خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۰۳؍مارچ۲۰۲۳ء

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میںقرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان

٭… قرآن کريم جو معرفت کا خزانہ ہميں ديتا ہے حقيقت ميں يہي ہے جو بندے کو خدا سے ملاتا ہےاس کے علاوہ خدا کوپانےکا کوئي طريق نہيں ہے

٭…جو شخص قرآن شريف کا پيرو ہوکر محبت اور صدق کو انتہا تک پہنچاديتا ہے وہ ظلّي طور پر خدا کي صفات کا مظہر ہوجاتا ہے

٭…آج يہ ہم احمديوں کا کام ہے کہ اپنے اندر تقويٰ پيدا کرتے ہوئےاس تعليم کي خوبيوں کو اپنے قول و فعل سے ثابت کريںدنيا کو بتائيں کہ قرآن کريم ہي تما م بيماريوں کا علاج ہے

٭…بنگلہ دیش، پاکستان، برکینا فاسو اور الجزائر کے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۰۳؍مارچ۲۰۲۳ء بمطابق ۰۳؍امان ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۰۳؍مارچ ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم دانیال تصورصاحب (فارغ التحصیل جامعہ احمدیہ یوکے) کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

حضرت مسیح موعودؑ نےقرآن کریم کی جو معرفت ہمیں عطافرمائی ہے یااپنی کتب اور ارشادات میں اس معرفت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے جو طریق بیان فرمائے ہیں وہ مَیں نے پچھلے خطبات میں کچھ بیان کیے ہیں۔قرآن کریم جو معرفت کا خزانہ ہمیں دیتا ہے حقیقت میں یہی ہے جو بندے کو خدا سے ملاتا ہے۔ اس کے علاوہ خدا کوپانےکا کوئی طریق نہیں ہے۔حضرت مسیح موعودؑ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں

قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے!

بے اِس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے

پس یہ وہ نکتہ ہے جسےہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔اگر ہم خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا چاہتے ہیں، اگر اپنی دنیا اور آخرت سنوارنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم کی معرفت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی خداتعالیٰ کے بھیجے ہوئے راہنما کی ضرورت ہے جو اس زمانےمیں آنحضرتﷺکے غلامِ صادق حضرت مسیح موعودؑ ہیں۔آپؑ نے قرآن کریم کے مختلف پہلوؤں پر جس گہرائی سے روشنی ڈالی ہے اور اس کے حسن سے آگاہ فرمایا ہے اس حوالے سے گذشتہ دو خطبات میں مَیں نےکچھ بیان کیا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اوراس بارے میں کافی مواد ابھی بیان کرنےوالاہے۔ آج بھی اس سلسلےکو جاری رکھتے ہوئے مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کی خصوصیات، مقام اور اہمیت کا ذکر کروں گا۔

اس بات کی وضاحت میں کہ قرآن خدا کا کلام ہے لالہ بھیم سین کے نام ایک خط میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھاقادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ مَیں قرآن کریم کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اور ناپاک تعلیم ہے۔اس کی پیروی سےزندہ خدا کا چہرہ نظر آجاتا ہےاور معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔

قرآن کریم نے خدا کا چہرہ دکھانے میں کس طرح اپنا کردار ادا کیااس بات کو صحابہ کی زندگیوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

صحابہ کی زندگیوں میں قرآنی تعلیم کا اثر بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا زمانہ جو صدراسلام کا وقت تھا اس زمانے پر ایک وسیع نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم نےکیونکر ایمان لانے والوں کو مذکورہ بالا ادنیٰ درجے سے اعلیٰ درجے تک پہنچا دیا۔

قرآن کریم کی پیروی سے انسان خداتعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوجاتا ہے اس حوالے سے آپؑ فرماتے ہیں:جو شخص قرآن شریف کا پیرو ہوکر محبت اور صدق کو انتہا تک پہنچادیتا ہے وہ ظلّی طور پر خدا کی صفات کا مظہر ہوجاتا ہے۔یہ سب نتیجہ اس زبردست طاقت اور خاصیت کا ہوتا ہے جو خداکے کلام قرآن شریف میں ہم مطالعہ کرتے ہیں۔ فرمایا مَیں نے قرآن کریم میں ایک زبردست طاقت پائی ہے،مَیں نے آنحضرتﷺ کی پیروی میں ایک عجیب خاصیت دیکھی ہےاور وہ یہ کہ سچا پیرو اس کا مقاماتِ ولایت تک پہنچ جاتا ہے۔

قرآنِ کریم کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:قرآنِ کریم کی چار اعجازی خوبیاں ہیں۔ پہلی خوبی قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت ہے جو انسانی فصاحت و بلاغت سے بالکل ممتاز ہے۔ دوسری معجزا نہ خوبی یہ ہے کہ جس قدر اس نے قصے بیان کیے ہیں درحقیقت وہ پیش گوئیا ں ہیں۔ تیسری معجزانہ خوبی یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم انسانی فطرت کو اس کے کمال تک پہنچانے کےلیے پوراپورا سامان اپنےاندر رکھتی ہے۔ چوتھی بڑی اعجازی خوبی یہ ہے کہ وہ کامل پیروی کرنے والے کو خداتعالیٰ کے ایسا نزدیک کردیتا ہے کہ وہ مکالمہ الہٰیہ کا شرف پالیتا ہے اور کھلے کھلے نشان اس سے ظاہر ہوتے ہیں۔ فرمایا قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس کی پیروی کے نتیجے میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

قرآن کریم کی معجزانہ تاثیرات سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی کامل پیروی کرنے والے درجہ قبولیت کا پاتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہوکر خداتعالیٰ اپنے کلامِ لذیذ اور پُررعب کے ذریعہ سے ان کو اطلاع بھی دیتا ہے اور خاص طور پر دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد بھی کرتا ہے۔

قرآن کریم کی تاثیرات کے متعلق حضورؑ فرماتے ہیں:خدا کی عظمت اور ہیبت کا وہ یقین چاہیے جو غفلت کے پردوں کو پاش پاش کردے اور بدن پر ایک لرزہ ڈال دےاور موت کو قریب کرکے دکھلاوے اور ایسا خوف دل پر غالب کرے جس سے تمام تاروپود نفسِ امارہ کے ٹوٹ جاویں اور انسان ایک غیبی ہاتھ سے خدا کی طرف کھینچاجائے اور اُس کا دل اِس یقین سے بھر جائے کہ درحقیقت خدا موجود ہے جو بےباک مجرم کوبےسزا نہیں چھوڑتا۔ مَیں ہرایک پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ وہ کتا ب جو ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے قرآن مجید ہے۔ قرآن کی پیروی کرنے والے انسان کو خدا خود دکھادیتا ہے اور عالَمِ ملکوت کااس کو سیر کراتا ہے اور اپنے انا الموجود ہونے کی آواز سے آپ اپنی ہستی کی اس کو خبر دیتا ہے۔

اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کریم شرک سے نجات کا ذریعہ ہے آپؑ فرماتے ہیں: جو کچھ قرآن کریم نے توحید کا تخم بلادِ عرب، فارس، مصر، شام، ہند، چین،افغانستان،کشمیر وغیرہ کے بلاد میں بودیا ہے اور اکثر بلاد سے شرک اور مخلوق پرستی کا تخم جڑسے اکھاڑ دیا ہے یہ ایک ایسی کارروائی ہے جس کی نظیر کسی زمانے میں نہیں پائی جاتی۔

قرآن کریم کی تعلیم اعلیٰ درجے کی تعلیم ہے اس حوالےسے آپؑ فرماتے ہیں:وہ کتاب جو انتہائی درجے کی ضلالت کے وقت میں نازل ہوئی اس کے لیےاعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی۔ وہ کتاب جو ان لوگوں کی اصلاح کے لیے آئی جن کے دلوں میں عقائدِ فاسدہ راسخ ہوچکے تھے اور اعمالِ قبیحہ ایک عادت کے حکم میں ہوگئے تھے۔

قرآن کریم کے عالمگیر کتاب ہونےکے بارے میں آپؑ نے فرمایا کہ جب انسان نے دنیا کی آبادی میں ترقی کی اور ملاقات کےلیے راہ کُھل گئی اور ایک ملک کے لوگوں کودوسرے ملک کے لوگوں کےساتھ ملاقات کے سامان میسر آگئے اوراس بات کا علم ہوگیا کہ فلاں فلاں حصہ زمین پر نوع انسان رہتے ہیں اور خداتعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ ان کو دوبارہ ایک قوم کی طرح بنادیا جائےاور بعد تفرقہ کے ان کو جمع کیا جاوے تب خدا نے تمام لوگوں کے لیے ایک کتاب بھیجی۔

حضرت مسیح موعودؑنے قرآن کریم کی علل اربعہ بیان فرمائی ہیں۔ یہ کون کون سی علل ہیں۔پہلے علتِ فاعلی یعنی اس کو کرنےوالا کون ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔ دوسری علتِ صوری یعنی ظاہری اور عملی وجوہات اس کی کیا ہیں۔ علتِ مادی یعنی اس کا مادی فائدہ کیا ہے۔ علتِ غائی یعنی ان سب کی بنیادی وجہ اور مقصد کیا ہے۔

علتِ فاعلی کی نسبت فرمایاالٓـمّٓ اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ یعنی مَیں خدا سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ علتِ مادی ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ یعنی یہ کتاب خداتعالیٰ کی طرف سے آئی ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہےاس پر عمل کرکے حقیقی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ علتِ صوری لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ہے یعنی اس کتاب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک وشبہ ہی نہیں ہے۔ جو بات ہے وہ مستحکم اور جو دعویٰ ہے وہ مدلل اور روشن ہے۔اس کتاب کی علتِ غائی ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَہے یعنی اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ متقیوں کو ہدایت کرے۔

حضورِانور نےفرمایا کہ آج کل کے نام نہاد علماء نے قرآن کی لازوال تعلیم کو ایسے رنگ میں پیش کیا ہے کہ مخالفوں کو اس پر الٹا اعتراض کرنے کا موقع مل گیاہے۔آج یہ ہم احمدیوں کا کام ہے کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئےاس تعلیم کی خوبیوں کو اپنے قول و فعل سے ثابت کریں۔دنیا کو بتائیں کہ قرآن کریم ہی تما م بیماریوں کا علاج ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خطبے کے آخر میں حضورِانور نے بنگلہ دیش،پاکستان، برکینا فاسو اور الجزائر کےاحمدیوں کے متعلق دعا کی تحریک فرمائی۔تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button