الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا (حصہ دوم۔ آخر)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ذہین و فہیم ہونے سے متعلق ایک جامع اورتحقیقی مضمون روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4، 5 اور 6؍مارچ 2015ء میں مکرم جمیل احمد بٹ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
جدوجہد آزادی میں قدم بقدم راہنمائی
برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں حضرت مصلح موعودؓ نے ہر اہم موڑ پر مسلمانان ہند کی راہنمائی فرمائی۔ مثلاً:
i۔ طریق رائے دہی: برصغیر میں تمام مسلم راہنما بشمول قائداعظم ایک عرصہ تک مخلوط طریقِ انتخاب کے حامی رہے جبکہ حضورؓ کی رائے ابتدا ہی سے جدا گانہ طریق انتخاب کے حق میں تھی۔ جولائی 1925ء میں آپؓ نے آل مسلم پارٹیز کانفرنس منعقدہ امرتسر کے لیے اپنے پیغام میں فرمایا: مسلمانوں کی کمزوری، ہندوئوں کا کُل شعبوں پر قبضہ اور مسلمانوں کی ترقی کے راستے بند کر دینا ۔یہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ جب تک اس حالت کی اصلاح نہ ہو جائے جداگانہ حق نیابت کا مطالبہ کریں۔
ستمبر1927ء میںشملہ میں منعقدہ اتحاد کانفرنس میں آپؓ نے اس مؤقف کو یوں دہرایا: ہمارے خیال میں مخلوط انتخاب کا طریقہ مسلم مفاد کے لیے خطرناک ہے۔ نیز شملہ میں قیام کے دوران ہی آپؓ نے قائد اعظم کو جداگانہ انتخاب پر قائل کرنے کے لیے ان کے ساتھ ایک ملاقات بھی کی۔
ii۔ سائمن کمیشن: 1927ء میں ہندوستان کو مزید سیاسی حقوق دینے کے لیے ایک کمیشن انگلستان سے بھیجا گیا تو کانگریس نے کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ قائداعظم اور مولانا محمد علی جوہر سمیت مسلمان راہنمائوں نے بھی بائیکاٹ کی تائید کی۔ لیکن حضورؓ نے اس بائیکاٹ کو ہندوئوں کی خطرناک چال اور اسے مسلم مفاد کے سراسر خلاف قرار دیا اور اپنے مضمون رقم فرمودہ 8دسمبر 1927ء میں آٹھ ایسے مسائل کی نشاندہی کی جو مسلمانوں کو کمیشن کے سامنے پیش کرنے چاہئیں۔
iii۔نہرو رپورٹ: کانگریس نے اگست 1928ء میں ہندوستان کے نمائندہ دستور کے طور پر نہرو رپورٹ شائع کی جس میں مسلم مطالبات کو نظر انداز کردیا گیا۔ اس کے باوجود کئی مسلم زعماء جیسے مولانا ابو الکلام آزاد، مولوی ظفر علی خان، مولوی ثناء اللہ امرتسری اس رپورٹ کے حامی تھے۔گو کئی دردمند مسلم لیڈر اس کے خلاف بھی تھے لیکن اس رپورٹ کا تفصیلی تجزیہ، اس کے مضرت رساں پہلوئوں کو دلائل سے اجاگر کرنے اور مسلمانوں کے مطالبے کی معقولیت ثابت کرنے کا سہرا صرف حضورؓ کے سر رہا۔ اپنےتبصرے میں آپؓ نے مسلمانوں کے سامنے ایک چار نکاتی لائحہ عمل بھی تجویز فرمایا جس میں یہ تجویز بھی تھی کہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس میںایک کمیٹی نہرو رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کی خامیوں کو دُور اور اچھی باتوں کا اضافہ کر کے مکمل قانون اساسی پیش کرے۔
iv۔گول میز کانفرنس: ہندوستان میں ممکنہ سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں حکومت برطانیہ نے گول میز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تو حضورؓ نے 23جون 1930ء کو ایک مضمون میں یہ راہنمائی فرمائی کہ اس کا نفرنس کے لیے مسلمانوں کے نمائندے مسلمانوں کی اہم سیاسی انجمنوں کے ذریعہ منتخب ہوں۔ نیز اہم معاملات پر واضح پالیسی بنائی جائے تاکہ یہ نمائندے اس کے مطابق تجاویز پیش کر سکیں۔
v۔ قائد اعظم کی واپسی: پہلی گول میز کانفرنس کے دوران ہندو لیڈروں کے رویہ سے مایوس ہو کر قائداعظم نے ہندوستان چھوڑ کر لندن میں رہائش اختیار کرلی۔ ان کا مسلمانوں کی قیادت سے یوں دست کش ہو جانا ہندوئوں اور کانگریس نواز مسلمانوں کو بہت پسند آیا۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ کی دُوررس نگاہ نے اس فیصلہ کے مضمرات کو واضح طور پر دیکھا۔ اورحضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ کے ذریعے قائداعظم پر یہ فیصلہ واپس لینے پر زور دیا۔ چنانچہ قائداعظم نے مسجد فضل لندن میں ایک تقریب کے دوران امام صاحب کی فصیح و بلیغ ترغیب کے نتیجے میں اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
vi۔ کرپس مشن کی ناکامی اور لارڈ ویول فارمولا: 1942ء میں کرپس مشن کی ناکامی کے بعد آزادیٔ ہند کے معاملے میں تعطل آگیا جو کسی کے لیے خوش آئند نہ تھا۔ بالآخر حضرت مصلح موعودؓ نے 12جنوری 1945ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں انگلستان اور ہندوستان کو مفاہمت کی تحریک کی۔ آپؓ نے یہ پیش خبری بھی کی کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔ چنانچہ یہ آواز سنی گئی اور اثر پذیر ہوئی۔ اور وائسرائے ہند لارڈ ویول نے انگلستان میں طویل مشورے کے بعد 14جون 1945ء کو آزادی کا نیا فارمولا پیش کیا تو حضورؓ نے 22؍جون کو اپنے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام سیاسی لیڈروں کو انگلستان کی طرف سے صلح کے ہاتھ کو تھام لینے کا پیغام دیا۔ آپؓ کے اس پیغام پر تبصرہ کرتے ہوئے مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے لکھا: چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے وہ گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے گا۔
vii۔عام انتخابات: وائسرائے ہند نے ستمبر 1945ء میں ہندوستان میں عام انتخابات کا اعلان کیا تو حضورؓ نے ایک مضمون میں ہدایت دی کہ الیکشن میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہیے تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ کانگریس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔
viii۔ عبوری حکومت: وائسرائے کی جانب سے 16جون 1946ء کو ہندوستان میں عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ مسلم لیگ نے یہ دعوت قبول کرلی مگر کانگریس نے اسے ردّ کر دیا۔ اس پر وائسرائے نے بجائے مسلم لیگ کو حکومت سازی کا موقع دینے کے اپنی دعوت کو واپس لے لیا۔ مسلم لیگ نے جواباً اپنی رضامندی منسوخ کر دی۔اس پروائسرائے نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کانگریس کو حکومت تشکیل کرنے کی دعوت دے دی جو قبول کر لی گئی اور اس طرح مسلم لیگ کے لیے آبرومندانہ طور پر حکومت میں داخلے کا امکان نہ رہا۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے حضورؓ نے تین ہفتے دہلی میں قیام کر کے مسلم لیگ اور کانگریس کے بیشتر زعماء سے مذاکرات کیے اور وائسرائے ہند لارڈ ویول کو تین خطوط لکھے۔ بالآخر یہ دانش مندانہ تدابیر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور مسلم لیگ بھی عبوری حکومت میں شامل ہوگئی۔
ix۔ تقسیم پنجاب : 3؍جون 1947ء کے آزادئ ہند کے اعلان میں پنجاب کی تقسیم کی تجویز میں بظاہر سکھوں کا مفاد پیش نظر رکھا گیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی دُور اندیشی سے اس موقع پر ’’سکھ قوم کے نام درد مندانہ اپیل‘‘ کے عنوان سے 17جون 1947ء کو ایک ٹریکٹ لکھا جو دس دس ہزار کی تعداد میں اردو اور گورمکھی میں شائع کیا گیا۔ آپؓ کی یہ تجویز فہم و تدبر اور سیاسی بصیرت و فراست کا شاہکار ہے جس میں آپؓ نے اعدادوشمار اور دلائل سے سکھوں پر یہ واضح کیا کہ انہیں پنجاب کی تقسیم سے کیا کیا نقصان ہو گا اور انہیںمشورہ دیاکہ اپنے مفاد میں وہ قائداعظم اورمسلم لیگ سے سمجھوتہ کرلیں اور یقینی نقصان سے بچ جائیں۔
x۔ بائونڈری کمیشن : پنجاب کی تقسیم سے پہلے ہی حضورؓ نے جو تیاری شروع کی و ہ آپؓ کے غیرمعمولی فہم و تدبر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپؓ نے ایک دفتر قائم کر کے پنجاب کی مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار جمع کیے۔ جو دستاویز جمع کی گئیں ان میں ترکی عراق حد بندی کے متعلق لیگ آف نیشنز کمیشن 1924-26ء کی سفارشات کامتن تھا۔نیز اس معاہدہ کا متن بھی جو 1926ء میں کُردوں کے متعلق برطانیہ اور عراق کے مابین قرار پایا۔ یورپ کے احمدیہ مراکزکو بین الاقوامی قانون حدبندی سے متعلق لٹریچر بھجوانے اور خصوصی ماہر کی تلاش اور اس کی فیس کے تعین کی ہدایات بھی حضورؓ نے بھجوائیں۔ یہ سب ایک ناقابل یقین پیش بندی کا مظہر تھا۔ تقسیم پنجاب کے ضمن میں آپؓ نے قائد اعظم کو ایک مکتوب میں یہ پیغام بھجوایا: بے شک آپؓ ستلج پراصرار کریں لیکن یہ ساتھ ہی کہہ دیں کہ اگر ہمیں بیاس سے پرے دھکیلا گیا تو ہم نہ مانیں گے اور واقعہ میں نہ مانیں تب کامیاب ہوں گے۔
راہنمائی بابت استحکام پاکستان
حضرت مصلح موعودؓ کے فہم و ادراک کا ایک انتہائی حیرت انگیز اظہار وہ اہم راہنمائی ہے جو آپؓ نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد استحکام اور ترقی پاکستان کے لیے عطا فرمائی۔ اس غرض سے آپؓ نے ستمبر 1947ء سے جنوری 1948ء کے دوران لاہور میں دانشوروں سے خطاب فرمائے۔ اسی دوران اخبار الفضل میں 25 اداریے بھی رقم فرمائے۔ مارچ و اپریل 1948ء میں راولپنڈی، کراچی، پشاور اور کوئٹہ تشریف لے جاکر عام جلسوں میں کمال درجے کی راہنمائی فرمائی۔ مثلاً:
i۔ توانائی کی ضروریات : حضورؓ نے جنگلات اور چراگاہوں کے ذریعہ سوختنی لکڑی کی فراہمی کا ایک مربوط نظام تجویز فرمایا۔ اس اہم تجویز کے یہ جملے وسعت خیال کی عجیب مثال ہیں، فرمایا:Destructive Destillation کے ذریعے بہت سے کیمیاوی اجزاء ملک کے استعمال اور دساور کے لیے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ یہ عمل زیادہ تر سخت لکڑی سے کیا جاتا ہے جیسےکیکر، شیشم اور پھلاہی وغیرہ۔اس ذریعہ سے سپرٹ بھی پیدا کیا جاسکتا ہے جو جنگی ضرورتوں کے بھی کام آئے گا اور کئی کیمیاوی کارخانوں میں استعما ل ہوگا۔ اس کے علاوہ Acetone، ۔،Acetic Acid اور Formaldehyde بھی اس سے بنائے جاسکتے ہیں۔ اول الذکر بارود بنانے میں کام آتا ہے اور آخرالذکر پلاسٹک بنانے میں۔
٭…اگر کوشش کی جائے تو بلوچستان میں اتنا پیٹرول مل سکتا ہے کہ وہ ابادان کو بھی مات کر دے گا۔ اسی طرح کوئلہ کی کانوں کے لیے جستجو اور تلاش جاری رکھی جائے تو پاکستان اپنی جملہ ضروریات کا خود کفیل ہو جائے گا۔ (نوائے وقت)
٭…کوئلہ، پیٹرول اور دیگر دھاتیں کا فی تعداد میں موجود ہیں لیکن ابھی تک گمشدگی کی حالت میں ہیں اس کے لیے مکمل غور و خوض کی فوری ضرورت ہے۔مثال کے طور پر بلوچستان تیل کا زبردست منبع ہے ۔ (نظام لاہور)
٭…دسمبر 1947ء میں حضورؓ نے اپنے ایک خطاب میں ایٹمی توانائی (سالماتی قوّت کے لیے ریسرچ اور اس)کے حصول کی طرف بھی توجہ دلائی۔ (نوائے وقت)
ii۔ امریکہ سے قرض: دسمبر 1947ء میں پہلی بار امریکہ سے ساٹھ کروڑڈالر قرض لینے کی بات چھڑی تو حضرت مصلح موعودؓ کی خداداد بصیرت نے اس وقت ہی اس کے مضمرات کو دیکھا اور نہ صرف اس سے منع فرمایابلکہ غیرملکی اور پرائیویٹ سرمایہ کاری کے امتزاج اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر مشتمل متبادل راہ بھی سمجھائی۔ اگر عقل و دانش سے بھرپور ان باتوں پر کان دھرا جاتا تو آج پاکستان یوں قرض کی دلدل میں نہ دھنسا ہوتا۔ مولوی ظفر علی خان صاحب نے اخبار زمیندار میں آپؓ کی یہ تقریر اس سرخی کے تحت درج کی: ’’امریکہ سے قرضہ لینا پاکستا ن کی آزادی کوخطرے میں ڈالنا ہے‘‘۔
iii۔ نہری نظام : آپؓ کی دُوررس نگاہ زرعی ترقی کے لیے موجود نہری نظام کی دیکھ بھال اور بہتری کی اہمیت اور نصف صدی بعد کے درکار مسائل کو گویا دیکھ رہی تھی۔ آپؓ نے اپنی تقاریر میں اس کو بھی موضوع بنایا۔ اخبار زمیندار نے لکھا: مرز اصاحب نے زراعت کے سلسلے میں ذرائع آب پاشی، خصوصاً نہروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پچاس سال بعد نہروں کے خراب ہو جانے کے باعث پاکستان کی زراعت کو سخت خطرہ ہے جس کے تدارک کے لیے سائنس کے اصولوں پر کام کرنے کے لیے اتنے اخراجات کا احتما ل ہے۔
iv۔ زرعی ترقی: حضورؓ کی تقریر کے حوالہ سے دو اخبارات ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’نظام‘‘ نے بالترتیب لکھا:
’’مرزا بشیر الدین نے پاکستان کی زرعی پوزیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے بیکار زمینوں کو فوراً آباد کرنے پر زور دیا۔‘‘
’’اگر شاہ پور، جھنگ، شکرگڑھ، سرحد کے کچھ اضلاع اور پورے سندھ میں (موجودہ ترقی یافتہ طریقوں پر) زراعتی پیداوار کی طرف دھیان دیا جائے تو ہماری زرعی پیداوار قابل رشک ہو جائے گی۔‘‘
v۔قومی زبان اردو کی ترویج : حضورؓ نے راہنمائی فرمائی: ’’مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ اس سلسلہ میں مشرقی پاکستان پر زور نہ دیاجائے کہ وہ ضرور اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے ورنہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو جائے گا کیونکہ وہاں کے باشندوں کو بنگالی زبان سے ایک قسم کا عشق ہے۔‘‘
مزید فرمایا: ’’اردو زبان کو لینگوا فرینکا (Lingua Franca) قرار دیا جائے۔‘‘
vi۔ بحری دفاع : حضورؓ کی دانشمندانہ رائے تھی کہ ’’بغیر سمندری طاقت کے صحیح معنوں میں آزادی مل ہی نہیں سکتی ۔‘‘ چنانچہ ملک کے بحری دفاع کی مضبوطی کے لیے آپؓ نے فرمایا کہ تارپیڈو کا کام سکھانے اور میکینکل ٹریننگ کے لیے کوئی اسکول موجود نہیں ہے۔ یہ اسکول فوری طور پر قائم ہونے چاہئیں۔ پاکستان کو آبدوز کشتیاں، سرنگ بچھانے والے، سرنگیں صاف کرنے والے، تباہ کن جہاز اور طیارہ بردار جہاز حاصل کرنے کے لیے فوری طور پر قدم اٹھانا چاہیے۔ تجارتی بیڑہ قائم کرنابھی ضروری ہے کیونکہ اس وقت تمام بحری تجارتی کمپنیاں غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہیں۔
vii۔ خارجہ پالیسی : آپؓ کی دُور اندیش نگاہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں جو راہنمائی فرمائی گزرتے وقت نے اس کا درست ہونا خوب ظاہر کردیا۔ فرمایا: ’’ہندوستان سے باعزت صلح کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور خود کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہیے کہ یہ تعلقات خراب ہوں۔ برطانیہ اور امریکہ سے بھی خوشگوار تعلقات رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن ان کی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ روس کے متعلق بھی امن پسندانہ رویہ رکھنا چاہیے اور اپنی طرف سے کوئی وجہ اشتعال پیدا نہ ہونے دینی چاہیے۔ عرب ممالک سے زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعلقات رکھنے چاہئیں۔ عراق اور شام کے ساتھ ریل کے ذریعہ پاکستان کا اتصال قائم کرنا ضروری ہے۔ برما اور سیلون کے ساتھ بہت آسانی سے گہرے سیاسی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں، یہ مشرقی پاکستان کی مدد کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اسپین، ارجنٹائن، جاپان، آسٹریلیا، ابی سینا اور ایسٹ افریقہ سے بھی دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ اس وقت تک چین آزاد نہیں ہوا تھا۔
viii۔سائنسی اور صنعتی ریسرچ : اخبار ’’سفینہ‘‘ لاہور لکھتا ہے: ’’معزز (مقرر) نے کہا کہ پاکستان میں ایک قومی لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں ملک کی صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے ریسرچ کا کام اعلیٰ پیمانہ پر کیا جائے۔ ہنوز پورے پاکستان میں اس قسم کی کوئی لیبارٹری نہیں۔‘‘
اخبار زمیندار میں رپورٹ کے الفاظ تھے: ’’آپ نے کہا: کمرشل، انڈسٹری،زراعتی اور دفاعی صنعت کی ریسرچ کے لیے پاکستان کا ایک قومی ادارہ قائم کرنا چاہیے۔‘‘
نظام جماعت کی مضبوطی
حضرت مصلح موعودؓ کی خداداد ذہانت اور دانش کا ایک تابندہ مظہر وہ تنظیمی ڈھانچہ ہے جو آپؓ نے تشکیل دیا جس میں نظارتیں، مجلس شوریٰ اور ذیلی تنظیمیں شامل ہیں۔
نظارتوں کا نظام : یکم فروری 1919ء کو حضورؓ نے مرکز میں نظارتوں اور جماعتوں میں امراء اور سیکرٹریان کا تقرر فرمایا۔ اکتوبر 1925ء میں اس محکمہ کو صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ مدغم کر دیا۔ یہ نظام قائم کرنے سے قبل آپؓ نے ایک ڈاکٹر سے بیان فرمایا کہ آپؓ نظام جماعت میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے پر غور فرما رہے ہیں لہٰذا چاہتے ہیں کہ انسانی جسم کے نظام کا مطالعہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایک کامل نظام کی شکل میں پیدا کیاہے اور اس کے مطالعہ سے بہت سی مفید راہنمائی حاصل ہو سکے گی۔ چنانچہ آپؓ نے Anatomyاور Physiology کی مختلف کتب کا مطالعہ فرمایا اور بہت سے مفید نتائج اخذ کیے اور پھر یہ نظام جاری فرمایا۔
مجلس شوریٰ کا قیام: حضرت مصلح موعودؓ کے فہم و تدبر نے جماعت میں مشورہ لینے کے لیے 1922ء میں مجلس شوریٰ کا نظام قائم فرمایا، پھر 1960ء تک ہر سال شوریٰ میں شریک ہوکر قدم بقدم راہنمائی فرمائی۔ اس مجلس کا مستقبل آپؓ نے یوں بیان فرمایا: وقت آئے گا اور ضرور آئے جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمینٹوں کے ممبران کو وہ درجہ حاصل نہ ہوگا جو اس (مجلس مشاورت)کی ممبری کی وجہ سے ہو گا کیونکہ اس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمینٹیں آئیں گی۔
ذیلی تنظیموں کا قیام: حضرت مصلح موعودؓ کی خداداد فہم و فراست کا ایک اَور حیرت انگیز اظہار جماعت میں ذیلی تنظیموں کا قیام تھا جس کے نتیجہ میں ہر فرد جماعت کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا ہوا۔
زبان خلق
حضرت مصلح موعودؓکی فہم و دانش ایک روشن چراغ کی مانند ہر ایک کی نگاہ میں رہی اور بہت سے پرائے بھی اس حقیقت کے برملا اعتراف پر مجبور ہوئے۔ مثلاً
٭… 1913ء میں غیر از جماعت صحافی محمد اسلم صاحب نے حضورؓ سے ملنے کے بعد لکھا : علاوہ خوش خلقی کے کہیں بڑی حد تک معاملہ فہم و مدبرہیں۔ صاحبزادہ صاحب نے جو رائے اقوام عالم کے زمانہ ماضی کے واقعات کی بِنا پر ظاہر فرمائی وہ نہایت ہی زبردست مدبرانہ پہلو لیے ہوئے تھی۔
٭…حضرت مصلح موعودؓ نے 10فروری 1928ء کے خطبہ جمعہ میں کامیابی کے لیے صحیح راستہ اختیار کرنے کی اہمیت بیان فرمائی تو ایک اخبار نے لکھا: مرزا صاحب کی تقریر کا ایک ایک لفظ صحیح ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں نیک نیّت، مجاہد، ایثار پیشہ اور مقاصد کو سمجھنے والے تو ہزاروں موجود ہیں مگر طریق کا رمرتب کرنے والے بہت کم ہیں ۔
٭…حضورؓ نے 1930ء میں کتاب ’’سائمن کمیشن رپورٹ کے حوالے سے ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل‘‘ تحریر فرمائی تو بیسیوں اہل علم نے تعریفی کلمات کہے۔ حاجی عبداللہ ہارون صاحب ایم ایل اے کراچی نے لکھا: میری رائے میں سیاست کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں یہ کتاب بہترین تصانیف میں سے ہے۔
اسی طرح سیّد حبیب صاحب مدیر اخبار سیاست نے لکھا: آپؓ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے۔مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اورمسلمانوں کے حقوق کے استدلال سے مملو کتابیں شائع کرنے کی صورت میں آپؓ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے اور زیر بحث کتاب کے مطالعہ سے آپؓ کی وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپؓ کا طرز بیان سلیس اور قائل کر دینے والا ہوتا ہے اور آپؓ کی زبان بہت شستہ ہے۔
٭…خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں: آج 10اکتوبر 1946ء کی شام کو نئی دہلی میں جناب مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ جماعت احمدیہ سے ملنے گیا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ تک باتیں کیں۔مرزا صاحب مخلص بھی ہیں، دانش مند بھی ہیں، دُوراندیش بھی ہیں اور بہادرانہ جوش بھی رکھتے ہیں۔
٭…حضورؓ نے استحکام پاکستان پر جو لیکچرز دیے اُن میں سے ایک اجلاس کے صدر سر فیروز خان نون تھے جو بعد میں وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا: ’’حضرت صاحب کے دماغ کے اندر علم کا ایک سمندر موجزن ہے۔ انہوں نے تھوڑے وقت میں ہمیں بہت کچھ بتایا ہے اور نہایت فاضلانہ طریق سے مضمون پر روشنی ڈالی ہے۔‘‘
ایک لیکچر کے بعد سرعبدالقادر صاحب ایم اے نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا: ’’حضرت مرزا صاحب کے پُر مغز اور پُراز معلومات لیکچروں کا اصل منشاء یہی ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کو اس اہم موضوع پر غور و خوض کرنے کی طرف توجہ ہو۔ حضرت مرزا صاحب نے ان لیکچروں کے ذریعہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے ہم سب دل سے ان کے ممنون ہیں۔‘‘
٭… احراری لیڈر قاضی احسان احمد کا اعتراف ہے کہ ’’خلیفہ صاحب اس قدر ذہین ہیں اور ان کا دماغ اتنا اعلیٰ ہے کہ ہماری اسکیمیں فیل کردیتے ہیں۔‘‘ جبکہ مفکرِاحرار چودھری افضل حق یوں اعتراف کرتے ہیں: ’’جو عظیم الشان دماغ اس(تحریک قادیان) کی پشت پر ہے وہ بڑی سے بڑی سلطنت کو پل بھر میں درہم برہم کرنے کے لیے کافی تھا۔‘‘
٭… ہفتہ وار ’’پارس‘‘ کے ایڈیٹر لالہ کرم چند ایک دفعہ قادیان آئے تو واپس جاکر یکے بعد دیگرے کئی مضامین میں حضورؓ کی قیادت، فراست اور شخصیت کا ذکر کیا۔ ایک دوست سے کہنے لگے ہم تو ظفراللہ کو بڑا آدمی سمجھتے تھے مگر بشیرالدین محمود احمد صاحب کے سامنے اس کی حیثیت ایک طفلِ مکتب کی سی ہے۔ ان میں بے پناہ تنظیمی قابلیت ہے، ایسا آدمی بآسانی کسی ریاست کو بام عروج تک لے جاسکتا ہے۔
٭… حضورؓ سے دمشق میں ملاقات کرنے کے بعد ایک عرب صحافی نے لکھا: خلیفہ صاحب اپنی عمر کے چالیسویں سال میں ہیں۔ دونوں آنکھیں ذکاء و ذہانت اور غیر معمولی علم و عقل کی خبر دے رہی ہیں۔ ان کے چہرے کے خدوخال میں آپ یہ دماغی قابلیتیں دیکھیں تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ آپ ایک ایسے شخص کے سامنے ہیں جو آپ کو قبل اس کے کہ آپ اسے سمجھیں خوب سمجھتا ہے۔
٭… احمدیت کے خلاف احرار کی تحریک کے دوران انگریز حکومت بھی احرار کی پشت پناہ تھی اور کوشاں تھی کہ کسی طرح حضورؓ پر قانونی گرفت کریں۔ اس مذموم کوشش میں ناکامی پر گورنر پنجاب سر ایمر سن حضورؓ کی خداداد ذہانت اور فراست دیکھ کر حیران تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ عجیب انسان ہے اپنی قوم کو بیدار کرنے اور ابھارنے کے لیے ایسی زبردست تقریر کرتا ہے جو سراسر قابل اعتراض ہوتی ہے مگر آخر میں ایک ہی فقرہ ایسا کہہ جاتا ہے کہ جس سے پہلی تقریر ساری کی ساری ناقابل اعتراض ہوکر رہ جاتی ہے اور ہم اس پر کوئی گرفت نہیں کر سکتے۔
انگریز حکومت کی اس مخالفانہ روش کے بارے میں حضورؓ نے ایک دفعہ فرمایا:سی آئی ڈی کا ایک چوٹی کا افسر مجھے لاہور میں ملا اور مجھ سے کہا کہ حکومت کے آفیسرز اور گورنر ہر روز مشورہ کرتے ہیں کہ کسی طرح آپ کی کوئی چھوٹی سی بات بنا کر ہی پکڑ لیں مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
٭… مشہور صحافی خواجہ حسن نظامی نے 1933ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی قلمی تصویر کھینچتے ہوئے لکھا: ’’مرزا محمود احمد اپنے والد کے قائم مقام اور خلیفہ ہیں۔ آواز بلند اور مضبوط ہے۔ عقل دور اندیش اور ہمہ گیر ہے۔سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں ۔‘‘
٭…ادیب ومؤرخ مولانا غلام رسول مہر صاحب نے کہا: مرزا صاحب بلا کے ذہین تھے۔ مَیں نے پاک وہند میں سیاسی نہ مذہبی لیڈر ایسا دیکھا ہے جس کا دماغ عملی سیاست میں ایسا کا م کرتا ہے جیسا مرزا صاحب کا دماغ کام کرتا تھا۔ بےلَوث مشورہ، واضح تجویز اور پھر صحیح خطوط پر لائحہ عمل یہ ان کی خصوصیت تھی۔ ہم یاس وافسردگی کی تصویر بنے اُن سے ملاقات کے لیے جاتے اور جب باہر آتے تو یوں معلوم ہوتاکہ نااُمیدی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور مقصد میں کامیابی سامنے ہے۔ وزنی دلیل دیتے اور قابل عمل بات کرتے۔
٭… محقق و ادیب علامہ نیاز فتح پوری نے تفسیر کبیر کے مطالعہ کے بعد لکھا : ’’آپ کے تبحر علمی، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیرمعمولی فکر و فراست، آپ کا حسن استدلال، آپ کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔‘‘
اختتامیہ
پس وحی الٰہی کے عین مطابق حضرت مصلح موعودؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایک انتہائی روشن دماغ عطا فرمایا تھا اور آپؓ الہامی الفاظ کے تمام مفاہیم کے مطابق ایک سخت ذہین و فہیم وجود تھے۔ اس پیش گوئی کا یوں لفظ بہ لفظ اس شان سے پورا ہونا جہاں حضرت مسیح موعودؓ کی صداقت کی روشن دلیل ہے وہیں آنحضرت ﷺ کی صداقت پر بھی ایک عظیم دلیل ہے۔
………٭………٭………٭………