دوم صفحہ785)پارہ کا تصور بھی غالباً نماز تراویح ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کیونکہ حضرت عثمان کے زمانہ میں جب رمضان میں ایک بار قرآن کریم کا دور کرنے کا طریق شروع ہوا تو جتنا قرآن ایک دن کی بیس تراویح میں پڑھا جاتا تھا اسے ایک جزء قرار دیا گیا۔لیکن پھر اس سے وسعت پذیر ہو کر ایک ماہ میں تلاوت قرآن کرنے کی غرض سے اسے تیس حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
اس عمل کی بنیاد آنحضرت ﷺ کی اس حدیث پر ہے جس میں رسول اللہؐ نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے فرمایا تھا کہ قرآن کو ایک مہینے میں ختم کیا کرو۔لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو نے عرض کی کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے تو رسول کریم ؐنے انہیں کم ازکم سات دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت فرمائی اور یہیں سے غالباً سات منزلوں کا خیال پیدا ہوا۔(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب فی کم یقرءالقرآن)
حضرت عثماننے اپنے عہد میں جو قرآن لکھا وہ تیس جزو پر مشتمل تھا۔(مفید القاری بحوالہ عرض الانوار صفحہ105)حضرت علی اور ان کےصاحبزادگان کے لکھے ہوئے قرآن اور پارے کئی کتب خانوں میں موجود ہیں۔(عرض الانوار صفحہ70)تابعین کے دور میں یہ کام مزید آگے بڑھا اور باقاعدہ ہر پارہ کا نام تجویز کیا گیا اور ہر پارے کا نام اس کے پہلے لفظ پر لکھا گیا۔(اردو انسا ئیکلو پیڈیا زیر لفظ قرآن صفحہ754)ہارون الرشید کے کاتب نے ایک قرآن تیس ورق پر لکھ کر بادشاہ کو پیش کیا تھا اور اسی سے وہ تلاوت کیا کرتا تھا۔30پاروں سے قرآن کے حجم کو سنبھالنے میں آسانی ہو گئی یعنی بچے بھی ایک ایک مطلوبہ پارے کو بستہ میں رکھ سکتے ہیں۔
پس یہ تراویح کا سسٹم ہی ہے جس نے امت مسلمہ میں قرآن کے حوالہ سے بہت سی برکات کو جنم دیا۔
الغرض اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمرؓ نہایت عظیم الشان فاتح تھے اور آپ نے اپنے زمانہ کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ لیکن عام مؤرخین تو حضرت عمرؓ کی ظاہری فتوحات کو ہی کل سرمایہ سمجھتے ہیں جبکہ درحقیقت آپ کا بحیثیت خلیفہ راشد اور جانشین رسول اصل مقصود تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی سچی تعلیم اور نمونہ کو قائم کرنا تھا اور یہ کام آپ نے اس شان سے کیا کہ اس کے اثرات قیامت تک جاری رہیں گے۔ آپ نے نہ صرف قرآن سے ذاتی محبت کی بلکہ اس کی روشنی میں آئندہ نسلوں تک پھیلانے کے لیے بے شمار سلسلہ چلا دیے۔ وہ جمع قرآن کا سلسلہ ہو،یا تعلیم قرآن کا،یا تفسیر قرآن کا،یا اس کے تابع سنت و حدیث نبویؐ کے سچے معانی اور فقہی مسائل کا سلسلہ ہو۔ ہر پہلو میں آپ بے نظیر ہیں۔
عمر فاروق اعظمؓ کے اس عظیم کام کو اس دور آخرین میں فضل عمر ؓنے آگے بڑھایا اور قرآنی علوم کو عام کرنے اور قرآن کو دنیا کی تمام زبانوں اور خطوں تک پہنچانے کے لیے جو عظیم الشان کوششیں کیں ان کا اجر یقیناً حضرت عمر کو بھی پہنچتا رہے گا اور ان کے درجات بلند ہوتے رہیں گے ان شاء اللہ۔