کل نہیں ابھی
آج سکول سے چھٹی تھی اور فارِس صبح سے خوب کھیل رہا تھا۔ اُسے اور اُس کے بھائی فاتح کو قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ فارس نے ابھی ابھی قاعدہ یسرنا القرآن ختم کر کے قرآن کریم پڑھنا شروع کیا ہے۔ وہ فاتح کو بھی یسرنا القرآن پڑھنے میں مدد دیتا ہے۔فارس کو یہ نظم بھی ازبرہے ’’قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا‘‘ اور اب وہ فاتح کو بھی تھوڑی تھوڑی کر کے یاد کروا رہا ہے۔
چند روز پہلے کی بات ہے کہ فارس نے جب نیا نیا سکول جانا شروع کیا تو تلاوتِ قرآن کریم میں سستی دکھانے لگا۔ سکول سے آکر کھانا کھاتا اور دن بھر کی تھکاوٹ کے باعث سو جاتا۔ پھرشام کو کھیلنے، ہوم ورک کرنے اور ٹی وی دیکھنے کے بعد ’کَل‘ تلاوت کرنے کا کہہ کر سو جاتا۔ فارس کی اُمی کافی دنوں سے یہ بات نوٹ کر رہی تھیں۔وہ اس بارے میں خاص دعا کر رہی تھیں اور کئی بار فارِس کو توجہ بھی دلا چکی تھیں لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی وقت نہیں دے پا رہا تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فارس کو سمجھانے کی غرض سے اُس کی امی کے ذہن میں ایک ترکیب ڈالی۔ ایک دن فارس صبح اٹھا تو اس نے اپنی امی سےسکول کے ٹِفن میں اپنے پسندیدہ بسکٹ رکھنے کا بھی کہا۔ اُس کی امی نے مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا اور کہا: جی ٹھیک ہے لیکن آج نہیں، کل رکھ دوں گی۔
سکول سے واپسی پر اُس نے اپنی پسندیدہ چاکلیٹ کھانے کی فرمائش کی۔
’ہمم، کَل نہ دے دوں؟‘ امی نے جواباًکہا۔
فارس کو کچھ عجیب سا لگا کیونکہ اس سے پہلے امی نے اس کو کبھی اس طرح منع نہیں کیا تھا۔
شام کو جب اس نے امی کو کہا: امی جان میرے ساتھ لڈو کھیلیں گی؟تو امی جو فاتح کی شرٹ کا بٹن ٹانک کر بیٹھی ہی تھیں معنی خیز انداز میں کہنے لگیں ’کل…، ہم کل کھیلیں گے۔‘
فارس سوچ میں پڑ گیا کیونکہ اس کو سمجھ آنے لگ گئی تھی کہ امی ایسا کیوں کہہ رہی ہیں۔
شام کو جب وہ فٹ بال کھیل کر گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ امی فاتح کو یسرنا القرآن پڑھا رہی ہیں۔ لیکن آج انہوں نے روزانہ کی طرح فارِس کو نہ تو قرآنِ کریم کی تلاوت کا یاد کروایا اور نہ ہی اُسے بلایا۔
اب فارس کو ساری بات سمجھ آ چکی تھی ۔ وہ جلدی سے غُسْل خانے گیا، کپڑے تبدیل کیے، وضو کیا اور قرآن شریف ہاتھ میں لیے اپنی امی جان کے پاس آکر کہنے لگا ’’امی جان! مجھے معاف کر دیں۔ میں آئندہ سے روزانہ تلاوت کیا کروں گا۔ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔‘‘
اُس کی امّی نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ فارس کی توجہ پھر سے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کی طرف مبذول ہوئی ہے۔ انہوں نے بیٹے کو پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ مَیں بھلا اپنے بیٹے سے کیوں ناراض ہوں گی! لیکن یہ خیال رکھناکہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرنے میں سستی دکھاؤگے تو مَیں تو ناراض ہوں گی ہی، اللہ تعالیٰ بھی آپ سے ناراض ہو سکتا ہے کیونکہ اُس نے ہمیں ہماری بہتری کے لیے قرآن پڑھنے اور اسے سمجھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ فارس کو یہ بات سمجھ آگئی اور اس نے آئندہ کبھی تلاوتِ قرآن میں ناغہ نہ کرنے کا عہد کیا۔
بعد میں اس کی امی نے دونوں بھائیوں کو چاکلیٹ بھی دی اور ان کے ساتھ لڈو بھی کھیلی۔