حضرت مسیح موعودؑ کا ایک زبردست نشان (قسط اول)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۲؍ اکتوبر۱۹۲۶ء)
۱۹۲۶ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضورؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے نشانات کا ذکر فرماکرایمان کے موضوع پر روشنی ڈالی ہے کہ انسان کن ذرائع سے ایمان لاتا ہے اور ان میں سے کون سا ذریعہ بہتر ہے۔حضورؓ کا یہ خطبہ قارئین کے استفادے کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
تشہّد، تعوذاورسورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اﷲ تعالیٰ پر ایمان لانے کے دو ہی کامل راستے ہیں اور وہ دونوں دو شہادتیں ہیں
جن میں سے ایک شہادت تو اپنے نفس کی ہے کہ انسان اپنے نفس سے یہ بات حاصل کرتا ہے کہ کوئی اﷲ ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اور دوسری شہادت غیر کی ہے۔ ان دونوں راستوں کے سوا اور کوئی راستہ نہیں جو انسان کو خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر کامل یقین کراسکے۔
عقلِ انسانی بھی ایک حد تک رہنمائی کرتی ہے۔ اور انسان اس کی رہنمائی سے سمجھتا ہے کہ شائد میں نے مدعا کو پالیا۔ لیکن چونکہ وہ ناقص ہوتی ہے اور اس کی رہنمائی ایسی محدود ہوتی ہے کہ انسان اپنے خیال میں ایمان کے اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ چکا ہوتا ہے لیکن وہاں پہنچ کر بھی ایسا حادثہ ہو جاتا ہے جس سے اسے محسوس ہو جاتا ہے کہ میراا یمان کچھ نہ تھا اور ایک ہی دن میں اسے اپنی غلطی اور کمی کا اندازہ ہو جاتاہے۔ اگر صبح کے وقت وہ اپنے آپ کو سلوک اور مدارج پر چلتا ہوا خیال کرتا ہے تو شام کو شکوک کی اندھیری سے اُس کا دل اڑتا پھرتا ہے۔ لیکن جو وجود پہاڑ کی طرح ثابت ہوتے ہیں وہ اپنا قدم آگے ہی اٹھاتے ہیں اور وہ وہی ہوتے ہیں جو اپنے نفس کی شہادت سے اپنے ایمان کو کامل بناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نفس کی شہادت سے ایسا پختہ ایمان حاصل ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اس پر قائم رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ اتار چڑھاؤ سے بچے ہوتے ہیں نہیں بلکہ ان پر بھی اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ مگر وہ اس قسم کے اتار چڑھاؤ سے ہر قسم کے ظن اور شک سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایک وقت ان کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا ان کے قدموں پر آپڑی ہے۔ اوروہ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ سارے قانونِ قدرت نے ان کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔ اور دوسرے وقت ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے پرائے سب دشمن ہو گئے۔ لیکن باوجود اس کے ان کے ایمان میں فرق نہیں آتا بلکہ خطر ے کے مقام پر ان کا ایمان آگے سے بھی بڑھ جاتا ہے اور یہی بات ان کو ممتازکرکے دکھاتی ہے۔
غزوہ حنین میں ایک موقع پر تمام صحابہ باستثناء 12آدمیوں کے رسول کریم ﷺ کو چھوڑ کر چلے گئے۔یہ لشکر بارہ ہزار کا تھا۔ ان میں سے صرف 12 آدمی بھاگ جانے کے خیال سے بچے تھے۔ اور باقی سب آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ میں اس جگہ کسی تاریخی پہلو پر روشنی نہیں ڈال رہا۔ اس لئے میں اس کی تفصیل اور وجوہات کو چھوڑتا ہوں۔ مگر بہرحال یہ بات ظاہر ہے کہ ایک موقع پر ایسا وقت آیا کہ رسول اﷲ ﷺ صرف 12آدمیوں کے درمیان رہ گئے لیکن باوجود اس بات کے آنحضرت ﷺ آگے بڑھے۔ مگر اُس وقت بعض آپ کے شیداؤں نے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی کہ اس وقت آگے بڑھنا مناسب نہیں۔ آپ ٹھہریں کہ لشکر جمع ہولے۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں ہماری زندگی ہے اور آپ کے جسمِ مبارک پر ذرا بھی آنچ آئی تو مسلمان دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا نخواستہ رسول کریم ﷺ جنگ میں شہید ہوگئے تو اشاعتِ اسلام کے راستہ میں پہاڑ کھڑے ہو جائیں گے۔ گو وہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ ان کو قتل ہونے سے بچالے گا لیکن وہ خدا کے استغناء پر بھی یقین رکھتے تھے۔ اس لئے رسول اﷲﷺ کی جان کی حفاظت کے خیال کو ضروری سمجھتے تھے اور یہ ایسا خیال تھا جو کبھی مبدّل نہ ہونا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ پھر بھی غنی ہے اس لئے تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ غرض بعض صحابہ نے باگ پکڑ لی مگر آپ نے زور سے فرمایا کہ چھوڑ دو اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھ گئے۔ اور بلند آواز سے کہا اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب اگر نہ بولتے تو شاید نہ پہچانے جاتے۔ عرب میں اُس زمانہ میں کلغی یا تاج نہیں ہوتے تھے کہ ان سے کسی بادشاہ کو پہچان لیا جاتا۔ اور ایسے موقع پر جب کہ سارا لشکر چھوڑ کر بھاگ گیا ہو اور جان کا سخت خطر ہ ہو بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ مگر آپ بڑھے اور بلند آواز سے کفار اور اپنے دشمنانِ برسرپیکار سے کہا اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبجس کا مطلب یہی تھا کہ میں خدا کا نبی ہوں،جھوٹا نہیں ہوں۔ اور دوسرے جملے سے یہ مراد تھی کہ کوئی میری اس طاقت کو دیکھ کرکہ سامنے تو چار ہزار تیر انداز کھڑے ہیں اور میں ان کی طرف ہی بڑھا جاتا ہوں یہ گمان نہ کر لے کہ میں خدا ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔اس دوسرے فقرے سے آپ نے اپنی نبوت اور بشریت کا اظہار کیا ہے اور اس سے وہ شبہ جو آپ کی الوہیت کے متعلق پیدا ہو سکتا تھا دور کر دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی اس قسم کے واقعات ملتے ہیں۔ گورداسپور میں آپ پر ایک مقدمہ کیا گیا۔ فریقِ مخالف کی طرف سے مجسٹریٹ کو جو اُن کا ہم قوم تھا کہا گیا کہ یہ بدلہ لینے کا موقع ہے اگرآج بدلہ نہ لیا تو قومی غدار سمجھے جاؤ گے۔ لاہور میں اس کے متعلق ان کا جلسہ ہوا۔ جس میں یہ سب باتیں طے ہوئیں۔ خدا کے تصرف بڑے زبردست ہوتے ہیں اور اس کی حکمتیں باریک۔ ان ہی میں سے ایک شخص نے ایک احمدی کو یہ سب قصہ آسنایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور کہا کہ آپ ان کو خبر کر دیں لیکن میرا نام نہ لیا جائے۔ کیونکہ اس سے میں بدنام ہو جاؤں گا اور ممکن ہے کہ ان کی طرف سے میرے ساتھ کوئی سخت سلوک کیا جائے۔ جن لوگوں نے اُس وقت کی حالت کو دیکھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُس وقت باغ میں زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور جو پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک نے ان میں سے نہایت گھبراہٹ کے ساتھ کہا کہ اب معلوم نہیں کیا ہو گا۔ یہ سنا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اٹھ کر بیٹھ گئے۔ اور بڑے زور سے فرمایا کہ کیا آپ کو خدا پر ایمان نہیں؟ خدا کے نبی شیر ہوتے ہیں وہ اگر مجھ پر ہاتھ ڈالے گا تو شیر پر ہاتھ ڈالے گا۔
تو یہ ایمان نفس کے مشاہدات سے آتا ہے۔ اور جس کو ایسا ایمان حاصل ہو جائے اُس کے یقین اور اخلاص میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوتا
اس کی امیدوں میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوتا۔ اس کے ایمان میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر کوئی اور بھی واقعہ گزرتاہے تو وہ اَور بھی بڑھتا ہے۔ دوسرے لوگ جس بات سے خوف کھا جاتے ہیں اور جس سے ان کے ایمان میں تزلزل پیدا ہو جاتا ہے، جس سے ان کے اخلاص میں تزلزل پیدا ہو جاتا ہے۔ جس سے ان کے یقین میں نقص پیدا ہو جاتاہے اُسی سے ان لوگوں کا ایمان بڑھتا ہے اور ان کے اخلاص میں ترقی ہوتی ہے اور ان کے یقین میں زیادتی ہوتی ہے۔ اور جب کوئی ایساحادثہ گزرتا ہے تو ایسا ایمان کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتاہے۔
خدا تعالیٰ سے دور رہنے والوں کی آواز مایوسی پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن خدا کے ماننے والوں کی آواز شروع میں دھیمی اٹھتی ہے۔ نرمی کے ساتھ بلند ہوتی ہے۔مگر ایسی آواز کا خاتمہ امنگوں پر ہوتا ہے۔ امیدوں پر ہوتا ہے۔یرمیاہ، حزقیل، دانیال، عزرا، حبقوق، میکاہ وغیرہ کی کتابوں کو پڑھ کر دیکھ لو سب کی آوازیں دھیمی ہوں گی اور افسوس کے ساتھ شروع ہوں گی لیکن امید پر جاکر ختم ہوں گی۔ وہ شروع اس طرح ہوں گی۔ اے لوگو ! تم نے یہ کیا وہ کیا اس لئے یہ ہوگا۔ لیکن ختم اس پر ہوں گی کہ خدا تم کو نہیں چھوڑے گا۔ تمہاری ضرور مدد کرے گا۔ تو ان کی ابتداء غم و اندوہ سے ہوگی اور انتہاء امید پر ہوگی۔
اول درجے کا ایمان اپنے نفس کی شہادت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسرے درجے کا ایمان دوسرے لوگوں کی شہادت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ جب وہ صادقوں کے معجزات، ان کی نصرت، خدا کی ان سے ہمکلامی کو دیکھتے ہیں تو ان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور وہ اس ایمان سے بڑھ کر جو عقل سے پیدا ہوتا ہے ان باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ اس سے بھی بلند ہے۔ پس یہ ایمان بھی بڑا زبردست ہوتا ہے۔ ایسا ایمان بھی اگر پیدا ہو جائے تو دنیا کی سب چیزیں ہیچ ہو جاتی ہیں اور صرف خدا تعالیٰ کا خیال رہ جاتا ہے۔
اول درجے کا ایمان اپنے نفس کی شہادت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسرے درجے کا ایمان دوسرے لوگوں کی شہادت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ جب وہ صادقوں کے معجزات، ان کی نصرت، خدا کی ان سے ہمکلامی کو دیکھتے ہیں تو ان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور وہ اس ایمان سے بڑھ کر جو عقل سے پیدا ہوتا ہے ان باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ اس سے بھی بلند ہے۔ پس یہ ایمان بھی بڑا زبردست ہوتا ہے۔ ایسا ایمان بھی اگر پیدا ہو جائے تو دنیا کی سب چیزیں ہیچ ہو جاتی ہیں اور صرف خدا تعالیٰ کا خیال رہ جاتا ہے۔
عقل کے ذریعے جو ایمان حاصل ہوتا ہے وہ کوئی ایسا عمدہ اور مضبوط ایمان نہیں ہوتا
تمام دنیا کے عقلی ایمانوں کو اگر جمع کر لیا جائے تو وہ انسان کے اس ایمان کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوں گے جو شہادتِ نفس سے یا کم از کم شہادتِ غیر سے حاصل کیا جا تا ہے بلکہ میرے نزدیک تو وہ ایمان کہلانے کا ہی مستحق نہیں۔ عقل سے ایمان لانے والوں کے ایمانوں کو اگر جمع کیا جائے تو گووہ ایمان کسی حد تک مشاہدہ بھی رکھتے ہوں اور موہبت والے بھی ہوں لیکن وہ پھر بھی سمندر کے مقابل پہ قطرہ ہی ہوں گے۔ کیونکہ اس کی تمام قوت ان کے مقابل پہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔
یہی وجہ ہے کہ خدا انبیاء کو بار بار بھیجتا ہے۔ اور انبیاء کو بار بار بھیجنے سے وہ دکھانا چاہتا ہے۔ کہ میں مُردہ خدا نہیں ہوں۔ میں بے کار اور غافل خدا نہیں ہوں۔ میں اپنی قدرتیں اور طاقتیں ہمیشہ دکھاتا ہوں اور ہمیشہ دکھا سکتا ہوں۔ اوران طاقتوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ ایسے ایمان پیدا کراتاہے اور بندوں کے لئے دونوں قسم کی راہیں کھول دیتا ہے۔
(باقی آئندہ)