میرے پیارے والد محترم محمود احمد وینس صاحب کا ذکرِ خیر
ازل سے خدا کا یہ دستور ہے کہ جو کوئی اس دنیا میں آیا اُس نے اپنے خا لقِ حقیقی کی جانب لوٹنا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدا اور اُس کے رسولﷺ کی تعلیمات کے مطابق گزاری اور حقو ق اللہ و حقوق العباد کو خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہوئے نفسِ مطمئنہ کے ساتھ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضرہو گئے۔میں آج ایسے ہی ایک نیک و فرشتہ صفت انسان کا ذکرِ خیر کرنا چاہوں گا جن کا نام محمود احمد وینس تھا جو کہ میرے والد تھے۔آ پ ۲؍اپریل ۲۰۲۲ءکو ۸۲سال کی عمر میں جرمنی میں وفات پاگئے۔آپ محترم پروفیسرمحمد اسلم صابر صاحب (پروفیسر جامعہ احمدیہ کینیڈا، سابق نائب ناظر بیت المال اور سابق پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ )کے چھوٹے بھائی تھے۔
میرے والد مارچ ۱۹۴۰ء میں سیالکوٹ کے قریب ایک گاؤں وینس نیواں میں پید ا ہوئے۔ایف اے تک تعلیم ربو ہ سے حاصل کی اور اس کے بعد ۱۹۶۴ء میں میر پورخاص آگئے جہاں طویل عرصہ امیر ضلع میرپور خاص ڈاکٹر عبدالرحمٰن صدیقی صاحب مرحوم کے کلینک میں بحیثیت اسسٹنٹ کام کرتے رہے۔۱۹۷۵ء کے آس پاس کراچی منتقل ہوگئے اور وہاں پہلے کچھ سال پولٹری فارم میں بطور مینیجر اور اس کے بعد لیدر ٹینری میں مینیجر کے طور پر کام کرتے رہے۔
مرحوم نہایت دعاگو، مستجاب الدعوات اور خوفِ خدا رکھنے والے انسان تھے۔آپ کا ساری زندگی خدا کے ساتھ زندہ تعلق رہا جس کے گواہ نہ صرف اُن کے اہل و عیال بلکہ دیگر دوست احباب اور غیر بھی تھے۔خدا کے ساتھ ایسا زندہ تعلق دیکھ کر نہ صرف ایمان کو تقویت ملتی بلکہ روح تک سرشاری محسوس ہوتی۔تعلق باللہ آپ کا پسندیدہ مضمون تھا اور ہمیں اکثربزرگان کے قبولیتِ دعا کے واقعات سنایا کرتے۔حصولِ تعلیم کے دوران آپ جب ربوہ میں مقیم تھے تو حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ کی صحبت میں کچھ وقت گزارا، بالخصوص حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے ساتھ دعا کرنے کا موقع ملا جس کا ذکر اکثر و بیشتر کرتے تھے۔آپ حقوق اللہ کا بہت خیال رکھنے والے تھے۔ فرض نمازوں میںباقاعدگی اورنمازِ تہجدمکمل اہتمام کے ساتھ اداکرتے تھے۔ نمازِ فجر کے بعد تلاوتِ قرآن کریم ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھتے اور ساتھ ساتھ اپنے نوٹس بھی لیتے جاتے۔ کتب حضرت مسیح موعودؑ و دیگر جماعتی کتب ہمیشہ زیرِ مطالعہ رہتیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار خلفائے احمدیت کا دور دیکھنا نصیب فرمایا۔خلافت کے سچے عاشق اور نظامِ جماعت کے پابند تھے اور ہمیں بھی ہمیشہ نظامِ جماعت اور خلافت کے ساتھ وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے کی نصیحت کرتے رہتے۔آپ کو پہلے میر پورخاص اور پھر کراچی میں کم و بیش نصف صدی مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسا دل عطا کیا تھا جو ہمیشہ انسانیت کی خدمت کے لیے بے تاب رہتا، کیا اپنے اور کیا پرائے سب ہی اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مالی لحاظ سے کمزور افراد کی ہمیشہ اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرتے،صدقہ و خیرات بہت کثرت سے کرتے اور ہمیشہ اپنی جیب میں کھلے سکے یا چھوٹے نوٹ رکھتے جو راستے میں آتے جاتے فقراء میں تقسیم کرتے۔تما م عمر آپ کا یہ بھی طریق رہا کہ صبح سویرے اُٹھ کر پوری گلی میں جھاڑو سے صفائی کرتے۔ہم جہاں کہیں بھی رہائش پذیر رہے وہاں پڑوسی آج بھی آپ کے اعلیٰ اخلاق کے گُن گاتے ہیں۔اگرچہ لوگ جانتے تھے کہ ہمارا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور ہمیں مسلمان نہ سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود اُن کو اگر کوئی مشورہ یا مدد درکار ہوتی تو ابو سے ہی بات کرتے۔اپنے حسنِ اخلاق، ہنس مکھ رویے،دل موہ لینے والی عادات اورخدمتِ خلق کے کاموں کی وجہ سے آپ ہمیشہ لوگوں کے ہر دلعزیز رہے۔آپ کا ایک بنیادی وصف مہمان نوازی بھی تھا۔مہمان کو کچھ کھلائے پلائے بغیر کبھی رخصت نہ ہونے دیتے۔بالخصوص مربیان و واقفینِ زندگی کی مہمان نوازی میں تو کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان لوگوں کی خدمت کرنا مجھے خدمتِ دین جتنا عزیز ہے۔آتے جاتے ہر چھوٹے بڑے کو سب سے پہلے خود سلام کرتے۔
چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ہمیشہ کوشش ہوتی کہ اُن کی زبان یا کسی بھی عمل سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ انسان تو ایک طرف جانوروں اور چرند پرند کا بھی خیال رکھتے۔ہمیشہ ہماری والدہ کو کہہ کر ایک اضافی روٹی پکواتے اور اُس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے پرندوں کو کھلاتے۔گوشت کی دکان سے اکثر کچھ حصہ زیادہ خریدتے اور محلے میں موجود جانوروں کو کھلادیا کرتے۔
وقت کی پابندی، دیانت، محنت اور کام سے وفاداری اُن کے خون میں تھی اور انہی خصوصیات کی وجہ سے جہاں کہیں کام کیا، وہاں کے مالکان خواہش رکھتے کہ یہ ہمیں کبھی چھوڑ کر نہ جائیں۔آپ نے جہاں جہاں کام کیا وہاں آپ کو مالکانہ سے حقوق حاصل رہے اور تما م افسران اور ماتحت آپ کے دلدادہ تھے۔آپ کا حسنِ سلوک اپنے ماتحتوں سے قابلِ رشک ہوتا۔ اُن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، اُن کے مسائل سنتے اور اعلیٰ افسران سے ہمیشہ اُن کے حقوق کے لیے بات کرتے۔میر پورخاص اور اُس کے گردونواح میں کام کے دوران اکثر اوقات مریضوں کا تعلق ہندو مذہب سے ہوتا تھا۔کچھ ڈاکٹرز اور طبی عملہ اُن کے علاج میں شش و پنج سے کام لیتا تو ایسے موقع پر والد صاحب نہ صرف اُن کا علاج کرتے بلکہ اُن کے ساتھ بیٹھ کر اُن کے برتنوں میں کھانا بھی کھالیتے جو کہ اُس دور میں کچھ لوگوں کی نظر میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔
آپ ایک علم دوست انسان تھے۔ آپ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ کتب اور اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ کرتے۔آپ کے پاس دینی و دنیاوی معلومات کا ایک خزانہ تھا جس کی وجہ سے اپنے حلقۂ احباب میں خاصے مقبول تھے۔شعری و شاعر اور ادب سے بہت لگاؤتھا۔موقع کی مناسبت سے برمحل شعر سنانا آپ کا خاصہ تھا۔محدود وسائل کے باوجود ہم بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ایک بیٹی ڈاکٹر اور تین بیٹے انجینیر ہیں اور اپنے اپنے شعبہ جات میں کام کررہے ہیں۔اپنے دو بچوں کو وقفِ نو کی تحریک میں بھی شامل کیا۔کوئی نئی چیز سیکھنے پر ہمیشہ ہمیں شاباش دیتے۔کوئی اچھا شعر،محاورہ یا اچھی بات سنانے پر حوصلہ افزائی کے طور پرانعام ضرور دیتے۔آپ ایک نڈر اور پرجوش داعی الی اللہ تھے اور جہاں موقع ملتا بلا خوف و خطر جماعت کا پیغام پہنچاتے۔آپ کو قرآ ن و حدیث کے بے شمار حوالے زبانی یاد تھے جن سے ہمیشہ اپنی گفتگو کو مزین کرتے۔وفات کے وقت آپ کی عمر لگ بھگ ۸۲ برس تھی مگر زندگی بھر آپ کی صحت بہت اچھی رہی۔صحت کے حوالے سے ہمیشہ سنجیدہ رہے۔باقاعدگی سے ورزش کرتے، جتنا ممکن ہوتا پیدل چلنے کو ترجیح دیتے۔کھانے پینے کے معاملے میں بے حد محتاط تھے اور ہمیشہ کم کھانا کھاتے۔
مختصر یہ کہ آ پ نہایت اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔بےحد خوش گفتار اور ملنسار انسا ن تھے۔حالات کیسے بھی ہوں آپ ہر حالت میں مسکراتے دیکھا۔میرے والد صاحب اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اُن کی دی ہوئی اعلیٰ دینی و دنیاوی تربیت ہمارے ساتھ ہے۔ وہ ہمارے لیے دعاؤں کا ایک خزانہ چھوڑ گئے ہیں جس سے انشاء اللہ ہم مستفیض ہوتے رہیں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے والد کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین)