حضرت مسیح موعودؑ کا ایک زبردست نشان (قسط دوم)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۲؍ اکتوبر۱۹۲۶ء)
(گذشتہ سے پیوستہ)ہمارے اس زمانہ میں بھی یہ دونوں راہیں ایمان پانے کی خدا تعالیٰ نے کھولی ہیں۔ یہ دونوں راہیں یہی ہیں کہ اپنے نفس کی شہادت سے ایمان حاصل کرنا اور شہادت ِغیر سے ایمان پیدا کرنا۔ اور یہ دونوں راہیں جو اس نے کھولی ہیں۔ ان کے دروازوں کو کھولنے کے لئے وقت کے نبی کی جماعت میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اس نبی کی بیعت کا سرٹیفکیٹ ان کے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ عام الہام کی شرط نہیں۔ عام الہام کا کیا ہے وہ تو چوروں، بدوں اور کافروں کو بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کے لئے ایسے الہاموں کی ضرورت ہے جو دوسروں کو بھی حیران کر دیں۔ اور ایسے الہام اور وحی صرف انبیاء کی بیعت کا سرٹیفکیٹ رکھنے والوں کو ملتے ہیں۔
دوسرا دروازہ بھی کھولا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس زمانہ کے نبی کے لئے نشان بھی دکھائے اور کثرت سے دکھائے اور ہر رنگ میں کھلے کھلے طور پر دکھائے ہیں کہ اگر دلوں پر زنگ نہ ہو تو سورج سے زیادہ چمک کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر ہو جائے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ سورج کے وجود میں شبہ پڑ جائے لیکن خدا کے اس نبی کی شان میں جو نشان دکھائے گئے ہیں وہ بہت ہیں اور اس کثرت سے ہیں اور اس طرح کھلے کھلے ہیں کہ ان میں شبہ پڑ ہی نہیں سکتا اور جو روشنی ان سے پیدا کی وہ کبھی انسانوں کے اندر ظاہر ہوتی ہے کبھی جانوروں کے اندر سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی بے جان سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی آسمان سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی زمین سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی پہاڑوں سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی زلزلوں سے ظاہر ہوتی ہے۔
ایسے نشان ہزاروں ہیں اور ایسی شہادتیں بے اندازہ کہ جن سے یہ قسم ایمان کی پیدا ہوتی ہے
ان میں سے اس وقت مَیں ایک کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اور وہ یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور یَأْ تُوْنَ مِنْ کُلّ فَجٍّ عَمِیْقٍ یعنی دور دور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور دور دور سے تیرے پاس تحائف لائے جائیں گے اور ایسے ایسے سامان کئے جائیں گے جن سے مہمان نوازی کی جائے اور اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ وہ راستے گھِس جائیں گے جن راستوں سے وہ آئیں گے۔
یہ نشان ایک عظیم الشان نشان ہے۔ اس عظیم الشان نشان کی کس وقت خدا تعالیٰ نے خبر دی۔ اُس حالت کو دیکھنے والے اب بھی موجود ہیں۔ میری عمر تو چھوٹی تھی لیکن وہ نظارہ اب بھی یاد ہے۔ جہاں اب مدرسہ ہے وہاں ڈہاب ہوتی تھی ورلہ حصہ جہاں اب بازار پڑا ہے وہاں ارُوڑیاں پڑی ہوتی تھیں اور میلے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے اور مدرسہ کی جگہ لوگ دن کو نہیں جایا کرتے تھے کہ اس جگہ آسیب ہوجاتا ہے۔ قادیان کے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ آسیب زدہ جگہ ہے۔ او ل تو کوئی وہاں جاتا نہیں تھا اور جو جاتا بھی تو اکیلا کوئی نہ جاتا بلکہ دو تین مل کر جاتے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ یہاں جانے سے جِنّ چڑھ جاتا ہے۔ جِنّ چڑھتا تھا یا نہیں بہر حال یہ ویران جگہ تھی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ویران جگہوں کے متعلق ہی لوگوں کا خیال ایسا ہوتا ہے کہ وہاں جانے سے جِنّ چڑھ جاتا ہے۔ پھر یہ میرے تجربے سے تو باہر تھا۔ لیکن بہت سے آدمی بیان کرتے ہیں کہ قادیان کی یہ حالت تھی کہ دو تین روپے کا آٹا بھی یہاں سے نہیں ملتا تھا۔ آخر یہ گاؤں تھا۔ زمیندارہ طرز کی یہاں رہائش تھی۔ اپنی اپنی ضرورت کے لئے لوگ خود ہی پیس لیا کرتے تھے۔یہ تو ہمیں بھی یاد ہے کہ ہمیں جب کبھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی آدمی کو لاہور یا امرتسر بھیجا کر تے تھے۔ پھر آدمیوں کا یہ حال تھا کہ کوئی ادھر آتا نہ تھا۔ برات وغیرہ پر کوئی مہمان اس گاؤں میں آجائے تو آجائے لیکن عام طور پر کوئی آتا جاتا نہ تھا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا حضرت صاحب سیر کو جایا کرتے تھے میں بھی کبھی کبھی اصرار کرتا تو حضرت صاحب مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ مجھے یاد ہے برسات کا موسم تھا ایک چھوٹے سے گڑھے میں پانی کھڑا تھا میں اُسے پھلانگ نہ سکا تو مجھے خود اٹھا کے آگے کیا گیا۔پھر کبھی شیخ حامد علی صاحب اور کبھی حضرت صاحب خود مجھے اٹھا لیتے۔ اُس وقت نہ کوئی مہمان تھا اور نہ یہ مکان تھے۔ کوئی ترقی نہ تھی مگر ایک رنگ میں یہ بھی ترقی کا زمانہ تھا۔ کیونکہ اُس وقت حافظ حامد علی صاحب آچکے تھے۔ اس سے بھی پہلے جب کہ قادیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کوئی شخص نہ جانتا تھا
خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ تیرے پاس دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف لائے جائیں گے۔
اُس وقت کی حالت کا اندازہ لگاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اِس وعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اے وہ شخص! جس کو کہ اُس کے محلے کے لوگ بھی نہیں جانتے، جس کو کہ اس کے شہر سے باہر دوسرے شہروں کے انسان نہیں جانتے جس کی گمنامی کی حالت سے لوگوں کو یہی خیال تھا کہ مرزا غلام قادر صاحب ہی اپنے باپ کے بیٹے ہیں۔ میں تجھ جیسے شخص کو عزت دوں گا۔ دنیا میں مشہور کروں گا۔ عزت چل کر پاس آئے گی۔
عزت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ عزت ہے جو دوسروں کے گھر جا کر لی جاتی ہے مثلاً کسی کے کام کر دئیے۔ کسی کی مقدمات میں خدمت کر دی۔ کسی کے بیاہ شادی میں مدد دے دی۔ کسی کے خیال کی تائید کر دی۔ یا گورنمنٹ کے ساتھ ہو کر بعض جرائم کا انکشاف کر ا دیا۔ یا سرکار کے کاموں میں جا کر مدد کر دی۔ جس سے خوش ہو کر بعض کو اُس کی طرف سے کوئی خطاب مل گیا۔ بعض کو زمین مل گئی۔ بعض کو اَور قسم کی رعایتیں حاصل ہو گئیں۔ تو ایک عزت تو اِس طرح ملتی ہے اور یہ عزت دوسروں کے گھر جا کر لی جاتی ہے۔ لیکن یہ حقیقی عزت نہیں ہوتی بلکہ ذلت ہوتی ہے۔ دوسری قسم کی عزت وہ عزت ہے جس کے لئے لوگوں کے دروازوں پر نہیں جانا پڑتا بلکہ وہ لوگ خود اُس شخص کے گھر آکر اُس کو عزت دیتے ہیں۔ اور یہی حقیقی عزت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو عزت ملی وہ اسی قسم کی ہے۔ لوگ چل کر آئے اور عزت دی۔ اور یہ سب باتیں اس نشان کے ماتحت ہوئیں اور ہو رہی ہیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت صاحب کو اس وقت دیا جب کہ آپ کو قادیان میں بھی کوئی نہ جانتا تھا۔ دشمن بھی اور بعض نادان دوست بھی اعتراض کرتے تھے کہ مرزا صاحب گھر بیٹھے رہتے ہیں باہر نہیں نکلتے اور دوسرے لوگوں کی طرح اِدھر اُدھر نہیں پھرتے۔ لیکن وہ نادان ہیں جو ایسا کہتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے۔ جس کو خدا گھر بیٹھے عزت دے اُسے باہر نکلنے کی کیا ضرورت ہے۔ اُسے خدا نے وعدہ دیا کہ تم ایک جگہ بیٹھو میں دنیا کو کھینچ کر تمہارے پاس لاؤں گا۔ اور یہ اب سب لوگوں کو نظر آرہا ہے کہ خدا اپنی بات کے مطابق لوگوں کو لارہا ہے۔ اور تو کوئی معمولی طور پر مشہور ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ اُس کے شہر میں اس کی عزت ہوگی۔ یا زیادہ سے زیادہ ضلع میں اس کی عزت ہو گی۔ یا زیادہ سے زیادہ صوبہ میں اس کی عزت ہوگی۔یا زیادہ سے زیادہ ملک میں اس کی عزت ہو گی لیکن خدا تعالیٰ نے آپ سے اس سے بڑھ کر وعدہ کیا اور فرمایا کہ
میں جو عزت تمھیں دوں گا وہ ایسی عزت ہو گی کہ ساری دنیا میں عزت ہو جائے گی
صرف شہر میں تمہاری عزت نہ ہوگی۔ صرف ضلع میں ہی تمہاری عزت نہ ہوگی۔ صرف صوبہ میں ہی تمہاری عزت نہ ہوگی۔ صرف ملک میں ہی تمہاری عزت نہ ہوگی۔ بلکہ دنیا کے کونے کونے میں عزت ہو گی۔ جد ھر کوئی راستہ دنیا میں نکلتا ہوگا۔ جدھر کوئی پک ڈنڈی دنیا میں جاتی ہو گی۔ ادھر تیرا نام پہنچایا جائے گا۔ اور ادھر ہی تیری عزت قائم کی جائے گی۔
خدا تعالیٰ یہ لفظ ہی نہیں فرماتا بلکہ وعدہ بھی فرماتا ہے۔ اور وعدہ بھی وہ وعدہ ہے جسے وہ بڑے زور کے ساتھ ہر روز پورا کر رہا ہے۔ اور اس وعدہ کے لئے لفظ بھی وہ استعمال فرمائے جو اپنے معانی کے لحاظ سے بڑے زبردست ہیں۔ یہ الفاظ دو معنے رکھتے ہیں۔ ایک معنی تو یہی ہیں کہ دور دور سے لوگ چل کر آئیں گے۔ اور اس کثرت سے آئیں گے کہ راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور وہ گہرے ہو جائیں گے۔ لیکن ان الفاظ سے صرف یہی مطلب نہیں بلکہ یہ بھی مراد ہے کہ صرف سڑکوں والے علاقوں کے لوگ ہی نہیں آئیں گے بلکہ وہ لوگ بھی آئیں گے جن کے علاقوں میں راستے نہیں۔ یعنی ایسی گمنام جگہوں سے بھی لوگ آئیں گے جنہیں دنیا میں لوگ جانتے ہی نہیں۔ اور صرف شہروں کے لوگ ہی نہیں آئیں گے، صرف بستیوں اور آبادیوں کے لوگ ہی نہیں آئیں گے بلکہ جنگلوں کے لوگ بھی آئیں گے، میدانوں کے لوگ بھی آئیں گے،پہاڑوں کے لوگ بھی آئیں گے، غاروں کے لوگ بھی آئیں گے۔ غرض ہر گوشۂ گمنامی سے کھینچ کر لوگ لائے جائیں گے۔ اور یہ دونوں معنے ہی اس الہام سے پائے جاتے ہیں۔ لوگوں کے آنے سے بھی کہ جن کے آنے سے راستے عمیق ہو جائیں اور عمیق راستوں سے لوگوں کے آنے کے بھی۔ اور یہ ہی وہ بڑی عزت ہے جو حقیقی طور پر عزت کہلانے کی مستحق ہے کہ شہروں اور آبادیوں سے نکل کر ایسے ویرانوں میں بھی نام چلا جائے جو دنیا کو معلوم ہی نہیں۔
دنیا میں بہت سے آدمیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شہرت پائی۔ سرٹیگور کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے۔ بے شک سرٹیگور نے شہرت پائی مگر شہروں میں۔ سرٹیگور کی عزت زیادہ سے زیادہ آبادیوں میں ہے۔ اور آبادیوں میں سے بھی بہت تھوڑی آبادیوں میں۔ اور پھر وہ بھی علمی حلقہ میں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دنیا کے کونہ کونہ میں شہرت ہے۔ سرٹیگور کو افغانستان کے پہاڑوں پر کوئی نہیں جانتا، ایران کے پہاڑوں پر کوئی نہیں جانتا، ترکستان کے پہاڑوں پر کوئی نہیں جانتا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام اُڑکر وہاں پہنچا۔ اور ایسے طریق سے پہنچا کہ عقلیں حیران ہیں کہ کس طرح آپ کا نام ایسے ایسے مقامات پر جا پہنچا کہ جہاں انسان کا گزر بھی بمشکل ہے۔اور یہ اُسی شہرت اور عزت کا نتیجہ ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اپنے وعدے کے مطابق بطور نشان دی کہ ہر ملک اور ہر علاقہ سے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔ پھر آپ کا نام دنیا کے ہر طبقہ کے لوگوں میں بھی پہنچا۔
(باقی آئندہ)