اقبال مجیدی…شخصیت و شاعری
شاعرِ خوش خیال جناب اقبال مجیدی گذشتہ برس۲۵؍مئی ۲۰۲۲ءکو ۶۶؍برس کی عمرمیں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ ایک انتہائی علم دوست گھرانے کےچشم و چراغ تھے۔ آپ کے دادا مولوی عبدالمجیدصاحب اور اُن کے بھائی عبدالحمیدصاحب ضلع مونگیر بِہار کے پہلے مسلمان گریجوایٹ تھے۔ ان بھائیوں نے سرسید تحریک کے زیرِ اثر کلکتہ یونی ورسٹی سے گریجوایشن کی ۔مولوی عبدالمجید صاحب کی سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے بھی خط وکتابت تھی، بعدازاں حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے عہدِ خلافت میں آپ کو قبولِ احمدیت کی توفیق عطا ہوئی۔ مولوی عبدالمجیدصاحب پٹنہ ہائی کورٹ سے منسلک رہے۔اُس دَور کے انگریز افسران بھی مولوی صاحب کی علم دوستی اورانگریزی دانی کے قائل تھے۔ اقبال مجیدی صاحب خود بیان کرتے ہیں کہ ’’جب مَیں تیرہ برس کا تھا اور نویں جماعت میں پڑھتا تھا تو ابامرحوم کے پاس ایک انگریز عالِم مسٹر کارڈیگل آیاکرتےتھے۔ وہ انگلستان سے پٹنہ آکر قیام پذیر ہوئےتھے۔ پٹنہ میں انہوں نے ایک مسلمان خاتون سےشادی کی۔ اسی دوران دادا مرحوم (مولوی عبدالمجید صاحب) سے اُن کی ملاقات ہوئی اِن کا کہنا تھا کہ مَیں مسٹر عبدالمجید کی انگریزی دانی اور مغربی علوم سے ان کی واقفیت سےبےحدمتاثر ہوا۔ مَیں اکثر ان کی لائبریری میں جایاکرتا …مسٹر مجید سے اکثر اوقات مذہب کےبارےمیں میری گفتگو ہوا کرتی۔ مسٹر مجید اس موضوع کے بارے میں قرآن وحدیث سے دلیلیں پیش کیاکرتے تھے۔‘‘(ذات صفحہ ۲۵-۲۶)
اقبال مجیدی کے والد مبارک مونگیری(۱۹۱۴ء-۱۹۸۸ء) ایک قادرالکلام اور کہنہ مشق شاعر تھے۔ڈی جےکالج مونگیرسے تعلیم مکمل کرنےکےبعدوہ محکمہ ریلوے سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔تقسیم کےبعد انہوں نے ۱۹۵۰ءمیں مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) ہجرت کی جہاں ۱۹۷۳ءتک مقیم رہے۔ اس کےبعد کراچی آگئے جہاں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے۔ہجرتوں کے ذیل میں مبارک مونگیری کا شعر ہے کہ
وطن سے ہوئے جب بےوطن مبارکؔ
تو پھر ہر زمیں اب ہمارا وطن ہے
مبارک مونگیری کی تصانیف میں شعری مجموعے ’صحرا سےگلستاں تک‘،’سیلِ خوں‘، ’ختم ہوا افسانہ بھی‘جبکہ نعتیہ مجموعہ ’ذکرِ ارفع‘، منظوم خاکوں پرمشتمل مجموعہ’بوجھیں تو جانیں‘ شائع شدہ ہیں۔ ان تمام کتابوں کی اشاعت میں آپ کے بیٹے جناب اقبال مجیدی کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ اسی طرح مبارک مونگیری کی شاعری پر متھلا یونی ورسٹی دربھنگہ (بھارت) میں ڈاکٹر محمد شرف الدین نے پی ایچ ڈی سطح کا مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔ یہ مقالہ ’مبارک مونگیری (حیات و شاعری)‘کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔اس مقالے کے حوالے سے بھی مقالہ نگارکو اقبال مجیدی صاحب کا بڑا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ کراچی شہر میں مبارک مونگیری کا شمار استاد شعرا میں ہوتا تھا۔اس شہرِباذوق نے جناب مبارک مونگیری کی خوب قدردانی کی یہاں تک کہ آپ کی وفات کے بعدنارتھ کراچی کے علاقے ناگن چورنگی سے شادمان جانےوالی سڑک ’شارع مبارک مونگیری’کےنام سے منسوب کردی گئی۔ کراچی میں ڈاکٹر جمیل جالبی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری، رئیس امروہی،مجنوں گورکھپوری، افسر ماہپوری اور شہزاد منظر جیسےکئی ماہرینِ فن اور سخن فہم ہستیوں سے جناب مبارک مونگیری کے تعلقات تھے اور سب ہی آپ کی استعدادِ زبان اور فصاحتِ کلام کے معترف تھے۔
مبارک صاحب کے قیامِ مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش)کے دوران ۱۰؍جون ۱۹۵۵ءکو چٹاکانگ میں اقبال مجیدی کی پیدائش ہوئی۔ گھر کا ماحول علمی اورفضا شاعری سے معطر تھی۔ والد صاحب کے پاس شاعروں اور ادیبوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اکثر اوقات والد صاحب کے ساتھ مشاعروں میں جانے کا بھی موقع ملتا۔ ایسے سازگار حالات میں اقبال مجیدی کے اندر شاعری کی خوشبو کا سرایت کرجانا حیرانی کی بات نہ تھی چنانچہ وہ ابھی فرسٹ ایئر کے طالبِ علم تھے کہ ان کی غزل کالج میگزین میں شائع ہوئی جس کا مقطع یہ تھا
جب بھی ملتا ہوں مَیں مجیدیؔ سے
وہ تو محوِ کتاب ہوتا ہے
سقوطِ ڈھاکہ کےبعد ۱۹۷۳ءمیں والد کے ہم راہ گھر بار چھوڑ چھاڑ کر کراچی منتقل ہوئے تو اقبال مجیدی نے اپنی شاعری والد مبارک مونگیری کو دکھانا شروع کی۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ’’۱۹۷۳ءمیں کراچی آنےکےبعد ہم بہت دن تک ذہنی طور پر بکھرے رہے پھر کہیں جاکر ذہن کے حالات معمول پر آئے اور میری شاعری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ مَیں نے ابا مرحوم کو اپنا کلام دکھانا شروع کیا۔ میرے ایک شعر نے ابامرحوم کی خصوصی توجہ حاصل کی وہ شعر مَیں نے ہجرت کےموضوع پر کہا تھاجو یہ ہے۔
ہے نفرتوں کی کڑی دھوپ اپنے آنگن میں
مکان اب کے بنانا تو سائباں رکھنا
اس شعر کو سن کر ابانے میری بڑی حوصلہ افزائی کی اور اس کی وجہ سے میری تخلیقی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔‘‘
اقبال مجیدی کے اس خوبصورت شعر اورمعصومانہ خواہش سے ظفر زیدی کے اُس مقبول شعر کا خیال آتاہے جس میں برِّصغیر پاک و ہند کے معروضی حالات کے تناظر میں ایسی ہی ایک معصومانہ تمنّا کا ذکر ہے۔ یعنی
اِک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
درحقیقت شاعرتو اپنےسماج کا آئینہ ہوا کرتا ہے۔ تجربات و حوادث جو کچھ بھی اُسے دیتے ہیں وہ اُنہیں جمالیاتی پیکر میں ڈھال کر سب واپس کردیتا ہے۔ چنانچہ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ اگرایک لمحےکےلیے ستّر کی دہائی سےجست لگاکر۱۹۹۷ء میں آجائیں تو پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر منعقدہ عالمی مشاعرےمیں اقبال مجیدی نے جو اپنی مشہور غزل پڑھی تھی اُس کے آخری دو شعر یہ تھے ۔
یہ کمال کیا کم ہے آپ کے تکلّم کا
جھوٹ بولتے ہیں آپ اورکس روانی سے
تھک گئے مجیدیؔ ہم بےاماں دیاروں میں
سَو کا نصف گزرا ہے کربِ جانفشانی سے
بہرحال کراچی میں چند برس قیام کےبعد اقبال مجیدی حصولِ تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں کچھ عرصہ لاہور میں بھی مقیم رہے مگر جلد ہی کراچی واپسی ہوگئی۔صاحبِ فکر ہونےکے ساتھ ساتھ اقبال مجیدی صاحبِ عمل بھی تھے چنانچہ آپAssociated Consulting Engineers سے وابستہ رہے اور اس حوالے سے ILO یعنی International Labour Organization میں بھی عُہدےدار رہنے اورکام کرنے کا موقع ملا۔ مختلف ممالک میں ILOکے تحت منعقدہونے والے سیمینارز میں بھی شریک ہوتےرہے۔ ۱۹۸۵ءمیں اقبال مجیدی نے ایم اے اردو کیا اوردرس وتدریس کے ذریعے بھی زبان وادب کی خوب خدمت کی۔ اقبال مجیدی کے دو شعری مجموعے ’ذات‘(۱۹۹۶ء) اور ’تمازت کا سفر’(۲۰۰۵ء) شائع ہوئے۔
اپنے شعری سفر میں اقبال مجیدی میر تقی میر، نظیراکبر آبادی، مصحفی، میر انیس، شوق، فانی بدایونی، جوش، فراق، یاس یگانہ چنگیزی، ن م راشد، شاد عظیم آبادی ، جمیل مظہری، مجاز، رئیس امروہی، احمد ندیم قاسمی، علی سردار جعفری اور اخترالایمان سے متاثر رہے۔ جون ایلیا سے اقبال مجیدی کو نہایت عقیدت کا تعلق تھا، جون بھی اقبال مجیدی کی بڑی قدرکیا کرتے چنانچہ آپ کے پہلے مجموعہ کلام ’ذات‘کا دیباچہ بھی جون ایلیا نے بڑی محبت سے تحریر کیا۔ اقبال مجیدی اپنی فکر میں جون ایلیا سے کس حد تک متاثر تھے اس کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’جون بھائی جو اپنی تعلیم اور مزاج کے اعتبارسے ایک فلسفی ہیں، مجھےایک خاص نکتہ تعلیم کیا اور کہا کہ اس نکتے پر صداقتِ فکر کے ساتھ غور کرنا۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ ادعائیت (dogmatism) اور بےدلیل یقین، جہالت اور جاہلیت کادوسرا نام ہیں۔‘‘ اقبال مجیدی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس نکتے کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔
اقبال مجیدی کو پاکستان میں اور بیرونِ ملک بھی بےشمار عالمی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ ۱۹۸۹ءمیں امارات اردو سوسائٹی کے زیرِ اہتمام جشنِ جمیل الدین عالی کی تقریب کے سلسلے میں دبئی اور ابوظہبی گئے اور کئی مشاعروں میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد مرتبہ آپ کو دبئی میں متعدد مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ دہلی میں ’جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء‘ شعری سمپوزیم میں بھی شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی بھارت میں منعقد ہونے والے ہندو پاک مشاعروں میں شامل ہوتے رہے۔ متعدد مرتبہ ’محبانِ پاکستان قطر‘ کی دعوت پر وہاں ہونے والے عالمی مشاعروں میں شرکت کی۔۲۰۰۱ءمیں مشاعرےکےلیے امریکہ بھی گئے، اسی طرح ملائیشیا میں بھی مشاعرہ پڑھنے کااتفاق ہوا۔ کلائیڈ کیمرون کالج آف آئی ایل او ایجوکیٹر(آسٹریلیا) نے اقبال مجیدی کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ’دی پیشنٹ پوئیٹ‘اور سالیڈٹری ایوارڈ عطا کیے۔
اقبال مجیدی صاحب کراچی جماعت کے حلقہ نارتھ کراچی میں مقیم تھے۔ خاکسار کے والد محترم زبیر احمد خان صاحب کو اس حلقے میں نَو سال تک بطورصدر حلقہ خدمت کی توفیق ملی۔ آپ بتاتے ہیں کہ بطور صدرحلقہ،اقبال مجیدی صاحب ان سے ہمیشہ بڑی عزت سے پیش آیا کرتے۔ جب کبھی آپ کو کسی جماعتی پروگرام کی اطلاع دی جاتی توپروگرام میں شامل ہونےکی کوشش کرتے۔ نظامِ جماعت کا بڑااحترام کرتے اور کبھی کسی قسم کا اعتراض یا منفی بات نہ کرتے۔ اقبال مجیدی صاحب نےبرطانیہ منتقل ہونے سے قبل آپ کو اپنے والدمحترم مبارک مونگیری صاحب مرحوم کی شخصیت و شاعری پرشائع ہونے والی کتاب ’مبارک مونگیری (حیات و شاعری)‘درج ذیل عبارت کے ساتھ بطور تحفہ پیش کی:
’’بصداحترام و عقیدت محترم صدر حلقہ نارتھ کراچی جناب زبیر صاحب کی نذر۔ اقبال مجیدیؔ ۱۶؍مارچ ۲۰۱۲ء‘‘
حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمورخہ ۷؍جولائی بروز جمعرات مرحوم کی نمازِ جنازہ غائب پڑھائی۔جس کی خبر ۲۳؍اگست ۲۰۲۲ءکو الفضل انٹرنیشنل میں یوں شائع ہوئی۔
7۔مکرم اقبال مجیدی صاحب ابن مکرم مبارک احمد مونگھیریصاحب والنگٹن،یوکے
۲۵؍مئی ۲۰۲۲ءکو ۶۶؍سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کےدادا مولوی عبدالمجید صاحب آف مونگھیر انڈیا کی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے خط وکتاب تھی لیکن ان کو حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کےدَور میں بیعت کی توفیق ملی۔ مرحوم کا تعلق چٹاگانگ(بنگلہ دیش) سےتھا اور ۲۰۱۲ءمیں یوکے آئے تھے۔ آپ بہت سادہ مزاج، نیک طبع، مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ اپنےبچوں کی بہت اچھی تربیت کی۔ خلافت کے ساتھ خود بھی مضبوط تعلق رکھا اور بچوں کو بھی خلافت کے ساتھ محبت کا درس دیتے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ مکرم منصوراحمد بنگالی صاحب (واقفِ زندگی۔ کارکن الشرکة الاسلامیہ لندن) کے چچا اور مکرم سید مطلو ب شاہ صاحب کے ہم زُلف تھے۔
جہاں تک اقبال مجیدی صاحب کی شاعری کا تعلق ہے اُن کی فکر تازہ اور آہنگ میں جدّت ہے۔ وہ ایک حسّاس، درد مند، متششک مگرروشن خیال اور ترقی پسند شاعر کی شاعری ہے۔ان کی غزل کا دامن بہت وسیع ہے۔ آپ نے وارداتِ قلبی،غم و الم، غمِ دوراں، ہجر وتنہائی جیسےموضوعات کواچھوتے اورنرالے رنگ میں باندھ کر انہیں تابناکی اور تروتازگی بخشی ہے۔ مزاحمت کےساتھ سچائی کا واشگاف اظہار،سماج کی خامیوں اور ناہمواریوں پر بےلاگ مگر پُرجمال تبصرہ لب ولہجےکے اعتبارسے ان کی شاعری کو منفرد بناتا ہے۔ذات کی گہرائیوں میں ڈوبی کربناک آگہی اور خارج میں موجودہ الم ناک مستمرحقیقتوں کے درمیان اقبال مجیدی کی شاعری میں موجود برجستگی اور شوخی نے ان کے کلام کو قنوطیت اورمایوسی کے برعکس امیدکا استعارہ بنا دیا ہے۔
طلوعِ صبح کی روشن نشانیاں ہم ہیں
گذشتہ عہد کی سچّی کہانیاں ہم ہیں
ہمیں نے آکے بجھائے ہیں تیرگی کے چراغ
سراپا نُور کی وہ ضوفشانیاں ہم ہیں
زندگی کس قدر کارگر ہوگئی
تیرگی چھٹ گئی اب سحر ہوگئی
جون ایلیا اقبال مجیدی کے حوالےسے کہتے ہیں :
’’اقبال مجیدی کی زندگی بڑی پُرحوادث رہی ہے۔ اس نے یقینی موت کے تنگ ترین حصار میں ایک سے زیادہ مرتبہ خوش تنفس زندگی کی ہے۔ اس کی شخصیت میں توانائی کی ایک ماجرا طلب ترنگ پائی جاتی ہے۔ وہ قریب قریب خوں گرفتگی کی حالت میں بھی حسن خیراور زندگی پرور خوابوں اور خیالوں کا نواگر رہا ہے۔ اس کی ذات میں ایک خاص طور کی صلابت پائی جاتی ہےجس کا بےحسی سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ اس نوع کی صلابت ہے جو عزتِ نفس کی خجستگی اور صداقت پرستی کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘‘(ذات صفحہ ۱۱-۱۲)
مجیدؔی غم کے دریا میں اتر کر
غمِ دوراں کو سہنا آگیا ہے
اقبال مجیدی کی شاعری میں غم کو celebrateکرنے کا پہلو بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔ غم وہ لازوال کیفیت ہے جس کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا کہ
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سےنجات پائے کیوں
اسی طرح امجد اسلام امجدؔ نے غم کو یوں دیکھا ہے کہ
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم
لیکن اقبال مجیدی اُس آدم زادقبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو پاؤں کےآبلوں سے گھبراتے نہیں بلکہ راہ کو پُر خار دیکھ کرخوش ہوا کرتے ہیں۔
کم نہیں یہ خوشی مجیدیؔ بھی
زندگی غم سے ہم کِنار ہوئی
غبارِ غم تو ٹوٹا حشر بن کر
یہ میرا حوصلہ بکھرا نہیں ہوں
ترا غم مجھ کو سہنا آگیا ہے
کہ اب خاموش رہنا آگیا ہے
اقبال مجیدی غمِ دوراں پرمحض کڑھتے نہیں وہ اسے سہتے ہیں،اسے خود پر سوار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ورزش انہیں تھکاتی نہیں بلکہ انہیں طاقت بخشتی ہے۔ پھر وہ پوری قوّت سے ناانصافی کی بیڑیوں کو توڑنے میں مشغول ہوجاتے ہیں اور غمِ جاناں کہیں پیچھے بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
پیچ و خمِ حیات کا مشکل ہے سامنا
گیسو ترے نہیں کہ بکھرے سنور گئے
سوئی ہوئی تاریخ کو بیدار کیا جائے
سچائی کا اظہار سرِ دار کیا جائے
صدائے حق تو مجیدؔی ہے جرم، کیا کرتا
زبانِ شعر سے شعلے اگل رہا ہوں میں
اقبال مجیدی کے ان اشعار سے ذہن دیگر شعرا کے بعض اشعار کی طرف منتقل ہوتا ہے۔طوالت کے خوف سے مَیں بِنا کچھ کہے وہ شعر درج کرتا ہوں۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خَم نہیں ہے
(اسرار الحق مجازؔ)
اے تُو! کہ پھرے تھا سرِ بازار چمکتا
اب دیکھ مرا شعلۂ گفتار چمکتا
(عابؔد سیال)
اقبال مجیدی بنیادی طور پر ایک درون بِین شاعر ہیں۔لہٰذا وہ اپنی ذات میں ڈوب کر ہی ان عوامل کا حل تلاش کرتے ہیں جو جرأتِ اظہار کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ وہ گردو پیش میں مستقل موجود ابتری اور دگرگونی پرمحض سینہ کوبی نہیں کرتے بلکہ خونِ جگر کی نمود سے شعر کہتے ہیں۔
کہاں تلاش کروں جاکے آدمیت کو!
مرے کریم! قبیلوں میں بٹ گیا ہوں مَیں
اب دشت میں سچائی کے، تنہا ہے مجیدؔی
کس شخص سے اب کرب کا اظہار کیا جائے
قبیلوں میں الجھ کر رہ گیا ہوں
پنپنے کے نہیں آثار میرے
اقبال مجیدی کی فطری درون بینی اور داخلیت آپ کی شاعری کابڑا نمایاں پہلو ہے۔ وہ اپنی قلبی واردات اور نجی جذبات و احساسات کو موضوع تو بناتے ہیں لیکن اس میں حددرجہ حجاب برتنےکےقائل ہیں۔ آپ کی غزل میں بکھرے رمز و ایمائیت کے پردے میں ملفوف ان نگینوں تک وہی پہنچ سکتا ہے جو اس نواہائے راز کا محرم ہو۔ وہ ذات کی گہرائیوں میں خود تو ڈوبتے چلے جاتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتے۔ شاید ان کے نزدیک ذات کی آگہی کےاس تمازت کے سفر میں ہر ایک نےاپنی صلیب خوداٹھانی ہے۔
نہیں میرا بھری دنیا میں کوئی
یہی کچھ دوست ہیں دوچار میرے
غبارِ ظلمتِ دوراں سے اَٹ گیا ہوں مَیں
وہ چاند ہوں کہ جومحور سے ہٹ گیا ہوں مَیں
مری نگاہ میں تھی تنگ وسعتِ کونین
اب اپنی ذات کے اندر سمٹ گیا ہوں میں
یہ پتھر پھرکہاں سے آرہے ہیں
پسِ دیوار جب کوئی نہیں ہے
کربِ احساس کا بچھونا ہے
جس پہ تاعمر مجھ کو سونا ہے
باتیں کرتا کس سے مَیں
آئینہ تو بہرہ تھا
ایسےحساس شاعر کا تنہا اور ہجر میں گرفتار ہونا حیرانی کی بات نہیں۔ اقبال مجیدی کے کلام میں ایسے ہی ہجر اور تنہائی کا بڑادلخراش مگر دلفریب اور اچھوتا منظرنظر آتا ہے۔
اب نہیں ہے قریب وہ میرے
دُور تنہائی مَیں نے تنہا کی
شہر میں کیسی رونق تھی
اور مَیں تنہا تنہا تھا
فراق ووصل کی تخصیص کیسی
اب اس دل میں طلب کوئی نہیں ہے
ہجر میں وہ مزا ملا مجھ کو
تجھ میں اے لذّتِ وصال کہاں
ہوش سے اپنے جارہا تھا مَیں
پر تری یاد درمیاں آئی
سخت وعدہ خلاف ہے وہ شخص
زندگی نذرِ انتظار ہوئی
جس طرح سماجی سطح پر اقبال مجیدی ایک عملی انسان تھے اسی طرح ذات کی آگہی کے مسافر ہونے کے باوجود اقبال مجیدی بیرون سے بےخبرنہ تھے۔ اُن کی تنہائی کسی شخص کی منتظر نہ تھی ۔ وہ دشتِ تنہائی میں ایسے ہمسفروں کےمتلاشی تھےجو حق گوئی میں اُن کا ساتھ دے سکیں۔
اب دشت میں سچائی کے، تنہا ہے مجیدیؔ
کس شخص سے اب کرب کا اظہار کیا جائے
وہ اپنے نظریۂ فن میں ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ
’’مَیں شعوری طور پر شروع ہی سے روشن خیال شعرا سےمتاثر رہا مجھے اپنے ماحول میں مظلوموں کی حمایت کا درس دیاگیا۔ نفس کی بدترین حالت میں بھی کبھی پذیری نہیں رہا۔ حساس ہونے کی وجہ سے مجھے ہر اس شیوا بیان شاعر نےمتاثر کیا جس نے جبروظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔‘‘
(ذات 29)
مزاحمت اور جبرو استبداد کے سامنے ڈٹ جانے کا یہ عَلَم اپنے عہد میں اقبال مجیدی نے سربلند رکھنے کی ہرممکن کوشش کی۔
ہوائے تُند کیا کرلے گی میرا
چراغِ شوق ہوں بجھتا نہیں ہوں
جاؤ کرو یہ خسروِ پرویز کو خبر
تیشہ بدوش پھر کوئی فرہاد آگیا
جو کہتا ہوں وہ کرتا ہوں مجیدیؔ
نہیں اک ساتھ دو کردار میرے
کبھی نسیم کے جھونکوں سے سانس رُکتی ہے
کبھی سموم کے طوفاں میں ڈٹ گیا ہوں مَیں
اقبال مجیدی کی شاعری میں’بادِ سموم‘ کا استعارہ جابجا ملتا ہے۔
سمومِ یاس کے جھونکوں پہ پل رہا ہوں مَیں
یہ کیسی دھوپ ہے چھاؤں میں جل رہا ہوں مَیں
سمومِ یاس ابھی سے ہے پُرفشاں ہر سُو
ابھی تو غنچۂ ارماں مرا کِھلا بھی نہیں
شاید چمن سے گزرا تھا جھونکا سموم کا
دامن میں لےکے نکہتِ برباد آگیا
کراچی شہر کے مکین ہونےکے حوالے سے جب شہر کے حالات دگرگوں ہوئے تو اقبال مجیدی نے اس پر بھی قلم اٹھایا۔ شہر کے باسیوں میں پایا جانے والا خوف اور بےرحم قاتلوں کے ہاتھ خون کی ہولی کا یہ کھیل، کہ جواسلحے کو کھلونا سمجھتے ہیں یہ سب تکلیف دہ حقیقتیں آپ کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔
لوگ سہمے ہوئے ہیں بستی کے
جب سے ہر ہاتھ میں ’کھلونا‘ ہے
اب امیرِ دیار کے صدقے
جو نہ ہونا تھا وہ بھی ہونا ہے
نیا سورج کوئی اترے زمیں پر
یہاں جو دن ہے وہ مانندِ شب ہے
ہم کو بیروت کا گمان ہوا
جب کراچی لہولہان ہوا
گھر سے نکلے تو ماں لرزتی ہے
جب سے بیٹا مرا جوان ہوا
’گھر‘ایک علامت کے طورپر بھی اقبال مجیدی کی شاعری میں نظر آتا ہے۔جس کاتعلق بالخصوص ہجرت کے ساتھ ہے۔
ہے وہاں کون اب مجیدیؔ کا
کس سے ملنے کو اب وہ گھر جائے
غموں کی دھوپ سے دل تپ رہا ہے
یہ گھر سے آسماں سایہ طلب ہے
وہ اپنے گھر میں خانماں برباد آگیا
کیا یاد آگیا، اسے کیا یاد آگیا
کسے آواز دیتے ہو مجیدیؔ
تمہارے گھر میں اب کوئی نہیں ہے
آکے دیکھو تو گھر کی ویرانی
تم نے کب اپنے گھر کی پرواہ کی
مہرووفا اور تصورِ عشق کے ذیل میں کہیں تواقبال مجیدی غبارِ میرؔکی مانند ادب سے دُور بیٹھنے کے قائل دکھائی دیتے ہیں تو کہیں قدرے بےتکلفی سے محبوب سے گلہ بھی کرلیتے ہیں۔کہیں کہیں اس عشق میں عشقِ حقیقی کی جھلک بھی نمایاں ہوجاتی ہے۔
تری جفاؤں کا گرچہ مجھے گلہ بھی نہیں
لبوں پہ میرے کوئی شکوۂ جفا بھی نہیں
جو سوچیے تو تصور سے بھی بعید ہے وہ
جو دیکھیے توکوئی ایسا فاصلہ بھی نہیں
اگر مَیں کہہ نہیں سکتا زباں سے
اشاروں میں تو کہنا آگیا ہے
دل کے صحراسے کوئی جانِ گلستاں گزرا
لمحہ لمحہ مری ہستی کا غزل خواں گزرا
یہ شعلہ خود بھڑک اٹھتا ہے دل میں
محبت کا سبب کوئی نہیں ہے
واعظ سے یہ کہہ دو کہ محبت ہے اگر جُرم
یہ جرم تو ایسا ہے کہ سَوبار کیا جائے
یہ بےرُخی تھی مجیدی ؔکہ جذبِ دل کی کمی
وہ میرے پاس سے گزرا مگر رُکا بھی نہیں
جفاؤں کا ہدف اِک ذات میری
کہاں تک یہ کرم سرکار میرے
خداتعالیٰ اقبال مجیدی صاحب سےمغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین
اب قلم تھک گیا حرف رونے لگے
یوں کہانی مری مختصر ہوگئی
نوٹ: عنوان میں درج شعر اورمضمون کےاختتام پر لکھا گیا شعر دونوں اقبال مجیدی صاحب مرحوم کےہیں۔