خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍فروری ۲۰۲۳ء
اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری صحابہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
حضرت عامر بن ربیعہؓ ، حضرت حرام بن ملحانؓ، حضرت سعد بن خولہؓ، حضرت ابوالہیثم بن التیہانؓ، حضرت عاصم بن ثابتؓ ،حضرت سہل بن حُنیفؓ اورحضرت جبار بن خضرؓ کی سیرت کے بعض پہلوؤں کا ایمان افروز تذکرہ
٭… صحابہ خدا کی راہ میں مارے جانے کو اپنے لیے عین راحت اور خوشی محسوس کیا کرتے تھے
٭… مخالفانہ حالات کے پیش نظرپاکستان، برکینا فاسو اور الجزائر میں بسنے والے احمدیوں کے لیے دعا اور صدقات کی تازہ تحریک
٭…مکرم محمد رشید صاحب شہید ضلع گجرات،مکرمہ امانی بسام مجلاوی صاحبہ،عزیزم صلاح عبد المعین قطیش آف اسکندرون، ترکی اور مکرم مقصود احمد منیب صاحب(مربی سلسلہ،کوئٹہ ،پاکستان) کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍فروری ۲۰۲۳ء بمطابق ۱۰؍تبلیغ ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۲۴؍فروری ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئی۔
تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
بدری صحابہ جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے ان کے حوالے سے بعض باتوں کا ذکر رہ گیا تھاجو میں بیان کررہا تھا۔ اس حوالے سے آج بھی بیان کروں گا جس کے بعد بدری صحابہ کے بارے میں یہ سلسلہ جو میں بیان کرنا چاہتا تھا وہ ختم ہوجائے گا۔
حضرت عامر بن ربیعہؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپؓ کے والد کا نام ربیعہ بن کعب بن مالک بن ربیعہ تھا۔آپؓ سے بعض روایات بھی ملتی ہیں۔عبداللہ بن عامرربیعہؓ اپنی والدہ حضرت امِّ عبداللہ لیلیٰ بنت ابو حثمہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم حبشہ کی طرف کُوچ کرنے والے تھے اور عامر بن ربیعہؓ کسی کام کے سلسلے میں کہیں گئے ہوئے تھے کہ حضرت عمرؓ جو کہ ابھی حالت شرک میں تھے وہاں آنکلے۔ اُنہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا روانگی ہے؟میں نے کہا ہاں! اللہ کی قسم۔ہم اللہ کی زمین میں جاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کشادگی پیدا کردے۔تم لوگوں نے ہمیں بہت دُکھ دیا اور ہم پر بہت سختیاں کی ہیں۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ تمہارا نگہبان ہو! وہ کہتی ہیں کہ میں نے اُس دن حضرت عمرؓ کی آواز میں وہ رِقّت دیکھی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ ہمارے کُوچ کرنے نے اُنہیں غمگین کردیا تھا۔ حضرت عامرؓ جب واپس آئے تو میں نےاُن سے کہا کہ کیا آپؓ نے ابھی عمرؓ اوراُن کی رِقّت کو دیکھا۔حضرت عامرؓ نے جواب دیا کہ کیا تُو اُن کے مسلمان ہونے کی خواہشمند ہے؟ پھر اُنہوں نے کہا کہ خطاب کا گدھا مسلمان ہوسکتا ہے لیکن وہ شخص اسلام نہیں لاسکتا۔حضرت لیلیٰ کہتی ہیں کہ عامرؓ نے یہ بات اُس نااُمیدی کی وجہ سےکہی تھی جو اُن کو حضرت عمرؓ کے اسلام کی مخالفت اور سختی کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عامرؓبیان کرتے ہیں کہ اُن کے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ نے بتایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کسی سریہ میں روانہ فرماتےتھے تو ہمارے پاس زاد راہ صرف کھجور کا ایک تھیلہ ہوتاتھا۔ امیرلشکر ہمارے درمیان ایک مٹھی بھر کھجور تقسیم کردیتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ ختم ہوجاتی تو پھر ایک کھجور ایک آدمی کو ملا کرتی تھی۔عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے والد سے پوچھا کہ ایک کھجور کیا کفالت کرتی ہوگی؟اُنہوں نے کہا کہ ایسا نہ کہو کیونکہ اُس کی اہمیت ہمیں اُس وقت معلوم ہوتی جب ہمارے پاس وہ بھی نہ ہوتی۔
حضرت عمرؓ جب جابیہ تشریف لے گئے تو حضرت عامرؓ ساتھ تھے۔ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کا جھنڈا حضرت عامرؓ کے پاس تھا۔حضرت عامر بن ربیعہؓ کی وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن علامہ ابن عساکر کے نزدیک ۳۲؍ہجری والی روایت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔آپؓ کی وفات کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد آپؓ اپنے گھر میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ جب آپ کا جنازہ گھر سے نکلا۔
حضرت عبداللہ بن عامرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نےبنو فزارہ کی ایک عورت سے دو جوتے حق مہر پر نکاح کرلیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔اپنے والد سے ہی ایک اور روایت میں وہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپؐ نے سفر میں اپنی اونٹنی کی پیٹھ پررات کو نفل پڑھے اورآپؐ کا منہ اُسی طرف تھا جس طرف اونٹنی جارہی تھی۔
حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اندھیری رات میں سفر میں تھا کہ جب ایک مقام پر اُترے تو ایک شخص نے پتھر اکٹھے کیے اور نماز کے لیے جگہ بنائی اور نماز پڑھی۔ صبح معلوم ہوا کہ ہمارا منہ غیر قبلہ کی طرف تھا۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَلِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَالۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ۔اور اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اورمغرب بھی پس جس طرف بھی تم منہ پھیردو وہیں خدا کا جلوہ پاؤگے۔
حضور انور نے وضاحت فرمائی کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھانے کے لیے پڑھ کر سُنائی ہو۔ ضروری نہیں ہے کہ اُس وقت نازل ہوئی ہو۔
حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجتا ہے۔پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یا زیادہ درور بھیجو۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندہ مجھ پر سلامتی کی دعا کرتااور جب تک وہ اس حالت میں رہتا ہے فرشتے بھی اُس پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔پس بندے کے اختیار میں ہے کہ چاہے تو زیادہ مرتبہ سلامتی کی دعا کرے اور چاہے تو کم۔
اگلا ذکر ہے حضرت حرام بن ملحانؓ کا۔حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں صحابہ خدا کی راہ میں مارے جانے کو اپنے لیے عین راحت اور خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔وہ حفاظ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے ایک قبیلے میں تبلیغ کے لیے بھیجا تھا اُن میں حضرت حرام بن ملحانؓ بھی تھے۔وہ اسلام کا پیغام لے کر کفار کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے۔ شروع میں کفار نے منافقانہ طور پر اُن کی آؤبھگت کی لیکن بعد میں کسی خبیث نے پیچھے سے حضرت حرام بن ملحانؓ پر نیزے کا وار کیا جس سے وہ گِر گئے اور گِرتے ہی اُن کی زبان سے بےساختہ نکلا اللہ اکبر۔ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃیعنی کعبہ کے ربّ کی قسم !مَیں نجات پاگیا۔ پھر کفار باقی صحابہؓ پر بھی حملہ آور ہوگئے اور سوائے دو کے باقی سب کو شہید کردیا۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہؓ کے لیے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی۔
اگلا ذکر ہے حضرت سعد بن خولہؓ کا۔عامربن سعدؓ اپنے والد سعد بن وقاصؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت فرمائی۔بیماری کے باعث میں موت تک پہنچ گیا تھا۔ مَیں نے کہا کہ میری تکلیف آپؐ دیکھ رہے ہیں۔میری وارث میری بیٹی کے سوا کوئی نہیں۔میرے پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا کہ تیسرا حصہ صدقہ کردو۔ پھر فرمایا کہ وارثوں کو اچھی حالت میں چھوڑنا محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے۔اللہ کی راہ میں جو بھی خرچ کروگے تمہیں اُس کا اَجر دیا جائے گایہاں تک کہ ایک لقمہ بھی جو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو اس کا بھی اَجر دیا جائے گا۔حضرت سعد بن خولہؓ ہجرت کے بعد مکہ میں فوت ہوگئے تھے۔
اگلا ذکر ہے حضرت ابوالہیثم بن التیہانؓ کا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ مَیں سب سے پہلے آپﷺ کی بیعت کرنے والا ہوں۔ہم کس طرح آپؐ کی بیعت کریں؟آپؐ نے فرمایا کہ میری اس بات پر بیعت کرو جس پر بنی اسرائیل نے موسیٰؑ کی بیعت کی۔آپؓ جنگ میں دو تلواریں لٹکایا کرتے تھے اس لیے آپؓ کو ذو السیفین بھی کہا جاتا ہے۔انہوں نے جنگ صفین میں شہادت پائی تھی۔
پھر ذکر ہے حضرت عاصم بن ثابتؓ کا۔ امام رازی نے لکھا ہے کہ جنگ احد میں جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے اُن میں حضرت عاصم بن ثابتؓ بھی شامل تھے۔
اگلا ذکر حضرت سہل بن حُنیفؓ انصاری کا ہے۔ جنگ احد میں قریب رہنے والوں میں حضرت سہل بن حُنیفؓ کا بھی ذکر ہے۔ حضرت عمیر بن سعیدؓ سے مروی ہے کہ حضرت علیؓ نے ان کی نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں پڑھیں۔لوگوں نے تعجب کیا تو فرمایا کہ یہ سہل بن حُنیف ہیں جو اہل بدرمیں سے ہیں اور اہل بدر کو غیر اہل بدر پر فضیلت ہے۔میں نے چاہا کہ تمہیں ان کی فضیلت بتادوں۔
پھر حضرت جبار بن صخرؓ کا ذکر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ڈیڑھ سو صحابہ کے ہمراہ بنو طے کے بُت فُلس کو گرانے کے لیے روانہ فرمایا۔آپؐ نے حضرت علیؓ کوکالے رنگ کا جھنڈا اور سفید رنگ کا چھوٹاپرچم عطا فرمایا۔حضرت علیؓ صبح کے وقت آل حاتم پر حملہ آور ہوئے اور اُن کے بت فُلس کو ختم کردیا۔اس سریہ میں لِوا حضرت جبار بن خضرؓ کے پاس تھا۔
حضور انور نے صحابہ کے ذکرِ خیر کے بعد مخالفانہ حالات کے پیش نظر پاکستان، برکینا فاسو اور الجزائرکے احمدیوں کے لیے دعائیں کرنے اور صدقات پر زور دینے کی تحریک فرمائی۔
تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:
خطبہ جمعہ کے آخر پرحضور انور نے مکرم محمد رشید صاحب شہید (ضلع گجرات)، مکرمہ امانی بسام مجلاوی صاحبہ اورعزیزم صلاح عبد المعین قطیش آف اسکندرون،ترکی اور مکرم مقصوداحمد منیب صاحب مربی سلسلہ،کوئٹہ، پاکستان کی وفات پر ان کا ذکر خیر فرمایا اوران کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کااعلان فرمایا۔
٭…٭…٭