الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کا انقلاب انگیز لٹریچر

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4 اور 5؍جنوری 2013ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انقلاب انگیز لٹریچر کے سترہ پہلو تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

1793ء میں پہلا عیسائی مبلغ William Careyہندوستان آیا اور ایک صدی کے اندر عیسائی پادریوں اور چرچ کے عملے کی تعداد ساڑھے 9ہزار سے تجاوز کرچکی تھی۔ اسی لیے 7جلدوںمیں عیسائیت کی تاریخ لکھنے والے مصنف لاٹریٹ نے 1815ء سے 1914ء تک کے دَور کو عیسائیت کے پھیلاؤ کی عظیم صدی قرار دیا ہے۔ اس دوران عیسائی پادریوں نے وسط ایشیا میں عیسائیت کی ترقی کے لیے پنجاب کو قدرتی Base قرار دیا اور یہاں پہلا عیسائی مشن 1835ء میں لدھیانہ میں قائم کیا گیا۔ ایک عیسائی سکول پہلے سے یہاں قائم تھا۔ عیسائی مشنری لدھیانہ سے فارسی زبان میں قلمی’’لدھیانہ اخبار‘‘ 1833ء میں جاری کرچکے تھے۔ 1835ء میں یہاں چھاپہ خانہ بھی قائم کردیا گیا تو یہ ٹائپ میں چھپنے لگا۔ 1837ء میں یہاں پنجاب کا پہلا گرجا گھر بھی تعمیر ہوا۔ پس لدھیانہ احمدیت اورعیسائیت کی تاریخ میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ یہی وہ شہر ہے جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے 1889ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور لدھیانہ وہ باب لد بن گیا جہاں قلم کے ذریعہ دجال کا سرقلم کیا جانا مقدّر تھا۔

حضرت اقدسؑ کو اللہ تعالیٰ نے سلطان القلم اور آپؑ کے قلم کو ذوالفقار علی کا خطاب عطا فرمایا۔ حضرت نعمت اللہ ولیؒ بھی اپنی پیشگوئیوں میں لکھ چکے تھے کہ اس امام موعود کا چمکنے والا ہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار تلوار کرتی تھی۔ آپؑ کو یہ الہام بھی ہوا کہ تیرے کلام کو خدا کی طرف سے فصاحت وبلاغت عطا کی گئی ہے۔ چنانچہ آپؑ نے بڑی تحدّی سے فرمایا: اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف کا کام قلم سے لیا جائے اورتحریر سے مقابلہ کرکے مخالفوں کو پست کیا جائے … اس وقت جوضرورت ہے وہ یقینا ًسمجھ لو سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں۔ اور مختلف سائینسوں اورمکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے، اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اورعلمی ترقی کے میدانِ کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اورباطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔ (ملفوظات جلداوّل صفحہ38,37)

پھر فرمایا: خداتعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ مَیں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اس سے ان کو پاک کروں۔ خداتعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہرایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ و مقدّس کرے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ38)

حضرت اقدسؑ کی زندگی بخش تحریریں اردو،عربی اور فارسی کی 88تالیفات کے 11ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ بیسیوں مضامین 300 اشتہارات، 700مکتوبات اورملفوظات کی 5جلدیں اس کے علاوہ ہیں۔ ان تحریروں کے سترہ امتیازات درج ذیل کیے جاتے ہیں۔

1۔ حضورؑ اپنے آقا ﷺکی نمائندگی میں کُل عالم سے خطاب فرماتے ہیں۔ مثلاً فرمایا: ’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اوراے تمام وہ انسانی رُوحو جو مشرق اورمغرب میں آباد ہو ! مَیں پورے زورکے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اورسچا خدا بھی وہی خداہے جو قرآن نے بیان کیا اورہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اورجلال اورتقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے۔‘‘ (تریاق القلوب)

2۔حضورؑ نے قلمی جہاد کے میدان کارزار میں اس شان اور قوت، فنی مہارت و بےمثل فراست کے ساتھ اہل حق کی کمان سنبھالی کہ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو جری اللہ کا لقب عطا کیا۔ مسلمان علماء نے آپؑ کے حق میں تعریف و توصیف کے مضامین لکھے۔ چنانچہ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے بھی ’’براہین احمدیہ ‘‘کو تاریخ اسلام کی بے نظیر کتاب قرار دیتے ہوئے لکھا: یہ کتاب اس زمانہ میںاور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیرآج تک اسلام میںتالیف نہیں ہوئی اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیرپہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔

3۔حضورؑکی کتب زندہ خدا کی زندہ تجلیات کا شاہکار ہیں۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے متعلق آپؑ نے فرمایا: مَیں نے اس کی سطر سطر پر دعا کی ہے۔

حضورؑ کی 20کتب فصیح وبلیغ عربی زبان میں ہیں اور خطبہ الہامیہ آپؑ کو اعجازی نشان کے طور پر عطا ہوا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائیدالٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی والہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں ۔‘‘ (سرالخلافہ)

نیز فرمایا: مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی کا سکھایا گیا ہے اورمجھے ادبی علوم پر پوری وسعت دی گئی ہے۔ (انجام آتھم)

4۔اپنی معجزنما11کتابوں کا جواب لکھنے پر حضورؑنے ہزاروں روپے کے انعامی چیلنج دیے جن کی مختصر تفصیل یہ ہے:

1۔براہین احمدیہ ہر چہار حصص 10000 روپے۔ 2۔ سرمہ چشم آریہ 500 روپے۔ 3۔ کرامات الصادقین 1000روپے۔ 4۔نورالحق 5000روپے۔ 5۔اعجازاحمدی 10000روپے۔ 6۔اتمام الحجۃ 1000روپے۔ 7۔ تحفہ گولڑویہ 500روپے۔ 8۔ سرالخلافہ 27روپے

نیز اپنی تین کتب (1۔اعجازالمسیح۔ 2۔حجۃ اللہ۔ 3۔الھدیٰ والتبصرۃ لمن یری) کے بالمقابل کتاب لکھنے یا ان کا ردّ لکھنے پر اپنا جھوٹا ہونا تسلیم کرلینے کا وعدہ کیا۔ مگر

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند

ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

صفِ دشمن کو کیا ہم نے بحُجّت پامال

سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے

5۔حضرت مسیح موعودؑ کی ایمان سے لبریزتحریروں نے اہل ایمان کے دلوں میں نور کی شمعیں روشن کیں اورپھر آپ کی قوت قدسیہ ان کو صیقل کرتی چلی گئی۔ حضرت مولانا نورالدینؓ نشان نمائی کا اشتہار دیکھ کر قادیان آئے اورچہرہ اقدس دیکھ کر قربان ہوگئے۔ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ، حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ، حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ، حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اورحضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ وغیرہ ’براہین احمدیہ‘ سے مفتوح ہوئے۔ حضرت ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ، حضرت حاجی غلام احمد صاحب کریامؓ اور حضرت ماسٹر فقیراللہ صاحبؓ وغیرہ کو ’ازالہ اوہام‘ نے جیتا۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ اور حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ، شام کے پہلے احمدی السید محمدسعیدی طرابلسیؓ اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کو ’آئینہ کمالات اسلام‘نے فتح کیا۔ کثیرتعداد ایسے فدائیان کی ہے جو آپ کے لیکچر ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘، ’لیکچر لاہور‘،’لیکچر سیالکوٹ‘ اور ’لیکچر لدھیانہ‘سن کر حلقۂ عشاق میں داخل ہوگئے۔ حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ ’براہین احمدیہ‘ کے بارہ میں فرماتے تھے کہ ہم اس کتاب کو پڑھا کرتے اوراس کی فصاحت وبلاغت پر عش عش کراٹھتے کہ یہ شخص بے بدل لکھنے والا ہے۔براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے حضور سے محبت ہوگئی۔

حضوؑر فرماتے ہیں: میں سچ سچ کہتاہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مرگئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتاہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اَوربھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ (ازالہ اوہام)

6۔یہ مقدّس کتب ایسے شخص کے ہاتھ سے نکلی ہیں جس پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے تھے اس لئے جو لوگ ان کتب کو ذوق و شوق اور عقیدت سے پڑھتے ہیں ان پر بھی خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اورآج ہزار ہا ایسے احمدی ہیں جن سے خدا ہمکلام ہوتا ہے انہیں سچی خوابیں دکھاتا ہے اور غیب سے مطلع فرماتاہے۔

7۔ حضورؑ نے مذاہب عالم پر اسلام کو غالب کرنے کی کامیاب حکمت عملی اپنائی۔ کاسر صلیب ہونے کے لحاظ سے آپؑ کی قریباً 17کتب کا مرکزی مضمون ردّ عیسائیت ہے۔ آپؑ نے مسیح کی وفات کا انقلاب انگیز اعلان کرکے عیسائیت کا قلعہ زمین بوس کردیا۔ مسیح کی جھوٹی خدائی کے دعویدار عیسائی پادریوں کو دجال قرار دیا۔ ان سے مباحثے اور مباہلے کیے، انعامی چیلنج دیے، نشان دکھائے اور ہر قدم پر شکست فاش دی۔ حضورؑ نے امریکہ میں عیسائیت کے نمائندہ ڈوئی کو للکار اجو آپ کی زندگی میں 9مارچ 1907ء کو ذلّت کے ساتھ ہلاک ہوا۔ لندن میں پادری جان ہیوگ سمتھ پگٹ نے خدائی کا دعویٰ کیا تو حضورؑ نے فرمایا: ’’یہ دلیر دروغ گو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کا لندن میں دعویٰ کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست و نابود ہو جائے گا۔‘‘ حضوؑر نے جب یہ پیشگوئی شائع فرمائی تو پگٹ اپنے پورے عروج پرتھا مگرا للہ تعالیٰ نے غیب سے ایسے سامان پیدا کردیے کہ اس نے اپنے دعویٰ کا ذکر تک چھوڑ دیا اور پھر لندن چھوڑ کر سپیکسٹن چلا گیا جہاں 25سال گوشہ تنہائی میں گزارکر مارچ1927ء میں مرگیا۔

آپؑ کے پُرزور حملوں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول ’’عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑائے جو سلطنت کے زیر سایہ ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا …بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا ۔‘‘

مولانا نور محمد نقشبندی کے الفاظ میں حضرت مسیح موعودؑ نے وفات مسیح اور دعویٰ مسیح موعود کے ذریعہ ’’ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دی ۔‘‘

8۔حضورؑ کی قریباً 11کتب کا مرکزی مضمون ہندومت اور سکھ مت ہے۔ آپ نے ہندوؤں سے مباحثے کیے اور موجودہ ویدوں کو گمراہی سے بھرپور ثابت کیا۔ سنسکرت کی بجائے عربی زبان کے ام الالسنہ ہو نے پر سورج چڑھا دیا اورعلم لسانیات میں انقلاب برپا کردیا۔روحانی دعوت مقابلہ اور پنڈت لیکھرام کی موت نے آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑ دیں اور ایک ہندو راہنمانے لکھا کہ کوئی عیسائی اورمسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں داخل نہیں ہوتا۔

حضورؑ نے برہمو سماج کے سرگرم لیڈر پنڈت نرائن اگنی ہوتری سے تحریری مباحثہ کیا اوراس شان سے یلغار کی کہ پنڈت صاحب نے اپنے مذہب کو ہی خیر باد کہہ دیا۔

حضورؑ نے سکھ مذہب کے بانی حضرت باوا گورونانک کومسلمان ولی اللہ ثابت کرکے اورچولہ بابانانک پر کلمہ اور قرآنی آیات کا انکشاف کرکے سکھ مذہب کوجڑسے اکھیڑ دیا۔

9۔ حضرت مسیح موعودؑکے ہاتھوں اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ نصیب ہوا۔ 1896ء کے جلسہ مذاہب عالم لاہور میں 10مذاہب اور مکاتب فکر کے سولہ نمائندگان کے مضامین میں پیشگوئی کے مطابق آپؑ کا مضمون سب پر بالا رہا۔ چنانچہ اخبارجنرل و گوہر آصفی کلکتہ نے لکھا : اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلت وندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے، بالا ہے۔

10۔ مذاہب عالم پر اسلام کی قلمی فتح کے آپ اس قدر آرزو مند تھے کہ آپ نے انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ کو دعوت حق د ی اور ملکہ کے نام اپنے رسالہ تحفہ قیصریہ میں جون 1897ء میں لندن میں جلسہ مذاہب عالم کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔

پھر 27دسمبر 1899ء کو بذریعہ اشتہار حضورؑ نے انگریز حکومت کو جلسہ مذاہب عالم کی ترغیب دلائی۔

حضورؑ کی وفات پر مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا: ’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جودماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اورآواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اورطوفان بنارہا، جو شورقیامت ہوکے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا …ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عام پر آتے ہیںاور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں۔‘‘

11۔حضرت مسیح موعودؑ نے آسمان سے نازل ہونے والے علوم قرآنی کے چشمے بہا کر دنیا کو ان کا گرویدہ کردیا۔ بلاشبہ یہ موعود امام قائم اور رجل فارس ایمان کو ثریا سے لایا اور اپنی تحریروں اور تعلیمات اور قوت قدسیہ کے ذریعہ ایمان کو دلوں کی زینت بنایا۔ آپ کے مسیحی انفاس اورانفاخ قدسیہ نے احمدیوں کے دلوں میں نیکی اورتقویٰ کا جو انقلاب برپا کیا مخالفین برسر عام اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ جناب دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر اخبار ریاست دہلی لکھتے ہیں: ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک اسلامی شعار کا تعلق ہے ایک معمولی احمدی کا دوسرے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا مذہبی لیڈر بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ احمدی ہونے کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اوردوسرے اسلامی احکام کا عملی طور پر پابند ہو۔ چنانچہ مجھ کو اپنی زندگی میں سینکڑوں احمدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں دیکھا گیا جو کہ اسلامی شعار کا پابند اوردیانتدار نہ ہو۔ اورہمار ا تجربہ یہ ہے کہ ایک احمدی کے لیے بددیانت ہونا ممکن ہی نہیں ۔

امرتسر کے صحافی محمداسلم خلافت اولیٰ میں قادیان آئے اوراپنے مشاہدات کا خلاصہ یوں بیان کیا: احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا۔

جماعت کی کا وشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے علامہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں: دنیا کا کوئی دُوردراز گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ مردان خدا اسلام کی صحیح تعلیم اسلام کی نشرواشاعت میں مصروف نہ ہوں۔جب قادیان اور ربوہ میں صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے توٹھیک اسی وقت یورپ و افریقہ و ایشیا کے ان بعید و تاریک گوشوں سے بھی یہی آواز بلند ہوتی ہے جہاں سینکڑوں غریب الدیار احمدی خدا کی راہ میں دلیرانہ قدم آگے بڑھائے ہوئے چلے جارہے ہیں۔

جناب محی الدین غازیؔ لکھتے ہیں: یورپ و امریکہ کی مذہب سے بیزاری اور اسلام کی حریف دنیا میں علم تبلیغ بلند کرنے کی کسی عالم دین یا کسی علمی ادارے کو توفیق نہیں ہوئی۔ اگر عَلَم ہاتھ میں لے کر اٹھا تووہ یہی قادیانی فرقہ تھا ؎

کامل اس فرقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی

کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے

اس جماعت نے تبلیغی مقاصد کے لیے سب سے پہلے اسی سنگلاخ زمین کو چنا اوریورپ و امریکہ کا رُخ کیا اور اُن کے سامنے اسلام کو اصلی وسادہ صورت میں اور اس کے اصولوں کو ایسی قابلِ قبول شکل میں پیش کیا کہ ان ممالک کے ہزارہا افراد و خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور یدخلون فی دین اللّٰہِ افواجاکا سماں آنکھوں میں پھر گیا ۔

12۔ مسیح دوراںؑ کے قلم نے محبت الٰہی اور دین کی غیرت رکھنے والے فدائیوں کا صرف گروہ تیار نہیں کیا بلکہ ایک عظیم منتظم کی طرح جماعت احمدیہ کے تمام تربیتی دعوتی اورانتظامی ڈھانچے کی تشکیل بھی کی۔ آج جماعت کاکوئی ادارہ یا منصوبہ ایسا نہیں جس کی بنیاد حضرت مسیح موعودؑ کے قلم سے نہ رکھی گئی ہو۔ آپؑ نے اپنی کتاب فتح اسلام میں کارخانہ احمدیت کی 5 شاخیں بیان کیںجس میں تصنیفات، اشتہارات اورخطوط کے علاوہ دارالضیافت کا بھی تذکرہ فرمایا جس کی سینکڑوں شاخیں پاکیزہ نان مہیا کررہی ہیں۔ سلسلہ بیعت کا آغازبھی فرمایا جو آج عالمی بیعت کی شکل میں گلشن احمد کی بہار بن چکا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کتاب ’الوصیت‘ نے دنیا کو بہشتی مقبرہ جیسا جنتی نظام اور خلافت جیسا دائمی انعام عطا فرمایا۔ صدر انجمن احمدیہ کا نظام اور کتاب ’آسمانی فیصلہ‘ کے ذریعے جلسہ سالانہ اورمشاورت کا پاکیزہ سلسلہ جاری کیا۔ حضور کی متعدد کتب میں مالی قربانی، اشاعتِ قرآن اور تعمیر مساجد کے پُرزور پیغام بھی ہیں جنہیں آج تحریک جدید عملی جامہ پہناتے ہوئے 60سے زیادہ زبانوں میں تراجم قرآن اور ہزاروں مساجد تعمیر کر چکی ہے۔ اس مقدس لٹریچر میں بیت الدعا اورمنارۃ المسیح کا ذکر بھی ہے۔ نیز فرمایا: ’’لوائے ماپنہ ہر سعید خواہد بود‘‘ یعنی ہمارا جھنڈا ہر سعید فطرت کی پناہ گاہ ہوگا۔ چنانچہ یہ جھنڈا آج لوائے احمدیت کی صورت میں دنیا کے 200ملکوں میں لہراتا ہے۔ اس لٹریچرمیں تبلیغ، وقف زندگی اور جامعہ احمدیہ کی بنیادیں بھی رکھی گئیں آج دنیا کے 13ممالک میں جامعات قائم ہیں۔

حضور نے الحکم اورالبدر کو اپنا بازوقراردیا اور ریویو آف ریلیجنز جاری کرکے جماعت میں اخبارات ورسائل کے قلمی اسلحہ کی فیکٹریاں قائم کردیں۔ انجمن تشحیذالاذہان کی سرپرستی فرما کر اور خواتین سے الگ خطاب کرکے ذیلی تنظیموں کی بِنا ڈالی۔جدید علوم کی تحصیل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حضور نے تعلیم الاسلام سکول اور تعلیم الاسلام کالج قائم کیا۔

خدمت خلق کی طرف اس شان سے راغب کیا کہ آج دنیا میں جماعت احمدیہ ہمدردی اور ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کے تاج سے پہچانی جاتی ہے۔ پس آج دنیا میں خلافت احمدیہ کے ذریعہ توحیدباری کے قیام، خدمت نوع انسان اور وحدت اقوام کا جو روح پرور سلسلہ جاری ہے اس کا سہرا حضرت مسیح موعودؑ کے انقلاب انگیز لٹریچر کے سرہے۔

13۔حضرت مسیح موعودؑکے متعلق خدا نے خبر دی تھی کہ زمین کے باشندوںکے خیالات بدلائے جائیں گے۔ چنانچہ وہ حقائق جن کی وجہ سے آپؑ پر کفر کے فتوے لگائے گئے آج وہی باتیں دنیا میں گونج رہی ہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا ؎

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

٭…کاسرصلیب: حضرت مسیح موعودؑنے 1891ء میں وفات مسیحؑ کا اعلان کیا اورلندن میں 1978ء میں کسرصلیب کانفرنس میں کئی ممالک کے مسلمان اور عیسائی محققین نے مسیحؑ کی صلیبی موت سے نجات اور کشمیرمیں وفات کا برملا اعلان کیا۔ مشہور ہسپانوی سکالر A.Faber Kaiserقبر مسیح ؑکی تحقیق کے لیے خود کشمیر گئے اورانتہائی محنت و قابلیت سے قابل قدر تاریخی معلومات پر مشتمل ضخیم کتاب Jesus Died in Kashmir شائع کی۔

اب تک بہت سے عرب زعماء حضرت مسیح ؑکی طبعی وفات کے قائل ہیں۔ السید محمد رشید اور السید عباس محمود العقاد نے تسلیم کیا کہ عقلی نقلی اور تاریخی اعتبار سے سرینگرکے محلہ خانیار میں واقع مقبرہ حضرت مسیح علیہ السلام ہی کا ہے۔

ایرانی مفسر مولانا زین الدین نے اپنی تفسیر میں لکھا: حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں بہت تکالیف برداشت کرنا پڑیں جس پر آپ ؑ نے مشرق کارخ اختیار کیا اور کشمیر اورمشرقی افغانستان کے اسرائیلی قبائل کی طرف ہجرت کرگئے اورانہیں وعظ ونصیحت فرمائی۔

٭… یاجوج ماجوج:حضرت مسیح موعودؑنے مغربی اقوام کے مذہبی اورسیاسی فتنوں کو دجال اوریاجوج ماجوج قرار دیا۔ آج عرب لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ الشیخ عبداللہ بن زید آل محمود وزیر مذہبی امور قطر اور الشیخ عبدالرحمٰن بن سعدی کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد روس، امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی اقوام ہیں۔ جیّد سکالر علی اکبر صاحب لکھتے ہیں: یورپی اقوام ہی یاجوج و ماجوج ہیں اور آسمان میں تیر چلانے سے مراد طاقتور راکٹ ہیں۔ مولانا ابوالجمال احمد مکرم صاحب عباسی چڑیا کوٹی (رُکن مجلس اشاعۃالعلوم حیدرآباد دکن )نے بھی پادریوں کو دجال اور ریل کو خرِ دجال قراردیا۔

٭… ام الالسنہ: 1895ء میں ناقابل تردید دلائل سے حضرت مسیح موعودؑ نے عربی کو ام الالسنہ قرار دیا۔ عیسائی ماہر لغت رائل عرب اکیڈمی کے ممتاز ممبر اور لغۃ العرب کے ایڈیٹر انستاس الکرمی (1947-1866ء) نے1935ء میں ببانگ دہل عربی کے ام الالسنہ ہونے کا اعلان کیا۔ برصغیر کے مولانا عبدالرحمٰن طاہر سواتی لکھتے ہیں: عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے میں شک نہیں۔ مفتی محمد شفیع صدر مدرسہ دارالعلوم کراچی لکھتے ہیں: حکومت الٰہیہ کی دفتری زبان عربی ہے کہ سب سے پہلے انسان کو وہی سکھائی گئی اور بالآخر جنت میں پہنچ کر تمام انسانوں کی زبان وہی ہو جائے گی۔

٭…نزول جبریل: مولانا اللہ یار ’’دلائل السلوک‘‘ میں لکھتے ہیں: جبریل ولی اللہ کے پاس آسکتے ہیں۔ صرف وحی شرعی اوروحی احکامی کا سلسلہ ختم ہواکیونکہ دین مکمل ہوچکا ہے۔

٭…مسئلہ جہاد: جہاد کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ پر بہت طعن وتشنیع کی گئی مگر آج تمام عالم اسلام اسی حقیقت کو بیان کرنے پر مجبور ہے ۔ چنانچہ مولانا زاہدالحسینی لکھتے ہیں: ’’یہ جہاد بالقلم کا دورہے آج قلم کا فتنہ بڑا پھیل گیاہے آج قلم کے ساتھ جہاد کرنے والا سب سے بڑا مجاہد ہے۔‘‘

شاہ فیصل نے فرمایا: ’’جہادصرف بندوق اٹھانے یا تلوار بے نیام کرنے کا نام نہیں بلکہ جہاد تواللہ تعالیٰ کی کتاب اوررسول مقبول ؐ کی سنت کی طرف دعوت دینے، ان پر عمل پیرا ہونے اورہرقسم کی مشکلات، دقتوں اورتکالیف کے باوجود استقلال سے ان پر قائم رہنے کا نام ہے۔‘‘

ایرانی عالم آیت اللہ مرتضیٰ مطہری نے لکھا: قرآن مجید نے بنیادی طور پر وضاحت کردی ہے کہ جہاد، بالادستی اور اقتدار کی جارحانہ جنگ نہیں جارحیت کے مقابلہ کا نام ہے۔

معروف سکالرشاہ بلیغ الدین لکھتے ہیں: اسلام انسانی کشت وخون کوحرام قرار دیتا ہے۔ قرآن میں حکم ہے کہ ایک بے گناہ انسان کو مارنا پوری قوم کو ختم کردینا ہے۔ جہاد اورقتال یعنی جنگ یہ دونوں الگ الگ صورتیں ہیں۔ مسلمان اس وقت تک لڑائی پر نہیں نکل سکتا جب تک مذاکرات اورسفارتی تعلقات سے امن برقرار رکھنے کی پوری کوشش نہ کرے۔ … اگر مخالف نہ مانے تو بھی اس صورت میں مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنی طرف سے پہل نہ کریں۔ دشمن حملہ کردے توصرف اپنے بچاؤ کے لیے ہتھیار اٹھائیں۔ یہی قرآن کا حکم ہے۔

٭… انگریز کا انصاف: حضرت مسیح موعودؑنے حکومت برطانیہ کے انصاف اور امن پسندی کو سراہا تو مدتوں دشمن اس پر معترض رہے مگر آج حسن نثار لکھتے ہیں: آج ہر کوئی یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ انگریز استعمار تھا یابرصغیر کا معمار ؟…آج پورے برصغیر میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے … انفراسٹرکچر ہو یا دیگر سسٹمز سب گورے کے گیان ودھیان کا نتیجہ ہے ورنہ مقامیوں نے توکبھی ماچس تک نہ دیکھی تھی۔ انگریز نے سول و ملٹری ڈھانچہ کے ساتھ ساتھ دنیا کا عظیم ترین نظام آبپاشی دیا۔ بہت سے نئے شہر آباد کیے، ریلوے کا جال بچھایا،پل اورسرنگیں تعمیر کیں، سکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں کی چین بنائی، ٹیلی گراف، ٹیلی فون، بجلی اوربینکنگ سے لے کر عدالتی نظام تک …یتیم خانوں سے لے کر پھولوں کی نمائش کے تصور تک …میز کرسی کے استعمال سے لے کر دہلی میں پہلے طبیہ کالج کی تعمیر تک …جو کچھ ہے اسی استعمارکی یاد ہے۔

(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button