تاریخ کے جھروکوں سے
ا حمدی مستو رات نے اپنی جر أت و دلیری اور عزم و استقلال کا اظہا ر صرف الفا ظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ جب بھی اور جہا ں بھی ا نہیں مو قع ملا ا نہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کر دیا کہ وہ قرونِ اولیٰ کی صحا بیا ت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے ہر ممکن قر بانی پیش کر سکتی ہیں۔اس سلسلہ میں انہو ں نے قر بانی ،بہا دری ،جرأت اور دلیری کے جو قابل قدر نمونے د کھا ئے افسوس ہے کہ ان کا مکمل ریکارڈمحفوظ نہیں ہے۔اور نہ ہی ان حا لا ت میں محفو ظ رہ سکتا تھا تا ہم سلسلہ کے ا خبا رات و جرائد میں اس کی جو مثا لیں مِل سکتی ہیں وہ درج ذیل کی جا تی ہیں۔
۱۔ایک احمدی عورت مشرقی پنجا ب سے ہجر ت کر کے بے سرو سامانی کی حا لت میں پا کستان پہنچی۔وہ اپنی جا ئیداد میں سے صرف کچھ ز یور بچا کر لا سکی تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثا نی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ذکر کرتے ہو ئے بتا یا کہ اس نے زیور کا کچھ حصہ کسی غر یب کو دے دیا اور با قی حضور کی خد مت میں حفا ظت قا دیا ن کے ا خرا جا ت کے لیے پیش کر دیا۔
ز یور عورت کی ایک محبوب چیز ہو تی ہے مگر اس مخلص احمدی عورت نے وہ زیو ر جو نہ جانے کس مصیبت سے بچا کر مشر قی پا کستان سے لا ئی تھی از خود قا د یان کی حفا ظت کے لیےپیش کر دیا۔
۲۔سید نا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثا نیؓ ایک اور احمدی خا تون کی مثال د یتے ہو ئے فر ما تے ہیں:’’جب قا دیان میں ہندوں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے با ہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنا ئی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہا دری کا نمونہ دکھا یا۔ان عو رتوں کے متعلق یہ خبر یں آئی تھیں کہ جب سِکھ یا ہندو حملہ کر تے تو وہ عو رتیں ان د یواروں پرچڑھ جاتیں جو حفاظت کی غر ض سے بنا ئی گئی تھیں۔اور ان سکھوں اورہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے حملہ آور ہو تے تھےبھگا د یتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہو تی تھی جو بھیرہ کی ر ہنے والی تھی اور ان کی سردار بنا ئی گئی تھی۔‘‘
۳۔سڑوعہ ضلع ہو شیا ر پور تحصیل گڑھ شنکر کا ایک بڑا گا ؤں تھا جہا ں پر حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی ز ندگی میں ہی ایک مخلص جما عت قا ئم ہو گئی تھی۔…۳۰؍اگست۱۹۴۷ءکو ۲۱ہزار مسلح سکھو ں نے اس گاؤں پر حملہ کر دیا۔اس وقت سڑو عہ میں صرف پانچ بندو قیں تھیں اور اس میں دا خل ہو نے کے لیے سات درّے تھے جہا ں سے سکھ بآسانی گا ؤں میں داخل ہوسکتے تھے۔مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم مر جا ئیں گے مگر سکھوں کو گاؤں میں داخل نہیں ہو نے دیں گے۔چنا نچہ مسلمانوں نے ہتھیا ر ڈالنے سے انکا ر کر دیا اور ساتوں درّوں پر حفا ظتی چوکیاں قا ئم کر لیں۔جب سکھوں نے حملہ کیا تو دست بدست خونریز جنگ شروع ہو گئی۔مسلما نوں نے نا موافق حالات اور ہتھیا روں کی غیر معمولی کمی کے با وجود جان توڑکر مقابلہ کیاجس کی و جہ سے مسلما ن مستو رات کی عزت وعصمت محفوظ رہی۔عین اس وقت جبکہ جنگ زوروں پر تھی اللہ تعالیٰ نے یوں ان کی مدد فر ما ئی کہ اتفاق سے تین فوجی اپنا ٹر ک لے کر ادھر آنکلے اور انہوں نے بھی سکھوں پر گو لیاں چلا نا شروع کر دیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ سکھوں میں سخت بھگدڑ مچ گئی اور وہ بھا گ نکلے۔اس جنگ میں بعض احمدی خوا تین نے بھی جرأت و دلیری سے حصہ لیا اور لڑ نے والے مردوں کو پا نی پلا نے کا کام کیا۔سترہ مسلما ن جن میں متعدد مخلص احمدی شامل تھے شہید ہو ئے جبکہ دوسری طرف ۶۱۰سکھ ہلا ک ہو ئے۔۴۔بہا دری، شجا عت اور شہادت کا ایک اور شا ندار واقعہ بھی قابل ذکر ہے جو قرونِ اولیٰ کی قربا نیوں کی یا د دلا تا ہے سیا لکو ٹ کے ایک احمدی نو جوان غلام محمد صا حب ابن مستری غلام قا در صاحب کو ان کی والدہ نے یہ نصیحت کی تھی کہ بیٹا اگر اسلام اور احمدیت کی حفا ظت کے لیے تمہیں لڑ نا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھانا۔اس سعا د ت مند اور خو ش قسمت نو جوان نے اپنی بزرگ والدہ محترمہ حسین بی بی صا حبہ کی اس نصیحت پر اس طرح عمل کیا کہ قا دیان میں احمدی عورتوں کی حفا ظت کرتے ہو ئے اپنی جان د یدی مگر د شمن کے مقابلہ میں پیٹھ نہ دکھا ئی۔مر نے سے پہلے اس نو جوان نے اپنے ایک دوست کو اپنے پا س بلا یا اور اپنے آخری پیغام کے طور پر اس نے لکھوایاکہ ’’مجھے اسلام اور احمدیت پر پکا یقین ہے۔میں اپنے ایمان پر قائم جان د یتا ہوں میں اپنے گھر سے اسی لیے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لیے جان دوں گا۔آپ لوگ گواہ ر ہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پو را کر دیا اور جس مقصد کے لے جان د ینے آیا تھا۔میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی۔جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا د یکھنا پیٹھ مت دکھانا۔میری ما ں سے کہہ د ینا کہ تمہا رے بیٹے نے تمہاری و صیت پو ری کر دی اورپیٹھ نہیں د کھا ئی اور لڑتے ہوئے ما را گیا۔‘‘
(تاریخ لجنہ اما ء اللہ جلد دوئم صفحہ 24تا26)