براہین احمدیہ حصہ پنجم کی اشاعت میں ۲۳سالہ تاخیر کی الٰہی حکمتیں
براہین احمدیہ۔ حقانیت اسلام کا زندہ و تابندہ کا نشان
براہین احمدیہ میں صداقت اسلام کے واسطے کئی لاکھ دلائل موجود ہیں۔ (حضرت مسیح موعودؑ)
حقیقت یہ ہے کہ براہین احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ اور جماعت احمدیہ کے ساتھ رونما ہونے والے تمام عظیم واقعات کا خلاصہ ہے اس میں اردو، فارسی،انگریزی،عبرانی ا ور عربی زبانوں میں کثیر الہامات موجود ہیں جو اکثر پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ براہین جلد 5 کی اشاعت تک پورا ہو کر اسلام کی سچائی ظاہر کر چکا تھا اور یہی اس کتاب کا مقصود تھا
براہین احمدیہ کیا ہے؟
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کا تعارف کراتے ہوئے اس کے 6قسم کے فوائد اور مقاصد کا ذکر کیا ہے۔ ان کا خلاصہ حضورؑ کے الفاظ میں یہ ہے۔
1۔’’وہ تمام صداقتیں کہ جن پر اصول علم دین کے مشتمل ہیں اور وہ تمام حقائق عالیہ کہ جن کی ہیئت اجتماعی کا نام اسلام ہے وہ سب اس میں مکتوب اور مرقوم ہیں۔ اور یہ ایسا فائدہ ہے کہ جس سے پڑھنے والوں کو ضروریات دین پر احاطہ ہوجاوےگا اور کسی مغوی اور بہکانے والے کے پیچ میں نہیں آئیں گے۔‘‘
2۔ ’’یہ کتاب تین سو محکم اور قوی دلائل حقیت اسلام اور اصول اسلام پر مشتمل ہے کہ جن کے دیکھنے سے صداقت اس دین متین کی ہریک طالب حق پر ظاہر ہوگی۔‘‘
3۔ ’’جتنے ہمارے مخالف ہیں یہودی۔ عیسائی۔ مجوسی۔ آریہ۔ برہمو۔ بت پرست۔ دہریہ۔ طبعیہ۔ اباحتی۔ لامذہب سب کے شبہات اور وساوس کا اس میں جواب ہے۔… بلکہ یہ ثابت کرکے دکھلایا گیاہے کہ جس امر کو مخالف ناقص الفہم نے جائے اعتراض سمجھا ہے وہ حقیقت میں ایک ایسا امر ہے کہ جس سے تعلیم قرآنی کی دوسری کتابوں پر فضیلت اور ترجیح ثابت ہوتی ہے نہ کہ جائے اعتراض۔‘‘
4۔ ’’اس میں بمقابلہ اصول اسلام کے مخالفین کے اصول پر بھی کمال تحقیق اور تدقیق سے عقلی طور پر بحث کی گئی ہے اور تمام وہ اصول اور عقائد ان کے جو صداقت سے خارج ہیں بمقابلہ اصول حقہ قرآنی کے ان کی حقیقت باطلہ کو دکھلایا گیا ہے۔ کیونکہ قدر ہریک جوہر بیش قیمت کا مقابلہ سے ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
5۔ ’’اس کے پڑھنے سے حقائق اور معارف کلامِ ربانی کے معلوم ہوجائیں گے اور حکمت اور معرفت اس کتاب مقدس کی …منکشف ہوجائے گی۔ کیونکہ تمام وہ دلائل اور براہین جو اس میں لکھی گئی ہیں اور وہ تمام کامل صداقتیں جو اس میں دکھائی گئی ہیں وہ سب آیات بینات قرآن شریف سے ہی لی گئی ہیں اور ہریک دلیل عقلی وہی پیش کی گئی ہے جو خدا نے اپنی کلام میں آپ پیش کی ہے۔‘‘
6۔ ’’اس کتاب کے مباحث کو نہایت متانت اور عمدگی سے قوانین استدلال کے مذاق پر مگر بہت آسان طور پر کمال خوبی اور موزونیت اور لطافت سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ایک ایسا طریقہ ہے کہ جو ترقی علوم اور پختگی فکر اور نظر کا ایک اعلیٰ ذریعہ ہوگا۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1 صفحہ129 تا 131)
ان سب مقاصد کو ملحوظ رکھ کر براہین احمدیہ اللہ تعالیٰ کی خاص بشارات اور تقدیروں کے ماتحت لکھی گئی۔یہ اللہ اور اس کے دین کی صداقت کے لیے حجت قاطعہ ہے۔ یہ کتاب جب آقا مکی ومدنی کے دست مبارک میں آتی ہے تو ایک خوش رنگ میوہ بن جاتی ہے اور یہ میوہ جب اسلام کے جسم کا حصہ بنتا ہے تو اس کے تن مردہ میں ایک نئی روح پڑ جاتی ہے۔اور اس کا رس دین کی نشأة ثانیہ کے لیے آبِ حیات کا کام دیتا ہے۔(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ275)۔براہین احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ کے علم لدنی کا بے مثال شا ہکار ہے۔ اگر اس کا خلاصہ دو فقروں میں نکالنا مقصود ہو تو وہ یوں بنتا ہے۔ اسلام کامل مذہب ہے اور اسلام زندہ مذہب ہے۔اس کتاب کے تمام مضامین انہی دو چشموں سے پھوٹتے اور قرآن کی صداقت کو آشکارا کرتے ہوئے بالآخر دلائل حقیت اسلام کے لامتناہی سمندر میں جا گرتے ہیں۔ پس براہین احمدیہ صداقت اسلام و قرآن کے دلائل کے سمندر کی طرف بہنے والا ایک دریا ہے۔
براہین احمدیہ کا ماحول
آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل یہ دنیا اپنی تاریخ کے ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہی تھی۔ حضرت نبی اکرم ﷺ کے زمانہ بعثت کو چھوڑ کر ایسا عالمگیر تاریکی کا زمانہ دنیا پر کبھی نہ آیا تھا۔ مادیت کی شرر بار ہواؤں نے ہر خِرمَن ایمان کو جلا دیا تھا۔ دکھوں کے بیو پاریوں نے محبت اور پیار کا ہر پھول انسانیت کی ڈالی سے نوچ پھینکا تھا تاریکی کے فرزندوں نے روحانیت کی ہر چنگاری تک بجھا دی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دین حق اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب اسلام ہر طرف سے نرغہ ٔ اعداء میں تھا اور ہر مذہب و ملت کے علمبردار اس آسمانی مشعل کو بجھانے کے لیے ہر ممکن کو شش کر رہے تھے۔ اسلام کا دل اپنوں کے سلوک سے پارہ پارہ اور سینہ دشمنوں کے تیروں سے چھلنی ہو چکا تھا۔ ایسے تاریک و تار وقت میں ضرورت تھی کہ خدا کی تجلیات کا سورج اس کے کسی پاک بندے کے افق قلب سے طلوع ہو کر دنیا میں اجالا کرے اور دین کو ایک نئی زندگی عطا کرے اور تمام باطل عقیدوں اور جھوٹے مذاہب کا استیصال کر کے دنیا میں تو حید رب کریم اور عظمت خیر الانام ﷺ کو قائم کرے۔
چنانچہ خدا نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور اپنے ایک بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکات خاصہ سے مشرف کر کے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرۂ کامل بخش کر شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجااور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات اور روحانی معارف اور دقائق کا اسلحہ ساتھ دیا تا اس آسمانی پتھر کے ذریعے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جسے سحر فرنگ نے تیار کیا ہے۔
یہ وجود حضرت اقدس محمد مصطفےٰ ﷺکے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود و مہدی موعود کا تھا۔اور آپ کو جو آسمانی تحائف عطا کیےگئے ان میں سے ایک بہت شیریں میوہ براہین احمدیہ کے نام سے موسوم ہے۔
براہین احمدیہ کا مدعا
براہین احمدیہ کا مدعا اور مقصود کیا ہے؟حضرت مسیح موعودؑ خود فرماتے ہیں:’’سب طالبان حق پر واضح ہو جو مقصود اس کتاب کی تالیف سے جو موسوم بالبراہین الاحمدیہ علی حقیت کتاب اللہ القرآن والنبوة المحمدیہ ہے یہ ہے جو دین اسلام کی سچائی کے دلائل اور قرآن مجید کی حقیت کے براہین اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق رسالت کے وجوہات سب لوگوں پر بوضاحت تمام ظاہر کئے جائیںاور نیز ان سب کو جو اس دین متین اور مقدس کتاب اور برگزیدہ نبی سے منکر ہیں ایسے کامل اور معقول طریق سے ملزم اور لاجواب کیا جائے جو آئندہ ان کو بمقابلہ اسلام کے دم مارنے کی جگہ نہ رہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ23) ’’اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیاگیا ہے۔ (۱) اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالفِ اسلام ان دلائل کو توڑدے تو اُس کو دس ہزار روپیہ دینے کااشتہار دیا ہوا ہے اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لیے عدالت میں رجسٹری بھی کرالے۔ (۲) دوم اُن آسمانی نشانوں سے کہ جو سچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لئے از بس ضروری ہیں۔ اس امر دوم میں موٴلف نے اس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہوجائے تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں۔
اوّل وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانہ میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دُعا اور توجّہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو موٴلف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے۔
دوم وہ نشان کہ جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر یک عام و خاص پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا۔
سوم وہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسولؐ بر حق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتی ہیں جن کے اثبات میں اس بندہٴ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادرِ مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے سچّے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیّہ اور اسرار لدنیہ اور کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کہ جو خود اس خادمِ دین سے صادر ہوئی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ سے) بشہادت رویت گواہ ہیں کتاب موصوف میں درج کئے ہیں۔‘‘ (برکات الدعا، روحانی خزائن جلد6 صفحہ38-39)
300دلائل کا مجموعہ
آپؑ نے اس کتاب میں اسلام کی صداقت کے تین سو دلائل لکھنے کا اعلان کیا۔ فرماتے ہیں:’’یہ کتاب تین سو محکم اور قوی دلائل حقیت اسلام اور اصول اسلام پر مشتمل ہے کہ جن کے دیکھنے سے صداقت اس دین متین کی ہر یک طالب حق پر ظاہر ہو گی بجز اس شخص کے کہ بالکل اندھا اور تعصب کی سخت تاریکی میں مبتلا ہو۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ129)
ایک عظیم الشان اور فقیدالمثال امتیاز اس کتاب کا یہ ہے کہ اس میں بیان کردہ تمام دلائل خود قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔دعویٰ بھی قرآن کا ہے اور دلیل بھی قرآن کی ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں:’’ہم نے اس کتاب میں جس قدر دلائل حقیت قرآن مجید اور براہین صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم لکھی ہیں یا جو جو فضائل اور محاسن قرآن شریف کے اور آیات بینات منجانب اللہ ہونے اس کتاب کے کتابِ ہٰذا میں درج کئے ہیں یا جس طور کا اس کی نسبت کوئی دعویٰ کیا ہے وہ سب دلائل وغیرہ اسی مقدس کتاب سے ماخوذ اور مستنبط ہیں یعنی دعویٰ بھی وہی لکھا ہے جو کتاب ممدوح نے کیا ہے اور دلیل بھی وہی لکھی ہے جو اسی پاک کتاب نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ نہ ہم نے فقط اپنے ہی قیاس سے کوئی دلیل لکھی ہے اور نہ کوئی دعویٰ کیا ہے۔ چنانچہ جا بجا وہ سب آیات کہ جن سے ہماری دلائل اور دعاوی ماخوذ ہیں۔ درج کرتے گئے ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ88)
براہین احمدیہ میں آپ نے تمام مذاہب عالم کو دس ہزار روپیہ کا انعامی چیلنج دیتے ہوئے یہ پُرشوکت اعلان فرمایا کہ جو شخص حقیت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاءﷺ کے ان دلائل کا جوآپ نے قرآن مجید سے اخذ کر کے پیش فرمائے ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے آدھا یا تہائی یا چوتھائی یا پانچواں حصہ ہی نکال کر دکھلائے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو حضور ہی کے دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو آپ بلاتامل اپنی دس ہزار کی جائیداد اس کے حوالے کر دیں گے ۔آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس کتاب میں یہ بھی خوبی ہے جو اس میں معاندین کے بیجا عذرات رفع کرنے کے لئے اور اپنی حجت ان پر پوری کرنے کے لئے خوب بندوبست کیا گیا ہے یعنی ایک اشتہار تعداد ی دس ہزار روپیہ کا اسی غرض سے اس میں داخل کیا گیا ہے کہ تامنکرین کو کوئی عذر اور حیلہ باقی نہ رہے اور یہ اشتہار مخالفین پر ایک ایسا بڑا بوجھ ہے کہ جس سے سبکد وشی حاصل کرنا قیامت تک ان کو نصیب نہیں ہو سکتا اور نیز یہ ان کی منکر انہ زندگی کو ایسا تلخ کرتا ہے جو انہیں کاجی جانتا ہو گا۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ9-10)
اس عظیم الشان کتاب کے پہلے دو حصے 1880ء میں، تیسرا حصہ1882ء میں اور چوتھا حصہ1884ء میں شائع ہوا۔آپ کو مدتوں قبل عالم شباب میں اس کتاب کی تصنیف سے متعلق اللہ تعالیٰ نے بشارت دی تھی۔جس کے متعلق تفصیلی رؤیا براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1کے صفحہ 275 پر درج ہے۔
عظیم بشارت
حضرت مسیح موعودؑ کے اس خواب سے بہت پہلے مشرق و سطیٰ کے ایک قدیم بزرگ حضرت یحییٰ بن عقب نے اپنے ایک الہامی قصیدہ میں مہدی موعود کی صداقت کا ایک نشان یہ بتلا یا تھا۔
ویاتی بالبراہین اللواتی
تسلمہا البریة بالکمال
یعنی مہدی موعود آنحضرت ﷺ کی سچائی کے ایسے براہین لائے گا جن کو اس کے کمالات کی وجہ سے خلقت تسلیم کرے گی۔ (شمس المعارف الکبریٰ جلد1صفحہ340)
دلائل کا طریقہ کار
دلائل کے لیےحضرت مسیح موعودؑنے اپنا لائحہ عمل اور طریق کار بھی مقرر کر دیا تھا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’جو دلائل اور براہین فرقان مجید کی کہ جن سے حقیت اس کلام پاک کی اور صدق رسالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ثابت ہوتا ہے دو قسم پر ہیں۔
اول۔ وہ دلائل جو اس پاک کتاب اور آنحضرتؐ کی صداقت پر اندرونی اور ذاتی شہادتیں ہیں یعنی ایسی دلائل جو اسی مقدس کتاب کے کمالات ذاتیہ اور خود آنحضرتؐ کی ہی خصال قدسیہ اور اخلاق مرضیہ اور صفات کاملہ سے حاصل ہوتی ہیں۔
دوسری وہ دلائل جو بیرونی طور پر قرآن شریف اور آنحضرتؐ کی سچائی پر شواہد قاطعہ ہیں۔ یعنی ایسی دلائل جو خارجی واقعات اور حادثات متواترہ مثبتہ سے لی گئی ہیں۔
اور پھر ہر یک ان دونوں قسموں کی دلائل سے دو قسم پر ہے۔دلیل بسیط اور دلیل مرکب۔
دلیل بسیط وہ دلیل ہے جو اثبات حقیت قرآن شریف اور صدق رسالت آنحضرتؐ کےلئے کسی اور امر کے الحاق اور انضمام کی محتاج نہیں۔
اور دلیل مرکب وہ دلیل ہے جو اس کے تحقق دلالت کے لئے ایک ایسے کل مجموعے کی ضرورت ہے کہ اگر من حیث الاجتماع اس پر نظر ڈالی جائے یعنی نظر یکجائی سے اس کی تمام افراد کو دیکھا جائے تو وہ کل مجموعی ایک ایسی عالی حالت میں ہوجو تحقق اس حالت کا تحقق حقیت فرقان مجید اور صدق رسالت آنحضرتؐ مستلزم ہو اور جب اجزا اس کی الگ الگ دیکھی جائیں تو یہ مرتبہ برہانیت کا جیسا کہ ان کو چاہئے حاصل نہ ہو۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ31تا36)
حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا:
باب اول: حقیت اسلام کی بیرونی شہادتیں
ذیلی ابواب:امور محتاج الاصلاح۔ امور محتاج التکمیل۔ امور قدرتیہ۔ امور غیبیہ
باب دوم: حقیت اسلام کی اندرونی شہادتیں
باب سوم: نبی اکرم ﷺ کی صداقت کی بیرونی شہادتیں
باب چہارم: نبی اکرم ﷺ کی صداقت کی اندرونی شہادتیں
تائید اسلام کا دوسرا رخ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی صداقت کے ان 300دلائل کوتفصیل سے بیان کرنے کے لیے 50جلدوں میں لکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ مگر یہ سلسلہ ابھی جلد چہارم تک پہنچا تھا کہ مشیت ایزدی کی تاریں ہلنے لگیں۔خدا تعالیٰ نے آپ کو تاج ماموریت سے سرفراز فرمایا۔ اور آپ ایک دوسرے رخ سے اسلام کے دفاع اور تائید میں مصروف ہو گئے۔آپ نے براہین احمدیہ جلد چہارم کے آخر پر اس کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا: ’’ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس کے قدرت الہٰیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبرد ی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردۂ غیب سے انی انا ربک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی۔ سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہراً و باطناً حضرت رب العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1صفحہ673)اس کے بعد قضا و قدر کے مصالح سے اس کتاب کی اشاعت 23سال تک معرض التوا میں رہی اور پھر1905ء میں حضورؑ نے اس کتاب کا حصہ پنجم رقم فرمایا اور اس التوا کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھا:
التوا کی حکمتیں
اما بعد واضح ہوکہ یہ براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ ہے کہ جو اس دیباچہ کے بعد لکھا جائے گا۔ خدا تعالیٰ کی حکمت اورمصلحت سے ایسا اتفاق ہوا کہ چار حصےّ اس کتاب کے چھپ کر پھر تخمیناً تیئس۲۳ برس تک اس کتاب کا چھپنا ملتوی رہا۔ اور عجیب تریہ کہ اسی۸۰کے قریب اِس مدت میں مَیں نے کتابیں تالیف کیں جن میں سے بعض بڑے بڑے حجم کی تھیں لیکن اِس کتاب کی تکمیل کے لئے توجہ پیدا نہ ہوئی اور کئی مرتبہ دل میں یہ درد پیدا بھی ہوا کہ براہین احمدیہ کے ملتوی رہنے پر ایک زمانہ دراز گذر گیا مگر باوجود کوشش بلیغ اور باوجود اس کے کہ خریداروں کی طرف سے بھی کتاب کے مطالبہ کے لئے سخت الحاح ہوا اور اس مدت مدید اور اس قدر زمانہ التوا میں مخالفوں کی طرف سے بھی وہ اعتراض مجھ پر ہوئے کہ جو بدظنی اور بدزبانی کے گند سے حد سے زیادہ آلودہ تھے اور بوجہ امتدادمدت درحقیقت وہ دلوں میں پیدا ہوسکتے تھے مگر پھر بھی قضاء و قدر کے مصالح نے مجھے یہ توفیق نہ دی کہ میں اس کتاب کو پورا کرسکتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ قضاء وقدر درحقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کے احاطہ سے باہر نکل جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔مجھے اس بات پر افسوس ہے بلکہ اس بات کے تصور سے دل دردمند ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جو اس کتاب کے خریدار تھے اس کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی دنیا سے گذر گئے مگر جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں انسان تقدیر الٰہی کے ماتحت ہے اگر خدا کا ارادہ انسان کے ارادہ کے مطابق نہ ہو تو انسان ہزار جدوجہد کرے اپنے ارادہ کو پورا نہیں کرسکتا۔ لیکن جب خدا کے ارادہ کا وقت آجاتا ہے تو وہی امور جو بہت مشکل نظر آتے تھے نہایت آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔
اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے تمام کاموں میں حکمت اورمصلحت ہوتی ہے تواس عظیم الشان دینی خدمت کی کتاب میں جس میں اسلام کے تمام مخالفوں کا رد مقصود تھا کیا حکمت تھی کہ وہ کتاب تخمیناً۲۳برس تک مکمل ہونے سے معرض التوا میں رہی۔ اس کا جواب خدا ہی بہتر جانتا ہے کوئی انسان اس کے تمام بھیدوں پر محیط نہیں ہوسکتامگر جہاں تک میرا خیال ہے وہ یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصے کہ جو شائع ہوچکے تھے وہ ایسے امور پرمشتمل تھے کہ جب تک وہ امور ظہور میں نہ آجاتے تب تک براہین احمدیہ کے ہر چہار حصّہ کے دلائل مخفی اور مستور رہتے اور ضرور تھا کہ براہین احمدیہ کا لکھنا اس وقت تک ملتوی رہے جب تک کہ امتدادِ زمانہ سے وہ سربستہ امور کھل جائیں اور جو دلائل اُن حصوں میں درج ہیں وہ ظاہر ہوجائیں کیونکہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصوں میں جو خدا کاکلام یعنی اس کا الہام جابجا مستور ہے جو اس عاجز پر ہوا وہ اس بات کا محتاج تھا جو اس کی تشریح کی جائے اور نیز اس بات کا محتاج تھا کہ جو پیشگوئیاں اس میں درج ہیں اُن کی سچائی لوگوں پر ظاہر ہو جائے۔ پس اس لئے خدائے حکیم و علیم نے اس وقت تک براہین احمدیہ کا چھپنا ملتوی رکھا کہ جب تک وہ تمام پیشگوئیاں ظہور میں آگئیںاور یاد رہے کہ کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ وہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اس میں پایا جانا ضروری ہے۔
اوّل یہ کہ وہ مذہب اپنے عقائد اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رو سے ایسا جامع اور اکمل اور اتم اور نقص سے دور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کر سکے۔اور کوئی نقص اور کمی اس میں دکھلائی نہ دے۔ اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو۔ یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اس کے برابر نہ ہو جیسا کہ یہ دعویٰ قرآن شریف نے آپ کیا ہے کہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا(المائدہ:۴) یعنی آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین کامل کرد یااور اپنی نعمت کو تم پر پورا کیا اور میں نے پسند کیا کہ اسلام تمہارا مذہب ہو۔یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارہ میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ۔ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے …دوم۔پھر دوسری قسم فتح کی جو اسلام میں پائی جاتی ہے جس میں کوئی مذہب اس کا شریک نہیں اور جو اس کی سچائی پر کامل طور پر مہر لگاتی ہے اس کی زندہ برکات اور معجزات ہیں جن سے دوسرے مذاہب بکلی محروم ہیں …اور اگرچہ سچا مذہب ہزارہا آثار اور انوار اپنے اندر رکھتا ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں بغیر حاجت کسی اور دلیل کے طالبِ حق کے دل کو یقین کے پانی سے سیراب کر دیتی ہیں اور مکذبوں پر پورے طور پر اتمام حجت کرتی ہیں۔ اس لئے ان دو قسم کی دلیلوں کے موجود ہونے کے بعد کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔اورمیں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیّت اسلام کے لئے تین سو ۳۰۰دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دوقسم کے دلائل ہزار ہانشانوں کے قائم مقام ہیں۔ پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا…سو میں انشاء اللہ تعالیٰ یہی دونوں قسم کے دلائل اس کتاب میں لکھ کر اس کتاب کو پورا کروں گا۔ اگرچہ براہین احمدیہ کے گذشتہ حصوں میں نشانوں کے ظہور کاوعدہ دیا گیا تھا مگر میرے اختیار میں نہ تھا کہ کوئی نشان اپنی طاقت سے ظاہرکرسکتا اور کئی باتیں پہلے حصوں میں تھیں جن کی تشریح میری طاقت سے باہر تھی لیکن جب تیئس۲۳برس کے بعد وہ وقت آگیا تو تمام سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے میسر آگئے اور موافق اُس وعدہ کے جو براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں درج تھا قرآن شریف کے معارف اور حقائق میرے پر کھولے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (الرحمٰن:۲-۳) ایسا ہی بڑے بڑے نشان ظاہر کئے گئے۔‘‘ (براہین احمدیہ جلد 5 روحانی خزائن جلد21صفحہ2تا7)
پھر فرمایا: ’’جو براہین احمدیہ کے بقیہ حصّہ کے چھاپنے میں تیئس۲۳ برس تک التواء رہا یہ التواء بے معنی اور فضول نہ تھا بلکہ اِس میں یہ حکمت تھی کہ تا اُس وقت تک پنجم حصہ دنیا میں شائع نہ ہو جب تک کہ وہ تمام امور ظاہر ہو جائیں جن کی نسبت براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں پیشگوئیاں ہیں کیونکہ براہین احمدیہ کے پہلے حصّے عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور پنجم حصہ کا عظیم الشان مقصد یہی تھا کہ وہ موعودہ پیشگوئیاں ظہور میں آجائیں۔ اور یہ خدا کا ایک خاص نشان ہے کہ اُس نے محض اپنے فضل سے اِس وقت تک مجھے زندہ رکھا یہاں تک کہ وہ نشان ظہور میں آگئے تب وہ وقت آگیا کہ پنجم حصہ لکھا جائے اور اِس حصہ پنجم کے وقت جو نصرت حق ظہور میں آئی ضرور تھا کہ بطور شکر گذاری کے اس کا ذکر کیا جاتا۔ سو اس امر کے اظہار کے لئے میں نے براہین احمدیہ کے پنجم حصہ کے لکھنے کے وقت جس کو درحقیقت اس کتاب کا نیا جنم کہنا چاہئے اس حصہ کا نام نصرت الحق بھی رکھ دیا تا وہ نام ہمیشہ کیلئے اس بات کا نشان ہو کہ باوجود صدہا عوائق او ر موانع کے محض خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد نے اِس حصہ کو خلعتِ وجود بخشا۔ چنانچہ اس حصہ کے چند اوائل ورق کے ہر ایک صفحہ کے سر پر نصرت الحق لکھا گیا مگر پھر اس خیال سے کہ تا یاد دلایا جائے کہ یہ وہی براہین احمدیہ ہے جس کے پہلے چار حصے طبع ہوچکے ہیں بعد اس کے ہر ایک سر صفحہ پر براہین احمدیہ کا حصہ پنجم لکھا گیا۔…
دوسرا سبب اس التواء کا جو تیئس۲۳ برس تک حصہ پنجم لکھا نہ گیا یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اُن لوگوں کے دلی خیالات ظاہر کرے جن کے دل مرض بدگمانی میں مبتلا تھے اور ایسا ہی ظہور میں آیا۔ کیونکہ اس قدر دیر کے بعد خام طبع لوگ بدگمانی میں بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بعض ناپاک فطرت گالیوں پر اُتر آئے اور چار حصے اس کتاب کے جو طبع ہوچکے تھے کچھ تو مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تھے اورکچھ مفت تقسیم کئے گئے تھے۔ پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔ اگر وہ اپنی جلد بازی سے ایسا نہ کرتے تواُن کے لئے اچھا ہوتا۔ لیکن اس قدر دیر سے اُن کی فطرتی حالت آزمائی گئی۔
اِس دیر کا ایک یہ بھی سبب تھا کہ تا خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ظاہر کرے کہ یہ کاروبار اُس کی مرضی کے مطابق ہے اور یہ تمام الہام جو براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں لکھے گئے ہیں یہ اُسی کی طرف سے ہیں نہ انسان کی طرف سے کیونکہ اگریہ کتاب خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نہ ہوتی اور یہ تمام الہام اُس کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ امر خدا ئے عادل اور قدوس کی عادت کے برخلاف تھا کہ جوشخص اُس کے نزدیک مفتری ہے اور اُس نے یہ گناہ کیا ہے کہ اپنی طرف سے باتیں بناکر اُس کا نام وحی اللہ اور خدا کا الہام رکھا ہے اس کو تیئس۲۳ برس تک مہلت دے تا وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ کے باقی ماندہ حصہ کو جہاں تک ارادہ ٴ الٰہیہ ہو اور نہ صرف اسی قدر بلکہ خدا اُس پر یہ بھی احسان کرے کہ جو باتیں اس تکمیل کے لئے انسانی اختیار سے باہر تھیں ان کو اپنی طرف سے انجام دے دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے شخص کے ساتھ یہ معاملہ لطف واحسان کا نہیں کرتا جس کو جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے۔ پس اس قدر دیر اور التواء سے یہ نشان بھی ظہور میں آگیا کہ نصرت اور حمایت الٰہی میری نسبت ثابت ہوگئی۔ اس لمبی مدت میں بہت سے کافر اور دجال اور کذاب کہنے والے جو مجھے دائرہ اسلام سے خارج کرتے تھے اور مباہلہ کے رنگ میں جھوٹے پر بددُعائیں کرتے تھے دنیا سے گذر گئے مگر خدا نے مجھے زندہ رکھا اور میری وہ حمایت کی کہ جھوٹوں کا تو کیا ذکر ہے دنیا میں بہت ہی کم سچے اور راستباز گذرے ہوں گے جن کی ایسی حمایت کی گئی ہو۔ پس یہ خدا کا کھلا کھلا نشان ہے مگر اُن کے لئے جو آنکھ بند نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو قبول کرنے کے لئے طیار ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21صفحہ 8تا 10)
3 عظیم حکمتیں
گویا تاخیر طبع کی 3بڑی حکمتیں یہ ہیں
1۔اسلام کے زندہ مذہب قرار پانے کے لیے ان نشانوں اور پیشگوئیوں کا پورا ہونا ضروری تھا جو براہین میں درج تھیں۔
2۔حضرت مسیح موعود پر قرآنی حقائق اور معارف کا ظہور۔
3۔حضرت مسیح موعود کی نصرت اور حمایت کے وعدوں کو پورا کر کے حضور کی سچائی ثابت کرنا جو خود اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے۔
یہ تینوں امور خدا کی ہستی،اسلام کے زندہ مذہب ہونے اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کی دلیل ہیں آئیے دیکھیں کہ یہ کیسے وقوع پذیر ہوئے
مقاصد کی تکمیل
حقیقت یہ ہے کہ براہین احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ اور جماعت احمدیہ کے ساتھ رونما ہونے والے تمام عظیم واقعات کا خلاصہ ہے اس میں اردو، فارسی،انگریزی،عبرانی ا ور عربی زبانوں میں کثیر الہامات موجود ہیں جو اکثر پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ براہین جلد 5 کی اشاعت تک پورا ہو کر اسلام کی سچائی ظاہر کر چکا تھا اور یہی اس کتاب کا مقصود تھا۔
براہین احمدیہ جلد 5 کا ایک بڑا حصہ اسی موضوع پر مشتمل ہے۔ باب نمبر 2 کا مضمون یہی ہے ۔حضور نے بہت سی پیشگوئیاں لکھ کر ان کا پورا ہونا ثابت کیا ہے مثلا ًآغاز میں کچھ الہامات لکھ کر ان کو 7 طرح کی پیشگوئیوں میں تقسیم کیا ہے پھر فرمایا :’’ان چند سطروں میں جو پیشگوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس ۱۰ لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اوّل درجہ پر خارق عادت ہیں سو ہم اوّل صفائی بیان کے لئے ان پیشگوئیوں کے اقسام بیان کرتے ہیں بعد اس کے یہ ثبوت دیں گے کہ یہ پیشگوئیاں پوری ہوگئی ہیں۔ اور درحقیقت یہ خارق عادت نشان ہیں اور اگر بہت ہی سخت گیری اور زیادہ سے زیادہ احتیاط سے بھی ان کا شمار کیا جائے تب بھی یہ نشان جو ظاہر ہوئے دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے۔(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 72)پھر فرمایا یہ سات قسم کے نشان ہیں جن میں سے ہر ایک نشان ہزار ہا نشانوں کا جا مع ہے (براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 75)یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکثر الہامات قرآنی آیات پر مشتمل ہیں یا معمولی کمی بیشی کے ساتھ ہیں۔جن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ ملہم قرآن کا متبع اور سچا پیروکار ہے اور اسی کی برکت سے اللہ اس سے ہمکلام ہوتا ہے اور حسب حالات اس کے ساتھ یہ پیشگوئیاں پوری ہوں گی۔اس کا پیغام وہی ہے جو قرآن کا پیغام ہے۔
کئی پیشگوئیاں ایسی ہیں جن کے اصل معانی کی طرف حضور کی توجہ نہیں گئی یا اس کی کوئی تاویل کی اور وہ کسی اور رنگ میں پوری ہوئی یہ حضور کی صداقت اور عدم بناوٹ کا ثبوت ہے کیونکہ ایک جھوٹا ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ پیشگوئی کے خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے اور پیشگوئی کی حقیقی تفسیر کا وقت وہی ہوتا ہے جب وہ ظاہر ہو کر اصل معانی بیان کر دے۔
10 قسم کی عظیم پیشگوئیاں
اگر عمیق نظر سے جائزہ لیا جائے تو براہین میں درج الہامات اور پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کی ایک ہزار سالہ زندگی کا انڈکس اور خلاصہ ہیں اور وہ آج تک پورے ہوتے چلے آ رہے ہیں ان کو عمومی طور پر 10 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
1۔آپ کو امام بنانے اور ایک عظیم جماعت ملنے کی خبر دی گئی إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً۔اردت ان استخلف فخلقت آدم۔ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا۔ ینصرک رجال نوحی الیھم من السمآء۔
I shall give you a large party of islam۔
فرماتے ہیں: ’’آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مرادنہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سےسلسلہٴ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہوکر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے گویا وہ روحانی زندگی کے رو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔‘‘ (صفحہ 585)یہ تمام صفحات روحانی خزائن جلد 1 کے ہیں۔
2۔آپ کو صحیح بخاری میں مندرج حدیث رسول ﷺ میں بیان کردہ رجل فارسی کا مصداق بنانے اور احیا٫ دین کی پیشگوئی۔ لو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ۔ ان الذین کفروا و صدو عن سبیل اللّٰہ رد علیھم رجل من الفارس (صفحہ ۵۹۲) یحیی الدین و یقیم الشریعۃ (صفحہ590)
3۔آپ کو منصب نبوت و رسالت عطا کرنےکی پیشگوئی۔هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ۔اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں: ’’خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیماتِ حقّہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے۔ اور اسی ارادہ کی وجہ سے خداوند کریم نے اس عاجز کو یہ توفیق دی کہ اتماماً للحجة دس ہزارروپیہ کا اشتہار کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا اور دشمنوں اور مخالفوں کی شہادت سے آسمانی نشانی پیش کی گئی اور اُن کے معارضہ اور مقابلہ کے لئے تمام مخالفین کو مخاطب کیا گیا تا کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہ رہے اور ہریک مخالف اپنے مغلوب اور لاجواب ہونے کا آپ گواہ ہوجائے۔ غرض خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اَور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں وہ امم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے اور جو کچھ اس بارے میں توفیقات غیبیہ اس عاجز کو دی گئی ہیں وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔‘‘ (صفحہ596-597)
4۔آپؑ کو مسیح بنانے،غلبہ دینے اور طبعی وفات کی پیشگوئی۔يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ [وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا] وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ…اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے(صفحہ664۔665)
5۔تمام نبیوں کا مثیل بنانے کی پیشگوئی۔جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء۔اس کتاب میں آپ کو آدم، نوح، ابراہیم، یوسف،موسی،داؤد اور سلیمان،ذو القرنین کے نام دیے گئے۔ حضور نے اس الہام کی واقعاتی تفسیر جلد 5 میں کی ہے۔
6۔آپ کو تفسیر قرآن عطا کیے جانے اور اسلام کی قلمی خدمت کی توفیق کی پیشگوئی۔ الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔(صفحہ265)حضرت علیؓ نے آپ کواپنی تالیف کردہ تفسیر قرآن عنایت کی (ص599)کتاب الولی ذوالفقار علی(صفحہ591)
God is coming by his army .He is with you to kill enemy.
کا ترجمہ فرمایا خدائے تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے وہ دشمن کو مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔آپؑ نے گو پورے قرآن کی تفسیر نہیں لکھی مگر منتخب آیات کی تفسیر 8 جلدوں میں شائع شدہ ہے اور قرآنی معارف و حقائق کا خزانہ ہے آپ کی قوت قدسیہ سے فیض پا کر آپ کے موعود فرزند مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر (10 جلدیں)لکھی اور اسی فیض کا ایک نمونہ حقائق الفرقان(4 جلدیں ) از حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ بھی ہے۔
7۔خدا کی طرف سے تائید و نصرت کی بشارت۔ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا۔ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ۔واللّٰہ متم نورہ۔الارض والسماء معک۔ أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَه۔بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
8۔دشمن کی طرف سے سخت مخالفت اور ان کی ناکامی۔ ابتلاؤں کی شدت اور صبر کی تعلیم۔الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل۔انا کفیناک المستھزئین۔اوقد لی یا ھامان۔
9۔زلازل اور تباہیوں کی پیشگوئی۔فلما تجلیٰ ربہ للجبل جعلہ دکا۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا(صفحہ665)
10۔ متفرق پیشگوئیاں مثلاً دوسری شادی۔ اشکر نعمتی رایت خدیجتی،کثرت اولاد ینقطع من آبائک ویبدء منک۔ 2 عظیم شہادتوں کی خبر۔شاتان تذبحان اور تصویر کھینچنے کی خبر۔دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری۔
یہ سینکڑوں پیشگوئیوں میں سے نمائندہ اور چنیدہ پیشگوئیاں ہیں جو 23 سال کے عرصہ میں پوری ہوئیں اور اسلام کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گئیں آپ کو خدا نے علم قرآن سکھایامعجزانہ علم عربی عنایت کیا۔ آپ نے اردو اور عربی اور فارسی میں قرآن کی تفسیر لکھی اور انعامی چیلنج دئیے مگر کوئی مدمقابل نہ آیا کئی کتب فصیح و بلیغ عربی میں تحریر کیں دیگر مذاہب پر حجت تمام کی،مباحثے، مناظرے، مباہلے کیے اور مذہبی دنیا میں شور قیامت برپا کر دیا۔جس کا اعتراف آپ کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک ایمان افروز امر یہ بھی ہے کہ براہین احمدیہ (پہلی 4 جلدوں ) کی سینکڑوں پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی خبر براہین احمدیہ کی 5 ویں جلد میں ہےلیکن جلد 5 مزید پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے خصوصاً ایک طویل نظم میں حضور نے عالمگیر تباہی کی خبر دی جو جنگ عظیم اول اور دوم کی شکل میں پوری ہوئی اور آئندہ کے لیے نئے خطرات منڈلارہے ہیں۔
غور سے کام لیا جائے تو حضور ؑکو جس قطبی نامی کتاب کی بشارت دی گئی تھی وہ صرف ایک کتاب نہیں تھی وہ پیشگوئی سلسلہ کتب سے متعلق تھی جو 90 کے قریب کتب کی شکل میں جلوہ گر ہوئی جن سب کا مرکزی اور آخری مضمون اسلام کی اور رسول اللہ ﷺ کی حقانیت ہے ان کتب میں آپ نے قرآنی علوم کے دریا بہا دیے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی بیان کی۔ عقائد حقہ کو طشت از بام کیا۔ عقائد باطلہ کا قلع قمع کیا۔ صلیب کو توڑا۔ خنزیر کو قتل کیا۔ روحانی مال اس قدر بہایاکہ سعید روحیں لیتے لیتے تھک گئیں اور دشمن انعامی مال لینے سے عاجز آ گئے۔ عربی زبان کی 40 ہزار لغات آپ کو سکھائی گئیں ۔آپ کی 22کتب فصیح وبلیغ عربی زبان میں ہیں اورخطبہ الہامیہ آپ کو اعجازی نشان کے طور پر عطا ہوا اپنی کتب کے متعلق فرماتے ہیں:’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائیدالٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی اورالہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں‘‘ (سرالخلافہ،روحانی خزائن جلد8صفحہ415)عربی کتب کے متعلق فرمایا: ’’مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی کا سکھایا گیا ہے اورمجھے ادبی علوم پر پوری وسعت دی گئی ہے۔‘‘ (انجام آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ234)
ان اعجاز نما90میں سے11کتابوں کا جواب لکھنے پر اورمعارف قرآنی اورمتعدد علمی صداقتوں کے مقابلہ کے لیے حضورؑنے ہزاروں روپے کے انعامی چیلنج دیے ہیں مگر کسی کو آج تک مقابلہ کی توفیق نہیں ملی ۔آپؑ فرماتے ہیں:
آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہرچند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے
صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے
ان انعامی کتب کا مقابلہ کرنے پر انعامی رقوم کی مختصر تفصیل یہ ہے:1۔براہین احمدیہ 4 جلدیں 10 ہزار روپے
2۔ اعجازاحمدی10 ہزار روپے
3۔ نورالحق 5 ہزار روپے
4۔ کرامات الصادقین ایک ہزار روپے
5۔۔ اتمام الحجة ایک ہزار روپے
6۔ اعجاز المسیح 500 روپے
7۔سرمہ چشم آریہ500 روپے
8۔سرالخلافہ 27 روپے
ان کے علاوہ درج ذیل کتب کے بالمقابل کتاب لکھنے یا رد لکھنے پر اپنا جھوٹا ہونا تسلیم کرلینے کے وعدہ پر مبنی چیلنج دیے:
1۔حجة اللہ 2۔الھدیٰ والتبصرة لمن یری۔
متعدد زبانوں میں حضورؑکی اکثر کتب کے تراجم ہو چکے ہیں۔
مذاہب عالم کو چیلنج
کاسر صلیب ہونے کے لحاظ سے آپؑ کاسب سے زیادہ لٹریچر مسیحیت کے متعلق ہے اور قریباً 17کتب کا مرکزی مضمون رد عیسائیت ہے۔ آپ نے مسیح کی وفات کا انقلاب انگیز اعلان کرکے عیسائیت کا قلعہ زمین بوس کردیا۔ مسیح کی جھوٹی خدائی کی دعوت دینے والے عیسائی پادریوں کو دجال قرار دیا۔ ان سے مباحثے کیے۔ مباہلے کی دعوت دی انعامی چیلنج دیے نشان دکھائے اوردنیا کی قیادت عیسائیت کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتی چلی گئی۔ اس جری اللہ نے امریکہ میں عیسائیت کے نمائندہ ڈوئی کو للکاراجو آپ کی زندگی میں 9؍مارچ 1907ء کو ذلت کے ساتھ ہلاک ہوا۔ اورقتل خنزیر کی پیشگوئی پوری ہوئی اورامریکہ کے اخبارات نے لکھاGreat is Mirza Ghulam Ahmad۔ (بوسٹن ہیرالڈسنڈے ایڈیشن 23؍جون 1907ء)
آپؑ کی قریباً 11کتب کا مرکزی مضمون ہندومت اورسکھ مت ہے۔ آپ نے ہندوؤں سے مباحثے اورمناظرے کیے۔ موجودہ ویدوں کو گمراہی سے بھرپور ثابت کیا۔ سنسکرت کی بجائے عربی زبان کے ام الالسنہ ہو نے پر سورج چڑھا دیا اورعلم لسانیات میں انقلاب برپا کردیا۔روحانی دعوت مقابلہ اور پنڈت لیکھرام کی موت نے آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑ دیں اور ایک ہندو راہنمانے لکھا کوئی عیسائی اورمسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں داخل نہیں ہوتا۔ (خطابات طاہر۔تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت صفحہ242حضرت مرزا طاہر احمد صاحب۔طاہر فاؤنڈیشن طبع اول دسمبر2006ء )برہمو سماج کے سرگرم لیڈر پنڈت نرائن اگنی ہوتری سے تحریری مباحثہ کیا اوراس شان سے یلغار کی کہ پنڈت صاحب نے اپنے مذہب کو ہی خیر باد کہہ دیا۔ (تاریخ احمدیت جلداول صفحہ163)سکھ مذہب کے بانی حضرت باوا گورونانک کومسلمان ولی اللہ ثابت کرکے اورچولہ بابانانک پر کلمہ اور قرآنی آیات کا انکشاف کرکے سکھ مذہب کوجڑسے اکھیڑ دیا۔ (تفصیل کتاب ست بچن 1895ء)الغرض مضمون کوئی بھی ہو ہر ایک کی آخری تان زندہ خدا زندہ رسول اور زندہ مذہب اسلام پر ٹوٹتی ہے اور یہی براہین احمدیہ کا مقصود تھا ۔گویا یہ سب کتب براہین احمدیہ کا تتمہ اور ضمیمہ ہیں۔
کئی لاکھ دلائل
اس طرح گو براہین احمدیہ میں تین سو دلائل نمبروں کے ساتھ موجود نہیں مگر درحقیقت ہزار ہا دلائل حضور نے اس میں بیان فرما دیے ہیں اور اپنا وعدہ کئی گناشان کے ساتھ پورا کر دیا ہے اور کم از کم یہ بات تو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان تین سو دلائل کے اشارات اس کتاب میں موجود ہیں۔جن کی تفصیل حضورؑ نے دوسری کتب میں بیان فرمائی ہے۔فرماتے ہیں: ’’لوگ کہتے ہیں کہ براہین میں جو دلائل کا وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا حالانکہ براہین میں صداقت اسلام کے واسطے کئی لاکھ دلیل ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ206 ایڈیشن 1988ء)
مگر مخالفین ہمیشہ اس بات پر مصر رہے کہ براہین احمدیہ میں تین سو دلائل بیان کرنے کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔اس لیے جماعت احمدیہ کی یہ خواہش رہی کہ ان دلائل کو ظاہری رنگ میں ترتیب وار لکھ کر بیان کیا جائے تا دشمنوں کا اعتراض ختم ہو جائے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’براہین احمدیہ میرے نزدیک تفسیر القرآن کا دیباچہ ہے۔تفسیر القرآن لکھتے وقت پہلے جن مضامین پر سیرکن بحث کرنی چاہئے انہیں حضرت مسیح موعود نے براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس کی ظاہری تکمیل بھی ہو جائے۔باطنی تکمیل تو اللہ تعالیٰ نے کردی۔ تین سو چھوڑ کئی لاکھ آسمانی دلائل آپ نے پیش کر دیئے۔لیکن جب آسمانی دلائل پیش ہو چکے تو ان ظاہری دلائل کو بھی پیش کر دینا سلسلہ کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ جی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو وہ براہین احمدیہ کا ظاہری مقصد بھی پورا کر دے۔‘‘ (فضائل القرآن صفحہ207)
پھر آپؑ نے یہ دلائل بیان کرنے کا طریق بھی بتلایا۔ فضائل القرآن کے موضوع پر اپنے چوتھے لیکچرمیں فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعودؑنے یہ مضمون براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تین سو دلائل اس کے متعلق پیش کروں گا۔میں نے اس کے متعلق غور کیا ہے اور اس غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعہ میں وہ تین سو دلائل بیان کئے جا سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود کے بتائے ہوئے علوم اور آپ کے لائے ہوئے نور سے مستفیض ہو کر براہین احمدیہ کی اپنے فہم اور اپنے درجہ کے مطابق تفسیر کی جاسکتی ہے۔‘‘ (فضائل القرآن صفحہ206)تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرنا ہے کہ اس عاجز کو اس ضمن میں خدمت کی توفیق ملی۔حضرت سیدنا خلیفة المسیح الثالثؒ نے ایک مجلس میں فرمایا کہ براہین احمدیہ میں تین سو دلائل کے اشارات موجود ہیں اور انہیں نکالنا چاہیے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے آپ نے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب مبلغ سلسلہ کو کام شروع کرنے کا ارشاد بھی فرمایا مگر انہیں جلد ہی ملک سے باہر جانا پڑا۔ اس وقت خاکسار جامعہ احمدیہ کا طالبعلم تھا۔ اس لیے یہی مضمون بطور مقالہ اس عاجز کو دیا گیا۔خاکسار نے براہین احمدیہ کو کئی دفعہ پڑھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری کتب کی روشنی میں اس گوہر نایاب اور درمکنون کا کھوج لگانے کی سعی کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ’’فضائل القرآن‘‘ میں یہی مضمون شروع کیا تھا۔ نیز آپؓ کی تقریر ’’حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اس لیے میں نے ان دونوں کتابوں کو مشعل راہ بنایا اور اپنے مقالہ میں حضرت مسیح موعودؑکی بیان فرمودہ ترتیب کے مطابق دلائل بیان کیے۔
ان تین سو دلائل کو تفصیلاً بیان کرنے کے لیے تو واقعۃًپچاس جلدیں چاہئیں۔ اس لیے ہر دلیل کو پوری جامعیت کے ساتھ تو بیان نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر مقالے کے تناسب سے ہر دلیل اور اس کے اشارات کی مناسب اور ضروری وضاحت کردی گئی اور تصدیق کے لیے ہر دلیل کے ساتھ براہین احمدیہ ہی کا حوالہ درج کیا گیا ہے جو اشارةً یا وضاحتاًاس دلیل پرمہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ پھر ان ابواب کو مختلف فصلوں اور ضمنی عناوین میں تقسیم کر کے دلائل کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔الحمد للہ کہ جماعت کے جید عالم محترم مولانا سید احمد علی شاہ صاحب کی نگرانی میں عاجز نے مقالہ مکمل کیا جسے علماء کے ایک بورڈ نے منظور فرمایا اور آج بھی محفوظ ہے۔
٭…٭…٭