براہین احمدیہ کے متعلق پہلےدو خلفائے سلسلہ کی بعض روایات
براہین احمدیہ قرآن کریم ہی کی تفسیر ہے اس لیے اس کے پڑھنے سے بھی نئے نئے مطالب سوجھتے ہیں…
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰة و السلام نے خاص تائیدخداوندی سے اسلام، قرآن کریم اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیت اور برتری کو دنیا کے تمام مذاہب اور مکاتب فکر پر ثابت کرنے کے لیے براہین احمدیہ تصنیف فرمائی۔ قیامت تک اغیار کو زیر بار رکھنے والی اس اہم کتاب سے قرآن کریم کے علوم و معارف کا نکاس جاری و ساری رہے گا۔ قیامت تک نوع انسانی کی ہدایت و راہنمائی کےلیے مقرر ہونے والے خلفائے سلسلہ میں سے پہلے دو خلفاء جن کو مؤلف براہین احمدیہ علیہ السلام والرحمة سے مصاحبت کا بھی شرف رہا۔ براہین احمدیہ کے متعلق ان کا تذکرہ، روایات اور امور کا بیان نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اہم اور قابل توجہ بھی۔ اس لازوال کتاب پر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب، خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ اور پسر موعود حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی بعض روایات، واقعات اور تجزیے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔
حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے براہین احمدیہ کی کئی رنگ میں خدمت کی سعادت پائی، تصدیق براہین احمدیہ لکھنے کے علاوہ ایک زمانہ میں جب براہین احمدیہ کے بعض ناسمجھ اور جلد باز خریداران کی طرف سے کچھ ناجائزمطالبے تھے۔نیز براہین احمدیہ کی طباعت کے اخراجات کا معاملہ درپیش تھا۔حضرت حکیم مولوی نورالدین نے فدائیت کا غیر معمولی نمونہ پیش فرمایا۔ اس ضمن میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک موقع پر آپ کے غیر معمولی اخلاص اور فدائیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکرکرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نوردین ہے میں اُن کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں…میں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں… ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نوردین بھروی معالج ریاست جموں نے محبت اور اخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطریں یہ ہیں۔
مولانا، مرشدنا، امامنا۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عالی جناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سےجس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں… میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے۔ حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجالاؤں کہ ان کی تمام قیمت اداکردہ اپنے پاس سے واپس کردوں۔ حضرت پیر و مرشد نابکار شرمسار عرض کرتا ہے۔ اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے۔ میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو۔ مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہوں…‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35۔36)
یاد رہے کہ کتاب ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ لکھنے کی طرف راہنمائی بھی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی فرمائی تھی۔ جیسا کہ 26؍جولائی 1887ء کے اپنے ایک مکتوب میں آپ علیہ السلام لکھتے ہیں: ’’… میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھر ام نام ایک شخص نے میری کتاب براہین کے رد میں بہت کچھ بکو اس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہین احمد یہ رکھا ہے۔یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔ کتاب میں دور نگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں۔ جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں تو ہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں۔ وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ غرض اس شخص نے خواندہ ہندوؤں کی منت سماجت کر کے اور بہت سی کتابوں کا اس نے خیانت آمیز حوالہ لکھ کر یہ کتاب تالیف کی ہے۔ اس کتاب کی تالیف سے ہندوؤں میں بہت جوش ہو رہا ہے۔ یقین ہے کہ کشمیر میں بھی یہ کتاب پہنچی ہوگی۔ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ لالہ لچھمن داس صاحب ملازم ریاست کشمیر نے تین سو روپیہ اس کتاب کے چھپنے کے لیے دیا ہے۔ شاید یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ہو لیکن اس پُرافتراء کتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراج منیر سے، جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کی رو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پرمستعد کیا ہے کوئی دوسرا آدمی صفات سے موصوف نظر نہیں آتا۔ اس لیے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کیے ہیں۔ سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیاد داشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرمادیں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا میں فرصت پا کر اس کا جواب لکھوں گا۔ غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جد و جہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خدا دا طاقتوں کی رُوسے بھی نصرت کریں۔
آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگارہے ہیں۔ میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہےاور اعلائے کلمۃالاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے۔ بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا مددگار ہو۔ آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں۔‘‘ (مکتوبات احمد۔ جلد دوم۔ صفحہ 42۔43)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےبراہین احمدیہ کی خدمت کے اس اہم دینی کام کی طرف نہ صرف تاکید اور راہنمائی فرمائی بلکہ بعد میں کتاب بھجواکر مسلسل توجہ بھی دلاتے رہے۔ مثلاً 5؍اگست 1887ء کے مکتوب میں ہے: ’’…کتاب لیکھرام پشاوری ارسال خدمت کی گئی ہے۔ امید کہ غایت درجہ کی توجہ سے اس کا قلع قمع فرمائیں گے تا مخالف بد طینت کی جلد تر رسوائی ظاہر ہو…امید کہ آں مخدوم لیکھرام کی طرف بہت جلد توجہ فرمائیں گے۔ اوّل تمام اعتراضات اس کے علیحدہ پرچہ پر انتخاب کئے جاویں اور پھر مختصر و معقول و دندان شکن جواب دیا جاوے…‘‘ (مکتوبات احمد، جلد دوم۔ صفحہ :44)
یوں حضرت حکیم صاحب کی تصنیف کردہ کتاب ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ میں تکذیب براہین احمدیہ۔ نسخہ خبط احمدیہ اور تنقیہ وغیرہ میں مذکور اعتراضات و نکات کاکافی و شافی جواب ہے۔ کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی لاجواب کتاب براہین احمدیہ پر پنڈت لیکھرام اوربعض دوسرے آریوں نے جو اعتراضات کیے تھے وہ ان مذکورہ بالا کتب کے ذریعہ لوگوں تک پہنچ رہے تھے،اورحضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کی اس جوابی کتاب میں ان تمام اعتراضات کا بڑی عمدگی سے رد کرتے ہوئے اسلام کی صداقت بڑے زور سے ثابت کی گئی ہے۔ اور قرآن کریم کی بڑی لطیف تفسیر کی گئی ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حکم پر لکھی گئی یہ کتاب 1307ہجری بمطابق 1890ء میں شائع ہوئی۔ بعدازاں نومبر 1923ء میں مہتمم کتاب گھر قادیان نے دوبارہ شائع کیاتھا۔جبکہ موجودہ ایڈیشن ٹائپ شدہ اور 306صفحات پرممتد ہے۔
اس کتاب کی خوبی پر سب سے قیمتی اور قابل قدر گواہی خود حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام نےکی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اورتفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے۔ فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں۔ ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں۔ بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 37 حاشیہ)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی، المصلح الموعود، رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تصانیف میں متعدد جگہ براہین احمدیہ چہار حصص کا تذکرہ فرمایا ہے، اس کی عظمت، شان اور اثرات پر گفتگو فرمائی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی تصنیف تحفة الملوک میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نشان کے ثبوت کے طور پر فرماتے ہیں کہ ’’آپ کو براہین احمدیہ اپنی پہلی تصنیف کے شائع کرنے کے بعد ستائیس اٹھائیس سال تک زندگی عطا ہوئی۔‘‘ (تحفة الملوک، انوارالعلوم جلد 2صفحہ 133)
اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے زار روس کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی پر استہزا کرنے والوں کے جواب میں 12؍مئی 1917ء کو قادیان سے ایک کتابچہ ’’خدا کے قہری نشان‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا۔ اس میں براہین احمدیہ کی اشاعت سے قبل اور بعد کے زمانہ میں آنے والے بڑے بڑے زلزلوں کا ایک چارٹ بھی درج فرمایاہے۔ انوارالعلوم جلد 3 کے صفحہ 575 اور 576 پر درج اس چارٹ کے اعدادو شمار بہت وضاحت سے بتاتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریف آوری سے دنیا بھر میں ایک غیر معمولی تبدیلی کا سامان ہوا ہے۔
اس کے بعد دیکھیں تو 1917ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر علم حاصل کرنے کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے حضور نے پانچویں طریق کے طور پرفرمایا: ’’مجھے بھی خداتعالیٰ نے خاص طور پر قرآن کریم کا علم بخشا ہے مگر جب میں حضرت مسیح موعود کی کتابیں پڑھتا ہوں تو ان سے نئے نئے معارف اور نکات ہی حاصل ہوتے ہیں اور اگر ایک ہی عبارت کو دس دفعہ پڑھوں تو اس میں نئے معارف حاصل ہوتے ہیں۔ براہین احمدیہ کو میں کئی مہینوں میں ختم کر سکا تھا۔ میں بڑا پڑھنے والا ہوں کئی کئی سو صفحات لگاتار پڑھ جاتا ہوں مگر براہین کو پڑھتے ہوئے اس وجہ سے اتنی دیر لگی کہ کچھ سطریں پڑھتا تو اس قدر مطالب اور نکتے ذہن میں آنے شروع ہو جاتے کہ آگے نہ پڑھ سکتا اور وہیں کتاب رکھ کر لطف اُٹھانے لگ جاتا۔چونکہ براہین احمدیہ قرآن کریم ہی کی تفسیر ہے اس لیے اس کے پڑھنے سے بھی نئے نئے مطالب سوجھتے ہیں…‘‘ (علم حاصل کرو، انوارالعلوم جلد4 صفحہ:140)
اسی طرح ملائکۃ اللہ سے تعلق فیضان حاصل کرنے کے سلسلہ میں آپؓ فرماتے ہیں: ’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحبؑ کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ براہین احمدیہ خاص فیضانِ الٰہی کے ماتحت لکھی گئی ہے۔ اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لے کر پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے۔تو حضرت صاحبؑ کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور ان کے ذریعہ نئے نئے علوم کھلتے ہیں۔ دوسری اگر کوئی کتاب پڑھو تو اتنا ہی مضمون سمجھ میں آئے گا جتنا الفاظ میں بیان کیا گیا ہو گا مگر حضرت صاحبؑ کی کتابیں پڑھنے سے بہت زیادہ مضمون کھلتا ہے بشرطیکہ خاص شرائط کے ماتحت پڑھی جائیں۔ اس سے بھی بڑھ کر قرآن شریف کے پڑھنے سے معارف کھلتے ہیں اگرچہ ان شرائط کا بتانا جن کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنی چاہئیں۔ اس مضمون سے بے تعلق ہے جو میں بیان کر رہا ہوں مگر پھر بھی ایک شرط کا ذکر کر دیتا ہوں۔
اسی وقت دوسری چیز داخل ہو سکتی ہے جبکہ پہلی نکال دی جائے۔ مثلاً ایک جگہ لوگ بیٹھے ہوں تو جب تک وہ نہ نکلیں تب تک اَور آدمی نہیں آ سکتے۔ اس کے سوا نہیں۔ پس حضرت صاحبؑ کی کوئی کتاب پڑھنے سے پہلے چاہئے کہ اپنے اندر سے سب خیالات نکال دیئے جائیں اور اپنے دماغ کو بالکل خالی کر کے پھر ان کو پڑھا جائے۔ اگر کوئی اِس طرح ان کو پڑھے گا تو بہت زیادہ اور صحیح علم حاصل ہو گا لیکن اگر اپنے کسی عقیدہ کے ماتحت رکھ کر ان کو پڑھے گا تو یہ نتیجہ نہ نکلے گا۔پس حضرت صاحبؑ کی کتابیں بالکل خالی الذہن ہو کر پڑھنی چاہئیں۔ اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اسے بہت سی برکات نمایاں طور پرنظر آئیں گے۔‘‘ (ملائکۃ اللہ، انوار العلوم جلد5 صفحہ560)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی تصنیف ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ میں براہین احمدیہ کے زمانہ کے ذکر میں فرماتے ہیں: ’’جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے پے در پے آپ پر نازل ہونے شروع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کے احکام نازل ہوئے جن کا مطلب یہ تھا کہ اسلام اس وقت نہایت بے کس حالت میں ہے اور دنیا کی نظروں میں حقیر تُو اٹھ کر اس کی مدد کر اور اسی کی عظمت اور صداقت کو لوگوں پر ظاہر کر۔ چنانچہ آپ نے ایک ضخیم کتاب براہین احمدیہ نام اس غرض سے تصنیف کی اور اس میں اسلام کی صداقت اور اس کی دوسرے مذاہب پر فضیلت ثابت کی اور ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو بلایا کہ اپنی الہامی کتابوں میں جو خوبیاں ہیں ان کو اسلام کے مقابلہ پر ظاہر کریں مگر با وجود بار بار کے بلانے کے لوگ مقابل پر نہ آئے اور ملک کے بڑے بڑے عالموں نے اقرار کیا کہ ایسی کتاب بغیر خدا کی تائید کے نہیں لکھی جاسکتی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ نے کسی بڑے مدرسہ میں تعلیم نہیں پائی نہ کسی بڑے عالم سے علم سیکھا ہے مگر ابھی وہ کتاب مکمل نہ ہوئی تھی کہ اللہ نے آپؑ پر ظاہر کیا کہ اب ہم تجھ سے ایک اور رنگ میں کام لینا چاہتے ہیں اور تُو مسلمانوں کی روحانی حالت کی درستی کی طرف توجہ کر…‘‘ (تحفہ شہزادہ ویلز، انوارالعلوم جلد 6 صفحہ 488۔489)
ایک موقع پرفضائل القرآن کے ضمن میں فرمایا
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی مضمون براہین احمدیہ میں شروع کیا تھاا ور فرمایا تھا کہ تین سو دلائل اس کے متعلق پیش کروں گا۔ میں نے اس کے متعلق غور کیا ہے اور اس غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعہ میں وہ تین سو دلائل بیان کیے جاسکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةو السلام کے بتائے ہوئے علوم اور آپ کے لائے ہوئے نور سے مستفیض ہوکر براہین احمدیہ کی اپنے فہم اور اپنے درجہ کے مطابق تشریح کی جاسکتی ہے۔
براہین احمدیہ میرے نزدیک تفسیر القرآن کا دیباچہ ہے۔ تفسیر القرآن لکھتے وقت پہلے جن مضامین پر سیرکن بحث کرنی چاہئے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا۔دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس کی ظاہری تکمیل بھی ہوجائے۔ باطنی تکمیل تو اللہ تعالیٰ نے کردی۔ تین سو دلائل چھوڑ کئی لاکھ دلائل آپ نے پیش کردیے۔ لیکن جب آسمانی دلائل پیش ہوچکے تو ان ظاہری دلائل کو بھی پیش کردینا سلسلہ کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ جی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو وہ براہین احمدیہ کا ظاہری مقصد بھی پورا کردے…‘‘ (فضائل القرآن نمبر 4، انوارالعلوم جلد12۔ صفحہ:415۔416)پھر ایک اور موقع پرآپؓ نے براہین احمدیہ والے دس ہزار روپے کے انعامی چیلنج کے ضمن میں فرمایا: ’’بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تصنیف براہین احمدیہ میں چیلنج دیا کہ اگر کوئی غیر مسلم اپنی مذہبی کتاب میں سے ان خوبیوں کا پانچواں حصہ بھی ثابت کردے جو میں نے قرآن کریم میں بیان کی ہیں تو میں اسے اپنی ساری جائیداد انعام میں دے دوں گا۔ اس جائیداد کی قیمت کا اندازہ اس وقت دس ہزار روپیہ کیا گیا تھا کیونکہ اس زمانہ میں زمینیں بہت سستی تھیں۔ ہماری برادری ہی کے ایک آدمی نے اس زمانہ میں کچھ زمین سولہ سو کو خریدی تھی جو اَب ڈیڑھ لاکھ میں بیچی ہے۔تو اس زمانے میں دس ہزار کے معنی آج کے لحاظ سے لاکھوں روپیہ کے تھے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ چیلنج دیا مگرآج تک کسی نے اسے قبول نہیں کیا۔اب بھی وہ کتاب موجودہے اور اس کے چیلنج کوہم آج بھی تسلیم کرتے ہیں…
پروفسیرمارگولیتھ جواسلام کے بڑے مخالف اوربڑے مصنف ہیں وہ ایک وقت مجھ سے ملنے کے لیے قادیان آئے اور کہنے لگے۔کوئی ایسی بات پیش کریں جومیرے لیے حجت ہو۔میں نے ان انعامات کاذکرکیاجوحضرت مرزاصاحب نے مخالفین اسلام کے لئے پیش کیے ہیں۔ اس پرکہنے لگے اگرمیں جواب لکھوں توکون انعام دے گاکیونکہ مرزاصاحب توفوت ہوچکے ہیں میں نے کہا،بے شک حضرت مرزاصاحب فوت ہوچکے ہیں مگرآپ کاسلسلہ تو فوت نہیں ہوا۔آپ جواب دیں، میں آپ کوانعام دوں گا۔‘‘
(تحقیق حق کاصحیح طریق،انوارالعلوم جلد 13صفحہ410)
حضورؓنے اپنے سلسلہ تقریر’’فضائل القرآن‘‘ کے ضمن میں فرمایا: ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے۔ اس میں آپ نے اپنے اس ارادہ کا اظہار فرمایاہے کہ اسلام کی سچائی اور برتری ثابت کرنے کے لئے میں تین سو دلائل دوں گا۔ میں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو گو میں نے دلائل کو گنا نہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام کی برتری اور فضیلت کے تین سو دلائل ان نوٹس میں موجود ہیں جو میں نے اس مضمون کے سلسلہ میں تیار کئے ہیں۔ اگر کوئی شخص میرے ان نوٹوں کو پڑھ لے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی باتیں اس پر واضح ہوجائیں گی… اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مضمون کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو اول تو یہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک نہایت اعلیٰ دیباچہ ہوگادوسرے براہین احمدیہ کی تکمیل بھی ہوجائے گی۔ یعنی اُس رنگ میں جس کا شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اظہار فرمایا تھا گو بعد میں اس کی تکمیل اور رنگ میں بھی ہوگئی یعنی وحی او رالہام اور آپ کی ماموریت اور نبوت کی شان نے اسلام کو جس رنگ میں تمام مذاہب پر غالب ثابت کیاوہ تین سو دلائل کے اثر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی تحریر فرمادیا تھا کہ اب یہ سلسلہ تالیفِ کتاب بوجہ الہامات ِالہیہ دوسرا رنگ پکڑ گیا ہے اور اب ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں بلکہ جس طرز پرخدا تعالیٰ مناسب سمجھے گا بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا۔ کیونکہ اب اس کتاب کاوہ خود متولی ہے اور اس کی مشیت کسی اور رنگ میں اس کو تکمیل چاہتی ہے۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پہلی خواہش بھی پوری ہوجائے تو دشمنوں کا یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ کو مکمل نہیں کیا اور وعدہ کے باوجود قرآن کریم کی فضیلت کے تین سو دلائل پیش نہیں کیے۔ (فضائل القرآن نمبر6، انوا رالعلوم جلد 14 صفحہ 349)اسی طرح آگے چل کر آپؓ براہین احمدیہ پر ہونے والے ایک بودے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’آجکل تو ’’زمیندار‘‘ اور ’’احسان‘‘ وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدرآبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ جب تک اُن کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہو گئی۔ گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہوگیا کہ اُنہیں جو اچھا نکتہ سُوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے۔ آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنّف ہیں۔ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں اُن کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اُس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی۔ پس اوّل تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے؟ اور اگر بھیجتے تو عُمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے۔ جیسے ذوق کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ مگر ’’دیوانِ ذوق‘‘ اور ’’دیوانِ ظفر‘‘ آجکل دونوں پائے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفر کے کلام میں نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے حالانکہ ظفر بادشاہ تھا۔ غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰة والسلام کومضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہئے تھاکہ معرفت کے عُمدہ عُمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو لکھ کر بھیجتے۔ مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی کتابیں بھی۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائیبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سَوسال میں کسی مسلمان کو نہیں سُوجھے۔ اور اِن معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں۔‘‘ (فضائل القرآن (6) انوار العلوم جلد 14 صفحہ 350 مطبوعہ ربوہ)
زمانہ اشاعت براہین احمدیہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ لکھی تو اُس وقت آپ کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ خدا تعالیٰ آپ کو نبی بنانے والا ہے اور آپ نہیں سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے الہامات سے کیا مراد ہے لیکن لدھیانہ کاایک مولوی اس وقت اٹھا اوراس نے اس کتاب کو پڑھ کر اُسی وقت کہہ دیا کہ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کرنا ہے اس کی ابھی سے مخالفت شروع کردو۔ اُس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھی یہ خیال نہ آیا۔ چنانچہ انہوں نے اس کتاب کی تائید میں ایک ریویو لکھا…‘‘ (موجودہ فتنہ میں کفر کی تمام طاقتوں کا ہمارے خلاف اجتماع… انوارالعلوم جلد 14 صفحہ 495)
اسی طرح مزید دیکھیں تو حضرت مصلح موعود ؓکی لکھی ہوئی تفسیر کبیر میں بھی بعض جگہ براہین احمدیہ کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً جلد پنجم کے صفحہ 342 پرآپؓ حضرت صوفی احمد جان صاحب کے ذکر میں بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح دل و جان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م پر قربان تھے، اورانہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’براہین احمدیہ ‘‘ پڑھی ہوئی تھی۔
اسی طرح تفسیر کبیر کی جلد ہفتم کے صفحہ 107اور 108 پر حکیم اللہ دین کا واقعہ لکھتے ہوئے بتایا کہ وہ پنجاب کے ایک مشہو رطبیب تھے، اوران کی طبی عظمت کے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب جیسے طبیب بھی قائل تھے۔ آپ بھیرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے گہرے دوست اور نہایت مخلص احمدی حضرت مولوی فضل دین صاحب بھیروی نے حکیم اللہ دین صاحب کو احمدیت کی تبلیغ کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میاں تم مجھے کیا تبلیغ کرتے ہو۔ تم بھلا جانتے ہی کیا ہو اور مجھے تم نے کیا سمجھانا ہے۔ مرزا صاحب کے متعلق توجومجھے عقیدت ہے اس کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقیدت نہیں ہوگی…مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی۔ تیرہ سو سال میں بھلا کوئی مسلمان کا بچہ تھا جس نے ایسی کتاب لکھی ہو۔ مرزا صاحب نے اس میں ایسے ایسے علوم بھر دیئے کہ کسی مسلمان کی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وہ اسلام کے لیے ایک دیوار تھی جس نے اُسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچالیا…۔
تفسیر کبیر کی جلد دہم کے صفحہ 138۔139 پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھا: ’’… حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے زمانہ میں پیدا کیا جب کتابت کا زور تھا۔ پریس جاری تھے اور ہر چیز شائع ہوکر فورا ًلوگوں کی نظروں کے سامنے آجاتی تھی اور یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ الہام میں فلاں واقعہ کا ذکر ہے جو اتنے سال بعد پورا ہوا اِ س لیے یہ الہام اس واقعہ کے بعد کا ہے۔ پہلے کا نہیں۔ غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا وجود اس اعتراض کے باطل ہونے پر ایک زبردست گواہ ہے۔ چنانچہ میں اس کے ثبوت میں ’’براہین احمدیہ‘‘ کے بعض الہامات پیش کرتا ہوں۔
براہین احمدیہ انگریزی مطبع میں چھپی ہے۔ 1880ء میں اس کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور 1884ء میں چوتھی جلد چھپنے کے بعد اس کتاب کی دو جلدیں قانون کے مطابق گورنمنٹ کو بھجوادی گئی تھیں بلکہ لندن میوزیم میں بھی اس کی کاپیاں محفوظ ہیں۔ اس لیے دشمن یہ نہیں کہہ سکتا کہ براہین احمدیہ میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ 1884ء کے بعد کی ہیں۔
جب یہ کتاب شائع ہوئی ہے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بے شک لوگوں میں معروف تھے مگر صرف بطور مباحث کے ہزار دو ہزار آدمی آپ کو جانتے تھے مگر اس لیے آپ عیسائیوں یا ہندوؤں وغیرہ کے اُن مضامین کا جواب دیتے رہتے تھے جو وہ اسلام کے خلاف لکھتے تھے۔ یا ایسے لوگ جانتے تھے جو آپ کے تقویٰ کے قائل تھے اور آپ سے محبت و اخلاص رکھتے تھے…پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مسلمانوں کے چوٹی کے علماء میں سے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے براہین احمدیہ لکھی تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اُس پر ریویو لکھا…
لوگ جب کسی کتاب کے متعلق تعریفی ریویو لکھتے ہیں تو کہتے ہیں اس سال کی یہ عظیم الشان کتاب ہے اور وہ کتاب بڑی بھاری سمجھی جاتی ہے۔ اگر کہہ دیا جائے کہ دس سال میں ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تو اس کی شہرت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اگر کہا جائے کہ ایک صدی کے اندر اندر ایسی کتاب عظیم الشان کتاب اور کوئی نہیں لکھی گئی تو یہ اُس کتاب کی انتہائی تعریف سمجھی جاتی ہے۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ لکھتے ہیں کہ اس کتاب کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی گویا ایک صدی کا سوال نہیں۔ دو صدیوں کا سوال نہیں۔ تیرہ سو سال میں مسلمانوں کی طرف سے اسلام کے فضائل کے متعلق ایسی شاندار کتاب اور کوئی نہیں لکھی گئی۔
غرض مسلمان کیا اور ہندو کیا اور عیسائی کیا سب براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعریف کرتے تھے…‘‘
٭…٭…٭