میرے والد محترم محمد غضنفر چٹھہ صاحب
خاکسار کے والد محترم 1952ء ميں ضلع وہاڑی ميں پيدا ہوئے اور1970ء ميں ميٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اپنی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کرتے ہوئے جامعہ احمديہ ربوہ ميں داخلہ لے ليا۔مگر بوجوہ صرف درجہ ثالثہ تک تعليم حاصل کرسکے ليکن وقف زندگی کے عہد پر قائم رہے۔1982ءميں حضرت خليفة المسيح الثا لثؒ نے از راہ شفقت آپ کا تقرربطور انسپکٹر بيت المال منظور فرمایا۔
پاکستان کےمختلف اضلاع ميں کام کرنے کاموقع ملا۔گھر سے دور،پيدل،مسلسل سفر اور ہرقسم کی مشکلا ت کا ڈٹ کر مقابلہ کيا۔کبھی بھی کسی نے ان کی زبان سے کوئی حرف شکايت نہ سنا۔ نہايت خوشی اور بشاشت قلبی سے کام کرتے تھےاور26 سال خدمت دین بطریق احسن سر انجام دينے کے بعداپنی جان سی عزیز شے بھی اللہ کی راہ میں نچھاور کردی۔
آپ کی شادی اپنے چچا نذر محمد صاحب کی صاحبزادی محترمہ طاہرہ فردوس صاحبہ سے 14؍اپريل 1985ءکو ہوئی جو وقف زندگی کی بيوی ہونے اور اپنی خدا داد صلاحيتوں کے باعث جماعت اور خاندان ميں دينی اور دنياوی ہر لحاظ سے امتيازی مقام رکھتی تھيں۔آپ مقامی جماعت کی صدر بھی رہيں۔خاوند کی گھر سے باہر مسلسل جماعتی مصروفيات کے باوجود خانہ داری کے نظام کو احسن طريق سے چلانا آپ کا نما ياں وصف رہااوراولاد کی دينی واخلاقی تربيت ميں بھی اچھا کردار ادا کيا۔
ان کے تایا زاد بھائی صدر جماعت چودھری محمد افضل صاحب چٹھہ نے ان کی شہادت کا واقعہ یوں بیان کیا کہ برادرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب نظار ت بيت ا لمال آمدکی طرف سے بطور انسپکٹر ضلع وہاڑی،اوکاڑہ اورساہيوال ميں تعينات تھے اور ان اضلاع کے دورہ کے دوران 18؍نومبر 2008ءکورات کےوقت اوکاڑہ جانے کا پروگرام تھا،شام کے وقت آپ بورے وا لہ شہرمیں سے گزر رہے تھے کہ دو نامعلوم موٹر سائيکل سوار آئے ان سے بیگ چھیننے کی کوشش کی جوکہ آپ ہميشہ جماعتی دوروں کے وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے۔آپ کی مزاحمت پر انہوں نے پستول سے دو فائر کیے ايک فائرآپ کے دائيں گھٹنے پر لگا۔ آپ کافی دير سڑک پر زخمی حالت میں پڑے رہے اور کوئی شخص بھی آپ کی مدد کے لیے نہ آ يا۔نتیجۃً خون زيادہ بہ جانے اور بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے موقع پر ہی راہ مولیٰ ميں اپنی جان قربان کر کے جام شہا دت نوش کيا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ
واقعہ شہادت کے بعد آبائی گاؤں ميں آپ کی نمازجنازہ مکرم اقبال احمد عابد صاحب مربی ضلع وہاڑی نے مورخہ19؍ نومبر 2008ءکورا ت 10 بجے پڑھائی جس ميں کثير تعداد ميں احباب نے شرکت کي۔ بعدازاں آپ کا جنازہ بذريعہ ايمبولينس ربوہ لايا گيا۔ مورخہ 21؍نومبر 2008ءکومسجد اقصیٰ ميں نمازجمعہ کی ادائيگی کے بعد مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا خورشيد احمد صاحب نا ظراعلیٰ و امير مقامی صدر انجمن احمديہ نےآپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔اور تدفین مکمل ہونےپر دعا بھی کروائی۔آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور قطعہ شہداء ربوہ ميں امانتاً تدفین ہوئی۔اس کے چھ ماہ بعد آپ کی میت کو بہشتی مقبرہ میں منتقل کر دیا گیا اور خوش قسمتی سے آپ کو اپنی والدہ مرحومہ نصیرہ بیگم صاحبہ کے قدموں میں جگہ ملی۔
ميرے والد صاحب مالی قربانی ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والے انسان تھے۔آپ ہميشہ ہر ما ہ کےآغاز ميں الاؤنس ملتے ہی سب سے پہلے چندہ جا ت کی ادائيگی کرتے اور خاکسار کو بچپن سے ہی تربیت دینے کے لیے چندہ کی رقم ديتے کہ سيکرٹری صاحب مال کے پاس جاؤ اور ادائيگی کر کےآؤ۔اس کے علاوہ جب زمين کے ٹھيکے کی سالانہ رقم آتی تو اس ميں سے سب سے پہلے حصہ آمد کی ادائيگی کرتے تھے۔
شہيدمرحوم کا سب سے نماياں و صف آپ کی عبادت کا معيارتھا۔پنجوقتہ نماز باجماعت کے ساتھ ساتھ نماز تہجد کی بھی پابندی کرتےتھے۔خاکسار نے بچپن سے ہی اس بات کا مشاہدہ کيا کہ جب بھی نمازفجرکے ليے ميں اٹھا ہوں تو اس سے قبل اباجان کو نماز پڑھنے ميں مصروف پا يا اور اکثر اوقات توآپ کی نما ز ميں گر يہ و زا ری کی آ وا ز سے آ نکھ کھلتی تھی۔
آپ خدا تعالیٰ کی ذا ت پرکمال درجہ کا توکل رکھتے تھے۔خاکسار نےآپ کو ديکھا ہے کہ آپ ہميشہ اپنی مشکلا ت خدا کے حضور پيش کرتے تھےآپ نےہم گھر والوں يا کسی اَور عزيز سے کبھی تذکرہ نہيں کيا۔آپ کے تمام بہن بھائيوں کو بھی آپ کی دعاؤں پر بہت یقین تھا اور وہ اپنے تمام کاموں کے ليےآپ کو دعا کے ليے خاص طور پرکہتے تھے۔
والد محترم کا اپنے بہن بھائيوں کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا۔آپ اپنے بھائيوں ميں سب سے چھوٹے تھے،ا ن کے ساتھ بہت عز ت واحترام سے پيش آتے تھے۔آپ جب جماعتی دورے سے واپس آتے تو اپنے بہن بھائيوں کے سا تھ بھی و قت گزارتے تھے ا ور ضر ور يا ت کا خيال ر کھتے تھے۔نیز خَيْرُکُم خَيْرُکُمْ لِاَہْلِہکے مطابق آپ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ بہت زيادہ پيار کا تعلق تھا اور ہميشہ آپ نے ہمارا اور ہماری والدہ محترمہ کا خيال رکھا۔
آپ جب بھی دورے سے واپس گھرآتے توآپ جس علاقہ ميں گئے ہوتے وہاں کی کوئی نہ کوئی خاص سوغات ہمارے ليے ضرور لے کرآتے تھے۔ عيدین اور ديگر خوشی کے موقعوں پرآپ اپنی حيثيت کے مطابق اپنے سارے بچوں کو خود شاپنگ کرانے لے کر جاتے تھے۔اسی طرح آپ کا اپنے بہن بھائيوں کے بچوں کے ساتھ بھی بہت پيار کا تعلق تھا۔آپ کو ا ن کی پسند نا پسند بھی معلوم تھی ا ور اکثر آپ انہيں ان کی پسند کی چيزوں کا تحفہ ديا کر تےتھے۔
ميرے تايا جان مکرم مظفر احمد چٹھہ صاحب حال مقیم لندن بتاتے ہيں کہ ’’شہید مرحوم کو بچپن سے ہی جماعتی خدمات اور وقف کا شوق تھا اور سکول کے زمانہ ميں ہی خلا فت ا حمديہ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ تنہائی ميں دعائيں کرنے والے وجود تھے اور جو آپ کا تنہائی ميں اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا اس کو ظاہرکرنا پسند بھی نہيں کرتے تھے۔ ايک دفعہ ميرے ساتھ ربوہ گئے ہوئے تھے اور ہم دونوں بھائی نماز فجر کے بعد بہشتی مقبرہ ميں دعا کے ليے گئے اور تمام عزيز و اقارب کی قبروں اور قطعہ خاص ميں دعا کرکے واپس آۓ۔اسی دن نماز عصر کے بعد مجھے بتاۓ بغير کہيں چلےگئے اور نماز مغرب پر ملے تو ميں نے پوچھا کہ آپ کہاں چلےگئے تھے تو بتلايا کہ ميں بہشتی مقبرہ دعا کرنے گيا تھا۔ميں نے کہا کہ ہم صبح تو دعا کرکے آئے تھے تو مسکرا کر خاموش ہوگئے۔مجھے ايسا لگا کہ صبح جو ہم نے مل کر دعا کی تھی اس سےآپ پوری طرح مطمئن نہيں ہوئے اور شايدآپ کا خدا کے حضور عليحدگی ميں دعا کرنے کا جوغيرمعمولی طريق تھا جس کے مطابق آپ ميری موجودگی ميں دعا نہيں کر پائے اور دل بے چين رہاا ور پھر موقع پا کر تنہائی ميں دوبارہ دعا کرنے چلے گئے۔ آپ ايک لمبا عرصہ تک ضلع ليہ، راجن پور اورمظفر گڑھ ميں بطور انسپکٹر تعينات رہے جو کہ ہمارے رہائشی گا ؤں سے کافی دور دراز علاقہ ہے۔ان اضلاع کے صحرائی علاقوں ميں سا ئيکل پر بھی سفر کرنا پڑتا اور بعض دفعہ ر يتلے علاقہ ميں سائيکل سے اتر کر اسے ساتھ پکڑ کر بھی سفر کرنا پڑتا۔سفر کے دوران ضلع ليہ ميں ان کو ايک بس کا حادثہ بھی پيش آيا۔مجھے اس کا علم ہوا تو جب ميں ان سےملاا ور ہمدردی کے رنگ ميں يہ کہا کہ اب جب بھی ميں ربوہ جاؤں گاتو نا ظر صاحب بيت المال سے يہ درخواست کروں گاکہ ميرے بھائی کی تعيناتی اب گھر سے قريبی علاقہ ميں کرديں۔آپ ميرے اس ہمدردی کے اظہار کو سن کر انتہائی جذباتی انداز ميں بولے کہ براہ مہربانی آپ نے اس قسم کی کوئی بات نہيں کرنی۔ ميں وقف زندگی ہوں جماعت جہاں چاہےاورجتنی دور چاہے ميری ڈيوٹی لگا دے مجھے منظور ہے۔ميں ان کا يہ جواب سن کرخاموش ہو گيا اور مجھے خوشی ہوئی کہ انہوں نے مجھ پر بھی وقف کی اہميت واضح کر دی۔‘‘
ان کے بڑے بھائی مکرم محمد انور چٹھہ صاحب حال مقیم جرمنی نے اس طرح ذکر کیا کہ ’’اللہ تعالیٰ نےآپ کو بہت اچھی آواز عطا کی تھی اور آپ قرآن پا ک کی تلاوت خوش الحانی سے کرتے تھے اور اجلاسا ت کے مواقع پر تلاو ت کرتے اور حضرت مسیح موعوؑد کا منظوم کلام اور کلام محمود سے نظميں پڑھتے تھے۔ جب تک لاؤڈسپيکر پر اذان اور درس القرآن کی اجازت تھی توآپ پورا رمضان اپنے گاؤں کی مسجد ميں روزانہ نماز ظہر کے بعد قرآن پا ک کا ايک پارہ با ترجمہ تلاوت کرتے اور اس کی مختصر تفسير سمجھاتے تھے۔اور اتنی خوش الحا نی سے تلاوت کرتے کہ سب سننے والے اس سے محظوظ ہوتے۔آپ کو اپنے بچوں کی تعليم و تربيت کی بہت فکر ہوتی تھی۔شہيد نے خاکسار سے 2005ءميں ذکر کياکہ عزيزم عبدالحئ نے ميٹرک کا امتحان پاس کرکے انٹرميڈيٹ ميں داخلہ لے لياہے۔آپ نےمجھےبڑی حسرت سے کہاکہ ميں اِس کوجامعہ احمديہ ميں دا خل کرانا چاہتا تھااور اِس نے کالج ميں داخلہ لے ليا ہے۔ یقیناً شہید مرحوم نے اپنے بيٹے کے لیے دعائيں کی ہوں گی کہ آخر عزيزم نے انٹرميڈيٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد جامعہ احمديہ ميں داخلہ لے ليا۔تب شہید نے مجھے بتايا کہ ان کو اتنی خوشی ہوئی ہے کہ زندگی کا مقصد پورا ہو گيا ہے۔آپ گاہے بگاہے جامعہ ميں جاکر اساتذہ سے عزيزم کی پڑھائی کے بارےميں پوچھتے اور خوش ہو کر مجھے بتاتے تھے کہ اساتذہ ميرے بيٹےکی پڑھائی سے مطمئن ہيں۔
مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد انتہائی مہمان نواز اور مہمانوں کے ساتھ بہت عزت و احترام اور شفقت کا سلوک کرنے والے انسان تھے۔آپ مہمانوں کے آنے سے بہت خوش ہوتے اور ان کی بھر پور خدمت کرتےتھے۔آپ مہمانوں کو اپنے علاقہ کی سير کرواتے اور اپنے رشتہ داروں سے تعارف کرواتے تھے۔‘‘
آپ کے بھتیجے مکر م منصو ر ا حمد مبشر صا حب اپنے شہيد چچا کے با ر ےميں لکھتے ہيں کہ ’’آپ کو نظام جماعت سےاس قدر وابستگی تھی کہ خود تو واقف زندگی تھے اور جماعت کی خدمت بجالا رہے تھے ليکن آپ کو اپنے اکلوتے بيٹے کو بھی وقف کرنے کی شديد خواہش تھی جس کے ليےآپ ہر وقت خود بھی دعائيں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی گاہے بگاہے دعا کا کہتے رہتے تھے۔ايک دفعہ آپ مقامی جماعت ضلع وہاڑی ميں نمازجمعہ پڑھا رہے تھے خطبہ جمعہ انتہائی پر جوش ديا اور خطبہ ثانيہ کے دوران آپ نے کہا کہ ميں احباب سے دعا کی درخواست کرنا چاہتاہوں کہ ميرا بيٹا جامعہ ميں داخلہ کے ليےربوہ جانے والا ہے احباب دعا کريں۔چچا جان کی درخواست دعا کے الفا ظ اس وقت تو ميں آسانی سے بيان کر گيا ہوں ليکن اس موقع پر آپ کے منہ سے الفاظ بمشکل نکل رہے تھےکيونکہ آپ ان الفاظ کی ادائیگی کے دوران فرِط جذبات سے رونے لگے اورآپ کی غير معمولی جذباتی حالت ديکھ کر ميری آنکھیں بھی تر ہو گئي تھیں۔ ‘‘
آپ کی اہلیہ مکرمہ طاہرہ فردوس صاحبہ اپنی وفات سے پہلے کہا کرتی تھيں کہ ’’آپ ديگر عزيز و اقارب اور دوست احباب کے ساتھ بھی نہايت اچھا سلوک کرتے تھے کيونکہ ملنساری آپ کا خاص وصف تھا ا ور اس کی وجہ سے آپ پورے خاندان ميں نماياں تھے۔جب بھی کوئی خوشی يا غمی کا موقع ہوتا تو اس ميں ضرور شريک ہوتے تھے۔خاندان ميں جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی تو رخصتی ميں ضرور شامل ہوتے اور قرآن مجید کا تحفہ ديتے تھے۔آپ نے اپنے بيوی بچوں کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ اپنے والدين کی بھی بہت خدمت کي۔جس کا اندازہ مجھے اس بات سے بھی ہوا کہ جب آپ دورہ پر ہوتے تو خط ميں ہميشہ سب سے زيادہ اپنے والدين کے بارے ميں پوچھتے اور ان کی خدمت اور ديکھ بھال کی تلقين کرتے۔اور لکھتے کہ ميں تو خدمت دین ميں مصروف ہوں ليکن تم ميرے بزرگ والدین کا ميری غيرموجودگی ميں خيال رکھا کرو۔آپ کے اکثر بہن بھائی بيرون ملک رہتے ہيں وہ جب بھی پا کستان آتے تھے توآپ زيادہ سے زيادہ وقت ان کے ساتھ گزارنے کی کوشش کر تے تھے۔آپ بچوں سے بے پنا ہ پيار،محبت اور شفقت کا سلوک کرتے اور ان کی تربيت پر بھی بہت زور ديتے کہ ان کو ہميشہ دين کو دنيا پر مقدم رکھنے والا بنانا اور دينی تعليم پرزور دينےکی تلقین کرتےاور کہتے کہ بچوں ميں خلا فت کی محبت پيدا کرنا۔‘‘
ميرے ابا جان محترم شہيد کا جماعت کے ساتھ نہايت اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔آپ نظام جماعت کے خلاف کوئی بات سننا گوارہ نہيں کرتے تھے۔آپ جماعتی کام ميں سفری مشکلات اورموسم کی سختی سے نہيں گھبراتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ خدمت دين سے بہتر کوئی مقصد حيا ت نہيں ہے۔آپ جماعت پر کوئی بوجھ ڈالنا پسند نہيں کرتے تھے۔ہم سب بہن بھائی اپنے گاؤں سے ايک لمبا سفر کر کے شہرميں کالج جاتے تھےليکن ربوہ ميں کوارٹر کی درخواست اس ليے نہيں دی کہ ہمارے پاس تو گاؤں ميں اپنا گھر ہے ليکن جن کا گھر نہيں ہے ان کا حق نہ ما را جائے۔آپ نے ہمارا لمبا سفر کرکے کالج جانا پسند کيا مگر جماعت پر بوجھ ڈالنا پسند نہيں کيا۔
آپ کا اپنے سب بچوں کے ساتھ بہت ہی شفقت بھرا اور دوستانہ تعلق تھا۔ان ميں سے ہر ايک کو يہی لگتا تھا کہ ابو سب سے زيادہ ا س سے پيار کرتے ہيں۔جب بھی ان ميں سے کوئی بيمار ہوتا توآپ کو بہت فکر ہوتی اورفوراً ڈاکٹرکےپاس لے جاتے اورپھرساری ساری رات جاگ کر ہمارےليےدعاکرتےتھے۔ اگر جماعتی دورہ پر ہوتے تو فون کر کے پوچھتے کہ ميں نے خواب ميں ديکھا ہے کہ ميرا فلاں بچہ بيمار ہےاور حقيقت ميں ايسا ہی ہوتا تھا پھر بار بار فون کرکے طبيعت کے بارے ميں پوچھتے رہتے تھے۔
آپ کی ہمشيرہ مکرمہ شاہدہ تسنيم طاہرصاحبہ بيان کرتی ہيں:’’آپ بہت ہی نيک،شريف النفس اور بہت نرم دل انسان تھے۔آپ اپنےبہن بھائيوں کے ساتھ بہت پيار اورشفقت سے پيش آتے تھے۔ميں اکثر اوقات بيمار رہتی ہوں اس ليے جب بھی آپ جماعتی دورے پر جاتے تو ہميشہ مجھ سے مل کر جاتے تھے اور جب واپس آتے تو سب سے پہلے مجھے ہی ملنے آتے تھے۔آپ جب بھی ميرے گھر آتے تو تحفے کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور لاتے تھے۔
آپ اپنے والدين کے فرمانبردار اور رشتہ داروں ميں ہردلعزيز تھے۔ شہاد ت کے بعد غير از جماعت عورتوں نے بھی آپ کا ذکر خير کيا اور ايک عورت نے کہا کہ يہ شخص پکا جنتی ہے کيونکہ اس جيسا نيک انسان ميں نے نہيں ديکھا۔آپ جب بھی جماعتی دورے سے واپس آتے تو والدہ صاحبہ کے پاس بيٹھ جاتے اور بڑے پيار سے ان کے ہاتھ ميں پيسے ديتے اور ساتھ ساتھ مسکراتے ہوئے کہتے کہ يہ پيسےبہت برکت والے ہيں انہيں رکھ ليں۔حالانکہ ہماری والدہ صاحبہ کے پاس پيسے کی کوئی کمی نہيں تھی ا س کے باوجود ہر ماہ اپنی خوشی سے اپنے الاؤنس ميں سے کچھ حصہ والدہ صاحبہ کو ضرور ديتے تھے۔‘‘
مکر م و سيم ا حمد چیمہ صا حب سا بق ا مير و مشنر ی ا نچا رج تنز انيہ حا ل مقیم لند ن بيا ن کر تے ہيں: ’’مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد ہم سے دو سال جونيئر تھے مگر آپ کے چچا زاد بھائی مکرم چودھری محمد افضل چٹھہ صاحب ہمارے کلاس فيلو تھے جس کی وجہ سے ميرا آپ کے ساتھ پہلے دن سے ہی ايک تعلق پيدا ہوگيا اور بعد ميں بھی خدا کے فضل سے يہ تعلق قائم رہا۔آپ درجہ ثالثہ تک جامعہ احمديہ ميں زير تعليم رہے۔آپ بہت ہی مخلص،ملنسار،صاف طبع اورنفيس انسان تھے۔کبھی بھی کسی سےکوئی جھگڑا وغيرہ نہ ہوا۔آپ کو پڑھائی کا بہت شوق تھا اور کلاس ميں بہت محنت کرتے تھے۔آپ بہت ہی عبادت گزار تھے اور کئی مرتبہ خاکسار کے ساتھ صحبت صالحين کے ليے خاندان حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے افراد،صحابہ حضر ت مسیح موعودؑحضرت چودھری علی محمدصاحبؓ بی اے بی ٹی اور حضرت محمدحسين صاحبؓ سبز پگڑی والے کے گھر گئے۔علاوہ ازيں اپنے اساتذہ کے ساتھ بھی آپ کا بہت ادب کا تعلق تھا۔آپ کے گھر تين يا چار بار مہمان بننے کا موقع ملا ہےآپ بہت ہی مہمان نواز انسان تھے۔
بعض وجوہا ت کی بناپر مکر م محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد مربی تو نہ بن سکے چونکہ ان ميں اور ان کے سب بھائيوں ميں جماعت کی خدمت کا ايک خاص جذبہ تھا۔لہٰذا جامعہ احمديہ سے فراغت کے بعد بھی کسی نہ کسی رنگ ميں جماعت کی خدمت ميں مصروف رہے اور بعد ميں بطور واقف زندگی نظارت بيت المال ميں انسپکٹربيت المال کی حيثيت سے ايک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ جماعت کی خدمت ميں مصروف ہوگئے اور جماعتی خدمات بجا لاتے ہوئے ہی شہاد ت کا درجہ بھی پايا۔محترم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد کو شوق تھا کہ وہ مربی بنيں اورجماعت کی خدمت کريں۔وہ خود تو مربی نہ بن سکے ليکن اپنے اکلوتے بيٹے کو جامعہ ميں دا خل کروايا اب وہ خدا کے فضل سے جامعہ سے پاس ہوکر مربی سلسلہ احمديہ کے طور پر خدمات بجالا رہا ہے يہ محترم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد کاايک جذبہ تھا۔شوق تھا بلکہ ايک جنون تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبہ کو قدر کی نگاہ سے ديکھا انہيں شہادت کے مقام سے نوازا اور ان کے بیٹے کو مربی سلسلہ کے طور پر خدمت کی توفيق دی۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ يُؤۡتِيۡہِ مَنۡ يَّشَآءُ
شہید مرحوم مربيان کی بہت عزت کيا کرتے تھے اور دورہ کے دوران صدرجماعت کی بہت عزت کرتے اور ان کے مشورہ کے مطابق جماعت ميں دورہ کرتے تھے۔اسی طرح امير صاحب ضلع کے ساتھ بھی بہت پيار،محبت اور اطاعت کا تعلق ہوتا تھا اور ان کی رائے کے مطابق جماعتوں ميں دورہ کاشيڈول بناتے تھے اور ان کی مرضی شامل کرتے تھے تاکہ کام ميں بر کت پڑ جائے۔آپ کا اپنے ساتھی انسپکٹران کے ساتھ بہت پيار اور محبت کا تعلق تھا ا ن کے خلاف کوئی بات سننا گوارہ نہ کرتے تھے۔اگر کسی دوسرے شعبے کا انسپکٹرآجاتا تو اس کا بہت خيال رکھتے تھے اور بڑی شفقت کے ساتھ پيش آتے تھے۔‘‘
مکرم طارق محمود جاويد صاحب سابق امير سيرا ليون شہيد کے بارےميں بيان کرتے ہيں:’’آپ اکثر ذکر کيا کرتے تھے کہ ميں خود تو مربی نہيں بن سکا اب اللہ تعالیٰ نے مجھے ايک بيٹے سے نوازا ہے ميں چاہتا ہوں کہ يہ مربی بن جاۓ تاکہ جو ميری خواہش تھی وہ ميرے بيٹے کے رنگ ميں پوری ہو جائے۔اورجب بھی ملاقا ت ہوتی تو مجھے دعا کے ليے کہا کرتے تھے اور خاکسار کو يہی کہتے کہ بيٹے کے ليےحضور پُرنور کی خدمت ميں دعا کے ليے خط ضرور لکھتے رہا کريں کيونکہ حضور پُرنور کی دعاؤں اور راہنمائی سے ہی ہرکام ميں برکت اور بہتری واقع ہوتی ہے۔ابھی جامعہ احمديہ سے بيٹے کی پڑھائی مکمل نہ ہوئی تھی کہ خود جام شہاد ت نوش کر گئے۔انسپکٹر بيت المال ہونے کے ناطے سے جماعت کے پیسوں کا حساب بڑی محنت اور ديانت داری سے تيار کرتے تھے اور اس با ت کا خيال رکھتے تھے کہ جو رقوم جماعتوں کے پاس جمع ہوں وہ وقت پر مرکز پہنچ جانی چاہئں اور اپنی رپورٹوں ميں بھی اس بات کا ذکر کرتے کہ فلاں جما عت ميں اتنی رقم ہےتاکہ رقوم کی مرکز ميں منتقلی ميں تاخيرنہ ہوجائے۔
مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ زيادہ سے زيادہ تبليغ کريں تاکہ شايدا ن کے ذريعہ کوئی سعيد روح ہدايت پا جائے۔آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ دورہ جا ت کے دوران زيادہ سے زيادہ غير احمدی دوست بنائيں تاکہ انہيں تبلیغ کر سکيں ا ور انہيں صراط مستقيم کی طرف لا نے کا ذريعہ بنيں۔
مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد سے خاکسار کا تعلق 1972ء ميں جامعہ احمديہ ميں شروع ہوا۔جامعہ احمديہ کی تعليم جاری نہ رکھ سکے ليکن اپنے وقف کو قائم رکھنا چاہتے تھے اور يہ کہتے رہے کہ اگر جامعہ ميں پڑھ نہيں سکا تو کيا ہوا واقف زندگی تو ہوں جو بھی خدمت مل جائے بہرحال جماعت کی ہی خدمت کروں گا۔آپ کی زمینیں بھی تھيں ا ور بھائی اور عزيزو اقارب باہر چلے گئے آپ بھی جا سکتے تھے ليکن جب بھی ميرے ساتھ ملاقا ت ہوئی ا سی خواہش کا اظہار کيا کہ واقف زندگی ہوں کسی نہ کسی رنگ ميں جماعت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا اور خواہش کو پورا کيا اور بطور انسپکٹر بيت الما ل خدمت کی توفيق ملی اور اسی ڈيوٹی پر دورے کے دوران ان پر نا معلوم افراد نے امير صاحب ضلع کے دفتر کے راستے میں حملہ کيا اور آپ اللہ تعالیٰ کو پيارے ہوگئے۔
مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد کی طبیعت بہت سادہ اور مزاج بہت نرم تھا۔کوئی غصہ سے بھی بات کرتا تو ہنسی اور مذاق ميں جواب ديتے يا خاموشی سے چلے جاتے۔جہاں تک مجھے ياد ہےآپ نے کبھی غصہ سے کسی بات کا جواب نہيں ديا بلکہ نہايت پيار،بردباری اور تحمل سے جواب ديتے تھے۔آپ نےاپنا لباس بہت سادہ رکھا اور زيادہ تر شلوار قميص ا ور ويسٹ کوٹ پہنا کرتے تھے۔دورے کے دوران ميں نے ديکھا ہے کہ اگر کپڑے دھونے والے ہو جاتے تو نما ز عشا ء کے بعد جب تما م لو گ چلے جا تے تو آپ کپڑ ے د ھو کر لٹکا ديتے تا کہ صبح تک خشک ا و ر صا ف ستھرے ہو جائيں کيونکہ ان کو يہ خيال رہتا کہ جماعت کا نمائندہ ہوں اور جماعت کی نمائندگی ميں جاتا ہوں اس لیے لباس صاف ستھرا ہونا چاہیے۔2003ء سے خاکسار بھی نائب نا ظر بيت المال آمد مقرر ہوا تو ان کے علاقہ ميں بھی دورے پر جانےکا مو قع ملتا ر ہا بہت خو شی سے ملتے تھے ا ور دفتر سے متعلقہ تما م ا مو ر بيا ن کر تے ا ور مشکلا ت کا ذکر کيا کر تے تھے۔
مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب شہيد کا اپنے اساتذہ کے ساتھ نہايت ادب و احترام کا تعلق تھا۔ شہيد جامعہ احمديہ کی تعليم کے دوران اساتذہ کے ساتھ نہايت ادب واحترام سے ملتے تھے اور بزرگ اساتذہ کی باتوں کو ياد رکھتے تھے۔
مکرم طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ صاحب جنہیں اسیر راہ مولیٰ رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا اور آجکل بطور مینیجر الفضل انٹرنیشنل لندن خدمات کی توفیق پا رہے ہیں مرحوم کے کلاس فیلو اور دوست بھی تھے تحریر کرتے ہیں:’’خاکسار 1972ء میں جامعہ داخل ہوا تو مکرم محمد غضنفر صاحب چٹھہ سے تعارف ہوا۔ہم کلاس فیلو بھی تھے۔ نماز کے پابند، وقت کی پابندی کرنے والے، دعا گو، مطالعہ میں مگن، شرافت میں بےمثال اور سب سے ہمدردی کرنے والے انسان تھے۔ اپنے کام میں مگن اور محنتی انسان اور صفائی پسند تھے۔ اپنے گاؤں سے گڑ، دیسی چینی اور شکر لے کر آتے۔ مکرم چٹھہ صاحب سے مشروب کے لیے چینی شکر مل جاتے۔ ہوسٹل میں گڑ کے چاول پکاتے۔ ہم بھی کھاتے بلکہ چاول اکثر کیتلی سمیت غائب ہو جاتے اتنے سادہ کہ کبھی انتظامیہ کو شکایت تک نہ کی۔مہمان نواز تھے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے۔انہیں اکثر عبادت اور دعا میں مشغول پایا۔ خلافت سے محبت کرنے والا اور وفا کرنے والا وجود تھا۔جامعہ میں بھی ان کا عبادت کا طریق مثالی تھا۔ انہی نیک اوصاف کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کے رتبہ سے سرفراز کیا۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے ان سے مغفرت کا سلوک کرے اور ان کی اولاد کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے آمین۔‘‘
حضو ر ا نو ر ا يد ہ ا للہ تعا لیٰ بنصر ہ ا لعز يز نے اپنے 21؍ نومبر2008ءکے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی:حضو ر ا نو ر ا ید ہ ا للہ تعا لیٰ بنصرہ ا لعز یز آپ کا ذ کر خیر کر تے ہوئے فر ما تے ہیں :’’دوسرا جنازہ مکرم محمد غضنفر چٹھہ صاحب کا ہے۔ آپ بورے والا میں نظارت بیت المال پاکستان کی طرف سے انسپکٹر بیت المال تھے۔ 18؍نومبر(۲۰۰۸) کو دورے کے دوران جب آپ ضلع وہاڑی کا دورہ کر رہے تھے امیرصاحب کی رہائش گاہ کے قریب دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے، ان سے بیگ چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر فائر کیا اور یہ شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کی عمر 56سال تھی۔ آپ کا تعلق بھی وہاڑی سے ہی تھا۔ اس لحاظ سے بھی مَیں اس کو جماعتی شہادت سمجھتا ہوں کہ میرا خیال ہے کہ بیگ میں بھی جماعتی سامان اور چیزیں اور کاغذات تھے اور ہو سکتا ہے رقم بھی ہو۔ اس لحاظ سے ان کی شہادت جماعتی شہادت بھی کہلا سکتی ہے، صرف ڈکیتی کی شہادت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ نومبر 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍دسمبر 2008ء)