وقفِ نو (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۸؍جنوری ۲۰۱۳ء)
اللہ تعالیٰ کی پسند حاصل کرنے کے لئے قرآنِ کریم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ سب کچھ کرنے کا مقصد کیا ہے؟ وہ یہ بیان فرمایا کہ تا کہ تم دنیا کو ہلاکت سے بچانے والے بن سکو۔ پس یہ وہ مضمون ہے جس کا حق ادا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے جماعت احمدیہ کا قیام فرمایا۔ یہی وہ جماعت ہے جس میں بچے کی پیدائش سے پہلے ماؤں کی دعائیں بھی ہمیں صرف اس جذبے کے ساتھ نظر آتی ہیں، اس جذبے کو لئے ہوئے نظر آتی ہیں کہ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیِۡ (آل عمران: 36)۔ اے میرے رب! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، تیری نذر کرتی ہوں۔ آزاد کرتے ہوئے (یعنی دنیا کے جھمیلوں سے آزاد کرتے ہوئے) پس تُو اسے قبول فرما۔ آج آپ نظر دوڑا کر دیکھ لیں، سوائے جماعت احمدیہ کی ماؤں کے کوئی اس جذبے سے بچے کی پیدائش سے پہلے اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرنے کی دعا نہیں کرتے۔ کوئی ماں آج احمدی ماں کے علاوہ ہمیں نہیں ملے گی جو یہ جذبہ رکھتی ہو، چاہے وہ ماں پاکستان کی رہنے والی ہے، یا ہندوستان کی ہے، یا ایشیا کے کسی ملک کی رہنے والی ہے یا افریقہ کی ہے، یورپ کی رہنے والی ہے یا امریکہ کی ہے۔ آسٹریلیا کی رہنے والی ہے یا جزائر کی ہے۔ جو اس ایک اہم مقصد کے لئے اپنے بچوں کو خلیفۂ وقت کو پیش کر کے پھر خدا تعالیٰ سے یہ دعا نہ کر رہی ہو کہ اے اللہ تعالیٰ! ہمارا یہ وقف قبول فرما لے۔ یہ دعا کرنے والی تمام دنیا میں صرف اور صرف احمدی عورت نظر آتی ہے۔ اُن کو یہ فکر ہوتی ہے کہ خلیفۂ وقت کہیں ہماری درخواست کا انکار نہ کر دے اور یہ صورت کہیں اور پیدا ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ جذبہ کہیں اور پیدا ہو بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ خلافت کے سائے تلے رہنے والی یہی ایک جماعت ہے جس کو خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ذریعہ سے قائم فرمایا ہے اور پھر اس پر بس نہیں، جماعت احمدیہ میں ہی وہ باپ بھی ہیں جو اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کرتے ہیں کہ بچہ جوانی میں قدم رکھ کر ہر قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے اور خلیفۂ وقت کو لکھتا ہے کہ پہلا عہد میرے ماں باپ کا تھا، دوسرا عہد اب میرا ہے۔ آپ جہاں چاہیں مجھے قربانی کے لئے بھیج دیں۔ آپ مجھے ہمیشہ صبر کرنے والوں اور استقامت دکھانے والوں میں پائیں گے اور اپنے ماں باپ کے عہد سے پیچھے نہ ہٹنے والوں میں پائیں گے۔ یہ وہ بچے ہیں جو اُمّتِ محمدیہ کے باوفا فرد کہلانے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں ہونے کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ ماں باپ کی تربیت اور بچے کی نیک فطرت نے اُنہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے بھی رموز سکھائے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کے بھی معیار سکھائے ہیں۔ جنہیں دین کا فہم حاصل کرنے کا بھی شوق پیدا ہوا ہے اور اُسے اپنی زندگی پر لاگو کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوئی ہے اور پھر اس کے ساتھ تبلیغِ اسلام اور خدمتِ انسانیت کے لئے ایک جوش اور جذبہ بھی پیدا ہوا۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ زندہ قومیں اور ترقی کرنے والی جماعتیں ان احساسات، ان خیالات، ان جذبوں اور ان عہد پورا کرنے کی پابندیوں کو کبھی مرنے نہیں دیتیں۔ ان جذبوں کو تروتازہ رکھنے کے لئے ہمیشہ ان باتوں کی جگالی کرتی رہتی ہیں۔ اگر کہیں سستیاں پیدا ہو رہی ہوں تو اُن کو دور کرنے کے لئے لائحہ عمل بھی ترتیب دیتی ہیں۔ اور خلافت کے منصب کا تو کام ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم ’’ذَکِّرْ‘‘پر عمل کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً یاد دہانی کرواتا رہے تا کہ جماعت کی ترقی کی رفتار میں کبھی کمی نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایک کے بعد دوسرا گروہ تیار ہوتا چلا جائے۔ جس طرح مسلسل چلنے والی نہریں، زمین کی ہریالی کا باعث بنتی ہیں اسی طرح ایک کے بعد دوسرا دین کی خدمت کرنے والا گروہ روحانی ہریالی کا باعث بنتا ہے۔ جن علاقوں میں کھیتوں میں ٹیوب ویلوں یا نہروں کے ذریعوں سے کاشت کی جاتی ہے وہاں کے زمیندار جانتے ہیں کہ اگر ایک کھیت پر پانی مکمل لگنے سے پہلے پانی کا بہاؤ ٹوٹ جائے، پیچھے سے بند ہو جائے تو پھر نئے سرے سے پورے کھیت کو پانی لگانا پڑتا ہے اور پھر وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پانی بھی۔ اسی طرح اگر اصلاح اور ارشاد کے کام کے لئے مسلسل کوشش نہ ہو، یا کوشش کرنے والے مہیا نہ ہوں تو پھر ٹوٹ ٹوٹ کر جو پانی پہنچتا ہے، جو پیغام پہنچتا ہے، جو کوشش ہوتی ہے وہ سیرابی میں دیر کر دیتی ہے۔ تربیتی اور تبلیغی کاموں میں روکیں پیدا ہوتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر قوم میں سے ایسے گروہ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں جو خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے بہاؤ کو کبھی ٹوٹنے نہ دیں۔ پس اس لئے مَیں آج پھر اس بات کی یاددہانی کروا رہا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقفِ نَو کی جو سکیم شروع فرمائی تھی تو اس امید پر اور اس دعا کے ساتھ کہ دین کی خدمت کرنے والوں کا گروہ ہر وقت مہیا ہوتا رہے گا۔ یہ پانی کا بہاؤ کبھی ٹوٹے گا نہیں۔ جماعت کے لٹریچر کا ترجمہ کرنے والے بھی جماعت کومہیا ہوتے رہیں گے۔ تبلیغ اور تربیت کا کام چلانے والے بھی بڑی تعداد میں مہیا ہوتے رہیں گے اور نظامِ جماعت کے چلانے کے دوسرے شعبوں کو بھی واقفین کے گروہ مہیا ہوتے رہیں گے۔
پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کو پیش کرنے کے بعد اپنے فرض سے فارغ نہیں ہو جانا چاہئے۔ بیشک بچوں کو واقفینِ نَو میں پیش کرنے کا جذبہ قابلِ تعریف ہے۔ ہر سال ہزاروں بچوں کو واقفین نَو میں پیش کرنے کی درخواستیں آتی ہیں لیکن ان درخواستوں کے پیش کرنے کے بعد ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان بچوں کو اس خاص مقصد کے لئے تیار کرنا جو دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا مقصد ہے، اس کی تیاری کے لئے سب سے پہلے ماں باپ کو کوشش کرنی ہو گی۔ اپنا وقت دے کر، اپنے نمونے قائم کر کے بچوں کو سب سے پہلے خدا تعالیٰ سے جوڑنا ہو گا۔ بچوں کو نظامِ جماعت کی اہمیت اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونے کے لئے بچپن سے ہی ایسی تربیت کرنی ہو گی کہ اُن کی کوئی اَوردوسری سوچ ہی نہ ہو۔ ہوش کی عمر میں آ کر جب بچے واقفینِ نَو اور جماعتی پروگراموں میں حصہ لیں تو اُن کے دماغوں میں یہ راسخ ہو کہ انہوں نے صرف اور صرف دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کے دماغ میں ڈالیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد دین کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔ یہ جو واقفینِ نَو بچے ہیں ان کے دماغوں میں یہ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ دین کی تعلیم کے لئے جو جماعتی دینی ادارے ہیں اُس میں جانا ضروری ہے۔ جامعہ احمدیہ میں جانے والوں کی تعداد واقفینِ نَو میں کافی زیادہ ہونی چاہئے۔