احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
مسجداقصیٰ کونسی مسجدہے؟
اس امر کی تحقیق کیلئے کہ مسجد اقصیٰ کونسی ہے دوامور پرغورکرنا ضروری ہے :
1۔تعامل یعنی صحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم میں موجود ہونا اور ان کی تحریروں اور تقریروں میں اس کا ذکر آنا۔
2۔خودحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریروں میں اس کا ذکر آنا۔
پس (اول)تعامل پرغورکرنےسے معلوم ہوتا ہے کہالنادرکالمعدوم کوچھوڑکرتحریراًوتقریراًحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک بیک زبان یہی کہا جاتاہے کہ مسجداقصیٰ منارہ والی مسجدہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی شرعی مسئلہ کے متعلق جو بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں ان میں ایک اہم مسئلہ تعامل کا بھی ہے۔جسے دوسرے لفظ میں تواتربھی کہتے ہیں۔قرآن کریم ہم تک محض تواتر کے ذریعہ پہنچا۔نمازیں ہم محض تواترکی بناپر پڑھتے ہیں۔اسی طرح اسلام کے دوسرے احکام جنہیں سنت کہتے ہیں ہمیں اسی تواتر کے ذریعہ ملے اوراسی تواتروتعامل کو اب بھی بنیادی اصول بنانا پڑیگا اور ہرمسئلہ کے متعلق النادرکالمعدوم کو چھوڑ کر اسی تواتر وتعامل پرنظرڈالی جائیگی کہ صحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اس بارے میں تواتر وتعامل کیا ہے۔بفضل خداابھی ہم میں صحابہ موجود ہیں اور ان کا تعامل وتواتر بتلارہاہےکہ مسجداقصیٰ منارہ والی مسجدہے۔
(دوم)حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات سے بھی ظاہرہےکہ مسجداقصیٰ منارہ والی مسجدہے۔ چنانچہ آپؑ تحریرفرماتےہیں:
1۔’’حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسجد اقصیٰ کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ منارہ یہی مسجداقصیٰ کا منارہ ہے۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ب)
2۔’’اس مسجداقصیٰ کا منارہ اس لائق ہے کہ تمام میناروں سے اونچاہو۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ث حاشیہ )
3۔’’مسجدکی شرقی طرف جیسا کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامنشاہےایک نہایت اونچامنارہ بنایاجائے۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ب)
4۔’’یہ منارہ اس لئے طیار کیاجاتاہے کہ تاحدیث کے موافق …وہ عظیم پیشگوئی پوری ہوجائےجس کا ذکر قرآن شریف کی اس آیت میں ہے کہ سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ۔(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ث)
ان چارحوالوں کے بعد یہ دیکھنا چاہیےکہ منارہ کس مسجدمیں ہےاور کس مسجدکی شرقی جانب واقع ہے۔اگرمسجدمبارک کو مسجداقصیٰ ماناجائےتو(1)مسجد مبارک میں کوئی منارہ نہیں نہ شرق کی طرف نہ غرب کی طرف۔(2)بڑی مسجد والے منارہ کو مسجد مبارک کا منارہ مانا جائےتو بعیدازقیاس کے علاوہ پیشگوئی کے بھی خلاف ہے کیونکہ پیشگوئی کے رو سے منارہ کومسجدکی شرقی جانب ہونا چاہیے نہ کہ غربی جانب۔جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ احادیث کے منشاء کے ماتحت مسجد کی شرقی جانب ایک نہایت اونچامنارہ بنایاجائے لیکن یہ امرظاہر ہے کہ بڑی مسجد کا منارہ مسجدمبارک سے غرب کی طرف ہے اور جب منارہ بڑی مسجد کے شرق میں ہے تو لامحالہ بڑی مسجد ہی مسجد اقصیٰ ٹھہری گو اس کی بنیاد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے والد صاحب مرحوم نے رکھی مگر حقیقتاً اس کی تکمیل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ سے ہوئی جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خودتحریرفرماتے ہیں :’’خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے قادیان کی مسجد جو میرے والدصاحب مرحوم نے مختصرطورپردوبازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی۔اب شوکت اسلام کے لئے بہت وسیع کی گئی اور بعض حصّہ عمارات کے اور بھی بنائے گئے ہیں…اب اس مسجد کی تکمیل کے لئے ایک اور تجویز قرارپائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی شرقی طرف جیساکہ احادیث رسول اللہﷺ کا منشاء ہے ایک نہایت اونچا مناربنایاجائے اور منارتین کاموں کے لئے مخصوص ہو۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ الف،ب)
پس ظاہر ہے کہ ’’مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجدہے جو قادیان میں واقعہ ہے‘‘سے یہی مسجد مراد ہے جس کی بنیاد آپ کے والد صاحب مرحوم نے رکھی اور جس کی توسیع وتکمیل آپ کے دست مبارک سے ہوئی کیونکہ منارہ کا وجود اس مسجد میں ہے نہ کہ مسجد مبارک میں۔
اب رہا ’’مبارک ومبارک وکل امرمبارک یجعل فیہ‘‘کا حل۔سو جاننا چاہیےکہ اس الہام کی مصداق دونوں مساجد ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے الہام کو دونوں مساجد پر چسپاں فرمایا ہے جیسا کہ براہین احمدیہ حصّہ چہارم وا زالہ ٔ اوہام و حقیقۃ الوحی میں اس الہام کو مسجد مبارک کے متعلق تحریر فرماتے ہیں او رضمیمہ خطبہ الہامیہ میں مسجد اقصیٰ پر چسپاں کرتے ہیں چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:’’مسجد اقصیٰ سے مرادمسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقعہ ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خداتعالیٰ کا کلام یہ ہے مبارک ومبارک وکل امرمبارک یجعل فیہ اور مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقعہ ہواقرآن شریف کی آیت بارکنا حولہ کےمطابق ہے۔ ‘‘پہلے ظاہر کیاجاچکاہے کہ بارکنا حولہ کی آیت مسجد اقصیٰ کے متعلق ہےاورمسجد اقصیٰ منارہ والی مسجد ہےاور منارہ والی مسجد وہ ہے جس کی آپ کے والدصاحب مرحوم نے بنیاد ڈالی اور توسیع وتکمیل آپ کے دست مبارک سے ہوئی اور جس طرح اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَ کو محض تکمیل کی بناء پرمقام ابراہیم قراردیا گیا۔ اس طرح محض تکمیل وتوسیع کی بنا پراس مسجد کو مسیح موعودؑ کی مسجد قراردےدیاجیسے ولقد نصرکم اللّٰہ ببدر وانتم اذلۃ جنگ بدر کے متعلق بھی ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ کی پیشگوئی بھی ہے۔اسی طرح یہ الہام دونوں مساجد کےلیے ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ضمیمہ خطبہ الہامیہ میں شروع سے آخر تک اسی مسجد کا ذکرہے اور مسجد مبارک کا ذکرکہیں اشارۃً بھی نہیں پایاجاتاپھر بلا تعلق اس کا ذکر کس طرح آسکتا تھا۔تمام ذکر منارہ کا ہے اور منارہ بنتاہے بڑی مسجد میں پس بڑی مسجد ہی مسجد اقصیٰ ٹھہری۔دراصل مسجد مبارک مسجد اقصیٰ کی ایک شاخ ہے اور شاخ اصل سے جدانہیں ہوتی جب شاخ کے متعلق مبارک ومبارک۔ الخ کا الہام ہواتو اصل یعنی مسجد اقصیٰ خودبخود اس میں شامل ہوگئی۔خاکسار سید محمودعالم قادیان۔( الفضل جلد24نمبر73 مؤرخہ 25؍ستمبر 1936ء صفحہ 6)
واضح رہے کہ حضرت اقدسؑ کے عہدمبارک میں اس مسجدکومسجداقصیٰ کانام دیے جانے کی کوئی روایت ابھی تک خاکسارکی نظرسے نہیں گزری بلکہ جوروایات ملتی ہیں ان کے مطابق اس وقت مسجدمبارک کوچھوٹی مسجداور مسجداقصیٰ کوبڑی مسجدیا جامع مسجد ہی کہا جاتا تھا۔حضرت اقدس ؑکی تحریرات،الہامات اور اس عہدکے اخبارات ورسائل میں یہی نام لکھاہواموجودہے۔ مثال کے طورپرتذکرہ ایڈیشن چہارم میں ہی موجودکچھ الہامات کی عبارتیں درج کی جاتی ہیں:حضوراقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں…
1۔ ’’ جب بشمبر داس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نمازِ عشاء کے وقت جب مَیں اپنی بڑی مسجد میں تھا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ11)
2۔ ’’ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی۔ جس کی عمر قریباً اَسّی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اور ساتھ اُن کے ایک اور بزرگ تھے۔ اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی۔‘‘( تذکرہ صفحہ16)
3۔ ’’ مَیں ایک دن چھوٹی مسجد میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آمدو خرچ کا حساب کررہے تھے کہ مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہوئی۔‘‘( تذکرہ صفحہ265)
4۔ ’’مَیں نے دیکھا کہ گویا ہولیوں کے دن ہیں۔ بہت ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہولی میں مشغول ہیں۔ چند بڑی مسجد میں جہاں مَیں کھڑا ہوں آئے ہیں۔ پھر مَیں بازار کے اندر آیا ہوں اور غول کے غول ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے کھڑے ہیں۔ ایک گروہ کے پاس جو مَیں جاتا ہوں تو کہتا ہوں خبردار مَیں مسلمان ہوں۔‘‘(تذکرہ صفحہ423)
5۔ ’’صبح کے وقت الہام ہوا۔ اوّل خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں بڑی مسجد (میں) ہوں۔ بشیر احمد میرا لڑکا میرے پاس ہے……‘‘(تذکرہ صفحہ604)
6۔حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ صاحب ؓ الہام یٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْا الْجَآئِعَ وَ الْمُعْتَرَّ کی بابت بیان فرماتے ہیں ’’اگلی صبح کے نو دس بجے میں دیکھتا ہوں کہ پیارا مسیحِ پاک چھوٹی مسجد کے دروازہ میں گلی رخ کھڑا ہوا ہے اور کئی ایک عشاق سامنے کھڑے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو بلائیں……‘‘(تذکرہ صفحہ 632حاشیہ)
7۔ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل رؤیااپنی تقریر میں بیان فرمائی:’’چھوٹی مسجد کے اُوپر تخت بِچھا ہوا ہے اور مَیں اُس پر بیٹھا ہوا ہوں اور میرے ساتھ ہی مولوی نورالدین صاحب ؓ بھی بیٹھے ہوئے ہیں…(برکاتِ خلافت تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی صفحہ 31)‘‘ (بحوالہ تذکرہ صفحہ675)
8۔ حضرت مولوی عبداللہ بوتالوی صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :’’خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایامِ قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے ۔حضورکے گرداگرد حاضرین کامجمع استادہ تھا۔حضوربھی ان کے درمیان کھڑے تھے اس وقت حضور ؑ نے کھڑے کھڑے فرمایا کہ شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد (مبارک) سے بڑی مسجد (اقصیٰ) تک مسجد ہی مسجد ہے۔اس پرحاضرین میں سے دوتین اصحاب نے کہا کہ ہاں…حضورہمیں یادہے کہ حضورنے اس طرح فرمایا تھا۔خاکسارکوان میں سے ایک کانام تویادہے کہ وہ شیخ یعقوب علی صاحب تھے باقیوں کے متعلق یادنہیں کہ وہ کون کون صاحب تھے۔ اس کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ اَب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے۔‘‘(اصحابِ احمدؑ جلد 7صفحہ 183.- 184،تذکرہ صفحہ694)
(باقی آئندہ)