اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جنوری2022ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
اسیری میں وفات
بہاولپور؛ 19؍جنوری 2022ء: مذہب کی بنیاد پر ایک مقدمے میں اصغر علی کلار کا انتقال ہوگیا۔وہ 70سال کے تھے۔ اصغر علی نے 1971ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ وہ بہت مہذب، متقی انسان تھے۔ پچھلے سال ستمبر میں احمدی مخالف عناصر نے ان کے موبائل فون آئی ڈی کا استعمال کرتے ہوئے انہیں توہین مذہب کے الزام میں پھنسانے کی کامیاب سازش کی۔ بلاشبہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جامعہ سعیدیہ، بہاولپور کے ایک عالم حافظ جاوید مصطفیٰ نے انہیں پی پی سی -C۔295 (سزائے موت) کے تحت پولیس کے ذریعے مقدمہ درج کر کے گرفتار کروایا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ احمدی مخالف ملا احمدیوں کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے دھوکا دہی، جھوٹ اور فریب میں ملوث ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ قید کے دوران ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی اور مسائل پیدا ہوگئے۔ انہیں وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں داخل کرایا گیا۔ ڈاکٹروں نے ان کی اینڈوسکوپی کی اور انہیں خون کی پانچ بوتلیں لگائیں۔ گرفتاری کے بعد اصغر علی نے ضمانت کی درخواست دی تھی جو ASJ کے سامنے زیر التوا تھی۔ 8؍جنوری کو، اے ایس جے نے پولیس سے کہا کہ وہ 11؍جنوری کو ہونے والی اگلی سماعت پر متعلقہ ریکارڈ پیش کرے۔ اس دوران اصغر علی کی طبیعت خراب ہوگئی اور انہوں نے خون کی الٹی کی ۔موصوف ایک جعلی اور من گھڑت کیس میں گرفتاری کے پندرہ ہفتے بعد 10؍جنوری کو ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
ساڑھے سات سال بعد جیل سے رہائی
بھوئیوال، ضلع شیخوپورہ ۔ 14؍جنوری 2022ء: تین احمدیوں بنام احسان احمد، مبشر احمد اور غلام احمد کو مختصر کی گئی سزا مکمل کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ 13؍مئی 2014ءکو پولیس سٹیشن شرقپور میں PPC 295-A کے تحت چار احمدیوں کے خلاف ایک من گھڑت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ان پر اپنے گاؤں کی ایک مقامی دکان کی دیوار سے احمدی مخالف پوسٹر پھاڑنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اگرچہ مقامی پنچایت نے مداخلت کی اور مسئلہ کو حل کر دیا تھا تاہم ملاؤں نے صلح کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف مظاہرہ کیا اور اصرار کیا کہ پولیس ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرے۔ پولیس نے PPC 295-A وغیرہ کے تحت مقدمہ درج کیا اور ایک احمدی خلیل احمد کو گرفتار کر لیا۔ اس کے چند دن بعد سلیم احمد نامی شخص تھانے میں داخل ہوا اور حراست میں لیے گئے خلیل احمد کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ خلیل احمد نے لواحقین میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ باقی تین افراد کو دو ماہ بعد، 18؍ جولائی 2014ءکو گرفتار کیا گیا۔ اس کے ایک سال بعد، عدالتی احکامات پر ان کی چارج شیٹ میں دفعہ 295-Cکا اضافہ کیا گیا۔ انہیں 11؍اکتوبر 2017ءکو سزائے موت سنائی گئی۔ پھر لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبدالعزیز اور ایم امجد رفیق پر مشتمل ڈی بی (ڈسپلنری بورڈ) نے کیس کی سماعت کی اور PPC 295-C کے اطلاق کا فیصلہ دیا اور دونوں کو 10 سال قید اورپانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ جس طرح کہ عام قاعدہ ہے کہ تمام قیدیوں کو مختلف مواقع پر ریلیف دیا جاتا ہے پس اس لحاظ سے ان ملزمان کی سزا کی مدت بھی دوران اسیری مکمل ہوچکی تھی اس لیے انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔
دس سال قبل معروف ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز نے ایک نڈر (جرنلسٹ و وکیل) یاسر لطیف ہمدانی کی ایک تحریر شائع کی جس کا عنوان تھا: کیا احمدی پاکستان میں رہنے کے مستحق ہیں؟
مذہب کی بنیاد پر مقدمات اور ضمانت حاصل کرنے میں مشکلات
لاہور، جنوری 2022ء: ایم ایم اقبال ہاشمی، شیراز احمد، اور دیگر کے خلاف سائبر کرائمز پولیس اسٹیشن لاہور نے 20؍جون 2019ءکو گروپ ’سندھ سلامت ‘بنانے اور اس میں احمدیہ مواد شیئر کرنے پرایف آئی آرنمبر 88 ، PPCs 295-A، 298-C،PECA-11 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا ۔ اقبال ہاشمی کو گرفتار کر لیا گیا لیکن 24؍ اگست 2019ء کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ شیراز احمد کو 25؍فروری 2021ءکو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ ظہیر احمد کوجن کا لاہور سے تعلق تھا، مذہب کی بنیاد پر ایک اور مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ یہ صاحب 23؍فروری 2021ءکو ضمانت پر رہا ہوئے، لیکن اسی کیس میں فوری طور پر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، حالانکہ اس کیس میں ان کا نام تک نہیں تھا۔ ایک سیشن کورٹ نے 30؍مارچ 2021ء کو مذکورہ دونوں ملزمان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔ مخالفین نے اقبال ہاشمی کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی اور ایک اے ایس جے نے درخواست مسترد کرتے ہوئے 9؍ اگست 2021ء کو ان کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مخالفین کی درخواست پر جج سید علی عباس اے ایس جے لاہور نے حکم دیا کہ ان کی چارج شیٹ میں خوفناک دفعہ PPC 295-C شامل کی جائے۔ جس کے نتیجے میں یہ تینوں کیمپ جیل لاہور میں قید ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے تین زیر حراست احمدیوں کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور 12؍جنوری 2022ء کو ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اقبال ہاشمی وغیرہ کے خلاف مقدمہ PPC 295-A کے تحت شروع کیا گیا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مقدمہ میں PPCs 295-B, 295-C شامل کر لی گئیں۔ جس میں بالترتیب سزائے موت اور عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ ہائی کورٹ سے بھی ضمانتیں مسترد ہو چکی ہیں۔ زیر حراست ملزمان کا اب واحد راستہ معزز سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہے۔
نوکری کے دوران احمدی کے خلاف جھوٹی شکایت
سکھیکی، ضلع حافظ آباد ؛ جنوری 2022ء: راحت جمیل ایک احمدی ہیں۔ محکمہ انہار میں بطور کلرک کام کر رہے ہیں۔ ان کے محکمے کے ایک کارکن ذوالفقار علی نے ڈی سی حافظ آباد کو ان کے خلاف درخواست دی کہ جمیل نے انہیں احمدیت کی تبلیغ کی ہے اور احمدیت قبول نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج اور برخاست کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ اسسٹنٹ کمشنر حافظ آباد کو بھجوا دی جنہوں نے متعلقہ افراد سے استفسار کیا۔ اس حوالے سے ایس ڈی او حافظ آباد سب ڈویژن نے رپورٹ دی کہ درخواست جھوٹی اور بےبنیاد ہے۔ جمیل نے کبھی اپنے عقیدے کی تبلیغ نہیں کی۔ اسی طرح ان کے محکمے کے دیگر افسران نے بھی کہا کہ انہوں نے دفتر میں کبھی احمدیت کی بات نہیں کی۔ اس لیے اسسٹنٹ کمشنر نے درخواست دائر کرتے ہوئے مدعی کو تنبیہ کی کہ اسے جھوٹا الزام لگانے پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے منصفانہ انکوائری کی۔ معاملہ فی الحال حل ہو گیا ہے۔
بالآخر رہائی
ضلع فیصل آباد ؛ 8؍جنوری 2022ء: چند ماہ قبل گذشتہ سال جولائی میں، ایک مخالف اور بے قابو ہجوم نے چک 261 ادھوالی، ضلع فیصل آباد میں احمدیوں کے گھروں پر حملہ کیا۔ احمدیوں نے اپنا دفاع کیا۔ اس کے بعد پولیس نے پانچ احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا اور نوید احمد کو گرفتار کیا۔ فالو اَپ تفتیش میں چار ملزمان کو رہا کر دیا گیاجبکہ نوید احمد کو نظر بند رکھا گیا۔ بعد میں ایک عدالت نے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی شق 7-ATAکو ہٹا دیا۔ دیگر شقیں قابل ضمانت ہیں۔
راجہ شاہد توقیر اے ایس جے فیصل آباد نے نوید احمد کی درخواست ضمانت کی سماعت کی اور 8؍جنوری 2022ء کو اسے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد نوید نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کی۔ 26؍جنوری 2022ء کو مجسٹریٹ فیصل آباد بشریٰ انور نے مقدمہ واپس لینے کے مدعی کے بیان کے بعد ان کی رہائی کا حکم دیا۔ نوید چھ ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد جیل سے رہا ہوئے۔
احمدیوں کو ایک احمدی کی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا
اروکے، ضلع شیخوپورہ: 16؍جنوری 2022ء: ایک احمدی منیر احمد یہاں انتقال کر گئے۔ وہ گاؤں میں واحد احمدی تھے اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ احمدیوں نے ان کی آخری رسومات کا انتظام کیا۔ اسی دوران ان کے غیر احمدی رشتہ دار ان کی رہائش گاہ پر جمع ہوئے۔ انہوں نے احمدیوں کو منیر احمد کی نماز جنازہ اور تدفین سے روک دیا اور اصرار کیا کہ صرف وہ ہی میت کی آخری رسومات ادا کریں گے۔ احمدیوں کو کسی تنازعہ سے بچنے کے لیے اس امر کو تسلیم کرنا پڑا۔
مذہب اور تعلیم
لاہور: 25؍جنوری 2022ء: روزنامہ ڈان نے لاہور میں اپنے اسٹاف رپورٹر کی طرف سے درج ذیل قابل ذکر خبر شائع کی:
حکومت کا طلباء کے ذہنوں کو متشدد بنانے کا عمل جاری
لاہور: تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر تعلیمی اصلاحات میں سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز نے متعارف کرائے گئے حالیہ اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ پنجاب میں اسکول کی تعلیم مذہبی مواد اورمخصوص ناموں اور القابات سے بھری ہوئی ہے۔ جس کی بدولت صوبے میں سکول کی تعلیم کا کردار ہی بدل رہا ہے۔ سینٹر فار سوشل جسٹس (CSJ) اور ورکنگ گروپ فار انکلوزیو ایجوکیشن (WGIE) نے سوموار کو صوبے میں تعلیمی پالیسی کی مشکلات کے بارے میں ایک اپ ڈیٹ جاری کیا۔ اسٹیک ہولڈرز کے مطابق، تعلیم کو جدید بنانے اور تخلیقی اور تحقیقی تعلیم متعارف کرانے کے بجائے، حکومت نے مذہب پر مبنی اصلاحات پر انحصار کیاہے۔ ان اقدامات نے عوامی تعلیم کو مدارس کی تعلیم بنا کر رکھ دیا ہے، جو پہلے سے مشکلات میں گھرے شعبے کے لیے بہت بڑا نقصان ثابت ہو سکتا ہے ۔
تبصرہ: اس مذہبی جنونیت میں ختم نبوت کے عقیدہ کے صرف ایک پہلو کو ترجیح دینا اس کو اچھالنا اور اس طرح احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فرق پر فوکس کرنے جیسے امور شامل ہیں۔ اس سے متعلقہ پنجاب حکومت کی سکولوں کو یہ ہدایت ہے کہ 17؍اگست 2021ء کے سی ای او ڈی ای اے سیالکوٹ کے سرکلر کے مطابق طلبہ کو اسلامیات اور عربی پیریڈ کے دوران قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم نبوت کے اسباق بار بار دہرائے جائیں۔ ہماری رائے میں یہ ہدایت عملی طور پر فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو فروغ دیتی ہے۔