احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
مسجداقصیٰ کے ائمہ وخطیب
اس مسجدکی ایک اوراہمیت اورفضیلت یہ بھی ہے کہ یہاں اس بزرگ ہستی نے اذان دی، امامت کروائی اور سالوں تک نمازیں اداکیں اور سینکڑوں تقریریں اور وعظ و نصائح کی مجالس منعقدہوئیں کہ جس کوخدانے اپنے رسول اور پیغمبرکے مقام پرفائزکیا۔
جب تک مسجدمبارک کی تعمیرنہیں ہوئی تب تک مسجداقصیٰ میں ہی حضرت اقدسؑ نمازیں پڑھتے رہے۔اور مسجدمبارک کی تعمیرکے بعد آپؑ بالعموم پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ہی ادافرماتے۔البتہ ابتدا میں جمعہ مسجداقصیٰ میں ہوتا۔عیدین کی نمازیں بھی یہاں کبھی ہوجاتیں اوران سب میں شمولیت فرمانے کے لیے حضرت اقدسؑ مسجداقصیٰ میں ہی تشریف لاتے۔ سیرت المہدی کی ایک روایت پیش خدمت ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :’’بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نور الدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروا دیا۔چنانچہ اپنی وفات تک جو 1905ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے۔حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہوتے تھے۔مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نور الدین صاحب امام ہوتے تھے۔جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کو عموماً لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اور مولوی عبدالکریم صاحب امام ہوتے تھے۔بعد میں جب حضرت کی طبیعت عموماً نا ساز رہتی تھی مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لیے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھا تے تھے۔مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبار ک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا۔عید کی نماز میں عموماً مولوی عبدالکریم صاحب اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعودؑ جب آپ شریک نماز ہوں خود پڑھایا کرتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر155)
مسجد اقصیٰ میں جمعہ اور عیدین کے موقع پر آپ صف اول میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے۔
جلسہ سالانہ
اس مسجدکی یہ بھی ایک اہمیت ہے کہ جماعت احمدیہ کاسب سے پہلاجلسہ سالانہ 27؍دسمبرکومسجداقصیٰ میں ہی منعقد ہواجس میں 75 احباب شریک ہوئے۔اس سے اگلے سال 1892ء کاجلسہ سالانہ مدرسہ احمدیہ کے قریب ڈھاب کے کنارے ایک چبوترہ بناکروہاں کیاگیا اوراس کے سواحضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہونے والے تمام جلسہ ہائے سالانہ مسجداقصیٰ میں ہی ہوئے۔اور آخری جلسہ سالانہ میں تین ہزارکے قریب احباب شریک ہوئے۔
مسجد اقصیٰ اور خطبہ الہامیہ
اس مسجد کے تعلق سے ایک انتہائی اہم واقعہ کا ذکر کر نابھی ضروری ہے۔جو کہ ’’خطبہ الہامیہ‘‘سے تعلق رکھتا ہے۔یہ خطبہ آپ نے مسجد کے سب سے پرانے حصہ کےدرمیانی در میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا تھا اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ؓفرماتے ہیں:’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے عیدالاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تو میں قادیان میں ہی تھا۔حضرت صاحب مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں کے راستہ سے نیچے اُترے آگے میں انتظا ر میں موجود تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ بہت بشاش تھے اور چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا پھر آپ بڑی مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں نماز کے بعد خطبہ شروع فرمایا۔ اور حضرت مولو ی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کو خطبہ لکھنے پر مقرر کر دیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب اس خیال سے کہ لکھنے والے پیچھے نہ رہ جائیں بہت تیز تیز نہیں بولتے تھے بلکہ بعض اوقات لکھنے والوں کی سہولت کے لئے ذرا رُک جاتے تھے اور اپنا فقرہ دہرا دیتے تھے۔اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت آپ نے لکھنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ جلدی لکھو۔یہ وقت پھر نہیں رہے گا اور بعض اوقات آپ یہ بھی بتاتے تھے کہ مثلاً یہ لفظ ’’ص‘‘ سے لکھو یا ’’سین‘‘ سے لکھو۔
اور بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ خطبہ کے وقت حضرت صاحب کرسی کے اوپر بیٹھے تھے اور آپ کے بائیں طرف فرش پر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل و مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے جن کو آپ نے خطبہ لکھنے کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیرتھی۔اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہوجا تا تھا۔اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبا ن سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیونکہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے۔ اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طر ف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا۔لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہو گیا۔اور فرماتے تھے کہ یہ خطبہ بھی ہمارے دوستوں کو یاد کر لینا چاہئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اُس وقت بچے تھے۔صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یادہے۔ حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آوازمیں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں۔یہ خطبہ،خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے۔لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیس صفحے جہاں باب اوّ ل ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں۔جو اس وقت حضرت نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس عیدالاضحی میں دیا گیا تھا جو 1900ء میں آئی تھی مگر شائع بعد میں 1902ء میں ہوا۔‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر156)
خطبہ الہامیہ کا پس منظر
یوم العرفات کو علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو اطلاع دی کہ ’’میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لیے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں،اس لیے تمام دوست جو یہاں موجود ہیں۔اپنا نام معہ جائے سکونت لکھ کر میرے پاس بھیج دیں،تاکہ دعا کرتے وقت مجھے یاد رہے۔‘‘
اس پر تعمیل ارشاد میں ایک فہرست احباب کی ترتیب دے کر حضورؑ کی خدمت میں بھیج دی گئی۔اس کے بعد اور احباب باہر سے آگئے۔جنہوں نے زیارت اور دعا کے لئے بے قراری ظاہر کی اور رقعے بھیجنے شروع کر دیے۔حضورؑ نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ’’میرے پاس اب کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے۔اس طرح سخت ہرج ہوتا ہے۔‘‘
مغرب اور عشاء میں حضورؑ تشریف لائے جو جمع کر کے پڑھی گئیں۔بعد فراغت فرمایا:’’چونکہ میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاؤں میں گزاروں۔ اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلف وعدہ نہ ہو۔‘‘
یہ فرما کر حضورؑ تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے۔دوسری صبح عید کے دن مولوی عبد الکریم صاحب نے اندر جا کر تقریر کرنے کے لئے خصوصیت سے عرض کی۔اس پر حضورؑ نے فرمایا:’’خدا نے ہی حکم دیاہے۔‘‘اور پھر فرمایا کہ’’رات الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو۔میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا۔شاید یہی مجمع ہو۔‘‘
خطبہ الہامیہ کا نشان
یہ خطبہ جو اللہ تعالیٰ کے القا وایما کے موافق حضورؑ نے عربی زبان میں پڑھا۔یہ خطبہ آیات اللہ میں سے ایک زبردست آیت اورلا نظیر نشان ہے جو ایک عظیم الشان گروہ کے سامنے پورا ہوا،اور ’’خطبہ الہامیہ‘‘کے نام سے شائع فرما دیا گیا۔
جب حضرت اقدسؑ عربی خُطبہ پڑھنے کے لیے تیار ہوئے، تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حکم دیا کہ وہ قریب ترہوکر اس خطبہ کو لکھیں۔ جب حضرا ت مولوی صاحبان تیارہوگئے، تو حضورؑ نے یَاعِبَادَ اللّٰہِ کے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا۔ اثنائے خطبہ میں حضرت اقدس ؑنے یہ بھی فرمایا:’’اب لکھ لو پھر یہ لفظ چلےجاتے ہیں۔‘‘
جب حضرت اقدس ؑ خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے، تواکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب اُس کا ترجمہ سنانے کے لیےکھڑے ہوئے۔ اس سے پیشتر کہ مولانا موصوف ترجمہ سُنائیں، حضرت اقدس ؑنے فرمایا کہ ’’اس خُطبہ کو کل عَرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو مَیں نے دُعائیں کی ہیں۔ ان کی قبولیت کے لیے نشان رکھاگیا تھا کہ اگر مَیں یہ خطبہ عربی زبان میں اِرتجالاً پڑھ گیا، تو وہ ساری دُعائیں قبول سمجھی جائیں گی۔ الحمدللہ کہ وُہ ساری دُعائیں بھی خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق قبول ہوگئیں۔‘‘(ملفوظات جلد 2صفحہ29تا31)