حضرت مسیح موعودؑ کا ایک زبردست نشان (قسط سوم۔ آخری)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۲؍ اکتوبر۱۹۲۶ء)
(گذشتہ سے پیوستہ )آج قادیان کی کیا حالت ہے؟ اس کا اندازہ اس کو دیکھنے سے ہو سکتا ہے کہ یہاں ہر وقت ہی ایک نمائش دنیا کے لوگوں کی لگی رہتی ہے۔ ہر طبقہ اور ہر علاقہ کے لوگ یہاں آتے ہیں۔ ہر قسم اور ہر ملک کے آدمی یہاں دیکھنے میں آتے ہیں۔ قریب کے لوگ بھی آتے ہیں اور دور دراز علاقوں کے لوگ بھی آتے ہیں۔ سیاہ بھی آتے ہیں اور سفید بھی آتے ہیں۔ اور کوئی قوم نہیں کہ جس کے لوگ یہاں نہ آتے ہوں۔ اور کوئی ملک نہیں کہ جس کے باشندے اس سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔
ایک دفعہ مفتی صاحب کو اچھی سُوجھی۔ آپ نے ایک دفعہ یہاں ایک میٹنگ کی جس میں دنیا کے مختلف حصوں میں بولی جانے والی بائیس زبانوں میں تقریریں کی گئیں۔ اتنی زبانوں کے جاننے والے بعض بڑے بڑے شہروں میں بھی نہیں ملتے۔ ہم نے حساب لگایا۔ ابھی بہت سی زبانیں رہ گئی تھیں۔ جن کے جاننے والے تو یہاں موجود تھے مگر وہ اس میٹنگ میں شامل نہ ہو سکے۔ اور یہ ترقی روز بروز بڑھ رہی ہے اور دنیا کی باقی زبانیں جاننے والے لوگ بھی یہاں جمع ہو رہے ہیں۔ تویہ سب کچھ کس طرح ہوا؟ حضرت صاحب اس عزت کے لینے کے لئے کسی کے گھر چل کر نہیں گئے۔ بلکہ خدا تعالیٰ نے یہ عزت اور شہرت ان کو گھر بیٹھے ہی دی اور یہی حقیقی اور سچی شہرت اور عزت ہے جو گھر بیٹھے کسی کو ملے۔
حال ہی میں ایک کتاب بڑے بڑے مشہور مشنریوں نے لکھائی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ عیسائیت کس طرح پھیلائی جائے۔ اس میں ایک مقام پر اسلامی ممالک میں عیسائیت پھیلانے کے متعلق بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ہر فن کے ماہر سے مضمون لکھوائے گئے ہیں۔ جو جس فن میں ماہر ہے اس نے اپنے تجربوں کی بنا پر اس میں مضمون لکھے ہیں۔ اس کتاب کا ایک فقرہ مجھے بہت پیارا معلوم ہوا۔ اس میں لکھا ہے کہ
احمدیہ جماعت کو جو بھی کہیں کہیں لیکن یہ بات ضرور ہے کہ یہ قوم اپنی طاقت کے ہاتھ سے دنیا پر چھا گئی اور آناً فاناً دنیا میں پھیل گئی۔
طاقت تو جو ہماری ہے وہ ہم جانتے ہی ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہمارے دوست اُن علاقوں کو بھی نہیں جانتے جن میں احمدیت پھیل چکی ہے۔ یہ سب لوگ جو اس مسجد میں اِس وقت بیٹھے ہیں اُن سے پوچھا جائے کہ ان ممالک کے نام بتاؤ۔ جہاں احمدیت پھیلی ہوئی ہے تو ہرگز نہ بتا سکیں گے۔ تو جو ان ملکوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں کہ جن میں احمدیت پھیلی ہوئی ہے تو ان کی طاقت ہی کیا ہوئی اور انہوں نے ملکوں میں تبلیغ ہی کیا کرنی ہے۔ ان میں سے ضرور ۹۰ بلکہ ۹۵ فیصدی ایسے نکلیں گے جو اُن ملکوں سے ناواقف ہوں گے۔ اور اگر ان ملکوں کے نام ان لوگوں کے سامنے لئے جائیں کہ جن میں احمدیت پھیلی ہوئی ہے تو وہ حیران ہو جائیں گے وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ کسی ملک کا نام ہے یا کسی گھوڑے بیل کا۔ پس ہماری تو یہ حالت ہے تاریخی اور جغرافیائی طور پر بھی ہمیں وہ علم حاصل نہیں جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ ہماری طاقت نے کام کیا۔ پس یہ کہنا کہ یہ سب کام ہماری طاقت کے ساتھ ہوا غلط ہے۔ یہ اسی کی طاقت ہے کہ جس نے آج سے پچاس سال پہلے کہا تھا۔ یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَ یَأْ تُوْنَ مِنْ کُلّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ پس اس کا پھیلانے والا خدا تھا نہ کہ ہماری طاقت۔
یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ اس الہام کی وہ چھوٹی سی شکل ہے جس میں وہ ظاہر ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اور نہایت ہی مؤثر پیرایہ میں اس کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کی بنیادرکھی۔ اور اُس موقع پر یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اپنا پورا پورا اثر دکھاتا ہے۔ پس اس جلسے کے دن آنے والے ہیں۔ اور اس صورت میں جبکہ اس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس الہام کے لئے رکھی ہر وہ شخص جو اس میں شامل ہوتا ہے۔ وہ حضرت صاحب کے کام میں مدد دیتا ہے اور وہ خدا کے کلام میں مدددینے والا ہے۔
خدا کا کلام تو پورا ہوتا ہے اور اس کے کام ہوتے رہتے ہیں۔ مگر وہ اپنے کلام کو بندوں سے پورا کراتا ہے۔ پورا کرنے والا تو درحقیقت خد اہے لیکن وہ ہم کو کہتا ہے کہ اس میں شامل ہو جاؤ۔ اور یہ
’’مفت کرم داشتن‘‘
والا معاملہ ہے کہ کام تو وہ خود کرتا ہے مگر بندوں کو اس میں شامل کر لیتا ہے۔ پس جماعت کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے۔ اور ان کاموں میں شامل ہونے سے پہلے کچھ باتیں ہیں جو اسے پوری کرنی چاہئیں۔
یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ خدا کا کلام ہے اور خدا اسے پورا کرے گا اور پورا کر بھی رہا ہے۔ مگر ہم کو بھی جو اس میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا ہے تو ہمیں چاہئے کہ لوگوں کو لانے سے پہلے ان کی مہمان نوازی کے سامان مہیا کریں۔کیونکہ سب باتوں سے پہلے مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ دیکھو اگر کسی کے گھر میں چند مہمان آجائیں اور آگے مہمان نوازی کے سامان نہ ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے اِسی طرح ہمارا بھی حال ہے۔ اگر ہم لوگوں کو یہاں لاتے ہیں تو ہمارا یہ بھی تو کام ہے کہ ان کی مہمان نوازی کے سامان بھی کریں۔ پھر ہمارے مہمان بھی تو معزز مہمان ہیں۔ کیونکہ خدا ان کو اپنا مہمان کہتا ہے ہمیں تو ثواب کے لئے اس میں شامل کر رکھا ہے۔ پس ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ قادیان والوں کو توجہ کرنی چاہئے کہ ان تمام آنے والوں کے لئے خدا نے ان کو میزبان بنایا ہے۔ … پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ ان باتوں کی خاص احتیاط رکھیں۔
یہ چندے ایسی چیز نہیں کہ ان کے متعلق کسی کو تمہیں کچھ کہنا پڑے
بلکہ یہ تمہیں اپنے آپ ادا کرنے چاہئیں۔ اور میرے نزدیک تو یہ شرم کی بات ہے کہ کوئی کہے کہ لاؤ جی چندہ دو بلکہ یہ چاہئے کہ کوئی کہنے نہ پائے کہ تم چندہ ادا کردو۔ تا یہ اُس کی طرف منسوب نہ ہو سکے کہ فلاں نے کہا تو ہی چندے ادا کئے گئے کیونکہ اس طرح یہ دین اُس کا ہو جائے گا۔ اور یہ سمجھا جائے گا کہ اسے تو دین کا خیال نہ تھا جسے خیال تھا اس نے آکر کہا۔ اگر اسے خود خیال ہوتا تو وہ آپ ہی اس کا فکر کرتا اور اپنے آپ اس کے لئے چندہ دیتا اور اس میں حصہ لیتا۔پس جو اس موقع پر ایسا کرتا ہے اور اپنے آپ اس میں حصہ لیتا ہے اور اس بات کی طرف نہیں دیکھتا کہ کوئی آکے اسے چندے کے لئے کہے۔ تو وہ اس الہام کو پورا کرتاہے جو قیامت تک پورا ہوتا رہے گا۔
جو الہام بار بار پورا ہو وہ اس الہام کے بالمقابل افضل ہوتا ہے جو ایک دفعہ پورا ہو۔ حضرت صاحب کا یہ الہام بھی اُن الہاموں میں سے ہے جو بار بار پورے ہونے والے ہیں۔ یہ الہام آج ہی نہیں پورا ہو رہا بلکہ قیامت تک پورا ہوتا رہے گا۔ قرآن کریم اسی لئے تو ریت پر افضل ہے کہ یہ قیامت تک ہے۔ اسی طرح حضرت صاحب کا یہ الہام بھی اعلیٰ الہاموں اور اعلیٰ وحیوں میں سے ہے جو قیامت تک پورا ہوتا رہنے والا ہے۔ پس جو اس میں چندہ دیتے ہیں وہ اس کے پورا کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح جو یہاں آتے ہیں وہ بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔ اور جو دوسروں کو ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔ پس میں یہ کہتا ہوں کہ دوست جہاں اس کی مالی خدمت کریں۔ وہاں وہ خود بھی آئیں اور دوسروں کو بھی ساتھ لائیں۔
میں ایک اَور ضروری بات بھی کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض دوست تبلیغ کرتے ہیں اور جب ایک آدمی حق بات کو پاکر بیعت کے لئے تیا رہو جاتا ہے تو وہ جلسہ کے قریب کے دنوں میں یہ کہتے ہیں کہ چلو جلسہ پر بیعت کرلینا مگر یہ ایک غلطی ہے۔ ایک شخص جسے ہدایت ہو گئی ہے کیا معلوم کہ قلعہ کے باہر رہ کر اسے پھر خطرہ ہو جائے۔قلعہ یہی ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہو کر ایک شخص خطروں سے محفوظ ہوجاتاہے۔ اسی طرح بیعت بھی ایک قلعہ ہوتی ہے جو شخص بیعت کرلیتا ہے وہ گویا قلعہ میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے ایک شخص قلعے میں آتا آتا رُک جائے اور پھر اس کے لئے خطرے پیدا ہو جائیں۔ پس
دوستوں کو چاہئے کہ جس وقت کسی کو ہدایت ہوجائے اُسی وقت اسے بیعت میں داخل کرا لینا چاہئے۔
خواہ وہ جلسہ کے دنوں کے قریب ہی کیوں نہ ہو اور خواہ جلسہ میں ایک دن ہی کیوں نہ باقی رہ گیا ہو۔ اور اس بات کا فکر نہ کرو کہ جلسہ پر ہی ان کو بیعت کرانی چاہئے۔ ان کو تو اس وقت بیعت کرادو۔ جلسہ کے موقع پر خدا تعالیٰ اور آدمی دے دے گا۔ تم لوگوں کو لاؤ تو سہی وہ یہاں کے حالات دیکھ کر آپ ہی اس طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ اور اس بات سے مت گھبراؤ کہ یہ لوگ جلسے پر جا کر گالیاں دیں گے یا کسی اور قسم کی بدزبانی کریں گے۔ میں نے دیکھا ہے۔ دشمن گالیاں دیتے ہوئے آئے۔ لیکن بیعت کرکے گئے۔ پس گالیوں یا اَور باتوں سے مت ڈرو۔ تم ساتھ لانے کی کوشش کرو۔ اور جو بیعت کے لئے تیار ہوں انہیں اُسی وقت بیعت کراؤ۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کی توفیق دے اور ہم اُس کی وحی اور اُس کے کلام پر ایمان لانے والے بنیں۔ ہمارے قلوب پر اُس کے الہام نازل ہوں اور ہم اُن نشانوں پر سے اندھے ہو کر نہ گزرجائیں جو سورج کی طرح روشن ہیں اور جو ہماری رہنمائی کے لئے ہیں۔ میں یہ دعا بھی کرتاہوں کہ ہم ان الہاموں اور ان نشانوں سے جتنا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں اٹھائیں۔ آمین
(خطبات محمود جلد ۱۰ صفحہ۲۴۲تا۲۵۳)