مسئلہ ظل و بروز کی حقیقت (قسط7۔ آخری)
(گذشتہ سے پیوستہ )گیارھویں صدی ہجری کے شیعہ مجدد علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’’بحار الانوار ‘‘میں امام مہدی ؑ کا مقام بیان کرتے ہو ئے حضرت امام با قرؒ کا یہ قول درج کیا ہے کہ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:’’یَقُوْلُ (الْمَہْدِیْ) یَا مَعْشَرَ الْخَلَائِقِ أَلَا وَ مَنْ أَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَی اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ فَھَا اَنَا ذَا اِبْرَاہِیْمُ وَاِسْمٰعِیْلُ أَلَا وَ مَنْ أَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَی مُوْسٰی وَ یُوْشَعَ فَھَا اَنَا ذَا مُوْسٰی وَ یُوْشَعُ أَلَا وَ مَنْ أَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَی عِیْسٰی وَ شَمْعُوْنَ فَھَا اَنَا ذَا عِیْسٰی وَ شَمْعُوْنُ أَلَا وَ مَنْ أَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَی مُحَمَّدٍ وَ اَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ (صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ) فَھَا اَنَا ذَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ أَلَا وَ مَنْ أَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ إلی الحسن والحسین علیھما السلام فھا أنا ذا الحسن والحسین، أَلَا وَ مَنْ أَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَ إلی الأئمّۃ من ولدی الحسین علیہ السلام فھا أنا ذا الأئمۃ علیھم السلام أجیبوا إلی مسألتی،فانّی أنبّئکم بما نبّتم بہ ومالم تبنّئوا بہ‘‘ (بحارالانوار جلد53۔ صفحہ9۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان. باب مایکون عند ظہورہ)‘‘اے گروہِ خلائق سنو! جو شخص حضرت آدمؑ اور حضرت شیثؑ کو دیکھنا چاہے وہ مجھے دیکھے میں وہی آدم اور شیث ہوں۔جو شخص حضرت نوحؑ اور ان کے فرزند سام کو دیکھنا چاہے وہ مجھے دیکھے میں وہی نوح اور سام ہوں۔اور جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو دیکھنا چاہتا ہو وہ مجھے دیکھے میں وہی ابراہیم و اسماعیل ہوں۔ اور جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت یوشع کو دیکھنا چاہتا ہو وہ مجھے دیکھے میں وہی موسیٰ و یوشع ہوں۔ اور جو حضرت عیسیٰؑ اور حضرت شمعون کو دیکھنا چاہے وہ مجھے دیکھے میں وہی عیسیٰ و شمعون ہوں۔آگاہ رہو!اور جو شخص حضرت محمدﷺاور حضرت امیر المومنین کو دیکھنا چاہے وہ مجھے دیکھے میں وہی محمدﷺاور امیر المومنین ہوں۔ آگاہ ہو کہ جو امام حسنؓ و امام حسینؓ کو دیکھنا چاہے وہ مجھے دیکھے میں وہی حسن و حسین ہوں اور جو امام حسین کی اولاد میں سے جو ائمہ ہیں انہیں دیکھنا چاہے وہ مجھے دیکھے میں وہی ائمہ ہوں۔میری پکار پر لبیک کہو اور آؤ میں وہ تمام باتیں تمہیں بتاؤں گا جو بتائی جا چکی ہیں اور وہ باتیں بھی بتاؤں گا جو اب تک نہیں بتائی گئی ہیں۔(بحار الانوار۔از محمد باقر مجلسی۔مترجم سید حسن امداد۔ جلد 12صفحہ483۔زیر باب نمبر 28زیر عنوان بیعت کا بیان۔محفوظ بُک ایجنسی کراچی۔بار دوم فروری2004ء)
اسی طرح شیعہ کتاب’’نجم الثاقب‘‘کے 92ویں نمبر پر مہدی علیہ السلام کا ایک لقب عین لکھا ہے پھر آگے لکھا ہے یعنی عین اللہ چنانچہ درزیارت آنجناب است (نجم الثاقب جلد 1صفحہ 69)
پس عارفین باللہ اور خدا رسیدہ اولیاء کرام کے نزدیک مثیل، بروز، نسخہ اور ظل وغیرہ الفاظ خالص اسلامی اور شرعی اصطلاحیں ہیں۔ہماری اردو زبان میں طاقت ور کو رستم، سخی کو حاتم، بہادر کو شیر، بزدل کو گیدڑ، چالاک کو لومڑی، بے وقوف کو گدھا، بدزبان کو کتا، شریر کو شیطان، نیک کو فرشتہ، نقال کو بندر، بے حیاء کو سؤر، خوبصورت کو یوسف، مظلوم کو حسین، ظالم کو یزید۔یہ سب نام صفاتی طور پر استعارہ کے رنگ میں دیے جاتے ہیں۔ اسی کو بروز، ظل اور مثیل کہا جاتاہے۔یہ تمام امور ہماری زبان میں شامل و متعارف ہیں اور ہر آدمی ان کو جانتا اور پہچانتا ہے۔
مشتے نمونہ ازخروارے کے طور پرڈاکٹر علامہ اقبال کے چند اشعار پیش ہیں:
کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے
چھوٹا سا طور تو، یہ ذرا سا کلیم ہے
(کلیات اقبال صفحہ65،بانگ درا صفحہ49)
یہاں طور اور کلیم دونوں بروز کے مفہوم میں استعمال ہوئے۔
ہر دل مئے خیال کی ہستی سے چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے
(کلیات اقبال صفحہ83،بانگ درا صفحہ79)
اس میں کلیموں (کلیم کی جمع) اور طور دونوں بروز کے مفہوم میں ہیں۔
یہ دور اپنے بر ا ہیم کی تلا ش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
(کلیا ت اقبا ل صفحہ 527با نگ درا صفحہ 27)
اس ابر اہیم سے مر ا د بر وز ابر اہیم ہے۔
قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے
تو مو من یا خا نہ جا نبا ز ہے یا حیدر کر ا ر
(کلیا ت اقبا ل صفحہ 539با نگ درا صفحہ39)
اس میں ہر صاحب تلوار کو مسلما ن کو جو میدا ن جنگ میں جو ہر دکھا نے کے قابل ہو حضرت خا لد ؓ او ر حضر ت علیؓ کا مثیل وبروز قراردیا گیا ہے۔پس جس طرح پانی یا آئینہ میں ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے اس عکس کو مجازاً کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے ایسے شخص کو مثیل، عکس،ہم صفت ہونے کے سبب بروزی طور پر اصل کا نام دینے کا محاورہ امت میں ابتدا سے آج تک مستعمل ہے۔اور یہی محاورہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ،حضرت شاہ ولی اللہ کے والد ماجد،حضرت شاہ ولی اللہ کے چچا حضرت شیخ ابو الرضا محمد نصر، حضرت شیخ محمد اکرم صابریؒ، حضرت سید عبد الکریم جیلانی ؒ،حضرت سید عبد القادر جیلانی،حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والےوغیرہم نے استعمال کیا۔پس کیا یہ تمام لوگ علوم اسلامیہ سے واقف نہ تھے؟غرض ظل و بروز، مثیل و ہم صفت وغیرہ یہ عین اسلامی تصور اور قرآن و حدیث اور بزرگان امت محمدیہ کے عین مطابق ہیں۔اوراسی محاورہ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے بارے میں استعمال فرمایا ہے۔
سورۃ الشعراء میں ہر نبی کے حالات بیان کرنے کے بعد ان الفاظ مبارکہ کا بار بار اعادہ ہواہے کہ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ:ترجمہ:اور ىقىناً تىرا ربّ ہى ہے جو کامل غلبہ والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (الشعراء: 176)گویا تخلیق کے آغاز سے قبل ہی ’’ك‘‘کی ضمیر کا مخاطب جو مقصود کائنات تھا تمام تخلیق کے سرخیل کے طور پر خالق حقیقی کے ہاں ثابت و متحقق تھا اور اس کے مقام و مرتبہ کی معرفت ہر نبی کے زمانہ میں ربّ کے ساتھ ’’ك‘‘کی عظیم نسبت کے اظہار سے ہوتی رہی اور فاطر السماوات والارض نے جس طرح ہر خلق کی فطرت و جبلّت میں اپنی معرفت کا بیج بو دیا کہ ہر عقلِ سلیم اور فہم مستقیم اس مدبر بالارادہ ہستی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے اسی طرح اس نے اپنے مظہر اتم حضرت محمد مصطفیٰ ؐ جو صفات الٰہیہ الاوّل اور الآخرکے بھی مظہر اتم ہیں کے مقام کی شناخت کا خمیر ہر قلب اہل بصیرت میں رکھ دیا تا مقام الوہیت کے ساتھ مقام محمدیت کا اظہار لازم ٹھہرے کلمہ طیبہ کے کلمات مبارکہ اسی حقیقت کے غماز ہیں۔مقام محمدیت کی حقیقی معرفت تو اہل اللہ اور عارفین باللہ کو عطا ہوئی جو ’’بعد از خدا بعشق محمد مخمرم ‘‘کی کامل تعبیر ہوتے ہیں پہلے عارفین باللہ کی ہمنوائی میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سو جب کہ نفس پاک محمدی ؐاپنے شدّت قرب اور نہایت درجہ کی صفائی کی وجہ سے وتر،کی حد سے آگے بڑھا اور دریائے الوہیت سے نزدیک تر ہوا تو اس ناپیدا کنار دریا میں جا پڑا اور الوہیت کے بحر اعظم میں ذرّہ بشریت گم ہو گیا۔ اور یہ بڑھنا نہ مستحدث اور جدید طور پر بلکہ وہ ازل سے بڑھا ہوا تھا اور ظلی اور مستعار طور پر اس بات کے لائق تھا کہ آسمانی صحیفے اور الہامی تحریریں اس کو مظہر اتم الوہیت قرار دیں اور آئینہ حق نما اس کو ٹھہراویں‘‘۔(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد دوم صفحہ274تا275)
پس تحریک احمدیت اس مسئلہ بروز پر یقین رکھتی ہے جو قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ سے مستنبط ہے اور جو اولیائے کرام اور صلحائے عظاّم کے ہاں متداول ہے۔ اگر کوئی اس کے ماخذ کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے تو یہ اس کی کج فہمی اور کوتاہ علمی پر دلالت کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے،سو میں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں بروز عیسیٰ وبروز محمدؐ ‘‘۔(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 28) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزیدفرماتے ہیں کہ’’اور چونکہ آنحضرت ﷺ کا حسب آیت واٰخرین منھم دوبارہ تشریف لانا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت ﷺکی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہٖ آنحضرت ﷺ کا ظہور تھا۔‘‘(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 263)
مسئلہ وحدت الوجود کی حقیقت
دلائل سے عاجز ایسے موقعوں پر بالعموم خلط مبحث کے طور پر وحدت الوجود کا ذکر بھی پیش کردیاکرتے ہیں۔اس بارے میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے درج ذیل دو اقتباسات ہی پیش کرنا کافی ہوں گے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’وجودی مذہب حق سے دور چلا گیا ہے اور اس نے صفات الٰہیہ کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے … وجودی اور شہودی میں اول الذکر تو وہی ہیں جو خلق الاشیاء ھو عین کہتے اور مانتے ہیں اور ثانی الذکر وہ ہیں جو فناء نظری کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ محبت میں انسان اس قدر استغراق کر سکتا ہے کہ وہ فنا فی اللہ ہو سکتا ہے…بایں ہمہ تصرفات الٰہیہ کا قائل ان کو بھی ہونا پ10ا ہے۔ خواہ وجودی ہوں۔ یا شہودی ہوں ان کے بعض بزرگ اور اہل کمال یا بایزید بسطامی ؒ سے لے کر شبلیؒ، ذوالنونؒ اورمحی الدین ابن عربیؒ تک کے کلمات علی العموم ایسے ہیں کہ بعض ظاہر طور پر اور بعض مخفی طور پر اسی طرف گئے ہیں۔ مَیں یہ بات کھول کر کہنی چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ان کو استہزاء کی نظر سے دیکھیں۔ نہیںنہیں۔ وہ اہل عقل تھے۔ بات یوں ہے کہ معرفت کا یہ ایک باریک اور عمیق راز تھا۔ اس کا رشتہ ہاتھ سے نکل گیا۔ یہی بات تھی اور کچھ نہیں ۔خدا تعالیٰ کے اعلیٰ تصرفات پر انسان ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہالِکُ الذَّات۔ انہوں نے انسان کو ایسا دیکھا اور ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلیں اور ذہن ادھر منتقل ہو گیا۔ پس یہ امر بحضور دل یاد رکھو کہ باوصفیکہ انسان صفائی باطن سے ایسے درجہ پر پہنچتا ہے (جیسا کہ ہمارے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اس مرتبۂ اعلیٰ پر پہنچے) کہ جہاں اسے اقتداری طاقت ملتی ہے لیکن خالق اور مخلوق میں ایک فرق ہے۔ اور نمایاں فرق ہے اس کو کبھی دل سے دور نہ کرنا چاہیے‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ74,73ایڈیشن1988ء)
حضور علیہ السلام مزیدفرماتے ہیں کہ’’جن لوگوں میں تقویٰ اور ادب ہے اور جنہوں نےلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنی اسرائیل: 37) پر قدم مارا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ وجودی نے جو قدم مارا ہے وہ حدّ ادب سے بڑھ کر ہے…غرض میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ فتنہ بھی منجملہ ان فتنوں کے جو اس وقت پھیلے ہوئے ہیں ایک سخت فتنہ ہے۔ جس نے فسق و فجور کا دریا چلا دیا ہے اور اباحت اور دہریت کے دروازوں کو کھول دیا ہے … غرض یہ بڑا ہی خطرناک زہر ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت بایزید بسطامی یا خواجہ جنید بغدادی یا سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے کلمات میں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جن سے جاہل یا تو ان کو کفر کی طرف منسوب کرتے تھے یا ان کے اقوال کو فرقہ ضالّہ وحدۃوجود کے لیے حجت پکڑتا ہے جیسے سبحانی ما اعظم شانی اور اللّٰہ فی جبّتی یہ ان کی غلط فہمی ہے جو وہ ان کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں۔ اول تو یہ صحیح طور پر معلوم نہیں کہ ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکلے بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر ہم مان بھی لیں کہ واقعی انہوں نے ایسے الفاظ بیان فرمائے ہیں تو ایسے کلمات کا چشمہ عشق اور محبت ہے ۔مثلاً ایک عاشق جوش محبت اور محویت عشق میں کہہ سکتا ہے؎
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
… اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لوہے کے ٹکڑے کو آگ میں ڈال دیا جاوے۔ یہاں تک کہ وہ سرخ انگارے کی طرح ہوجائے … اور وہ بظاہر ہوتا بھی آگ ہی ہے۔ اس سے جلا بھی سکتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ لوہا ہی ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول 545تا547،ایڈیشن 1988ء)
باقی یاد رہے کہ یہ تو بطور پیشگوئی قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا کہ جب حضرت امام مہدیؑ ان ظاہر پرست علماء کے سامنے اسلام اور قرآن کی حقیقی تعلیم پیش کریں گے تو وہ اپنے غلط تصوّرات کو اسلامی اور شرعی قرار دینے کی وجہ سے اس حقیقی تعلیم کو غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیں گے اور اس کی شدید مخالفت کریں گے۔
مشتے نمونہ از خروارے چند حوالہ جات پیش ہیں۔مثلاًمعروف اہل حدیث عالم اور مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:’’چوں مہدی علیہ السلام مقاتلہ بر احیائے سنت و اماتت بدعت فرمائد علماء وقت کہ خوگر تقلید فقہاء و اقتدائے مشائخ و آباء خود باشند گویند ایں مرد خانہ بر انداز دین و ملت ما است و بمخالفت بر خیزند و حسب عادت خود حکم بتکفیر و تضلیل دہ کنند‘‘یعنی جب امام مہدی علیہ السلام سنت کو زندہ کرنے کے لیےاور بدعت کو مٹانے کے لیے جدوجہدکریں گے تو علمائے وقت جو فقہاء اور مشائخ اور آباء کی تقلید کے عادی ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین و مذہب کو برباد کرنے والا ہے۔اور مخالف میں اٹھ کھڑے ہوں گے۔اور اپنی عادت کے مطابق اسے گمراہ اور کافر ٹھہرائیں گے۔(حجج الکرامہ :363)
اس سے بھی بڑھ کر نواب نور الحسن خان صاحب ابن نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:’’یہی حال امام مہدی کا ہو گا کہ اگر وہ آگئے سارے مقلد بھائی ان کے دشمن جانی بن جاویں گے اوران کے قتل کی فکر میں ہوں گے کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے۔‘‘(اقتراب الساعۃ : 224) اسی طرح موصوف اپنی کتاب ’’آثار قیامت و ظہور حجت ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’مہدی کے زمانہ میں علماء گمراہ کرنے والے ہوں گے اور زمین پر سب سے زیادہ علماء شریر ہوں گے کیونکہ وہ فلسفہ اور تصوف کی جانب مائل ہو جائیں گے۔‘‘(آثار قیامت و ظہور حجت: صفحہ69,68)
بلکہ حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے قبل از وقت اس صورتحال سے عارفین باللہ کو آگاہ فرما دیا تھا اور یہ بھی علم غیب ہے جو الہام کے بغیر ممکن نہیں۔چنانچہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:’’نسخ این شریعت مجوَّز نیست،نزدیک است کہ عُلماءِظواہرمجتَہَداتِ اُو رَاعَلیٰ نبیِّنا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام از کمالِ دِقَّتْ وَغُمُوضِ مَأْخذ انکار نمایند و مُخالِفِ کتاب و سنّت دانند…کہ دیگران درفہمِ آن عاجِز وقاصر اند،و مجتہَدات او را بواسطہ دِقَّتِ مَعانی مُخالِفِ کتاب و سنت دانند،و اُو رَا وَاَصحابِ اُو رَا اَصحابِ رای پندارند کل ذٰلک لعدم الوصول الی حقیقۃ علمہ و درایتہ و عدم الاطلاع علی فہمہ‘‘(مکتوبات امام ربانی،دفتر دویم،درمطبع ایجوکیشنل مالکان سعید ایچ ایم کمپنی،ادب منزل پاکستان چوک،کراچی۔1397ھ۔1977ء صفحہ154مکتوب55)ترجمہ:کیونکہ اس شریعت کا نسخ جائز نہیں۔عجب نہیں کہ علماء ظاہرحضرت عیسیٰ علیہ السلام(یعنی موعود مسیح ومہدی۔ناقل)کے مجتہدات سے ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کرجائیں،اور ان کو کتاب وسنت کے مخالف جانیں… اور ان کو اور ان کے اصحاب کو اصحاب الرائے کہتے ہیں اور یہ سب کچھ ان کی حقیقت وروایت تک نہ پہنچنے اور ان کے فہم وفراست پر اطلاع نہ پانے کا نتیجہ ہے۔(مکتوبات امام ربانی۔مکتوب نمبر 55۔اردو ترجمہ از قاضی عالم الدین نقشبندی مجددی،جلد دوم و سوم صفحہ 193۔مطبع رضا پرنٹر،اسلامی کتب خانہ لاہور پاکستان)
پس حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کے آئینہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ معانی ومعارف کا انتہائی درجہ دقیق،گہرا اور بلند پایہ ہونا اوربالمقابل معترضین کا ظاہر پرست اور پست خیال ہونا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔
کیونکہ ہمارا مسلک تو یہ ہے:تشبیہ اور حضورؐ کے حسن و جمال کی!یعنی مثال ہی نہ ہو جس بے مثال کی
حضرت مرزا نے اپنے آپ کو حضرت محمدﷺ کا شاگرد، کامل فرمانبردار اور ادنیٰ ترین غلام قرار دیا ہے۔اپنےعربی قصیدہ میں عرض کرتے ہیں:
اُنْظُرْ اِلَیَّ بِرَحْمَۃٍ وَ تَحَنُّنٍ
یَا سَیِّدِیْ اَنَا اَحْقَرُ الْغِلْمَانٖ
یعنی(یا رسول اللہﷺ!)مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کیجئے اے میرے آقاؐ میں بھی تو آپ کاایک ناچیز غلام ہوں۔(آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد 5صفحہ 594)
آپ علیہ السلام کو الہام ہوا : ’’کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مَحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم‘‘(حقیقة الوحی،روحانی خزائن جلد22 صفحہ 73) کہ تمام قسم کی برکتیں حضرت محمدﷺ سے ہی ہیں۔
اس لیے آپؑ کے دعویٰ مسیح و مہدی کی بنا ہی یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ پایا،حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات میں فنا ہوکر اورآپؐ کے سچے عشق اور کامل اطاعت کی برکت سے پایا۔
آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد ّ دلبر میرا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں
اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں
بس فیصلہ یہی ہے
سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم ،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ456)