خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍فروری 2023ء

’’آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب ہے جو اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے یعنی قرآن شریف۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

اگر مسلمان زمانے کے امام کو مان لیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کریں تو غیر مسلموں کو کبھی اس طرح قرآن کریم کی توہین کی جرأت نہ ہو

لوگ سوال کرتے ہیں کہ خدا کو اگلے جہان میں دیکھنا ہے تو کس طرح دیکھیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو تو اسی جہان میں خدا کو دیکھ لو گے

’’وہ خدا جو تمام دنیا پر پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسی مثالیں ہیں کہ غیر مذہب بلکہ لامذہب اور خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی خدا کے وجود کا یقین دلایا گیا۔ عقلی دلائل دیے گئے اور پھرجب نشان دکھائے گئے اور واقعات بیان کیے گئے تو انہوں نے مذہب کو بھی مانا اور اسلام کو بھی مانا۔ یہاں مغرب میں بھی ایسے لوگ ہیں

’’اس میں ایک زبردست طاقت ہے جو اپنے پیروی کرنے والوں کو ظنی معرفت سے یقینی معرفت تک پہنچا دیتی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’غرض قرآن شریف کی زبردست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیئے جاتے ہیں اوروہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کے بارے میں بصیرت افروز بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍فروری 2023ءبمطابق 10؍تبلیغ 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبےمیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں

بیان کر رہا تھا۔ آج اس سلسلےمیں مزید کچھ پیش کروں گا۔

قرآن کریم کے فضائل اور اہمیت

کو بیان فرماتے ہوئے اپنی تصنیف تحفۂ قیصریہ میں جو ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر آپؑ نے تصنیف فرمائی تھی جس میں ملکہ کو اسلام کا پیغام دیا تھا اور اسلام کی تبلیغ کی تھی اس میں تحریر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کے لئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔ دوبارہ قائم ہوگئی۔‘‘

(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 282)

اب

کون تھا اُس زمانے میں جس نے اتنی جرأت سے قیصرۂ ہند کو اس طرح کا یہ پیغام بھیجا ہو، اسلام کی تبلیغ کی ہو۔

آج یہی لوگ جن میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اسلام اور قرآنِ کریم کی عظمت بیان کرتے، ہمیں یہ کہتے ہیں کہ نعوذباللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام یا جماعتِ احمدیہ قرآن کریم کی توہین کر رہی ہے اور جو غیر مسلم ہیں وہ ان کی حرکتیں دیکھ کر اسلام کی مخالفت میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی عظمت کا ردّ تو کرنہیں سکتے اس لیے دل کی تسکین کے لیے قرآنِ کریم کے نسخوں کو جلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں جس طرح سویڈن میں یہ واقعات ہو رہے ہیں۔ سکینڈےنیوین ملکوں میں ہوتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھی ہوا۔

اگر مسلمان زمانے کے امام کو مان لیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کریں تو غیر مسلموں کو کبھی اس طرح قرآن کریم کی توہین کی جرأت نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں کو عقل دے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ

قرآنِ کریم ہی صرف اب ہدایت کا ذریعہ ہے

آپؑ فرماتے ہیں:’’اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگرکوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کاربند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔‘‘

لوگ سوال کرتے ہیں کہ خدا کو اگلے جہان میں دیکھنا ہے تو کس طرح دیکھیں گے؟

آپؑ فرماتے ہیں

قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو تو اسی جہان میں خدا کو دیکھ لو گے۔

’’وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اس کی شناخت کے لئے بجز قرآنی تعلیم کے اَور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔

قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘

اس کی تعلیم پر عمل کرو گے تو نشانات ایسے ظاہر ہوں گے کہ خدا کے وجود کا پتہ لگ جائے گا۔ فرمایا ’’اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے اور قرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہئے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لاشے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 25-26)

پھر

قرآن کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت کا بیان

فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآنِ کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے۔‘‘ مکمل طور پر علم سے نوازا گیا ہے اور عملی ہدایات دی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایاکہ ’’چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ(الفاتحہ:6)میں تکمیلِ علمی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ یعنی قرآن کریم ہی وہ مکمل کتاب ہے جس کی تعلیم صحیح راستے پہ راہنمائی کرتی ہے۔ ’’اور تکمیلِ عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ:7) میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اَتَم ہیں وہ حاصل ہو جائیں۔‘‘ عملی ترقی کے لیے ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا ہے جو انعام یافتہ ہیں۔ جن کا گذشتہ جمعہ میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ کون لوگ انعام یافتہ ہیں۔ نبی ہیں، صدیق ہیں، شہید ہیں، صالحین ہیں۔ اور پھر ان کی مثالیں بھی موجود ہیں اور اس زمانے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں جن کو انعامات سےاللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔ فرمایا: ’’جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں وہ ہدایت مردہ ہدایت ہے جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ جیسے اگر کسی کو وید کی ہدایت پر پورا عمل کرنے سے کبھی یہ امید نہیں ہو سکتی کہ وہ ہمیشہ کی مکتی یا نجات حاصل کر لے گا اور کیڑے مکوڑے بننے کی حالت سے نکل کر دائمی سرور پا لے گا تو اس ہدایت سے کیا حاصل۔ مگر

قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے۔

یہاں تک کہ اس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کئے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیب کی مثال جوقرآن شریف میں دی گئی ہے بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ ان میں پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ188-189 ایڈیشن 1984ء)

پھر فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں اور تقریباً سب کے سب لوگ بداعمالیوں اور بد عقیدگیوں میں گرفتار تھے۔ اسی کی طرف اللہ جلّ شانہٗ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے۔ ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) یعنی تمام لوگ کیا اہلِ کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب بدعقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فسادِ عظیم برپا تھا۔ غرض ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائدِ باطلہ کی تردید کے لئے قرآنِ مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کل مذاہبِ باطلہ کا ردّ موجود ہے… اور خا ص کر سورۂ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے جیسے فرمایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ(الفاتحہ:2)یعنی ساری خوبیاں اُس خدا کے لئے سزاوار ہیں جو سارے جہانوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ اَلرَّحْمٰن وہ بغیر اعمال کے پیدا کرنے والا ہے اور بغیر کسی عمل کے عنایت کرنے والا ہے۔‘‘اس کی رحمانیت کام کرتی ہے۔ ’’اَلرَّحِیْم اعمال کا پھل دینے والا۔‘‘ جو کام کرو اس کا پھل دیتا ہے، جودعائیںکرو ان کو قبول کرتا ہے۔ ’’مَا لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ (الفاتحہ:4)جزا سزا کے دن کا مالک۔‘‘ اور جزا سزا اس دنیا میں بھی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ فرمایا کہ ’’ان چار صفتوں میں کُل دنیا کے فرقوں کا بیان کیا گیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد10صفحہ31-32 ایڈیشن 1984ء)

اب غور سے اگر انسان پانچ وقت نمازوں میں یہ پڑھے
تو بڑی معرفت حاصل کر سکتا ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ

قرآن ایک معجزہ ہے

آپؑ فرماتے ہیں:’’معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریقِ مخالف اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے۔‘‘ کوئی مثال پیش نہ کر سکے۔ ’’خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو جیساکہ قرآنِ شریف کا معجزہ جو ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ پس وہ اگرچہ بنظرِ سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے۔ پس

معجزہ کی حقیقت سمجھنے کے لئے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے

کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیساکہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کے لحاظ سے اور نہایت لذیذ اور مصفیٰ اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کا التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیز زبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود گذرنے تیرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے۔ قرآن شریف کو تمام دنیا کی کتابوں سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارات میں جو اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور فصاحت سے پُر اور حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں بیان فرماتا ہے۔ غرض اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایک امتیاز دکھلانا ہے اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے۔ نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل ہونا ممکن ہے کہ جو پورے یقین سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدا تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے۔

سچے مذہب کے ضروری اور اہم لوازم میں سے یہ امر ہے کہ اس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدائے تعالیٰ کی ہستی پر قطعی اوریقینی دلالت کریں اور وہ مذہب اپنے اندر ایسی زبردست طاقت رکھتا ہو جو اپنے پیرو کا خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے ہاتھ ملا دے۔‘‘

ایسا تعلق پیدا کر دے اللہ سے۔ ’’…صرف مصنوعات پر نظر کرکے صانع کی فقط ضرورت ہی محسوس کرنا اور اس کی واقعی ہستی پر اطلاع نہ پانا یہ کامل خدا شناسی کے لئے کافی نہیں ہے۔ ‘‘صرف اتنا ہی پتا کرنا کہ کوئی بنانے والا ہے، اتنا ہی کافی نہیں ہے۔

’’اور اسی حد تک ٹھہرنے والے کوئی سچا تعلق خدائے تعالیٰ سے حاصل نہیں کرسکتے اور نہ اپنے نفس کو جذبات نفسانیہ سے پاک کرسکتے ہیں۔‘‘ صرف اتنا علم ہوجانا کہ کوئی ہے، اس سے تو نفس کی صفائی نہیں ہو سکتی، نہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔ ’’اس سے اگر کچھ سمجھا جاتا ہے تو صرف اس قدر کہ اس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہیے نہ یہ کہ درحقیقت وہ صانع ہے بھی۔‘‘ یعنی جو بھی کائنات میں اور دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے اس کا کوئی بنانے والا بھی ہے ۔ یہ اصل علم بھی ہونا چاہیے۔ اور

جب اس کا علم ہو کہ کون ہے وہ؟ اور جس خدا کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ ہے وہ خدا تو پھر حقیقی تعلق بھی پیدا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی ہے۔ پھر انسان اپنے نفس کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرتا ہے۔

فرمایا:’’اور ظاہر ہے کہ صرف ضرورت کو محسوس کرنا ایک قیاس ہے جو رؤیت کا قائم مقام نہیں ہوسکتا اورنہ رؤیت کے پاک نتائج اس سے پیدا ہوسکتے ہیں۔‘‘ کسی کو قیاس کرنا اور دیکھنے میں بڑا فرق ہے۔ ’’پس جو مذہب انسان کی خدا شناسی کو صرف ’ہونا چاہئے‘ کے ناقص مرحلہ تک چھوڑتا ہے وہ اس کی عملی حالت کا چارہ گر نہیں ہے۔ پس درحقیقت ایسا مذہب ایک مردہ مذہب ہے جس سے کسی پاک تبدیلی کی توقع رکھنا ایک طمعِ خام ہے۔ظاہر ہے کہ محض عقلی دلائل مذہب کی سچائی کے لئے کامل شہادت نہیں ہوسکتے اور یہ ایسی مہر نہیں ہے کہ کوئی جعلساز اس کے بنانے پر قادر نہ ہو بلکہ یہ تو عقل کے چشمۂ عام کی ایک گداگری متصور ہو سکتی ہے۔‘‘ صرف عقلی دلیلیں تو دی جا سکتی ہیں یا عقل سے کوئی بہت بڑی باتیں بھی کر سکتا ہے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو انسان نہ جانے اور ان سے استفادہ نہ کرے۔

فرمایا:’’پھر اس بات کاکون فیصلہ کرے کہ عقلی باتیں جو ایک کتاب نے لکھیں درحقیقت وہ الہامی ہیں یا کسی اَور کتاب سے چراکر لکھی گئی ہیں۔ اور اگر فرض بھی کرلیں کہ وہ چرائی ہوئی نہیں ہیں تو پھر بھی ہستی باری تعالیٰ پر وہ کب دلیل قاطع ہوسکتی ہیں اور کب کسی طالبِ حق کا نفس اس بات پر پوری تسلی پاسکتا ہے کہ فقط وہی عقلی باتیں یقینی طور پر آیت خدا نما ہیں اور کب یہ اطمینان بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں بکلی غلطی سے مبرا ہیں۔‘‘ یعنی وہ ایسے نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں یاہر قسم کی غلطی سے پاک ہیں۔ ’’پس اگر ایک مذہب صرف چند باتوں کو عقل یا فلسفہ کی طرف منسوب کرکے اپنی سچائی کی وجہ بیان کرتا ہے اور آسمانی نشانوں اور خارق عادت امور کے دکھلانے سے قاصر ہے توایسے مذہب کا پیرو فریب خوردہ یا فریب دہندہ ہے او روہ تاریکی میں مرے گا۔ غر ض محض عقلی دلائل سے تو خدائے تعالیٰ کا وجود بھی یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ کسی مذہب کی سچائی اس سے ثابت ہوجائے اور جب تک ایک مذہب اس بات کاذمہ وار نہ ہو کہ وہ خدا کی ہستی کو یقینی طورپر ثابت کرکے دکھلائے تب تک وہ مذہب کچھ چیز نہیں ہے اور بدقسمت ہے وہ انسان جو ایسے مذہب پر فریفتہ ہو۔ ہر ایک وہ مذہب لعنت کا داغ اپنی پیشانی پر رکھتا ہے جو انسان کی معرفت کو اس مرحلہ تک نہیں پہنچا سکتا جس سے گویا وہ خدا کو دیکھ لے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ59تا61)

پس یہ ہے وہ مقام جس کو حاصل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔

خدا کو پہچانیں۔ نشانوں سے پہچانیں۔ ذاتی تعلق سے پہچانیں صرف عقلی دلائل نہیں اور پھر جو حقیقت ہے اللہ تعالیٰ کی وہ حقیقت انسان پہ کھلتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسی مثالیں ہیں کہ غیر مذہب بلکہ لامذہب اور خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی خدا کے وجود کا یقین دلایا گیا۔ عقلی دلائل دیے گئے اور پھر جب نشان دکھائے گئے اور واقعات بیان کیے گئے تو انہوں نے مذہب کو بھی مانا اور اسلام کو بھی مانا۔ یہاں مغرب میں بھی ایسے لوگ ہیں۔

مثلاً بیلجیم کے ایک بیلجین دوست تھے۔ دہریہ تھے۔ انڈونیشین اوریجن کے تھے پھر بیلجیم آ گئے اور وہیں کے ہو گئے۔ انہوں نے بیعت کی اور مجھے خود انہوں نے بتایا کہ

میں نے جب خدا تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کر لیا نہ صرف عقل سے بلکہ واقعاتی دلائل سے اور نشانات سے تو پھر میرے لیے اَور کوئی چارہ نہ تھا کہ میں احمدیت اور حقیقی اسلام کو تسلیم کروں

اور کہتے ہیں یہ راستہ کیونکہ مجھے احمدیت نے دکھایا تھا اس لیے میں احمدی مسلمان ہوا۔

پھر

قرآن کریم دعویٰ کرتا ہے کہ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ان آیات میں جو معرفت کا نکتہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ …خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ الٓم۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:2-3)یعنی یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے۔‘‘ جہالت اور بھول چوک سے پاک ہے ’’اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک و شبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کے لئے ایک کامل ہدایت ہے۔ اور ان کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لئے آخری مقام ہے۔ اور‘‘ پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ متقی کون ہیں جن کو ہدایت فرماتا ہے، فرماتے ہیں: ’’خدا ان آیات میں فرماتا ہے کہ

متقی وہ ہیں کہ جو پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں وہی ہدایت کے سر پر ہیں اور وہی نجات پائیں گے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ136-137)

یہ متقی کی تعریف ہے۔

پھر

قرآن بطور دین کامل ہونے کے

بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن شریف نے دین کے کامل کرنے کا حق ادا کردیا ہے جیساکہ وہ خود فرماتا ہے۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المائدۃ:4)یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے اور میں اسلام کو تمہارا دین مقرر کرکے خوش ہوا۔ سو قرآن شریف کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب کچھ قرآن شریف بیان کرچکا اب صرف مکالماتِ الہیہ کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی خود بخود نہیں بلکہ سچے اور پاک مکالمات جو صریح اور کھلے طور پر نصرت الٰہی کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور بہت سے امور غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں وہ بعد تزکیہ نفس محض پیروی قرآنِ شریف اور اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتے ہیں۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ 80)

افسوس کہ ہمارے مخالفین یہ معرفت کی باتیں سننا نہیں چاہتے اور ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم نے قرآن کریم میں تحریف کر دی۔ قرآن کریم کے بطور طب روحانی کے بارے میں

آپؑ اپنی تصنیف چشمہ معرفت میں فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف ایک ایسی پُرحکمت کتاب ہے جس نے طبِ روحانی کے قواعدِ کلیہ کو یعنی دین کے اصول کو جو دراصل طبِ روحانی ہے طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ کے ساتھ تطبیق دی ہے۔‘‘ اس کے مطابق ٹھہرایا ہے۔ ’’اور یہ تطبیق ایک ایسی لطیف ہے جو صدہا معارف اور حقائق کے کھلنے کا دروازہ ہے اور سچی اورکامل تفسیر قرآن شریف کی وہی شخص کرسکتا ہے جو طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ پیش نظر رکھ کر قرآن شریف کے بیان کردہ قواعد میں نظر ڈالتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے خود راہنمائی فرمائی۔ بعض طبیبوں کی کشفی رنگ میں کتابیں دکھلائی گئیں ’’جو طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستّہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں۔‘‘ اس تعلق میں تھیں ’’جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی۔‘‘ ان میں سے ایک کتاب قرشی جو حکیم ہیں ان کی بھی تھی ’’اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے اس سے معلوم ہوا کہ عِلم الابدان اور عِلم الادیان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں اور جب میں نے ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں قرآنِ شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طبِ جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہایت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں۔‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ102-103)

یعنی

جسمانی اور روحانی علاج کے لیے بھی قرآن کریم سے ہی صحیح مدد ملتی ہے اور اس میں غور کرنے کے لیے، معرفت حاصل کرنے کے لیے زمانے کے امام کی باتوں کو سننے کی ضرورت ہے، اس کے لٹریچر کو پڑھنے کی ضرور ت ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ

تعلق باللہ کا اصل ذریعہ قرآن کریم ہی ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ انسان اُس خدائے غیب الغیب کو ہر گز اپنی قوت سے شناخت نہیں کر سکتا جب تک وہ خود اپنے تئیں اپنے نشانوں سے شناخت نہ کراوے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ تعلق خاص خدا تعالیٰ کے ذریعہ سے پیدا نہ ہو اور نفسانی آلائشیں ہر گز نفس میں سے نکل نہیں سکتیں جب تک خدائے قادر کی طرف سے ایک روشنی دل میں داخل نہ ہو اور دیکھو کہ میں اس شہادتِ رویت کو پیش کرتا ہوں کہ وہ تعلق محض قرآن کریم کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے دوسری کتابوں میں اب کوئی زندگی کی روح نہیں اور

آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب ہے جو اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے یعنی قرآن شریف۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 2)

پس قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرنے سے خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔

ہم احمدیوں کے لیے بھی یہ غور کا مقام ہے۔ ہم میں کتنے ہیں جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں، غور سے دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارا اور ان راستبازوں کاجو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں یہ چشم دید واقعہ اور ذاتی تجربہ ہے کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی میں جو اخلاص اور صدق قدم سے ہو یہ خاصیت ہے کہ آہستہ آہستہ خدائے واحد لاشریک کی محبت دل میں بیٹھتی جاتی ہے اور کلام الٰہی کی روحانی طاقت انسانی روح کو ایک نور بخشتی ہے جس سے اس کی آنکھ کھلتی ہے اور انجام کار عالم ثانی کے عجائبات اس کو دکھائی دیتے ہیں۔ پس اس دن سے اس کو علم الیقین کے طور پر پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے اور پھر وہ یقین ترقی کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ علم الیقین سے عین الیقین تک پہنچتا ہے اور پھر عین الیقین سے حق الیقین تک پہنچ جاتا ہے۔ جو شخص قرآنِ شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے پہلے اس کو کوئی تزکیہ نفس حاصل نہیں ہوتا اور کئی قسم کے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے پھر خدا کی رحمت اس کی دستگیری کرتی ہے اور خارق عادت طریقوں سے اس کے ایمان کو قوت دی جاتی ہے اور جیساکہ قرآن شریف میں وعدہ ہے کہ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (یونس:65)یعنی ایمانداروں کو خدا کی طرف سے بشارتیں ملتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی وہ بھی اپنی ذات کے متعلق کئی قسم کی بشارتیں پاتارہتا ہے اور جیسے جیسے بذریعہ ان بشارتوں کے اس کا ایمان قوی ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ گناہ سے پرہیز کرتا اور نیکیوں کی طرف حرکت کرتاہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ 423-424)

اسلام کی برتری پر ایک مضمون میں جو آریہ سماج کے جلسہ میں پڑھا گیا تھا اس میں

قرآن شریف کی امتیازی خصوصیات

کا ذکر فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’وہ امتیازی نشان کہ جو الہامی کتاب کی شناخت کے لئے عقل سلیم نے قرار دیا ہے وہ صرف خداتعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن شریف میں پایا جاتا ہے اور اس زمانہ میں وہ تمام خوبیاں جو خدا کی کتاب میں امتیازی نشان کے طور پر ہونی چاہئیں دوسری کتابوں میں قطعاً مفقود ہیں ممکن ہے کہ ان میں وہ خوبیاں پہلے زمانہ میں ہوں گی مگر اب نہیں ہیں اور گو ہم ایک دلیل سے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں ان کو الہامی کتابیں سمجھتے ہیں مگر وہ گو الہامی ہوں لیکن اپنی موجودہ حالت کے لحاظ سے بالکل بے سود ہیں اور اس شاہی قلعہ کی طرح ہیں جو خالی اور ویران پڑا ہے اور دولت اور فوجی طاقت سب اس میں سے کوچ کر گئی ہے۔‘‘

پھر امتیازی خوبیوں کا مزید ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اب میں

قرآن شریف کی امتیازی خوبیاں

جو انسانوں کی طاقت سے برتر ہیں ذیل میں بیان کرتا ہوں۔‘‘فرمایا: ’’اوّل یہ کہ

اس میں ایک زبردست طاقت ہے جو اپنے پیروی کرنے والوں کو ظنی معرفت سے یقینی معرفت تک پہنچا دیتی ہے۔‘‘

صرف ظن نہیں ہوتا بلکہ یقین ہوتا ہے اور یقینی معرفت پیدا ہو جاتی ہے۔ ’’او روہ یہ کہ جب ایک انسان کامل طور پر اس کی پیروی کرتا ہے تو خدائی طاقت کے نمونے معجزہ کے رنگ میں اس کو دکھائے جاتے ہیں اور خدا اس سے کلام کرتا ہے اور اپنے کلام کے ذریعہ سے غیبی امور پر اس کو اطلا ع دیتا ہے اور

میں اِن قرآنی برکات کو قصہ کے طورپر بیان نہیں کرتا بلکہ میں وہ معجزات پیش کرتا ہوں کہ جو مجھ کو خود دکھائے گئے ہیں۔ وہ تمام معجزات ایک لاکھ کے قریب ہیں بلکہ غالباً وہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں

خدا نے قرآن شریف میں فرمایا تھا کہ جو شخص میرے اس کلام کی پیروی کرے وہ نہ صرف اس کتاب کے معجزات پر ایمان لائے گا بلکہ اس کو بھی معجزات دئیے جائیں گے۔ سو میں نے بذاتِ خود وہ معجزات خدا کے کلام کی تاثیر سے پائے جو انسانوں کی طاقت سے بلند اور محض خدا کا فعل ہیں۔ وہ زلزلے جو زمین پرآئے اور وہ طاعون جو دنیا کو کھا رہی ہے وہ انہیں معجزات میں سے ہیں جو مجھ کو دیئے گئے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ 402 – 403)

فرمایا کہ یہ معجزات میرے نہیں بلکہ قرآن شریف کے ہیں کیونکہ ہم اُسی کی طاقت اور اسی کی عطا کردہ روح سے یہ کام کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’غرض قرآن شریف کی زبردست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

چنانچہ میں یہی دعویٰ رکھتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام مخالف کیا مشرق کے اور کیا مغرب کے ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور نشانوں اور خوارق میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تومیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور توفیق سے سب پر غالب رہوں گا اور یہ غلبہ اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ میری روح میں کچھ زیادہ طاقت ہے بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس کے کلام قرآن شریف کی زبردست طاقت اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت اور اعلیٰ مرتبت کا میں ثبوت دو ں اور

اُس نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اس کے عظیم الشان نبی اور اس کے قوی الطاقت کلام کی پیروی کرتا ہوں اور اس سے محبت رکھتا ہوں اوروہ خدا کا کلام جس کانام قرآن شریف ہے جو ربانی طاقتو ں کا مظہر ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں

اور قرآن شریف کا یہ وعدہ ہے کہ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا(یونس:65)اور یہ وعدہ ہے کہ اَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ (المجادلۃ:23) اور یہ وعدہ ہے کہ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا(الانفال:30)اس وعدہ کے موافق خدا نے یہ سب مجھے عنایت کیا ہے اور ترجمہ اِن آیات کایہ ہے کہ جو لوگ قرآن شریف پر ایمان لائیں گے ان کو مبشر خوابیں اور الہام دیئے جائیں گے یعنی بکثرت دیئے جائیں گے ورنہ شاذ ونادر کے طور پر کسی دوسرے کو بھی کوئی سچی خواب آسکتی ہے مگر ایک قطرہ کو ایک دریا کے ساتھ کچھ نسبت نہیں اور ایک پیسہ کو ایک خزانہ سے کچھ مشابہت نہیں اور پھر فرمایا کہ کامل پیروی کرنے والے کی روح القدس سے تائید کی جائے گی یعنی ان کے فہم اور عقل کو غیب سے ایک روشنی ملے گی اور ان کی کشفی حالت نہایت صفا کی جائے گی اور ان کے کلام اور کام میں تاثیر رکھی جائے گی اور ان کے ایمان نہایت مضبوط کئے جائیں گے اور پھر فرمایا کہ خدا ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق بیّن رکھ دے گا یعنی بمقابل ان کے باریک معارف کے جو اُن کو دیئے جائیں گے اور بمقابل ان کی کرامات اورخوارق کے جو ان کو عطا ہوں گی دوسری تمام قومیں عاجز رہیں گی۔‘‘ فرمایا ’’چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوتا چلا آتا ہے اور اس زمانہ میں ہم خود اس کے شاہدِ رویت ہیں۔‘‘

کاش! کچھ مسلمان بھی اس کو سمجھیں اور ہمیں بھی اس کا صحیح ادراک حاصل ہو کہ

اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کونشانات کے ساتھ بھیجا ہے اور ان نشانات کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اور جو بھی اللہ تعالیٰ کے کلام کی صحیح طرح پیروی کرے اللہ تعالیٰ اس کو بھی کچھ نہ کچھ اس کا مزا چکھاتا رہتا ہے۔

پھر فرمایا: ’’یہ تو ہم نے قرآن شریف کی اس زبردست طاقت کا بیان کیا ہے جو اپنے پیروی کرنے والوں پر اثر ڈالتی ہے لیکن وہ دوسرے معجزات سے بھی بھرا ہوا ہے۔ اس نے اسلام کی ترقی اور شوکت اور فتح کی اُس وقت خبر دی تھی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے جنگلوں میں اکیلے پھرا کرتے تھے اور ان کے ساتھ بجز چند غریب اور ضعیف مسلمانوں کے اور کوئی نہ تھا اور جب قیصرِ روم ایرانیوں کی لڑائی سے مغلوب ہو گیا اور ایران کے کسریٰ نے اس کے ملک کا ایک بڑا حصہ دبا لیا تب بھی قرآن شریف نے بطور پیشگوئی کے یہ خبر دی کہ نو برس کے اندر پھر قیصر روم فتحیاب ہو جائے گا اور ایران کو شکست دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ ایسا ہی شق القمرکا عالی شان معجزہ جو خدائی ہاتھ کو دکھلا رہا ہے۔ قرآن شریف میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور کفار نے اِس معجزہ کو دیکھا۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ409تا411)یہ سب تفصیل آپؑ کی کتاب چشمہ معرفت میں موجود ہے۔ مختصر میں نے بیان کیا ہے۔

پھر چشمہ معرفت میں ہی اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ

قرآن کے قصے دراصل پیشگوئیاں ہیں۔

آپؑ فرماتے ہیں:’’جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی درحقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں۔ ہاں وہ توریت میں تو ضرور صرف قصے پائے جاتے ہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کے لئے اور اسلام کے لئے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہے اور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں۔ غرض قرآن شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآن شریف کے پورے طور پر خدا تعالیٰ پر یقین لاسکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طور پر قرآن شریف میں ہی ہے کہ اس کی کامل پیروی سے وہ پردے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دُور ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب والامحض قصہ کے طور پر خدا کانام لیتا ہے مگر قرآن شریف اس محبوبِ حقیقی کاچہرہ دکھلا دیتا ہے اور یقین کانور انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے اور

وہ خدا جو تمام دنیا پر پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ 271-272)

بشرطیکہ حقیقی طور پر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا جائے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قصے اور دوسرا احکام۔ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم کے دو حصے ہیں۔ کوئی بات قصہ کے رنگ میں ہوتی ہے اور بعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں …جو لوگ قصص اور ہدایات میں تمیز نہیں کرتے ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور گویا اپنی عملی صورت میں قرآن کریم کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں کیونکہ قرآن شریف کی نسبت تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا(النساء:83)‘‘ کہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اَور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پایا جاتا۔ فرماتے ہیں کہ ’’اور عدم اختلاف اس کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ٹھہرائی گئی ہے‘‘کہ اختلاف نہیں ہے اس لیے یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ’’لیکن یہ ناعاقبت اندیش قصص اور ہدایات میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا کر کے اس کو مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ ٹھیراتے ہیں۔ افسوس ان کی دانش پر!!!‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ83 ایڈیشن 1984ء)

جیساکہ بیان ہوا تھا قصص پیشگوئیوں کے رنگ رکھتے ہیں اور جو دوسرے احکامات ہیں۔ ان کو اگر ملا کے بعض لوگ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ خود عرفان نہیں ان کو سمجھنے کا اور جو تفسیر کی جائے اس پر تحریف کا الزام لگا دیتے ہیں۔

قرآن کریم کی تعلیم کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کا ذکر

کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں میں سے اس کی تعلیم بھی ہے کیونکہ وہ انسانی فطرت اورانسانی مصالح کے سراسر مطابق ہے۔ مثلاً توریت کی یہ تعلیم ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ۔ اور انجیل یہ کہتی ہے کہ بدی کاہرگز مقابلہ نہ کر بلکہ اگر کوئی تیری دائیں گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دے مگر قرآن شریف کہتا ہے کہ جَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰهِ(الشوریٰ:41) یعنی بدی کا بدلہ تو اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور اس گناہ کے بخشنے میں وہ شخص جس نے گناہ کیا ہے اصلاح پذیر ہوسکے اور آئندہ اپنی بدی سے بازآسکے تو معاف کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہوگا ورنہ سزا دینا بہتر ہوگا۔ کیونکہ طبائع مختلف ہیں۔ بعض ایسی ہی ہیں کہ گناہ معاف کرنے سے پھر اس گناہ کانام نہیں لیتے اور باز آجا تے ہیں ہاں بعض ایسے بھی ہیں کہ قید سے بھی رہائی پاکر پھر وہی گناہ کرتے ہیں۔ سو چونکہ انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہیں اس لئے یہی تعلیم ان کے مناسب حال ہے جو قرآن شریف نے پیش کی ہے اور انجیل اور توریت کی تعلیم ہر گز کامل نہیں ہے بلکہ وہ تعلیم انسانی درخت کی شاخوں میں سے صرف ایک شاخ سے تعلق رکھتی ہے اوروہ دونوں تعلیمیں اس قانون کے مشابہ ہیں جو مختص القوم یامختص المقام ہو مگر قرآنی تعلیم تمام طبائع انسانیہ کا لحاظ رکھتی ہے۔‘‘

یہ مثال میں نے پہلے پچھلے جمعےبھی بیان کی تھی لیکن اَور پہلو سے کی تھی۔ اب قرآن کریم کے اوصاف کے لحاظ سے یہ مثال پیش کی جا رہی ہے۔

پھر فرمایا کہ ’’انجیل کا حکم ہے ۔‘‘ اس حوالے سے پھر ایک اَور دوسری مثال دیتے ہیں۔ صرف یہی مثال نہیں ہے اور مثالیں بھی دیتے ہیں مثلاً فرمایا کہ انجیل کا ایک حکم ہے ’’کہ تُو غیر عورت کو شہوت کی نظر سے مت دیکھ مگر قرآن شریف کہتا ہے کہ توہرگز نہ دیکھ۔‘‘ عورتوں کو نہ دیکھو۔’’نہ شہوت کی نظرسے نہ بے شہوت کہ یہ کبھی نہ کبھی تیرے لئے ٹھوکر کا باعث ہوگا۔‘‘ یہ کہہ دیتے ہیں جی ہم تو بڑی پاک نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ پاک نظر سے بھی نہیں دیکھنا کیونکہ تمہارے لیے ٹھوکر کا باعث ہو گا ’’بلکہ ضرورت کے وقت خوابیدہ چشم سے (نہ نظر پھاڑکر) رفع ضرورت کرنا چاہئے۔‘‘یعنی اگر ضرورت پڑے بھی تو پھر آدھ کھلی، نیم وَا آنکھوں سے دیکھو تاکہ پوری طرح نظر نہ آئے۔ اور اگر دیکھنے کی ضرورت ہے بھی تو اپنی نظریں پھاڑ پھاڑ کےنہ دیکھو۔ پھر فرمایا ’’اور انجیل کہتی ہے کہ اپنی بیوی کو بجز زنا کے ہرگز طلاق نہ دے مگر قرآنِ شریف اس بات کی مصلحت دیکھتاہے کہ طلاق صرف زنا سے مخصوص نہیں بلکہ اگرمرد اور عورت میں باہم دشمنی پیدا ہو جاوے اور موافقت نہ رہے یا مثلاً اندیشۂ جان ہو یا اگرچہ عورت زانیہ نہیں مگر زنا کے مقدمات اس سے صادر ہوتے ہیں اور غیر مردوں کو ملتی ہے تو اِن تمام صورتوں میں خاوند کی رائے پر حصر رکھا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب دیکھے تو چھوڑ دے۔ مگر پھر بھی تاکید ہے اور نہایت سخت تاکید ہے۔‘‘ یہ آرام سے طلاق نہیں دے دینا۔ فرمایا: ’’تاکید ہے اور نہایت سخت تاکید ہے کہ طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔‘‘ یہاں اس بات کا بھی جواب مل گیا کہ مرد کو طلاق کا کلّی اختیار ہے۔ بعض مردوں کا یہ خیال ہے اور وہ استعمال کر جاتے ہیں اور زیادتی بھی کرتے ہیں۔ فرمایا کہ بغیر جائز وجہ کے ایک تو ویسے ہی جائز نہیں لیکن اس میں بھی یہی ہے کہ کوشش کرو کہ نہ دی جائے۔ پھر فرمایا: ’’اب ظاہر ہے کہ قرآنِ شریف کی تعلیم انسانی حاجات کے مطابق ہے اور ان کے ترک کرنے سے کبھی نہ کبھی کوئی خرابی ضرور پیش آئے گی۔ اسی وجہ سے بعض یورپ کی گورنمنٹوں کوجوازِ طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ413-414)

اب قانون میں بھی یہ لکھا جاتا ہے کہ وجہ جواز کیا ہے؟ کافی مقدموں میں وہ پوچھتے ہیں کہ کیا وجہ ہے؟ کیوں طلاق ہو رہی ہے؟ کیوں علیحدگی ہو رہی ہے؟ سارے ثبوت دینے پڑتے ہیں۔ تو بہرحال فرمایا کہ یہ آسانی سے نہیں ہو جاتی۔ اس لیے انہیں بھی اپنا قانون بنانا پڑا۔ دنیا کے قانون تو بہرحال بنتے بھی ہیں ٹوٹتے بھی ہیں۔ ان میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لیے یہ لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں پھر بھی کوئی نہ کوئی سقم رہ جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا قانون ایسا ہے جو عین فطرت کے مطابق ہے۔ دوبارہ یہاں یہ واضح کر دوں کہ

صرف مرد کو ہی طلاق کا حق نہیں ہے بلکہ عورت بھی پسند ناپسند یا کسی بھی وجہ سے خلع لے سکتی ہے

اور اگر مرد قصور وار ٹھہرے اور بعض زیادتیاں کرے جو ثابت ہو جائیں تو پھر یہ خیال مردوں کا کہ حق مہر نہیں ادا ہو گا وہ حق مہر بھی ان کو ادا کرنا پڑتا ہے اور حقوق بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے کسی لڑکی یا عورت کے ذہن میں یہاں یہ خیال نہ آئے کہ صرف مرد کو حق دیا گیا ہے۔ جب عورت کے حوالے سے بات ہو گی تو وہاں اس کی تفصیل بھی بیان ہو جائے گی۔

بہرحال یہ مضمون جاری ہے۔ اس حوالے سے اَور بھی آپؑ کے ارشادات ہیں جو وقتاً فوقتاً بیان کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کی صحیح تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button