گنی بساؤ میں مسجد احسان کا افتتاح
سلامتی و امن کے پرچار اور حقیقی اسلام کی اشاعت کےلیے جماعت احمدیہ گنی بساؤ کے ایک علاقہ Begini میں خدا کے فضل سے احباب ِجماعت کومسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔الحمد للہ علیٰ ذالک
Beginiکا علاقہ دارالحکومت بساؤ سے ایک سو آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں پر احمدیت کا آغاز ۱۹۹۴ء میں ہوا جب پورا گاؤں احمدی ہو گیا تھا۔ مگر ۲۰۰۱ء میں حالات خراب ہوئےاور حکومتی سطح پر جماعت کی سخت مخالفت کی گئی اور لوگوں کو زبردستی احمدیت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں گنتی کے چند لوگ باقی رہ گئے۔ باقی رہنے والے مخلصین مرکزی مسجد میں ہی نماز پڑھا کرتے تھے جس میں مختلف شریر ملاں آکر جماعت احمدیہ اور بانیٔ جماعت کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے تھے۔ اس بنا پر الگ جگہ ایک کمرے میں چند نفوس نے نماز پڑھنا شروع کی جس کی مقامی لوگوں نے شدید مخالفت کی اور کئی بار نماز سینٹر کو گرانے کی کوشش کی گئی۔ مگر مخلصین نے نماز کا سلسلہ جاری رکھا۔
۲۰۱۷ء میں مشنری انچارج مکرم محمد احسن میمن صاحب نے حالات کی بنا پر اپنی مسجد بنانے کی تحریک کی جس کے لیےوہاں کے لوگوں نے جگہ دینے سے انکار کر دیااور اگر کوئی دینے پر رضا مند ہوتا بھی تو اس کو ڈرا دھمکا کر منع کر دیا جاتا۔پھر جماعت کے ایک مخلص فرد استاد ہارون صاحب نے اپنا لیمن کا باغ جو کہ ۵۹ فٹ چوڑا اور ۹۸ فٹ لمبا ہے مسجد کے لیے ہدیہ کیا۔ یہ پہلےگاؤں کی مرکزی مسجدکے امام تھے اور احمدی ہونے کے بعد ان کو کہا گیاکہ یا امامت چھوڑ دو یا احمدیت چھوڑ دو۔اس پر انہوں نے کہا کہ احمدیت تو میں اب کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا سو امامت چھوڑ دی۔ہدیہ کیے جانے والے پلاٹ میں احباب جماعت نے پُرجوش ہو کر وقارعمل کے ذریعے سے سب درخت کاٹے اور مسجد کے کام کا آغاز ایک ہفتہ میں شروع کر دیا۔ مسجد کی دیواریں بلند ہونے پر باجماعت نماز کا آغاز ہو گیا۔ ابھی مسجد کی کھڑکیاں دروازے نہیں لگے تھے کہ احباب ِجماعت نے ایم ٹی اے لگانے کی درخواست کی اور کہا ہم اس کی حفاظت کے لیے رات مسجد میں سوئیں گےاور پھر یہ قربانی عملی رنگ میں بھی کر کے دکھائی۔
مسجد کا باقاعدہ افتتاح مورخہ۱۰؍جنوری ۲۰۲۳ء کو مکرم مشنری انچارج صاحب نے کیا۔ جس میں ارد گرد کے دیہات سے دیگر احمدیوں اور بعض غیر ازجماعت دوستوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا تین غیر از جماعت دوستوں نے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔
پہلے دوست محمود سیسے صاحب تھے یہ غیر از جماعت احباب کی مرکزی مسجد کے موذن ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو یہاں دیکھا وہ سچا اسلام ہے۔وہ جماعت کے بارے میں مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ احمدیت سیدھے راستے پر ہے۔
دوسرے دوست بکری ڈافے صاحب ہیں انہوں نے کہا کہ احمدیت کے برحق ہونے پر ان کو کوئی شک باقی نہیں رہا۔ جو جماعت احمدیہ کا موقف ہے وہ واضح اور پُریقین ہےاور جو دوسرے بیان کرتے ہیں وہ مبہم اور تحقیق طلب ہے۔ وہ جماعت کے قریبی دوست ہیں اور کہا مخالفین جماعت کے بارے میں غلط باتیں پھیلاتے ہیں۔
تیسرے دوست الحسینی بالدے ہیں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے احمدیت کی وجہ سے نماز پڑھنی سیکھی۔ان کے تمام بچے احمدیہ مسجد میں آتے ہیں اور یہاں سے اسلام کی حقیقی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں جب کچھ غلط پڑھتا ہوں تو میرے بچے میری اصلاح کرتے ہیں۔پھر انہوں نے جماعت احمدیہ کے لگائے پانی کے پمپ کی بھی تعریف کی اور کہا کہ آغاز میں سب نے مخالفت کی اور پانی کے استعمال کا بائیکاٹ کیا۔مگر اب گاؤں کے اور اردگرد کے سارے کنویں خشک ہو گئے ہیں صرف ایک یہ پمپ ہے جہاں سے سارا گاؤں پانی بھرتا ہے۔ چند غیراز جماعت احباب کو بعض وجوہات کی بنا پر مدعو نہیں کیا گیا مگر جب ان کو پتہ چلا تو وہ خود ہی آ گئے اور کہا کہ آپ ہمیں ایسے پروگرامزمیں ضرور بلائیں ہمیں یہاں آنا اچھا لگتا ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیم سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔
مسجد کا احاطہ
یہ مسجد ۲۶؍ فٹ چوڑی اور ۳۳؍ فٹ لمبی ہے اور اس مسجد میں ۱۲۰؍ کے قریب نمازی آسانی سے نماز پڑھ سکتے ہیں۔اس مسجد کا نا م حضور انور ایدہ اللہ نے از راہ شفقت مسجد بیت الاحسان عطا فرمایا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے ہر لمحہ پر خلیفۂ وقت کی دعائیں ساتھ ساتھ رہیں۔مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایک سو پچاسی سے زائد افراد نے شمولیت کی۔
(رپورٹ : زاہد احمد بھٹی۔ مبلغ سلسلہ گنی بساؤ)