سفرنامہ کوچۂ قادیان
امتثال آج کچھ پریشان سا تھا۔ کیوں کہ آج اُس نے کلاس میں پریزنٹیشن دینی تھی۔ کل کلاس میں سفر نامے کے متعلق پڑھتے ہوئے سر نے پوچھا تھا کہ قادیان کون کون گیا ہے تو پوری کلاس میں وہ ہی خوش نصیب تھا جو جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوا تھا۔ اسی وجہ سے سر مبارک نے اسے اپنے سفر اور جلسہ سے متعلق ایک سفر نامہ لکھنے کو کہا تھا۔ چنانچہ امتثال نے اپنے ابو جان اور بھائی واصف کی مدد سے ایک اچھا سا مضمون تیار کیا۔ ابھی وہ وقفے میں بیٹھا اپنا مضمون دہرا رہا تھا کہ گھنٹی کے آواز کے ساتھ ہی سر مبارک کلاس میں داخل ہوئے اور’السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ بچو!‘ کہا۔
ساری کلاس نے اپنے استاد کے ادب میں کھڑے ہوکر جواب دیا۔ سر نے انہیں بیٹھنے کو کہا۔ اور امتثال کو کہا کہ جی تو امتثال میاں! مضمون تیار ہے تو آئیے اور پڑھیے۔
امتثال : بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ قادیان ایک مقدس بستی ہے۔ جہاں امام الزماں حضرت مسیح موعودؑ کا ظہور ہوا۔ قادیان بھارتی صوبہ پنجاب کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ قادیا ن کا پرانا نام اسلام پور تھا جو بعد میں اسلام پور قاضی ماجھی اور پھر زمانے کے ساتھ ساتھ قادیان بن گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے آباء و اجداد سمرقند سے تشریف لائے اور یہاں یہ بستی بسائی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے قبل بھی یہاں اسلام کا بول بالا تھا۔ اور دُور دراز سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے یہاں آتے تھے۔ آپؑ کی بعثت کے بعد قادیان تو مرجعِ خلائق بن گیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی وعدہ کیا کہ لوگوں کی اتنی کثرت یہاں آئے گی کہ سڑکوں پر گڑھے پڑ جائیں گے۔ اور جلسہ پر میں نے خود بھی اس کا مشاہدہ کیا۔(امتثال نے پڑھتے پڑھتے سراٹھا کر کلاس کو بتایا)
میری خوش قسمتی ہے کہ سنہ۲۰۱۸ء میں مجھے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ میں اپنی پوری فیملی یعنی امی، ابو، بڑے بھائی واصف اور چھوٹے بھائی تمثیل کے ساتھ قادیان گیا تھا۔ جب ہمیں معلوم ہوا کہ ہم قادیان جا رہے ہیں تو ہم سب خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ دن گنتے گنتے دسمبر آ پہنچا۔ اور ہم۲۰؍دسمبر کو قادیان پہنچے۔ پہلے ہم امرتسر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے اور پھر بٹالہ سے ہوتے ہوئے قادیان پہنچے۔ جوں جوں ہم قادیان کے پاس پہنچ رہے تھے۔ ہم سب کے دل خوشی سے نہال ہو رہے تھے۔ امی اور ابو پہلے بھی گئے ہوئے تھے اس لیے وہ ہمیں راستے میں مختلف جگہوں کی تفصیل بتا رہے تھے۔
میں نے سب سے پہلے دُور سے منارة المسیح کو دیکھ لیا۔ اور ابو نے فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے اور ہم سب نے دعا کی۔ بھائی نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ ہم منارے کو دیکھتے دیکھتے قادیان کے قریب پہنچ گئے۔ قادیان میں ہماری گاڑی داخل ہوئی تو اس وقت مختلف بسیں بھی قادیان میں داخل ہو رہی تھیں۔ ہمیں گاڑی والے نے احمدیہ گراؤنڈمیں اتارا جہاں مہمان قافلہ در قافلہ پہنچ رہے تھے۔ جب بھی کوئی قافلہ وہاں آکر رکتا تو فضا فلگ شگاف نعروں سے گونج اٹھتی۔ ہم نے بھی ان نعرو ں کے پُر زور جواب دیے۔
اپنی رہائش گاہ تلاش کرنے اور وہاں سامان وغیرہ رکھنے کے بعد ہم سب سے پہلے بہشتی مقبرے کی طرف روانہ ہوئے۔ بہشتی مقبرے میں احمدیوں کی خاصی رونق تھی جو حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعا کرنے اور رسول اللہﷺ کا سلام پہنچانے آئے تھے۔ اس کے بعد ہم نے بہشتی مقبرے میں مدفون تمام صحابہ اور دیگر احمدیوں کے لیے دعا کی۔ اگرچہ ہم لمبا سفر کر کے یہاں پہنچے تھے لیکن ہم نے پھر بھی پہلے ہی دن کئی مقدّس مقامات دیکھ ڈالے۔ دار المسیح، کمرہ پیدائش حضرت مسیح موعودؑ، دالان حضرت اماں جانؓ، بیت الفکر، بیت الدعا، سرخ چھینٹوں والا کمرہ، مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ، منارة المسیح اور مختلف کمرے۔ قادیان میں قیام کے دوران ہمیں منارة المسیح کی سیڑھیاں گول گول گھوم کر اوپر جانے کا بھی موقع ملا جہاں سے ایک دفعہ میں ہی پورے قادیان کا نظارہ کیا۔ میرے بڑے بھائی واصف کو فوٹوگرافی کا شوق ہے۔ انہوں نے بہت سی تصاویر لیں۔
قادیان میں ہماری مصروفیات نمازوں کے اوقات کے گرد گھومتی تھی۔ صبح نمازِ تہجد، فجر، درس کے بعد بہشتی مقبرہ میں دعا کے لیے جاتے۔ پھر ناشتہ کر کے تیار ہو جاتے۔ جلسہ کے ایام سے پہلے ہم مختلف مقامات دیکھتے۔ بعض اہم مقامات میں نوافل ادا کرتے۔ امی اور ابو جان ہمیں اہم مقامات کا تفصیلی تعارف کرواتے۔
پھر جلسے کے دن شروع ہو گئے۔ قادیان میں سال کے دوران چار موسم ہوتے ہیں۔ اور جلسہ کے ایام میں تو سخت سردی ہوتی ہے۔ جلسہ کے تینوں دن بہت مزا آیا۔ قادیان کے جلسے کی ایک الگ ہی بات ہے۔ مختلف ممالک سے مختلف قوموں کے مختلف زبانیں بولنے والے احمدی وہاں جمع تھے۔ کبھی ہم افریقن احمدیوں سے ملتے، کبھی رشین، کبھی انڈونیشین تو کبھی انگریز۔ ہندوستان کے اندر سے بھی کئی زبانیں بولنے والے لوگ جلسے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے کھانا تقسیم کرنے پر ڈیوٹی بھی دی۔
جلسہ کی کارروائی بہت مزے کی تھی۔ یہ میرا پہلا جلسہ تھا جس میں مَیں کھلی جلسہ گاہ میں بیٹھا۔ ہمیں گرین ایریا یعنی سٹیج کے سامنے والے حصہ میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔وہاں سے جلسہ کی کارروائی میں نے براہِ راست دیکھی اور سنی۔ لوائے احمدیت کوروز لہرایا جاتا اور روز اتارا جاتا۔ وہاں ہم نے بھی دو دو منٹ حفاظت کی ڈیوٹی دی۔ جلسہ کی تقاریر اور نظموں کوہم نے غور سے سنا۔ شام کو امی جان کو تقریر میں سے پوچھے جانے والے سوالات کا جواب جو دینا ہوتا تھا۔ پھر آخری دن طاہر ہال مسجد بیت الفتوح (یوکے) سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا جس میں پیارے حضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشقِ رسولﷺ کی بعض مثالیں بیان فرمائیں۔ خطاب کے بعد دعا ہوئی جس کے ساتھ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ حضورِ انور کا خطاب ایک نہایت روح پرور نظارہ تھا۔ تمام احمدی ٹکٹکی باندھے سکرین کو دیکھ رہے تھے۔ قادیان کے نعرے بھی الگ ہی مزا دیتے ہیں۔ ہم نے خوب نعروں کے جواب دیے۔
قادیان میں اَور بھی جگہیں دیکھیں جن میں سرائے طاہر جہاں جامعہ احمدیہ قائم ہے۔ سرائے وسیم، سرائے خدمت اور دیگر گیسٹ ہاؤسز بھی دیکھے۔ دار الضیافت، دفاتر، مخزن تصاویرکی نمائش کے علاوہ ریلوے سٹیشن بھی دیکھا۔
قادیان میں ایک مزے کی چیز سائیکل رکشہ تھا۔ اس کی سواری بھی مزے کی تھی۔لیکن زیادہ تر قادیان میں ایک کونے سے دوسرے کونے تلک ہم نے پیدل ہی سفر کیا۔ جہاں جانا ہوتا ہم قادیان کی گلیوں کے اندر اندر سے گزرتے ہوئے پیدل ہی پہنچ جاتے۔
قادیان میں چند درویشان اور بہت سے بزرگان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ہمیں بہت سی نصائح کیں۔ہم پاکستان سےآئےاپنے کئی رشتہ داروں سے بھی ملے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جلسے کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کے درمیان محبت اور تعارف کا رشتہ قائم ہو جائے۔ تو ہم نے وہاں خوب دوست بھی بنائے۔
قادیان کے گلی کوچوں میں جلسے سے پہلے ہلکا پھلکا رش تھا جو روز بروز بڑھتا گیا۔ جلسے کے دنوں میں اتنی چہل پہل تھی کہ گزرنے کو رستہ بمشکل ملتا تھا۔ جلسہ ختم ہوا تو لوگوں کی بھیڑ بھی کم ہوگئی۔ اور ہمارے بھی واپس آنے کے دن قریب آنے لگے۔ دل اداس ہوگیا۔ اور پھر ہم نے واپس آنے سے پہلے ایک بار پھر پورا قادیان گھوم کر دیکھا۔ یکم جنوری کو ہم نے نئے سال کی تہجد ادا کی، خوب دعائیں کیں اور واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔
مَیں نے قادیان کا یہ سفر کئی سال پہلے کیا تھا لیکن جب بھی ایم ٹی اے پر یا کسی نظم یا پروگرام میں قادیان کا کوئی نظارہ دیکھتاہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میں بھی وہیں کسی گلی میں کھڑا ہوں۔ یہ تھا میرا ناقابلِ فراموش سفر نامہ۔
سر مبارک: شاباش امتثال، جزاکم اللہ تعالیٰ۔ آپ کا سفر نامہ سن کر تو میں بھی اپنے آپ کو قادیان کی گلیوں میں چلتا پھرتا محسوس کرنے لگا اور جلسہ کے نظارے میری آنکھوں کے سامنے آگئے۔ اور امتثال کا سفرنامہ سنتے سنتے تو پتا ہی نہیں لگا اور سارا وقت گزر گیا۔ تو بچو! اسے کہتے ہیں سفرنامہ۔ سر نے بچوں کو اپنے کسی سفر پر مضمون لکھنے کا کہا ہی تھا کہ گھنٹی بج گئی۔ سر نے سب بچوں کو اللہ حافظ کہا اور کلاس سے روانہ ہو گئے۔
٭…٭…٭