براہین احمدیہ میں مطبوعہ فارسی منظوم کلام کا جائزہ
براہین احمدیہ کتاب کا وسیع اثر جس کادوست و دشمن سب اقرار کرتے ہیں،اس میں اس فارسی حصہ کا بھی غیر معمولی اثر اور حصہ ہے چونکہ اس زمانے میں فارسی زبان عمومی طور پر پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان تھی،اسی لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اثبات صداقت اسلام کے لیے فارسی میں منظوم کلام تحریر فرمایا
آج کے دور میں جہاں انسان نے سائنس کے نام سے ایک طرف سطح زمین ،اس کےاندرونی طبقات اورسمندروں کی اتھاگہرائیوں کی انتہائی عرق ریزی سے چھان بین کی اور اپنے دنیاوی آرام و آسائش کے لیے عین قرآنی پیشگوئیوں کےمطابق بڑی سےبڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ ایجادا ت کیں اور دوسری طرف آسمان کی بلندیوں کوکھنگالااورافلاک میں موجود چاند سورج ستاروں پر غور و فکرکرکے اللہ تعالیٰ کےان اجرامِ فلکی میں ودیعت فرمودہ جواہر سے خوب فائدہ اٹھایا اور روز بروز اس میں ترقی کرتا چلا گیا۔مگر مادیت میں ایسے غرق ہوا کہ اس کائنات کے خالق مالکِ یوم الدین کو اپنی زندگیوں میں اپنے معاشرےمیں جگہ ہی نہ دی۔ہاں وہ خداجس نے ساری کائنات کو مع اس کے اجرام کے انسان کی خدمت میں لگایا ،اس لیےکہ وہ اپنے خالق کو پہچانے، اس کی عبودیت اختیار کرے یعنی اس کی صفات کا ادراک حاصل کرے اور اپنی صلاحیت کی حدتک اپنے آپ کوزمین میں اللہ کانائب بنائے۔ابنائے دنیا نے تو اس محسن و رحیم و کریم خدا کوبھلایا ہی تھا،بر صغیر میں علی گڑھ یونیورسٹی کے نام اپنے زعم میں اعلیٰ اسلامی تعلیمی ادارہ قائم کرنے والےسرسید احمد خان جیسے اسلام کے نامی گرامی لیڈروں کایہ حال تھا کہ اللہ تعالیٰ کے مستجیب الدعوات ہونے سے انکاری تھے۔اور علی الاعلان یہ کہتے تھے کہ دعا کا مطلب صرف عبادت ہے۔دعاؤں کا قبولیت سے کوئی تعلق نہیں۔گویا ان کے اعتقاد کے مطابق اسلام کا خدا بھی ایسا ہو گیا کہ وحی و الہام تو دور کی بات وہ سننے کی صفت سے بھی عار ی ہو گیا۔نعوذ باللہ ایسے گونگے بہرے خدا کاہونا نہ ہونا توبرابر ہؤا،اور قرآنی محاورےکےمطابق بر و بحر میں فساد برپا ہوگیا تھا۔یعنی دنیا دار تو خدا سے انکاری تھے ہی دیندار لوگ بھی خدا سے دوری اور لاتعلقی کی بنا پر اس کی ذات سے بے بہرہ تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة و السلام کو برگزیدہ کیا تا کہ انسان کوخداتعالیٰ سے آشنا کروائیں ،جس کے ساتھ جڑنے سےہی سب دنیوی و اخروی برکات وابستہ ہیں، سب نعمتیں مل سکتی ہیں، سب آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں، سب مشکلات دور ہوسکتی ہیں، ذہنی واخلاقی بیماریوں سے شفا مل سکتی ہے ،مردہ روحوں کو زندگی اور مضطرب دلوں کو قرار مل سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ نےاپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پرصدائے عام دیتے ہوئے فرمایا:
بجز اسیرئ عشقِ رخش رہائی نیست
بدردِ او ہمہ امراض را دوا باشد
یعنی اس کے چہرے کے عشق کی قیدکے سوا کوئی آزادی نہیں اور اس کا درد ہی سب بیماریوں کا علاج ہے۔
بیامدم کہ رہِ صدق را درخشانم
بدلستان برم آن را کہ پارسا باشد
یعنی میں اس لیے آیا ہوں کہ صدق کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس اسے لے چلو ں جو پارسا ہے۔
اردو زبان میں زندہ خدا کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا: ’’ہمارا بہشت ہمارا خداہےہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۱)
اللہ تعالیٰ کےاس برگزیدہ بندےکے ہاتھوں اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی سے نکالنے،الحاد اور دہریت کے عفریت سے بنی نوع انسان کو نجات دلانے اور ایمان کوثریا ستارے سےواپس لاکر سعید روحوں کےدلوں میں بسانے کے لیےسب سے پہلی تصنیف جومعرضِ وجود میں آئی اس کا نام براہین احمدیہ ہے۔اس عظیم تصنیف میں موجود فارسی منظوم کلام کا جائزہ پیش کرنا مقصودہے۔
فارسی نظموں کا مضمون کے لحاظ سے مختصرجائزہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں ۱۹؍نظموں کی صورت میں تقریباً ۱۲۰۰؍فارسی اشعار تحریر فرمائے ہیں۔
اس کتاب کے آغاز میں حمد اور پھر اس کے بعد نعت لکھی ہے اور اس کے بعد کتاب کے مضامین کا آغاز فرمایا ہے۔حمد کے ۵۱؍اشعار ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کو خوبصورت اور مؤثرا نداز میں بیان فرمایا ہے نیز اس حی و قیوم خدا سےناطہ جوڑنے، اس سے مرادیابیوں کی طرف بنی نوع انسان کو دعوت دی ہے۔اور وجودِ باری تعالیٰ کا انکار کرنے والوں کے لئے آپؑ نے نہایت دلکش انداز میں کائنات کی تخلیق اور اس میں موجود پرحکمت ترتیب اور نظم وانصرام کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے،آپ فرماتے ہیں :
ہر دم از کاخ عالم آوازیست
کہ یکش بانی و بنا سازیست
کائنات اور اس کا نظام ہر دم یہ آواز دے رہا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا اور خالق ہے۔ یعنی زمین و آسمان اجرام و افلاک اور ان میں پایاجانے والا انتہائی مربوط نظام سب زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ہم خود سے نہیں ہمیں کوئی بنانےوالا اور اس کو متواتر اور مسلسل چلانے والا موجودہے۔
اس کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی ہیں کہ وہ واحد ،لاشریک ،ہرچیز پر قادر، ازلی ابدی،بصیر،راہنما، ہادی، مستجمع جمیع صفات کاملہ ہےاور پھر فرمایا:
نیست از حکم او برون چیزے
نہ ز چیزیست او نہ چون چیزے
ہر چیز اس کے ہی حکم سے کام میں لگی ہوئی ہے اور کوئی بھی چیز اس کے حکم کے بغیر نہیں ہوسکتی۔نہ وہ کسی چیز سے پیدا ہؤا اور نہ وہ کسی چیز کی طرح ہے۔
پھر خدا کی ارفع ذات کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ وہ فقط مادی سوچ پر مبنی ہر قسم کے عقل و قیاس کے تصور سے بالاتر ہے:
ہر چہ آید بفہم و عقل و قیاس
ذات او برترست زان وسواس
جو کچھ فہم عقل اور قیاس میں آ سکتا ہے اس کی ذات ہر اس خیال سے بالاتر ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ مشکلات اور مصیبتوں کے وقت پناہ تلاش کی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہےجو سب کی پناہ ہے اور اس کی یاد اور اس کاذکر ہی ہر کام میں کامیابی کی کنجی ہے اور جو شخص اس کی درگاہ میں روئے گا گڑگڑائے گا،اپنے کھوئے ہوئے نصیب کو پالے گا۔
خلق جوید پناہ و سایہ کس
واں پناہِ ہمہ تو ہستی و بس
مخلوق کسی کی پناہ اور سایہ ڈھونڈتی ہے مگر سب کی پناہ صرف تیری ذات ہے۔
ہست یادت کلید ہر کارے
خاطرے بے تو خاطر آزارے
تیری یاد ہر مشکل کی کلید ہے، تیرے بغیر ہر خیال دل کا دکھ ہے۔
ہر کہ گیرد درت بصدق و حضور
از در و بام او ببارد نور
جو صدق اور اخلاص سے تیری چوکھٹ پکڑتا ہے تو اس کے در و بام سے نور کی بارش برساتا ہے۔
ہر کہ راہ تو جست یافتہ است
تافت آن رو کہ سرنتافتہ است
جس نے تیری راہ ڈھونڈی،اس نے تجھے پالیا۔وہ چہرہ نورانی ہوگیا جس نے تجھ سے منہ نہ موڑا۔
پھر آخر میں اپنے محبوب خدا کے حضور عجز ونیاز کے ساتھ تلطف و ترحم کا واسطہ دے کراپنے حضور شرفِ باریابی کی طلب کی صورت میں مناجات کرتے ہوئےعرض کرتے ہیں :
اے خداوند من گناہم بخش
سوئے درگاہ خویش راہم بخش
اے میرے اللہ،میرے گناہ بخش دے اور اپنی درگاہ میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرما۔
روشنی بخش در دل و جانم
پاک کن از گناہ پنہانم
دل وجان کو روشنی عطا فرما اور مجھے میرے مخفی گناہوں سے بھی پاک فرمادے۔
در دو عالم مرا عزیز توئی
و آنچہ میخواہم از تو نیز توئی
دونوں جہانوں میں مجھے صرف تو ہی عزیز ہے اور وہ چیز جو میں تجھ سے مانگتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے۔
حمد کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آقاو مطاع محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شان میں ۱۳۱؍اشعار پر مشتمل لمبی نظم تحریر فرماتے ہیں جس کی نظیر کسی گذشتہ و موجودہ شاعر کے کلام میں نہیں ملے گی۔اور اس نظم میں ایک بھی شعر ایسا نہیں کہ جس کے متعلق یہ محسوس ہو کہ یہ اضافی ہے بلکہ ہر شعر ایسا عشق سے پُر، جذبات سے لبریزہے اور ایسے نکات معرفت اپنے اندر سموا ہوا ہے کہ ہر سعید فطرت قاری کو بھی اس عظیم ہستی سے عشق کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض غیر احمدی علماءبھی اس نظم کو بڑے شوق سےاپنی مجالس میں پڑھتے ہیں۔بہرحال،براہین احمدیہ میں چونکہ آپ کا مقصد اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت کا ثابت کرنا تھا اس لیے آپ نے نعت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صفات حسنہ بیان فرمائیں تا لوگوں پرآپ ﷺکی صداقت آشکار ہو اور اس پر طُرہ یہ کہ ان صفات حسنہ کے متعلق اپنی ذات کو بطور گواہ کے پیش کیا ہے:
در دلم جوشد ثنائے سرورے
آنکہ در خوبی ندارد ہمسرے
میرے دل میں اس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔
آنکہ جانش عاشق یار ازل
آنکہ روحش واصل آن دلبرے
وہ جس کی جان خدائے ازلی کی عاشق ہے وہ جس کی روح اس دلبر میں واصل ہے۔
آنکہ مجذوب عنایات حق ست
ہمچو طفلے پروریدہ در برے
وہ جو خدا کی مہربانیوں سے اس کی طرف کھینچا گیا ہے اور خدا کی گود میں ایک بچہ کی مانند پلا ہے۔
آنکہ در بر و کرم بحر عظیم
آنکہ در لطف اتم یکتا درے
وہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحر عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے۔
آنکہ در جود و سخا ابر بہار
آنکہ در فیض و عطا یک خاورے
وہ جو بخشش اور سخاوت میں ابر بہار ہے اور فیض وعطا میں ایک سورج ہے۔
آن رحیم و رحم حق را آیتے
آن کریم و جود حق را مظہرے
وہ رحیم ہے اور رحمت حق کا نشان ہے وہ کریم ہے اور بخشش خداوندی کا مظہر ہے۔
آن رخ فرخ کہ یک دیدار او
زشت رو را میکند خوش منظرے
اس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اس کا ایک ہی دیدار،بدصورت کوبھی حسین بنا دیتا ہے۔
آن دل روشن کہ روشن کردہ است
صد درون تیرہ را چون اخترے
وہ ایسا روشن ضمیر ہے جس نے سینکڑوں سیاہ دلوں کو ستاروں کی طرح روشن کر دیا۔
آن ترحمہا کہ خلق ازوے بدید
کس ندیدہ در جہان از مادرے
وہ مہربانیاں جو مخلوق نے اس سے دیکھیں وہ کسی نے اپنی ماں میں بھی نہیں پائیں۔
روشنی از وے بہر قومے رسید
نور او رخشید بر ہر کشورے
اس سے ہر قوم کو روشنی پہنچی،اس کا نورہر ملک پر چمکا۔
ختم شد بر نفس پاکش ہر کمال
لا جرم شد ختم ہر پیغمبرے
اس کے پا ک نفس پر ہر کمال ختم ہو گیا اس لیے اس پر پیغمبروں کا خاتمہ ہو گیا۔
آپ علیہ السلام حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی مزیدخصوصیات اور صفات حسنہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیگر انبیا ء کی خوبیاں بیان فرماتے ہیں تاکہ دیگر اقوام عالم کو جو ان انبیاء سے نسبت فخر کا باعث گردانتی ہیں توجہ ہوکہ جس خدا نےپہلے رسول بھیجے تھے وہ خدا اب بھی موجود ہے۔
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
ہر رسولے آفتاب صدق بود
ہر رسولے بود مہر انورے
ہر رسول سچائی کا سورج تھا،ہر رسول روشن آفتاب تھا۔
گر بدنیا نامدے ایں خیل پاک
کار دین ماندے سراسر ابترے
اگر یہ پاک جماعت دنیا میں نہ آتی تو دین کا کام بالکل ابتر رہ جاتا۔
ہر کہ شکر بعث شان نارد بجا
ہست او آلائے حق را کافرے
جو ان کی بعثت کا شکر بجا نہیں لاتا وہ حق تعالیٰ کی نعمتوں کا منکر ہے۔
امتے ہرگز نبودہ در جہان
کاندران نامد بوقتے منذرے
ایسی کوئی امت بھی دنیا میں نہیں ہوئی جس میں کسی وقت ڈرانے والا نہ آیا ہو
پھر آپ انبیا کا انکار کرنے والوں کی بد بختی اور بے نصیبی پر افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
ہست قومے کج رو و ناپاک رائے
آنکہ زین پاکان ہمی پیچد سرے
ایک گمراہ اور ناپاک قوم ایسی بھی ہے جو ان پاک لوگوں کا انکار کرتی ہے۔
شوربختے ہائے بخت شان بہ بین
ناز برچشم و گریزاں از خورے
ان کی قسمت کی بدبختی کو دیکھ کہ اپنی آنکھ پر فخر کرتے ہیں اور سورج سے بھاگتے ہیں۔
آریہ مذہب والے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکی ذات بابرکات پر بہت گندے اعتراضات عائد کرتےتھے۔ان کی اس بیہودگی کا سبب در اصل ان کے غلط عقائد تھے۔چنانچہ ان کے مذہب میں موجود نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:
خر بود اندر حماقت بے نظیر
لیکن ایشان را بہر موصد خرے
گدھا بے وقوفی میں بے مثل ہے لیکن ان کے ایک ایک بال میں سو سو گدھے ہیں۔
نے سر تحقیق دارند و ثبوت
نے زنند از صدق پا بر معبرے
ایسے لوگ نہ تو تحقیق کی عادت رکھتے ہیں اور نہ اپنی بات کے لیے ثبوت دیتے ہیں اور نہ ہی سچے دل سے اس راستے پر قدم رکھتے ہیں۔
آن خدائے شان عجب باشد خدا
کو تغافل داشت از ہر کشورے
ان کا خدا بھی عجیب خدا ہے جسے ہر ملک سے لاپروائی رہی
بہر الہام آمدش دایم پسند
یک زبان یک خطہ کوتہ ترے
اسے ہمیشہ اپنے الہام کے لیے ایک زبان اور ایک چھوٹا سا ملک پسند آیا۔
اینچنیں رائے کجا باشد درست
کے خرد گردد بسویش رہبرے
ایسی رائے کیونکر صحیح ہو سکتی ہے؟ اور عقل کس طرح اس کی طرف راہنمائی کر سکتی ہے؟
پھر آپ علیہ السلام ان کو ان بیہودہ اعتراضات پر سرزنش کرکے توجہ دلاتے ہیں کہ اپنی ان حرکتوں سےتم لوگ خود اپنے آپ کو رسوا کر رہے ہو:
کور گر گوئد کجا ہست آفتاب
میشود در کوری اش رسوا ترے
اگر اندھا کہے کہ سورج کہاں ہے تو وہ اپنے اندھے پن میں زیادہ رسوا ہو گا۔
لعل تابان را اگر گوئی کثیف
زین چہ کاہد قدر روشن جوہرے
چمکدار لعل کو اگر تو خراب کہہ دے تو اس سے آبدار ہیرے کی قیمت کیونکر گھٹ سکتی ہے۔
طعنہ بر پاکان نہ بر پاکان بود
خود کنی ثابت کہ ہستی فاجرے
پاکوں پر طعنہ زنی کبھی پاک لوگوں پر نہیں پڑتی بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تو خود فاجر ہے۔
پھر آپ علیہ السلام اپنا مذہب اور عقیدہ بیان کرتے ہیں کہ
ماہمہ پیغمبران را چاکریم
ہمچو خاکے اوفتادہ بر درے
ہم تو سب پیغمبروں کے غلام ہیں اور خاک کی طرح ان کے دروازہ پر پڑے ہیں۔
اس نعت کے اختتام پرآپؑ اللہ تعالیٰ کے حضور مناجات کرتے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کی مہم میں مدد کی درخواست کرتے ہیں:
دست من گیر از رہ لطف و کرم
در مہمم باش یار و یاورے
اپنے لطف وکرم سے میرا ہاتھ پکڑ اور میری اس مہم میں میرا دوست اور مددگار بن جا۔
تکیہ بر زور تو دارم،گرچہ من
ہمچو خاکم بلکہ زان ہم کمترے
میں تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگرچہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر۔
براہین احمدیہ حصہ دوم میں حضور اقدس علیہ السلام ایک مقدمہ تحریر فرماتے ہیں اور اس میں کمال خاکساری سے عرض کرتے ہیں کہ ’’اس کتاب کی تصنیف سے ہمارا ہرگز یہ مطلب اور مدعا نہیں جو کسی دل کو رنجیدہ کیا جائے یا کسی نوع کا بےاصل جھگڑا اٹھایا جائے بلکہ محض حق اور راستی کا ظاہر کرنا مراد دلی اور تمناءقلبی ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۷۱)
اسی مضمون کو آپ نے فارسی کے سات اشعار میں بھی بیان کیا،فرمایا:
بدل دردے کہ دارم از برائے طالبان حق
نمےگردد بیاں آں درد از تقریر کوتاہم
وہ درد جو میں طالبان حق کے لیے اپنے دل میں رکھتا ہوں میں اس درد کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
مرامقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم
میرا مقصود اور میرا مطلوب اورمیری خواہش خدمت خلق ہے یہی میرا کام ہے یہی میری ذمہ داری ہے یہی میرا طریق ہے یہی میراراستہ ہے۔
نہ من از خود نہم در کوچۂ پند و نصیحت پا
کہ ہمدردی برد آنجا بہ جبر و زور و اکراہم
میں اپنی خواہش سے پند ونصیحت کے کوچہ میں قدم نہیں رکھتا کہ مخلوق کی ہمدردی زبردستی مجھے اس کام کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہے۔
اگلی نظم پچاس اشعار پر مشتمل ہے۔اس میں آپ دنیا کے عارضی اور فانی ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ میں نے ہر مذہب پر غور کیا ہے،اور اس کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور اسلام جیسا کوئی بھی قوی اور متین دین نہیں پایا۔اس لیے میری اس کتاب کو صاف دل ہو کر توجہ سے پڑھو تاکہ تمہیں حق و صداقت کے چشمہ پر آگاہی اور تشنہ لبوں کی سیرابی ہو۔
نمونہ کے طور پر چند شعر درج ذیل ہیں:
بیا اے طلبگار صدق و صواب
بخوان از سر خوض و فکر این کتاب
اے سچائی اور حق کو ڈھونڈنے والے ذرا غور اور فکر سے اس کتاب کو پڑھ۔
گرت بر کتابم فتد یک نگاہ
بدانی کہ تا جنت این ست راہ
اگر میری کتاب پر تیری ایک نظر پڑ جائے تو تو جان لے گا کہ جنت کا راستہ یہی ہے۔
بدنیائے دون دل مبند اے جوان
تماشائے آن بگذرد ناگہان
اے جوان! اس ذلیل دنیا سے دل نہ لگا کیونکہ چٹ پٹ اس کا تماشا ختم ہو جانا ہے۔
بدنیا کسے جاودانہ نماند
بہ یک رنگ وضع زمانہ نماند
دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہا اور زمانہ کا حال ایک جیسا نہیں رہتا۔
یقین دان کہ قولم زحق پروریست
نہ لاف و گزاف ست و نے سرسریست
یقین جانو کہ میری یہ بات انصاف پر مبنی ہے سرسری اور لاف و گزاف نہیں۔
بہر مذہبے غور کردم بسے
شنیدم بدل حجت ہر کسے
میں نے ہر مذہب پرخوب غور کیا اوردل سے ہر شخص کی دلیل کو سنا۔
بخواندم ز ہر ملتے دفترے
بدیدم ز ہر قوم دانشورے
میں نے ہر مذہب کی کتابوں کو پڑھا اور ہر قوم کے دانشوروں کو دیکھا۔
ہم از کودکی سوئے این تا ختم
درین شغل خود را بینداختم
بچپن سے ہی میں نے اس راہ کی طرف توجہ کی اور اپنے تئیں اسی شغل میں ڈالا۔
جوانی ہمہ اندرین باختم
دل از غیر این کار پرداختم
میں نے ساری جوانی اسی راہ میں صرف کی اور دل کو اور کاموں سے فارغ کردیا۔
چو اسلام دینے قوی و متین
ندیدم کہ بر منبعش آفرین
اسلام جیسا قوی اور مضبوط دین اور کوئی نہیں پایا اور اس کے منبع پر آفرین ہو۔
اس کے بعد اگلی نظم ۹۴؍اشعار پر مشتمل ہے۔جس میں حضور علیہ السلام نےاس دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے،اور تنبیہ کی ہے کہ اس پر فریفتہ مت ہو، یہ چند روزہ زندگی مزرعہ آخرت ہے،اس کو باطل عقیدوں اور جھوٹے خیالوں سے ضائع مت کرو۔یہ جہان مردار کی طرح ہے اور اس کے طلبگار کتے سے شباہت رکھتے ہیں۔پھر آپ علیہ السلام خدا سے تعلق قائم کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمہارا قوم و قبیلہ اور رشتہ دار جن کے لیے خدا کو چھوڑتے ہو،وہ سب تمہاری ہلاکت کے در پے ہوتے ہیں،کبھی وہ صلح کی چال سے اور کبھی جنگ کی شکل میں آپ کی نابودی کا باعث بنتے ہیں،اور ایسے تعلق پر خاک پڑے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے تعلق ٹوٹتا ہو۔اور پھرآپؑ اللہ تعالیٰ کے عاشق حقیقی کی نشانیاں بیان فرماتے ہیں کہ عاشق پر معشوق کے لئے جان دینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی،اوراس کے لیے معشوق کا کوچہ بڑے سرسبز اور خوبصورت پھولوں والے باغ سے زیادہ پیارا ہوتا ہے،اور معشوق کا دیدار گل وریحان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے، معشوق جو بھی عاشق کے ساتھ سلوک روا رکھے،عاشق کو وہی پیارا لگتا ہے،اور اس کے دیدار کے عوض اگر سو جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو وہ بڑی محبت سے یہ سودا قبول کرلیتا ہے۔حضرت اقدس علیہ السلام کا ایسا پیارا کلام ہے اور معانی سے مملو ہے کہ دل کرتا ہے سارا ہی لکھ دیا جائے لیکن ضخامتِ مضمون اس کی اجازت نہیں دیتا۔بہرحال،مضمون کا مقصد روحانی مائدہ کا تعار ف کروانااور دلوں میں آپؑ کے کلام کی چاشنی ڈالنا ہے۔
پھر حضرت اقدس علیہ السلام ان لوگوں کو مخاطب ہوتے ہیں جو خدا کی ذات کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے دین کی تکذیب کے مرتکب ہوتے ہیں۔چنانچہ آپؑ ان بدطینت لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہاری ساری زندگی کا حاصل صرف کینہ،دشمنی اور فساد ہے اور چونکہ آپ کے اندر نور فراست نہیں ہے اس لیے کفر کہتے ہو اور اسی کو عبادت سمجھتے ہو،فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہو اور اسی کو ثواب سمجھتے ہو۔صادق وہ ہے جو قلب سلیم سے اس دین کوقبول کرے جو پاک اور مضبوط دلائل پر مبنی ہو۔اگر ذرہ بھی خدا کا ڈر ہے تو اس دین کو قبول کرلو اور دنیا سے مت ڈرو کیونکہ وہ موجب رحمت ہوگا۔مخلوق کی لعنت و ملامت بے وقعت ہے اصل لعنت وہ ہے جو خدائے رحمان کی طرف سے آتی ہے۔
اب میں اس نظم کے بعض اشعار بطور نمونہ پیش کرتا ہوں:
عیش دنیائے دون دمے چند ست
آخرش کار باخداوند ست
اس ذلیل دنیا کا عیش چند روز ہے بالآخر خدا تعالیٰ سے ہی کام پڑتا ہے۔
این جہان ست مثل مردارے
چون سگے ہر طرف طلب گارے
یہ دنیا تو مردے کی طرح ہے اور کتوں کی طرح ہر طرف اس کے طلبگار ہیں۔
چشم دل اندکے چو گردد باز
سرد گردد بر آدمی ہمہ آز
جب دل کی آنکھ تھوڑی سی بھی کھل جائے تو آدمی کی تمام حرص ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔
خویش و قوم و قبیلہ پر ز دغا
تو بریدہ برائے شان ز خدا
رشتہ دار،قوم اور کنبہ سب دھوکے باز ہیں لیکن تو نے ان کی خاطر خدا سے تعلق توڑ رکھا ہے۔
این ہمہ را بکشتنت آہنگ
گہ بصلحت کشند و گاہ بہ جنگ
ان سب کا ارادہ تیرے قتل کرنے کا ہے کبھی تو یہ صلح سے مارتے ہیں اور کبھی لڑکر۔
ہست آخر بآن خدا کارت
نہ تو یار کسے نہ کس یارت
آخر اسی خدا سے تجھے کام پڑے گا ، نہ تو تو کسی کا یار ہے اور نہ کوئی تیرا یار ہے۔
ہر کہ گیرد رہ خدائے یگان
آن خدایش بس ست در دو جہاں
جو بھی خدائے واحد کا راستہ اختیار کرے گا اس کے لیے خدا تعالیٰ دونوں جہانوں میں کافی ہے۔
ہر کہ او عاشق یکے باشد
ترک جان پیشش اند کے باشد
جو ایک ہی ہستی کا عاشق ہو گا جان دینا اس کے لیے معمولی بات ہو گی۔
کوئے او باشدش ز بستان بہ
روئے او باشدش ز ریحان بہ
اس کا کوچہ اسے باغ سے زیادہ اچھا لگتا ہے اور اس کا منہ پھول سے زیادہ اسے پسند ہوتا ہے۔
ہر چہ دلبر بدو کند آن بہ
دیدن دلبرش ز صد جان بہ
معشوق جو بھی سلوک اس کے ساتھ کرے وہی بہتر ہوتا ہے اپنے دلبر کا دیکھنا اسے سو جان سے بڑھ کر ہوتا ہے۔
تو سر خویش تافتہ از دین
حاصل روزگار تو ہمہ کین
تو نے اپنا سر دین کی طرف سے پھیر لیا ہے تیری زندگی کا ماحصل صرف عداوت ہے۔
کفر گوئی عبادت انگاری
فسق ورزی ثواب پنداری
تو کفر بکنے کو عبادت سمجھتا ہے اور بدکاری کو ثواب جانتا ہے۔
صادق آن ست کو بقلب سلیم
گیرد آن دین کہ ہست پاک و قویم
سچا وہ ہے جو نیک دل کے ساتھ اس دین کو اختیار کرتا ہے جو پاک اور مضبوط ہے۔
گر ترا ہست بیم آن دادار
بہ پذیر و ز خلق بیم مدار
اگر تجھے خدا کا خوف ہے تو مذہب اسلام کو قبول کر اور لوگوں سے مٹ ڈر۔
چون بود بر تو رحمت آن پاک
دیگر از لعن و طعن خلق چہ باک
جب اس خدائے پاک کی رحمت تجھ پر ہو تو پھر تجھے مخلوق کی لعنت اور طعنوں سے کیا ڈر ہے۔
لعنت خلق سہل و آسان ست
لعنت آن ست کو ز رحمان ست
خلقت کی لعنت آسان اور سہل ہے دراصل لعنت وہ ہے جو خدائے رحمان کی طرف سے پڑتی ہے۔
براہین احمدیہ حصہ سوم کی پہلی فصل قرآن شریف کی صداقت کے بیان میں ہے،اس حوالے سے آپؑ بعض دلائل بیان کرنے کے بعد۱۳؍ اشعار پر مشتمل فارسی نظم تحریر فرماتے ہیں جس میں قرآن شریف کی خوبیاں بیان کرتے ہیں کہ یہ خدائے رب العالمین تک لےکر جاتا ہے۔ اس کی ذات کے متعلق ہر قسم کے شکوک و شبہات کو دور کرتا ہےاور اس کی کامل قدرت کو ظاہر کرتا ہے،پس جس نے بھی یہ یقین حاصل کرنا ہے،اس کی ذات کا عرفان پانا ہے،تو اس کے لیے یہی کتاب ہے۔اس فرقان الٰہی کی وحی روحانی مردوں کو زندہ کردیتی ہے اور خدا کے وجود پر وہ یقین عطا کرتی ہے کہ صد جہانوں میں بھی کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا۔
ہست فرقان از خدا حبل المتین
تاکشندت سوئے رب العالمین
قرآن خدا کی مضبوط رسی ہے جو تجھے رب العالمین کی طرف کھینچ کر لے جائے گی۔
حق فرستاد این کلام بے مثال
تا رسی در حضرت قدس و جلال
خدا نے اس بے نظیر کلام کو اس لیے بھیجا ہے تا کہ تو اس پاک اور ذوالجلال کی درگاہ میں پہنچ جائے۔
داروئے شک است الہام خدائے
کان نماید قدرت تام خدائے
خدا تعالیٰ کا الہام شک کی دوا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی کامل قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔
وحی فرقان مردگان را جان دہد
صد خبر از کوچۂ عرفان دہد
قرآن کی وحی مردوں میں جان ڈالتی ہے اور معرفت الٰہی کی سینکڑوں باتیں بتاتی ہے۔
اس کے بعد اگلی فارسی نظم ۱۶؍اشعار پر مشتمل ہےجس میں حضرت اقدسؑ نے الہام اورعقل کاباہم تقابلی جائزہ پیش کیاہے، کیونکہ دوسرے مذاہب والے الہام کا انکار کرتے ہیں اور عقل کو ہی سب کچھ جانتے ہیں۔آپؑ فرماتے ہیں کہ الہام کے بغیر توحید کو پایا ہی نہیں جاسکتا،حرص و ہواسے چھٹکارا مل ہی نہیں سکتا،یہ الہام ہے جو عقل سے نہ حل ہونے والے عقدے کوحل کردیتا ہے،انسان کے علم اور خدا کے علم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
اے در انکار ماندہ از الہام
کرد عقل تو عقل را بدنام
اے وہ شخص جو الہام کا منکر ہے تیری سمجھ نے تو عقل کو بھی بدنام کر دیا۔
از خدا رو بخویش آوردی
این چہ آئین و کیش آوردی
خدا کو چھوڑ کر تو نے اپنی عقل کو سب کچھ سمجھ لیا ہے، یہ کونسا مذہب اور طریقہ لے آئے ہو!
آن یکے را نگار خویش بہ بر
دیگرے چشم انتظار بہ در
الہام کے قائل کا معشوق اس کے پاس ہے اور دوسرا جو اس کا منکر ہےاس کی آنکھ انتظار میں دروازے پر لگی ہوئی ہے۔
آن یکے کام یافتہ بہ تمام
دیگرے سوختہ بفکرت کام
الہام کے قائل نےاپنی مراد پالی اور منکر الہام اپنی مراد کے خیال ہی میں جل رہا ہے۔
ہمہ کار تو ناتمام افتاد
وہ چہ کارت بعقل خام افتاد
اے منکر الہام،تیرے سارے کام ناتمام رہ گئے۔واہ یہ تیرا ناقص عقل کے ساتھ کیا برا واسطہ پڑا ہے۔
اس کے بعد اگلی نظم بھی اسی الہام کے مضمون کا تسلسل ہے اور اس کے ۱۳۹؍اشعار ہیں۔اس میں حضورؑ فرماتے ہیں کہ جس طرح آنکھ سورج کی روشنی کے بغیر دیکھ نہیں سکتی اسی طرح روحانی آنکھ بھی الہام کے بغیر اندھی ہے۔اور پھر انسانی فطرت کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ جب فطرت میں خدا سےمحبت ڈالی گئی ہے،تو اس محبت کو سیراب کرنے کا سامان بھی کیا گیا ہے اور وہ الہام ہے۔
پھر حضورؑعقلیت پسند لوگوں کو خطاب فرماتے ہیں کہ عقل توالہام کے برابر میں کچھ حیثیت نہیں رکھتی بلکہ کبر و غرورعقل کوگمراہ کردیتا ہے،خداکو صرف خدا کے ذریعے ہی پایا جاسکتا ہے۔آب بقا الہام ہے۔عقل صد قسم کی حرص و ہوا سے مغلوب ہے اس لیے ایک مغلوب چیز پر تکیہ کرنااشقیاء لوگوں کا ہی کام ہے۔دنیا میں عشق الہام سے پیدا ہوا ہے۔اور عشق محبوب کے کلام کو چاہتا ہے اور یہ طلب انسانی فطرت میں موجود ہے۔
حاجت نورے بود ہر چشم را
این چنین افتاد قانون خدا
ہر آنکھ کو روشنی کی ضرورت ہے، خدا کا قانون ایسا ہی ہے۔
عشق از الہام آمد در جہاں
درد از الہام شد آتش فشان
عشق الہام ہی سے دنیا میں آیا اور درد بھی الہام ہی سے آتش فشاں بنی۔
شوق و انس و الفت و مہر و وفا
جملہ از الہام می دارد ضیا
شوق انس الفت اور مہرو وفا، ان سب کی رونق الہام کی وجہ سے ہے۔
عشق می خواہد کلام یار را
رو بپرس از عاشق این اسرار را
عشق تو دوست کے کلام کو چاہتا ہے، جا اور عاشق سے اس راز کو پوچھ۔
دل نمی گیرد تسلی جز خدا
این چنین افتاد فطرت ز ابتدا
خدا کے بغیر انسان کا دل تسلی نہیں پاتا، ابتدا سے آدمی کی فطرت ہی ایسی ہے۔
کبر شہر عقل را ویراں کند
عاقلان را گم رہ و نادان کند
تکبر عقل کے شہر کو ویران کر دیتا ہے اور عقلمندوں کو گمراہ اور بیوقوف بنا دیتا ہے۔
از خدا باشد خدا را یافتن
نے بہ مکر و حیلہ و تدبیر و فن
خدا کی مدد سے ہی خدا کو پاسکتے ہیں، نہ کہ چالاکی حیلہ اور مکروفریب کے ساتھ۔
عقل تو مغلوب صد حرص و ہواست
تکیہ بر مغلوب کار اشقیاست
تیری عقل حرص وہوا کی مغلوب ہے اور مغلوب پر بھروسہ کرنا بدبختوں کا کام ہے۔
از پئی دنیا بریدن از خدا
بس ہمیں باشد نشان اشقیا
دنیا کے لیے خدا سے تعلق توڑنا یہی تو بدبختوں کی علامت ہے۔
عقل در اسرار حق بس نا رساست
آنچہ گہ گہ می رسد ہم از خداست
عقل اسرار حق کو بالکل نہیں پہنچ سکتی۔ جو کچھ بھی کبھی کبھی ملتا ہے وہ بھی خدا ہی کاکرم ہے۔
تو بہ عقل خویش در کبر شدید
ما فدائے آنکہ او عقل آفرید
تو اپنی عقل پر نازاں ہو کر سخت متکبر ہو گیا ہے اور ہم اس پر فدا ہیں جس نے خود عقل کو پیدا کیا۔
چیست دین خود را فنا انگاشتن
و از سر ہستی قدم برداشتن
دین کیا ہے؟ اپنے تئیں فنا سمجھنااور اپنی ہستی سے بالکل الگ ہو جانا۔
اگلی فارسی نظم ۶۲؍اشعار پر مشتمل ہے۔یہ نظم اس مضمون کا تتمہ ہے جو آپ علیہ السلام نے اس اعتراض کے جواب میں تحریر فرمایاہے کہ چونکہ کوئی کتاب اللہ تعالیٰ کی سب صداقتوں کو بیان نہیں کرسکتی اس لیے قرآن شریف کوکس طرح کامل مان کرکامل معرفت تک پہنچانے والی کتاب یقین کرلیا جائے۔اس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے اگر کوئی ایسی صداقت دکھا دیتے جو قرآن شریف میں موجود نہیں تب تویہ اعتراض بجا تھا لیکن جب ایسا کرنہیں سکتے تو پھر اعتراض کرنا بیجا ہے۔
فارسی کلا م میں آپ معترض کو توجہ دلاتے ہیں کہ شرم و حیا کو ترک نہیں کرنا چاہیے اور کینہ میں حد سے زیادہ نہیں گزرجانا چاہیے۔دنیا سے کیوں دل لگاتے ہو کہ اچانک اس گھر کو چھوڑجانا ہوتا ہے۔ مال و زر پر فریفتہ نہ ہو کہ انجام کار اس پر بھی زوال آتا ہے اور خالی ہاتھ آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔اگر قرآن شریف دنیا میں نہ آتا تو توحید کا نام بھی دنیا میں نہ ملتا۔
الا اے کمر بستہ بر افترا
مکش خویشتن را بہ ترک حیا
اے وہ جس نے افترا پر کمر باندھ رکھی ہے اپنے تئیں بے حیا بن کر ہلاک نہ کر۔
سخن ہائے پُر خبث و بے مغز و خام
بود بر خبیثان نشانے تمام
گندی بے معنی اور بے ہودہ باتیں خبیثوں کی خباثت کو ہی ظاہر کرتی ہیں۔
بہ دنیا کسے دل بہ بندد چرا
کہ ناگاہ باید شدن زین سرا
کوئی اس دنیا سے کیوں دل لگائے جبکہ اچانک ایک دن اس سرائے سے کوچ کرنا ہے۔
فریبے مخور از زر و سیم و مال
کہ ہر مال را آخر آید زوال
سونے چاندی اور مال سے دھوکا نہ کھاکیونکہ آخر ہر مال پر زوال آجاتا ہے۔
خدائے کہ جان بر رہ او فدا
نہ یابی رہش جز پئے مصطفیٰ
وہ خدا جس کی راہ میں ہماری جان قربان ہے اس کا راستہ تجھے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی پیروی کے بغیر نہیں مل سکتا۔
بہ قرآن چرا بر سر کین دوی
نہ دیدی ز قرآن مگر نیکوی
قرآن پر دشمنی سے کیوں حملہ کرتا ہے جبکہ تو نے قرآن میں سوائے نیکی کے اور کچھ بھی نہیں دیکھا۔
اگر نامدی در جہاں این کلام
نماندی بہ دنیا ز توحید نام
اگر جہان میں یہ کلام نہ آتا تو دنیا میں توحید کا نام بھی باقی نہ رہتا۔
اگلی نظم میں جو۱۲؍اشعارپر مشتمل ہےحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف کی بہت ساری خوبیاں بیان کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جو بھی اس کتاب کا عالم ہوجاتا ہے،وہ معارف کا خزانہ بن جاتا ہے۔یہ کتاب خداکی ذات پر کامل یقین دلاتی ہے۔ یہ اس خدا کانور ہے جس نے انسان کو پیدا کیا۔
از نور پاک قرآن صبح صفا دمیدہ
برغنچہائے دلہا باد صبا وزیدہ
قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہو گئی اور دلوں کے غنچوں پر باد صبا چلنے لگی۔
آن نیّر صداقت چوں رو بعالم آورد
ہر بوم شب پرستی درکنج خود خزیدہ
یہ سچائی کا سورج جب اس دنیا میں ظاہر ہوا تو رات کے پجاری الو اپنے اپنے کونوں میں جا گھسے۔
آنکس کہ عالمش شد شد مخزن معارف
وآن بے خبر ز عالم کین عالمے ندیدہ
جس نے اس کا علم پالیا وہ معارف کا خزانہ بن گیا اور وہ عالم سے بے خبر ہے جس نے اس عالم کو نہیں دیکھا۔
میلم نماند باکس محبوب من توئی بس
زیرا کہ زان فغان رس نورت بما رسیدہ
میری دلچسپی کسی میں نہیں رہی،میرا محبوب تو صرف تو ہے کیونکہ تیرا نور ہمیں اس فریادرس سے پہنچا ہے۔
اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ چہارم میں حضرت اقدسؑ سات اشعار پر مشتمل نظم تحریر فرماتے ہیں اور اس میں بھی قرآن شریف کی اہمیت بیان فرماتے ہیں:
از وحی خدا صبح صداقت بدمیدہ
چشمے کہ ندید آن صحف پاک چہ دیدہ
خدا کی وحی سے صداقت کی صبح طلوع ہوگئی ہے،جس آنکھ نے ان صحف پاک کو نہیں دیکھا،اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔
با خور ندہم نسبت آن نور کہ بینم
صد خور کہ بہ پیرامن او حلقہ کشیدہ
جو نور میں دیکھتا ہوں،اسے میں سورج سے تشبیہ نہیں دیتا کیونکہ دیکھتا ہوں کہ اس نور کے گرد سینکڑوں آفتاب حلقہ باندھے کھڑے ہیں۔
اگلی نظم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انشاپردازی کی اعجازی قدرت کو ظاہرکرتی ہے کہ آپ قرآن شریف پر اعتراض کرنے والوں کو خطاب کرکے تحریر کرنا شروع کرتے ہیں اور ۴۳۱؍ اشعار پر مشتمل نظم فرماتے ہیں اور ہر شعر اپنے اندر ایک خاص اور الگ معنی لیے ہوئے ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے بلاضرورت کلام کو لمبا نہیں کیا بلکہ اپنے اشعار میں جوموتیوں کی لڑیوں کی طرح ہیں جو بھی خوبیاں اور خصوصیات بیان کی ہیں وہ ٹھوس حقیقت پر مبنی ہیں اورآپ نے اپنے آپ کو صرف ایک مضمون تک محدود نہیں کیا بلکہ اسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لیے اورانسانیت کو خدا کی طرف لانے کے لیےجس جس موضوع کا سہارا لینا اور بات کرنا ضروری سمجھا، اس کو بیان کردیا اور اپنی ذات کو عملی ثبوت کے طور پرپیش کیا ہے کہ میں نے جو باتیں کی ہیں،ان کو خود تجربہ کرچکا ہوں اوراگر ثبوت چاہیے یا نشان دیکھنا ہے تو میرے پاس صدق دل سے آؤ۔ یہ ایسی بات ہے جو بے مثال ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نظم کےآغاز میں قرآن شریف کا انکار کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ قرآن شریف کا انکار کرکے ایسی گمراہی کو اپنا لیا ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں اورایسے لوگوں کی کشتی کبھی کنارے تک نہ پہنچ پائے گی۔ قرآن شریف کا نور ایسانہیں کہ دیکھنے والوں کو نظر نہ آسکے،وہ ہدایت کا چراغ، دنیا کا رہبر و راہنما اور خدا کی طرف سے ربانی اسرار کو جاننے کا آلہ ہے۔لیکن تکبر کرنے والے لوگ اس نور کو نہیں دیکھ سکتے،یہ خدا کو دکھانے کا آئینہ ہے،بے زبان لوگ اس کی برکت سے فصیح و بلیغ ہوگئے۔
پھر حضرت اقدسؑ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے قرآن شریف سے فیض پایا اور اس کی برکات سے حصہ لیا۔یہ لوگ وہ ہیں جو اگر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو خدا ان کی دعا کو رد نہیں فرماتا،اگر خدا سے کسی راز کو جاننے کی درخواست کریں تو وہ الہام کے ذریعے ان پر اس رازکو کھولتا ہے،اگر خدا ان میں سے کسی کو کھڑا کرتا ہے توبادشاہ بھی اس کے رکاب میں دوڑنے کو فخر سمجھتے ہیں،اگرچہ ایسے لوگ دنیا سے مخفی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی ظاہر بھی ہوتے رہتے ہیں علی الخصوص جب زمانہ تاریکی سے پر ہوجائے اور حرص و ہواہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیوے تو اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ان میں سے کسی کو کھڑا کردیتا ہے جو لوگوں کوخواب غفلت سے بیدار کرتا ہے۔خلاصہ،اولیائے کرام کا وجوداسلام کی ایک خصوصیت ہے،اگر اس کو درست نہ سمجھو تو آؤ میں ثبوت دیتا ہوں۔کوئی جھوٹا وعدہ نہیں دوںگااور اگر خداکا نشان نہ دکھاؤں تو جھوٹا ہوں، میں پیدا ہی اس نشان دکھانے کے لیے ہوا ہوں،اس کے علاوہ اور کوئی میرا ہم و غم نہیں۔یہ سعادت ہماری قسمت میں تھی اس لیے ماں کی طرح جو اپنے بچوں کے پیچھے دوڑتی ہے،انسانیت کو خدا کی طرف لانے کے لیے یہ اعلان پر اعلان کر رہا ہوں لیکن نشان دیکھنے کے لیےانکساری،صدق وصفا اور خوف خدا شرط ہے۔
پھر حضور علیہ السلام نے دنیا کے عارضی ہونے کا مضمون بیان کرتے ہوئے نصائح فرمائی ہیں اور ایک ہی نظم میں لقا اور بقا جیسے تصوف کے لطیف اور پیچیدہ مسائل کو ایسے سادہ اور پیارے انداز میں بیان کردیا ہے کہ انسان متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔
نمونے کے طور پر چند شعر پیش ہیں:
اے سرخود کشیدہ از فرقان
پا نہادہ بہ لجۂ طغیان
اے قرآن سے سرکشی کر کے گمراہی کے گہرے اندھیروں میں الجھے ہوئے!
نورفرقان نہ تافت است چنان
کو بماند نہاں ز دیدہ وران
نور فرقان ایسا کم نہیں چمکا کہ وہ دیکھنے والوں کی نظر سے مخفی رہ جائے۔
آن چراغ ہدٰی ست دنیا را
رہبر و رہنماست دنیا را
وہ تمام دنیا کے لیے ہدایت کا چراغ ہے اور جہان بھر کے لیے رہبر اور راہنما۔
مخزن رازہائے ربّانی
از خدا آلۂ خدا دانی
خداوند کے اسرار کا خزانہ ہے،خدا کی طرف سے خداشناسی کا آلہ ہے۔
ہست آئینہ بہر روئے خدا
عالمے را کشید سوئے خدا
قرآن خدا کا چہرہ دکھانے کے لیے ایک آئینہ ہے،جس نے ایک جہان کو خدا کی طرف کھینچا ہے۔
بے زبانان از و فصیح شدند
زشت رویان از و صبیح شدند
گونگے اس کے ساتھ فصیح ہوگئے اور بدشکل آدمی اس کی برکت سے بہت خوبصورت بن گئے۔
ہست این قوم پاک را جاہے
کہ ندارد جہان بدو راہے
یہ خاص مقام پاک لوگوں کا ہے جس تک دنیادار نہیں پہنچ سکتے۔
دست بہر دعا چو بردارند
مورد فیض ہائے داداراند
جب وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو خدائی فیوض کے مورد بن جاتے ہیں۔
گر نماید خدا یکے زانان
برکابش دوند سلطانان
اگر خداتعالیٰ ان میں سے کسی کو ظاہر کردے تو بادشاہ بھی اس کے رکاب میں دوڑتے ہیں۔
الغرض ذات اولیاء کرام
ہست مخصوص ملّت اسلام
خلاصہ یہ کہ اولیائے کرام کی ذات مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہے۔
ایں مگو کین گزاف و لغو و خطاست
تو طلب کن ثبوت آن بر ماست
یہ نہ کہہ کہ یہ بات بیہودہ،لغو اور غلط ہے،تُو مطالبہ کر اس کا ثبوت ہمارے ذمہ ہے۔
وعدۂ کج بہ طالباں ندہم
کاذبم گر ازو نشاں ندہم
میں طالبوں سے غلط وعدہ نہیں کرتا،اگر اس کا پتا نہ بتاؤں تو جھوٹا ہوں۔
من خود از بہر این نشان زادم
دیگر از ہر غمے دل آزادم
میں خود اس نشان کو پورا کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں،دوسرے سب غموں اور فکروں سے آزاد ہوں۔
نعرہ ہا میزنم بر آب زلال
ہمچو مادر دوان پئے اطفال
میں بچوں کے پیچھے دوڑنے والی ماں کی طرح نعرے مار کر مصفا پانی کے چشمے کی طرف بلا رہا ہوں۔
تا مگر تشنگان بادیہ ہا
گردم آیند زین فغان و صلا
تاکہ شاید جنگلوں کے پیاسے اس شور و پکار سے میرے پاس آجائیں۔
لیک شرط است عجز و صدق و صفا
آمدن با نیاز و خوف خدا
لیکن شرط عاجزی، سچائی،نیاز اور خوف خدا ہے۔
تو برون آ ز خود لقا این ست
تو در و محو شو بقا این است
تو اپنی خودی سے باہر آ کہ یہی بقا ہے اور خدا میں محو ہوجا،یہی لقا ہے۔
ہر کرا دل بود بہ دلدارے
خبرش پرسد از خبردارے
جس کا دل کسی دلدار میں ہو،وہ واقف کار سے اس کی خبر تو پوچھتا ہے۔
گر نباشد لقائے محبوبے
جوید از نزد یار مکتوبے
اگر محبوب کی ملاقات میسر نہ ہو تو یار کے خط ہی کا طالب ہوتا ہے۔
آخری نظم ۱۵۹؍اشعار پر مشتمل ہے جس کے آغاز میں آپؑ اللہ تعالیٰ کو خطاب کرکے اس کے احسانات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑےاحسان کا ذکر فرماتے ہیں جو حضر ت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کی صورت میں ظاہر ہؤا۔اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صفات حسنہ اور آپ کی خصوصیات کا ذکر فرماتے ہیں اور آپؐ کی ذات اقدس پر اعتراضات کرنے والوں کومخاطب کرتےہوئے ان کے اس بیہودہ بے بنیاد اعتراض کا جواب دیتے ہیں کہ نعوذباللہ آنحضرتؐ شہوت پرست تھے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ کیا یہ شہوت پرست آدمی کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ظہور کے ساتھ رات کو دن سے اور خزاں کو بہار سے تبدیل کردے اور اس کی پیروی دل کو وہ چیز عطا کردے جو سوسالہ کوشش اور جہاد کرنے سے بھی نہ مل سکے،جس کی زبان معارف سے پر ہو،جس کا ہر بیان سراسر درو موتی ہو۔پاک لوگوں کو اپنے جیسا نہیں گمان کرنا چاہیے۔یہ آپﷺکی شخصیت کا کمال ہے کہ اہل و عیال کے ساتھ بھی آپ صرف خدا کی طرف یکسو تھے۔اس جہان میں ہوتے ہوئے،اس جہان میں نہیں تھے اور یہی کامل لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔انسان کامل وہ ہوتا ہے جو اہل و عیال و تجارت وغیرہ سب کاموں کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی خدا سے غافل نہ ہو۔ان کے پرکھنے کا بس یہی پیمانہ ہے۔ کام کرنے کی حالت میں بھی ان کا خیال اپنے محبوب کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔اے دشمن مصطفیٰﷺ! تم اس اعتراض کے ساتھ اپنی نابینائی کو ظاہر کررہے ہو،کیا کتے کے چاند پر بھونکنے سے چاند کا نور کم ہوجاتا ہے بھلا؟ مصطفیٰ ﷺ تو خدا کی صورت کا آئینہ ہیں،جس میں خدا کی صفات منعکس ہورہی ہیں۔اگر خدا کو نہیں دیکھا تو آپﷺ کو دیکھ لو۔
اے وہ !جو شاہ دین کا انکار کرتے ہو،اس کے خادموں اور چاکروں کو ہی دیکھ لو۔اگر چاہو تو ہم سے آنحضرتﷺکی صداقت کے سو نشان دیکھ لو۔اگر حسد کو ترک کرکے اور صدق و وفا سے ہمارے پاس آؤ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان دیکھو گے۔اگر ایسا نہ ہوتو میرا سر بدن سے جدا کردو، ہر قسم کی تکلیف دے کر ماردو کوئی اعتراض نہیں کروںگا۔میرا سارا مال و اموال لے لیجیو۔اگر میری زبان پرکہی بات جھوٹ ثابت ہوجائے تو جھوٹوں کی ہر سزا مجھے قبو ل ہے لیکن اگر پھر بھی اس حقیقت سے انکار کرو تو پھر اللہ تعالیٰ کی لعنت تم پر پڑ ے گی۔
اے خدا اے چارۂ آزار ما
اے علاج گریہ ہائے زار ما
اے خدا،اے ہمارے دکھوں کی دوا،اور اے ہماری گریہ و زاری کا علاج
ہرکہ عشقت در دل و جانش فتد
ناگہاں جانے در ایمانش فتد
ہر وہ شخص جس کے دل و جان میں تیرا عشق پیدا ہوجائے، تو اس کے ایمان میں فوراً جان پڑجاتی ہے۔
عشق تو گردد عیاں بر روئے او
بوئے تو آید زبام و کوئے او
تیرا عشق اس کے چہرہ پر ظاہر ہوجاتا ہے،اس کے در و دیوار سے تیری خوشبو آتی ہے۔
خاک را در یکدمے چیزے کنی
کز ظہورش خلق گیرد روشنی
تو خاک کو ایک دم میں وہ چیز بنادیتا ہے کہ خلق اس کے ظہور سے نور حاصل کرتی ہے۔
آں شہ عالم کہ نامش مصطفیٰ
سید عشاق حق شمس الضحیٰ
وہ جہان کا بادشاہ جس کا نام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے،وہ عشاق حق کا سردار اور شمس الضحیٰ ہے۔
آنکہ ہر نورے طفیل نور اوست
آنکہ منظور خدا منظور اوست
وہ جس کے نور سے ہر نورہے اور جس کا منظور کردہ خدا کا منظور کردہ ہے۔
آنکہ جملہ انبیا و راستاں
خادمانش ہمچو خاک آستاں
وہ جس کے سب انبیاء اور راستباز خاک در کی طرح خادم ہیں۔
آں نبی در چشم ایں کوران زار
ہست یک شہوت پرست و کیں شعار
وہ نبی ان بدبخت اندھوں کی نظر میں (نعوذباللہ )شہوت پرست اور کینہ ور شخص ہے۔
در شبی پیدا شودروزش کند
درخزاں آید دل افروزش کند
وہ جو اندھیری رات میں ظاہر ہوکر اسے دن میں تبدیل کردے اور خزاں میں آکر اسے بہار بنادے۔
اتباعش آں دہد دل را کشاد
کش نہ بیند کس بصد سالہ جہاد
جس کی اتباع دل کو اس قدرانشراح عطا کرے کہ کوئی سوسال جہاد کرکے بھی نہ پاسکے۔
منطق او از معارف پر بود
ہر بیان او سراسر در بود
جس کا کلام حقائق و معارف سے پر ہو اور ہر بیان بالکل موتی ہو۔
کار پاکاں بر بداں کردن قیاس
کار ناپاکاں بود اے بدحواس
پاک لوگوں کے کاموں کا بد لوگوں سے مقابلہ کرنا،اے بدحواس،ناپاک لوگوں کا ہی کام ہے۔
ایں کمال آمد کہ با فرزند و زن
از ہمہ فرزند و زن یکسو شدن
کمال تو یہ ہے کہ باوجود اولاد اور بیوی کے پھر بھی اہل و عیال سے الگ ہیں۔
در جہان و باز بیرون از جہان
بس ہمیں آمد نشان کاملاں
دنیا میں رہ کر دنیا سے دور رہنا یہی کامل لوگوں کی نشانی ہے۔
کامل آں باشد کہ با فرزند و زن
با عیال و جملہ مشغولی تن
انسان کامل وہ ہوتا ہے جوباوجود بیوی بچوں کے اور باوجود عیال اور جسمانی مشاغل کے
با تجارت با ہمہ بیع و شرا
یک زماں غافل نگردد از خدا
باوجود تجارت اور ہر قسم کے خرید و فروخت کے کسی وقت بھی خدا سے غافل نہ ہو۔
او نظر دارد بغیر و دل بہ یار
دست درکار و خیال اندرنگار
وہ بظاہر غیر کی طرف نظر رکھتا ہے لیکن دل یار کی طرف ہوتا ہے ہاتھ کام میں ہوتا ہے لیکن خیال محبوب کی طرف۔
کین و مہرشان ہمہ بہر خداست
قہر شان گر ہست آں قہر خداست
ان کی دشمنی و دوستی سب خدا کے لیے ہوتی ہے،ان کی ناراضگی جب ہو تو خدا کی ناراضگی ہوتی ہے۔
فانی اند و آلۂ ربانی اند
نور حق در جامۂ انسانی اند
وہ فنا فی اللہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا آلہ ہوتے ہیں، وہ انسانی جامے میں خدا کا نور ہوتے ہیں۔
مصطفیٰ آئینہ روئے خداست
منعکس در وے ہماں خوئے خداست
مصطفیٰ خدا کے چہرے کا آئینہ ہیں۔ان میں خداتعالیٰ کی صفات منعکس ہیں۔
گر ندیدستی خدا او را بہ بیں
من رأنی قدرأی الحق ایں یقین
اگر تو نے خدا کو نہیں دیکھا تو آنحضرتؐ کو دیکھ لے۔یہ حدیث یقینی ہے کہ جس نے مجھے دیکھا،اس نے حق کو دیکھا۔
خوب گر نزد تو زشت و تباہ
پس چہ خوانم نام تو ای روسیاہ
اگر حسین تیرے نزدیک بدصورت اور خراب حال ہے تو اے روسیاہ! میں تیرا کیا نام رکھوں؟
اے در انکار و شکے از شاہ دیں
خادمان و چاکرانش را بہ بیں
اے شاہ دین کا انکار کرنے والے اور اس کے بارے میں شک و شبہات رکھنے والے،اس کے خادموں اور نوکروں کو ہی دیکھ۔
کس ندیدہ از بزرگانت نشاں
نیست در دست تُو بیش از داستاں
کسی نے بھی کوئی نشان تیرے بزرگوں سے نہیں دیکھا،تیرے ہاتھ میں کہانیوں سے زیادہ کچھ نہیں۔
لیک گر خواہی بیابنگر زما
صد نشان صدق شان مصطفیٰ
لیکن اگر تو چاہے تو آ، ہم سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان اور صداقت کے سینکڑوں نشان دیکھ لے۔
اے مزوّر گر بیائی سوئے ما
واز وفا رخت افگنی در کوئے ما
اے جھوٹے اور ریاکار، اگر تو ہماری طرف آئے اور وفاداری کے ساتھ ہمارے کوچہ میں ڈیرے ڈال دے
عالمے بینی ز ربانی نشاں
سوئے رحماں خلق و عالم را کشاں
تو خدائی نشانوں کا ایک عالم دیکھ لے گا جو دنیا جہان کو رحمان کی طرف کھینچتا ہوگا۔
گر خلاف واقعہ گفتم سخن
راضیم گر تو سرم بری ز تن
اگر میں نے خلاف واقعہ بات کہی ہے تو میں راضی ہوں تو میرا سر تن سے جدا کردے۔
راضیم گر خلق بردارم کشند
از سر کیں با صد آزارم کشند
اگر لوگ مجھے سولی پر چڑھادیں،کینہ سے سینکڑوں دکھ دے کر مجھے مارڈالیں،میں اس پر بھی راضی ہوں۔
راضیم گر مال و جان و تن رود
و آنچہ از قسم بلا بر من رود
میں راضی ہوں اگر میرے جان و مال و جسم فنا ہوجائیں اور طرح طرح کی مصیبتیں مجھ پر نازل ہوں۔
گر درو غم رفتہ باشد بر زباں
راضیم بر ہر سزائے کاذباں
اگر میری زبان سے جھوٹ نکلا تو جھوٹوں کی ہر سزا پر میں خوش ہوں۔
لیک گر تو زیں سخن پیچی سرے
بر تو ہم نفرین ربِّ اکبرے
لیکن اگر تو بھی اس حق بات کو ماننے سے انکار کرے تو پھر تجھ پر بھی خدا کی لعنت کی مارپڑے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے براہین احمدیہ میں منظوم فارسی کلام کے کچھ نمونے صرف چاشنی دلانےکے لیے درج کیے ہیں تاکہ تشنگان معنویت اس کلام کی لذت لے کرآپؑ کے پورے بے نظیر کلام کو پڑھیں اورمادی و معنوی لذت سے حظ پائیں۔کتاب براہین احمدیہ کا وسیع اثر جس کادوست و دشمن سب اقرار کرتے ہیں،اس میں اس فارسی حصہ کا بھی غیر معمولی اثر اور حصہ ہے۔ چونکہ اس زمانے میں فارسی زبان عمومی طور پر پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان تھی،اسی لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اثبات صداقت اسلام کے لیے فارسی میں منظوم کلام تحریر فرمایا۔اس کے علاوہ فارسی زبان عرفان الٰہی سے ایک خاص مناسبت بھی رکھتی ہے،جس انداز میں فارسی میں تصوف اور عرفان کو بیان کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے،اس کی مثال عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں ملنا مشکل ہے۔اسی لیے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام ماموریت سے قبل بھی اکثرفارسی میں اشعار کہا کرتے تھے جو درمکنون کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں۔لیکن افسوس کہ ان کا اردوترجمہ ابھی تک سامنے نہیں آیا،اسی لیے اکثرلوگ ان اشعار سے بالکل واقف نہیں ہیں۔حضور علیہ السلام کا فارسی منظوم کلام،اردو اور عربی منظوم کلام سے مقدار میں تقریباً دو گنا ہے۔
اس مضمون میں ادبی لحاظ سے کلام کی خوبیاں بیان نہیں کی گئیں کیونکہ کلام کایہ پہلو علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔حضرت عبدالحق رامہ صاحب نے علم البدیع، علم البیان اور علم المعانی کی رو سے آپؑ کے کلام کی کچھ خوبیاں عالمانہ اور خوبصورت انداز میں اپنی کتاب ’’درثمین فارسی کے محاسن‘‘ میں بیان کی ہیں،اگر کوئی ادب دوست شخصیت کودلچسپی ہوتو یہ کتاب ضرور مطالعہ فرمائیں۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے فارسی کلام میں جو گہرائی ہے، جو وسعت ہے، جو لذت ہےمیرا ایمان ہے کہ جب اہل فارس آپ کے کلام کو صاف دل ہو کرپڑھیں گے تو وجد میں آیا کریں گے اورآپ کے کلام کی خوبیاں اور محاسن ذوق و شوق سے بیان کریں گے۔انشاءاللہ۔
آخری ایک بات عرض کرکے اپنا مضمون ختم کرتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شعر کو بھی اسلام کی سچائی اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اسلام کا خادم بنادیا ہے،جس کی نظیرکسی دوسرے شاعر میں نہیں ملتی۔جیساکہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خداتعالیٰ کی تائید سے انشاپردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہوگئی تھی،اس کو کلام الہی کا خادم بنایا جائے۔‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۵۹)
براہین احمدیہ میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی تائید سے قرآنی حقائق و معارف کو شعر میں بھی ڈھال کر ایسی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ انسان ایک طرف ان حقائق ومعارف سے انگشت بدندان ہوتا ہے اور دوسری طرف جس خوبصورتی سے ان کو بیان کیا گیا ہے،وہ دل کو کھینچ کر قرآن و خالق قرآن کا گرویدہ بنادیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ نے اس کتاب میں بیشتر اشعار فارسی میں ہی تصنیف فرمائے ہیں اور یہ فارسی زبان کے لیے اعزاز ہے کہ امام وقت نے اس کو اتنی عزت دی ورنہ حضرت اقدس کی اردو اور عربی زبان کی شاعری بھی معجزہ سے کم نہیں،اسی لیے خالق کائنات نے آپ کی تعریف میں فرمایا: کلام افصحت من لدن رب کریم اور پھر فارسی میں فرمایا: در کلام تو چیزی است کہ شعرا را در آن دخلی نیست۔ کہ تیرے کلام میں ایسی خصوصیت ہے کہ دوسرے شعراءکے کلام میں نہیں ہے۔اور وہ خصوصیت یہی ہے کہ آپ نے شعر کو اسلام کی صداقت ثابت کرنے اور قرآنی حقائق اور معارف بیان کرنے اور مخلوق کے اندر اپنے خالق سے عشق و محبت پیدا کرنےکے حوالے سے خادم اسلام بنادیا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
٭…٭…٭