اسلام اور دیگر مذاہب کا خدا تعالیٰ کے تصوّر کی بابت موازنہ از براہین احمدیہ
براہین احمدیہ اورفلسفہ توحید
خدا تعالیٰ معبود برحق،مستجمع جمیع صفات کاملہ اور منزہ عن جمیع رذائل ہے
قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآنِ شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رُتبہ نہیں دیا
حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی
ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی
باقی وہی ہمیشہ غیر اس کے سب ہیں فانی
غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی
تمام مذاہب عالم کا مقصدِ اولیٰ و ارفع نجات کے سرچشمہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات او ر اس کی صفات پر محکم ایمان اور یقین پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی انسان کو گناہ سے نجات اور پاکیزگی دلاسکتا ہے۔تمام انبیاء علیہم السلام اسی مطمح نظر کو سامنے رکھ کر دنیا میں آئے اور ساری عمر اسی کے حصول میں کوشاں رہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی بعثت کا ایک بڑا مقصد یہی بیان فرمایا کہ آپ خدا تعالیٰ کے وجود کو لوگوں کو دکھائیں اور یقین کامل پیدا کریں۔آپؑ فرماتے ہیں: ’’پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتاناچاہتاہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں،اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں۔ دنیا میں لوگوں نے جس قدر طریقے اور حیلے گناہ سے بچنے کے لئے نکالے ہیں اور خدا کی شناخت کے جو اصول تجویز کئے ہیںوہ انسانی خیالات ہونے کی وجہ سے بالکل غلط ہیں اور محض خیالی باتیں ہیں جن میں سچائی کی کوئی روح نہیں ہے۔ میں ابھی بتاؤں گا اور دلائل سے واضح کروں گا کہ گناہوں سے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بات پر کامل یقین انسان کو ہو جاوے کہ خدا ہے اور وہ جزا سزا دیتا ہے جب تک اس اصول پر یقین کامل نہ ہو گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ:9 ایڈیشن1988ء)
براہین احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ کی شاہکار اور بے مثل تصنیف ہے۔ اس کتاب کے پہلے دو حصے1880ء میں شائع ہوئے۔تیسرا حصہ 1882ء اور چوتھا حصہ 1884ء میں شائع ہوا۔ اس کا پانچواں حصہ مشیت ایزدی کے تحت طویل عرصہ کے بعد 1905ء میں حضورؑنے تحریر فرمایا۔ یوں تو براہین احمدیہ حقانیت ِاسلام، صداقت ِقرآن اور رسالت ِآنحضرتﷺ کے دلائل بینہ و صادقہ سےپُرہے۔لیکن اس کےساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات،فلسفہ توحید، صفات باری تعالیٰ کی لطیف تشریحات، خدا تعالیٰ کی ذات و صفات پر ہونے والے اعتراضات اس کتاب کا خا ص موضوع ہیں۔
براہین احمدیہ کے وقت ہندوستان کا مذہبی منظرنامہ
براہین احمدیہ کی تصنیف کے وقت وہ زمانہ تھا جب دیگر مذاہب شدت سے اسلام اورخاص طور پر عقیدۂ توحید پر حملہ آور تھے۔ان میں عیسائیت، آریہ سماج،برہمو سماج،دہریہ وغیرہ پیش پیش تھے۔مسلمان بھی اپنی کوتاہ فہمی کی بدولت اللہ تعالیٰ کی متعددصفات کو معطل سمجھتے تھے۔ کوئی دو خداؤں کو ماننے والا تھا،کوئی تثلیث کا پیرو تھا، کوئی ہزاروں لاکھوں دیوی دیوتاؤں کو سجدہ کرنا جائز سمجھتا تھا۔کوئی خدا کی صفت تکلم کا کافر تھا تو کوئی محض عقل کو ہی کافی خیال کرنے والا تھا۔ کوئی خدا کی خالقیت کا منکر تھا،کوئی عیسیٰ کو بھی خالق طیور مانتا تھا۔ کوئی الہام کا منکر تھا تو کوئی خدا تعالیٰ کو دنیا کے نظام سے بے خبراور لاتعلق خیال کرتا تھا۔غرض ہر شخص،فرقہ اورمذہب کے ذاتی خیالات اور عقائد کا ایک طوفان بدتمیزی تھا جو بعثت مسیح موعوؑد کے وقت برپا تھا اورہندوستان ان مذہبی مناظروں کا مرجع اور مرکز تھا۔
اس پس منظر کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعودؑ ہندوستان کے مذہبی افق پر رونما ہوئے اور ایک لازوال تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ تحریر فرمائی۔جس میں عقیدہ توحید، ذات و صفات باری تعالیٰ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔ نیز دیگر مذاہب کے اوہام باطلہ کے دندان شکن جوابات دیے۔ حضرت اقدسؑ کے بیان فرمودہ نکات معرفت میں سے چند ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔
اسم ’’اللہ‘‘ کے اصطلاحی معنی۔مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزہ
حضرت مسیح موعودؑ کے وقت علماءنےظاہر میں لفظ ’’اللہ‘‘ کے معانی کو لے کر ایک طویل بحث جاری کی ہوئی تھی کہ اللہ سےمراد کیا ہے۔ آپؑ نے قرآن کی اصطلاح کو سامنے رکھتے ہوئے بہت پرحکمت اور پر مغز تعریف فرمائی۔آپؑ فرماتے ہیں:قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآنِ شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رُتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے۔ پس خلاصہ مطلب الحمدللہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے۔ وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں۔ اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے۔ مگر اللہ تعالیٰ بدقسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو۔ بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کرسکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے۔ جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رزائل سے بکلّی منزہ ہے۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ:435-436)
خدا تعالیٰ کی مالکیت اور خالقیت کے متعلق ہندو اور آریہ عقائد کا رد
موجودہ ہندو مت ایک مشرکانہ مذہب ہے اور اس کے متبعین ہزاروں معبودان باطلہ کی عبادت کرتے ہیں۔اس کی تاویل ہندو اس رنگ میں کرتےہیں کہ خدا بھگوان ہے اور اس نے دیگرمتعدد دیوی دیوتاؤں کو بعض طاقتیں دے رکھی ہیں۔اس لیے وہ بھی بھگوان کی طرح دنیا کے مختلف کاموں پر مقرر ہیں اور اسے انجام دے رہے ہیں۔ اسی لیے ہندومت کے پیروکار ان دیوی دیوتاؤں کی عبادت بھی کرتے ہیں اورانہیں اللہ کے کاموں میں دخل اندازی کرنے والا قرار دیتے ہیں۔
1875ء میں ایک ہندو پنڈت دیانند سرسوتی نے ایک نئے ہندو فرقہ کی بنیاد رکھی اور اسے آریہ دھرم کا نام دیا۔ پنڈت دیانند نے ایک طرف تو ہندو بت پرستی اور دیوی دیوتاؤں کا انکار کیا اور توحید کو اپنا مسلک بیان کیا دوسری طرف اس نے یہ عقیدہ تخلیق دیا کہ خد ا تعالیٰ نے روحوں کو پیدا نہیں کیا بلکہ یہ تمام ارواح از خود وجود میں آئی ہیں۔خدا ان کا خالق نہیں ہے نہ ہی وہ کوئی نئی روح پیدا کر سکتا ہے۔ نہ ہی وہ ان ارواح کو دائمی نجات دے سکتا ہے۔
براہین احمدیہ کی تصنیف کےوقت یہ دونوں گروہ بڑی شدت سے اپنے عقائد باطلہ کی ترویج میں مصروف تھے۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خدا تعالیٰ کے متعلق پُر حکمت تعریف سے ان تمام عقائد فاسدہ اور باطلہ کی تردید فرما دی۔آپؑ فرماتےہیں:بجز اسلام دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کو جمیع رذائل سے منزہ اور تمام محامد کاملہ سے متصف سمجھتا ہو۔ عام ہندو اپنے دیوتاؤں کو کارخانہ ربوبیت میں شریک سمجھتے ہیں۔اور خدا کے کاموں میں ان کو مستقل طور پر دخیل قرار دیتے ہیں۔ بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ خدا کے ارادوں کو بدلنے والے اور اس کی تقدیروں کو زیر زبر کرنے والے ہیں۔ اور نیز ہندو لوگ کئی انسانوں اور دوسرے جانوروں کی نسبت بلکہ بعض ناپاک اور نجاست خوار حیوانات یعنی خنزیر وغیرہ کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی زمانہ میں ان کا پرمیشر ایسی ایسی جونوں میں تولد پاکر ان تمام آلائشوں اور آلودگیوں سے ملوث ہوتا رہا ہے کہ جو ان چیزوں کے عائد حال ہیں اور نیز انہیں چیزوں کی طرح بھوک اور پیاس اور درد اور دکھ اور خوف اور غم اور بیماری اور موت اور ذلت اور رسوائی اور عاجزی اور ناتوانی کی آفات میں گرفتار ہوتا رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تمام اعتقادات خدائے تعالیٰ کی خوبیوں میں بٹہ لگاتے ہیں اور اس کے ازلی و ابدی جاہ و جلال کو گھٹاتے ہیں۔ اور آریہ سماج والے جو ان کے مہذب بھائی نکلے ہیں۔ جن کا یہ گمان ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک وید کی لکیر پر چلتے ہیں۔ وہ خدائے تعالیٰ کو خالقیت سے ہی جواب دیتے ہیں اور تمام روحوں کو اس کی ذات کامل کی طرح غیر مخلوق اور واجب الوجود اور موجود بوجود حقیقی قرار دیتے ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد :1صفحہ:436-437)
پس جو مذاہب خدا تعالیٰ کی بابت اس طرح کے عقائد رکھتے ہوں وہ کس طور پر درست ہو سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم کیونکر کامل اورقرآن سے افضل ہو سکتی ہے۔یہ عقائد تو اللہ تعالیٰ کی شان اور عظمت کم کرنے والے ہیں نہ کہ بڑھانے والے۔
عیسائی عقیدہ ’’یسوع مسیح ابن اللہ ہے‘‘ کی تردید
ہندوستان میں یورپین اقوام کی آمد کے ساتھ عیسائیت کی ترویج شروع ہو گئی۔ 1857ء کے غدر کے بعد انگریزی حکومت نے ہندوستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے تھے۔ہندوستان میں اپنے قیام کو دوام بخشنے کے لیے یہاں بڑی شدّو مدّ سے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی گئی۔عیسائی مشنری پور ی قوت سے تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔جگہ جگہ بائبل سوسائٹیاں قائم ہوئیں اور لاکھوں کی تعدا د میں کتب،رسائل اور پمفلٹ شائع ہونے لگے۔ہندوستان میں چند ہزار عیسائیوں سے شروع ہو کر 1881ء میں عیسائیوں کی تعداد چار لاکھ ستر ہزار تک پہنچ گئی۔پادری یہ ترقی دیکھ کر گمان کرنے لگے کہ اگلے بیس تیس سال میں وہ تمام ہندوستا ن کو عیسائی بنا لیں گے۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعودؑ نے براہین احمدیہ تصنیف فرما کر عیسائیت کے بنیادی عقیدہ کی بیخ کنی فرما دی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح ناصری اللہ کےبیٹے ہیں اورخدا نے انسانوں کو گناہوں سے بچانے کے لیے اپنے بیٹے کو بھیجا تاکہ وہ صلیب پر لٹک کر اپنی جان کی قربانی دے۔اس بےہودہ عقیدہ کی عقلی اور نقلی اعتبار سے تردید کرتے ہوئےآپؑ فرماتےہیں:جو کچھ عیسائی لوگ خدائے تعالیٰ کا جلال ظاہرکررہے ہیں۔ وہ ایک ایسا امر ہے کہ صرف ایک ہی سوال سے دانا انسان سمجھ سکتا ہے یعنی اگر کسی دانا سے پوچھا جائے کہ کیا اس ذات کامل اور قدیم اور غنی اور بے نیاز کی نسبت جائز ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے تمام عظیم الشان کاموں میں جو قدیم سے وہ کرتا رہا ہے آپ ہی کافی ہو آپ ہی بغیر حاجت کسی باپ یا بیٹے کے تمام دنیا کو پیدا کیا ہو اور آپ ہی تمام روحوں اور جسموں کو وہ قوتیں بخشی ہوں جن کی انہیں حاجت ہے اور آپ ہی تمام کائنات کا حافظ اور قیوم اور مدبر ہو۔ بلکہ ان کے وجود سے پہلے جو کچھ ان کو زندگی کے لئے درکار تھا وہ سب اپنی صفت رحمانیت سے ظہور میں لایا اور بغیر انتظار عمل کسی عامل کے سورج اور چاند اور بے شمار ستارے اور زمین اور ہزارہا نعمتیں جو زمین پر پائی جاتی ہیں محض اپنے فضل و کرم سے انسانوں کے لئے پیدا کی ہوں اور ان سب کاموں میں کسی بیٹے کا محتاج نہ ہوا ہو لیکن پھر وہی کامل خدا آخری زمانہ میں اپنا تمام جلال اور اقتدار کالعدم کرکے مغفرت اور نجات دینے کے لئے بیٹے کا محتاج ہوجائے اور پھر بیٹا بھی ایسا ناقص بیٹا جس کو باپ سے کچھ بھی مناسبت نہیں جس نے باپ کی طرح نہ کوئی گوشہ آسمان کا اور نہ کوئی قطعہ زمین کا پیدا کیا جس سے اس کی الوہیت ثابت ہو بلکہ مرقس کے ٨ باب ١٢ آیت میں اس کی عاجزانہ حالت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا اور اس کے مصلوب ہونے کے وقت بھی یہودیوں نے کہا کہ اگر وہ اب ہمارے روبرو زندہ ہوجائے تو ہم ایمان لائیں گے۔ لیکن اس نے ان کو زندہ ہوکر نہ دکھلایا اور اپنی خدائی اور قدرت کاملہ کا ایک ذرہ ثبوت نہ دیا۔ اور اگر بعض معجزات بھی دکھلائے تو وہ دکھلائے کہ اس سے پہلے اور نبی بکثرت دکھلا چکے تھے بلکہ اسی زمانہ میں ایک حوض کے پانی سے بھی ایسے ہی عجائبات ظہور میں آتے تھے(دیکھو باب پنجم انجیل یوحنا) غرض وہ اپنے خدا ہونے کا کوئی نشان دکھلا نہ سکا جیسا کہ آیت مذکورہ بالا میں خود اس کا اقرار موجود ہے بلکہ ایک ضعیفہ عاجزہ کے پیٹ سے تولد پاکر(بقول عیسائیوں) وہ ذلت اور رسوائی اور ناتوانی اور خواری عمر بھی دیکھی کہ جو انسانوں میں سے وہ انسان دیکھتے ہیں کہ جو بدقسمت اور بے نصیب کہلاتے ہیں۔ اور پھر مدت تک ظلمت خانہ رحم میں قید رہ کر اور اس ناپاک راہ سے کہ جو پیشاب کی بد ررَو ہے پیدا ہوکر ہریک قسم کی آلودہ حالت کو اپنے اوپر وارد کرلیا اور بشری آلودگیوں اور نقصانوں میں سے کوئی ایسی آلودگی باقی نہ رہی جس سے وہ بیٹا باپ کا بدنام کنندہ ملوث نہ ہو اور پھر اس نے اپنی جہالت اور بے علمی اور بے قدرتی اور نیز اپنے نیک نہ ہونے کا اپنی کتاب میں آپ ہی اقرار کرلیا اور پھر در صورت یہ کہ وہ عاجز بندہ کہ خواہ نخواہ خدا کا بیٹا قرار دیا گیا بعض بزرگ نبیوں سے فضائل علمی اور عملی میں کم بھی تھا۔…میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ کوئی دانا اس ذات کامل کی نسبت کہ جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے ایسی ایسی ذلتیں جائز رکھے اور ظاہر ہے کہ اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بیہودہ تعریفوں سے الگ کرلیا جائے تو انجیلوں سے اس کے واقعی حالات کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنی جیسے کہ بندے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا۔ اور اس بزرگ اور عظیم الشان رسول کا ایک تابع اور پس رو تھا اور خود اس بزرگی کو ہرگز نہیں پہنچا تھا یعنی اس کی تعلیم ایک اعلیٰ تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کرتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ عالم الغیب ہوں۔ نہ قادر ہوں۔ بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں۔ اور انجیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس نے گرفتار ہونے سے پہلے کئی دفعہ رات کے وقت اپنے بچاؤ کے لئے دعا کی اور چاہتا تھا کہ دعا اس کی قبول ہوجائے مگر اس کی وہ دعا قبول نہ ہوئی اور نیز جیسے عاجز بندے آزمائے جاتے ہیں وہ شیطان سے آزمایا گیا پس اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا رہا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بھوک کے دکھ سے ایک انجیر کے نیچے گیا مگر چونکہ انجیر پھلوں سے خالی پڑی ہوئی تھی اس لئے محروم رہا اور یہ بھی نہ ہوسکا کہ دو چار انجیریں اپنے کھانے کے لئے پیدا کرلیتا۔ غرض ایک مدت تک ایسی ایسی آلودگیوں میں رہ کر اور ایسے ایسے دکھ اٹھا کر باقرار عیسائیوں کے مرگیا اور اس جہان سے اٹھایا گیا۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خداوند قادر مطلق کی ذات میں ایسی ہی صفات ناقصہ ہونی چاہئے۔ کیا وہ اسی سے قدوس اور ذوالجلال کہلاتا ہے کہ وہ ایسے عیبوں اور نقصانوں سے بھرا ہوا ہے اور کیا ممکن ہے کہ ایک ہی ماں یعنی مریم کے پیٹ میں سے پانچ بچے پیدا ہوکر ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا اور چار باقی جو رہے ان بیچاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ ملا بلکہ قیاس یہ چاہتا تھا کہ جبکہ کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہوسکتا ہے یہ نہیں کہ ہمیشہ آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہو۔ تو جہاں کہیں کسی عورت کے پیٹ سے خدا پیدا ہو تو پھر اس پیٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو بلکہ جس قدر بچے پیدا ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں تا وہ پاک رحم مخلوق کی شرکت سے منزہ رہے اور فقط خداؤں ہی کے پیدا ہونے کی ایک کان ہو۔ پس قیاس متذکرہ بالا کے رو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہن بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بخرہ پاتے ہیں اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رب الارباب ہی کہلاتی۔ کیونکہ یہ پانچوں حضرات روحانی اور جسمانی قوتوں میں اسی سے فیض یاب ہیں۔ عیسائیوں نے ابن مریم کی بے جا تعریفوں میں بہت سا افترا بھی کیا۔ مگر پھر بھی اس کے نقصانوں کو چھپا نہ سکے اور اس کی آلودگیوں کا آپ اقرار کرکے پھر خواہ نخواہ اس کو خدائے تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد1صفحہ:438-443)
خدا کی صفت تکلم پر اعتراضات کے جواب نیز ہندو عقیدہ کہ ’’خدا کی وحی وید تک محدود ہے‘‘ کا ردّ
ہندو مت اور بعض دیگر مذاہب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو الہام ان کے رشیو ں اور نیک لوگوں کو خدا کر چکا ہے وہی دنیا کے لیےکافی ہے۔مزید کسی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں۔آپؑ نے یہ مضمون بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غیر محدود ہستی ہے اور اس کا علم اور کلام بھی لا محدود ہے۔ آ پؑ فرماتے ہیں:یاد رکھنا چاہیئے جو ہمارا ہندوؤں کی طرح ہرگز یہ اعتقاد نہیں جو خدا کے پاس اتنی ہی کلام تھی جتنی وہ ظاہر کرچکا۔ بلکہ بموجب اعتقاد اسلام کے خدا کی کلام اور خدا کا علم اور حکمت مثل ذات اس کی کے غیر محدود ہے۔ چنانچہ اس بارےمیں اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے۔ قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدً١ (الکہف:110)…یعنے اگر خدا کی کلام کے لکھنے کے لئے سمندر کو سیاہی بنایا جائے تو لکھتے لکھتے سمندر ختم ہوجائے اور کلام میں کچھ کمی نہ ہو۔ گو ویسے ہی اور سمندر بطور مدد کے کام میں لائے جائیں۔(براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ:100حاشیہ)
مسلمانوں میں سے بھی ایک طبقہ نے اللہ تعالیٰ کی صفت تکلم اور وحی و الہام کو بند قرارد یا۔ اس عقیدہ کی آپؑ نے بڑی سختی اور شدت سے تردید فرمائی۔آپ نے براہین احمدیہ کے پانچوں حصوں میں بکثرت اپنے الہامات کا ذکر فرمایا اور اللہ سے علم پا کرپیشگوئیاں درج فرمائیں جو پوری ہوئیں۔یہ الہامات اللہ تعالیٰ کے صفت تکلم کے بیّن ثبوت ہیں نیز حضرت اقدسؑ کی صداقت کے بھی روشن دلائل ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ کے حصہ پنجم میں آپ فرماتےہیں:’’یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصّوں کی پوجا کرو پس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس میں براہ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں…میں ساتھ ہی خدائے کریم و رحیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسلام ایسا مذہب نہیں بلکہ دنیا میں صرف اسلام ہی یہ خوبی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بشرط سچی اور کامل اتباع ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالماتِ الٰہیہ سے مشرف کرتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کے صفات کبھی معطل نہیں ہوتے۔ پس جیسا کہ وہ ہمیشہ سنتا رہے گا ایسا ہی وہ ہمیشہ بولتا بھی رہے گا۔ اس دلیل سے زیادہ تر صاف اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سُننے کی طرح بولنے کا سِلسلہ بھی کبھی ختم نہیں ہو گا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21صفحہ:354-355)
منکرین وحی و الہام برہمو سماج فرقہ کے عقائد کی تردید
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانے میں ایک ہندو فرقہ ’’برہمو سماج‘‘ بام عروج پر تھا۔اس فرقہ کا بانی مبانی راجہ رام موہن رائے تھا جس نے 1828ء میں اس فرقہ کی بنیاد رکھی۔ ان کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ ہم خدا کے تو قائل ہیں لیکن عقل کی رو سے وحی و الہام کو ثابت نہیں کر سکتے اس لیےخدا تعالیٰ صفت تکلم اور وحی و الہام کی قوت سے بے بہرہ ہے۔منکرین وحی و الہام و صفت تکلم کو جواب دیتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :اگر برہمو لوگ کہیں کہ صداقت مذکورہ بالا [اللہ تعالیٰ]کے ہم قائل ہیں تو جاننا چاہئے کہ وہ بھی اپنے اس بیان میں جھوٹے ہیں۔ کیونکہ ہم اسی مضمون میں لکھ چکے ہیں کہ برہمو لوگ خدائے تعالیٰ کے لئےگونگا اور غیر متکلم ہونا اور نطق پر ہرگز قادر نہ ہونا اور اپنے علوم کے القا اور الہام سے عاجز ہونا تجویز کرتے ہیں اور جو حقیقی اور کامل ہادی میں صفات کاملہ ہونی چاہئے۔ ان صفات سے اس کو خالی سمجھتے ہیں بلکہ اس قدر ایمان بھی انہیں نصیب نہیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کی نسبت یہ اعتقاد رکھیں کہ اپنی ہستی اور الوہیت کو اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے دنیا میں ظاہر کیا ہے۔ برخلاف اس کے وہ تو یہ کہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ ایک مردہ یا ایک پتھر کی طرح کسی گوشۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ عقلمندوں نے آپ محنتیں کرکے اس کے وجود کا پتہ لگایا اور اس کی خدائی کو دنیا میں مشہور کیا۔ پس ظاہر ہے کہ وہ بھی مثل اپنے اور بھائیوں کے محامدِ کاملہ حضرت ِاحدیت سے منکر ہیں۔ بلکہ جن تعریفوں سے اس کو یاد کرنا چاہئے وہ تمام تعریفیں اپنے نفس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ:443-444)
حضرت اقدسؑ نے براہین احمدیہ میں یہ مضمون بھی بیان فرمایا کہ برہمو سماجی دراصل دہریت سے متاثر ہیں اور ناقص عقل سے ہی تمام روحانی امور میں تشفی چاہتے ہیں۔خدا کی شناخت کے بارےمیں ان کے عقیدہ کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:ان کا مقولہ ہے کہ خدا کے وجود کا پتہ لگ جانا خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک اتفاقی امر ہے کہ عقلمندوں کی کوششوں سے ظہور میں آیا اور یوں بیان کرتے ہیں کہ اول اول جب بنی آدم پیدا ہوئے محض بے عقل اور وحشیوں کی طرح تھے خدا نے اپنے وجود سے کسی کو خبر نہیں دی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ لوگوں کو آپ ہی خیال آیا کہ کوئی معبود مقرر کریں۔ اول پہاڑ اور درخت دریا وغیرہ کو کہ آس پاس اور اردگرد کی چیزیں تھیں، اپنا خدا ٹھہرایا۔ پھر کچھ ذرا اوپر چڑھے اور ہوا۔ طوفان وغیرہ کو قادر مطلق خیال کیا۔ پھر اَور بھی آگے قدم بڑھا کر سورج۔ چاند۔ ستاروں کو اپنا رب سمجھ بیٹھے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ غور کامل کرنے سے حقیقی خدا کی طرف رجوع لے آئے۔ (براہین احمدیہ حصہ سوم،روحانی خزائن جلد1صفحہ:179)
خدا کی شناخت کے لیے عقل کے ساتھ الہام لازمی ہے
آپؑ نے ان اوہام فاسدہ کی تفصیلی تردید فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی شناخت کے لیے محض عقل کافی نہیں ہے جبتک نیّرالہام ساتھ نہ ہو۔عقل صرف خدا ’’ہونا چاہیے‘‘ کے مقام تک پہنچ سکتی ہے جبکہ الہام خدا تعالیٰ ’’ہے‘‘ کے مقام تک پہنچاتا ہے۔آپ فرماتے ہیں: مجرد عقل انسان کو اس اعلیٰ درجہ یقین کا مالک نہیں بنا سکتی۔ کیونکہ غایت درجہ حکم عقل کا یہ ہے کہ وہ کسی شے کے موجود ہونے کی ضرورت کو ثابت کرے جیسا کسی چیز کی نسبت یہ حکم دے کہ اس چیز کا ہونا ضروری ہے یا یہ چیز ہونی چاہیئے مگر ایسا حکم ہرگز نہیں دے سکتی کہ واقعہ میں یہ چیز ہے بھی اور یہ پایۂ یقین کامل کا کہ علم انسان کا کسی امر کی نسبت ہونا چاہیئے کے مرتبہ سے ترقی کرکے ہے کے مرتبہ تک پہنچ جائے تب حاصل ہوتا ہے کہ جب عقل کے ساتھ کوئی دوسرا ایسا رفیق مل جاتا ہے کہ جو اس کی قیاسی وجوہات کو تصدیق کرکے واقعات مشہودہ کا لباس پہناتا ہے یعنے جس امر کی نسبت عقل کہتی ہے کہ ہونا چاہیئے وہ رفیق اس امر کی نسبت یہ خبر دے دیتا ہے کہ واقعہ میں وہ امر موجود بھی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں عقل صرف ضرورت شے کو ثابت کرتی ہے خود شے کو ثابت نہیں کرسکتی۔ اور ظاہر ہے کہ کسی شے کی ضرورت کا ثابت ہونا امر دیگر ہے اور خود اس شے کا ثابت ہوجانا امر دیگر بہرحال عقل کے لئے ایک رفیق کی حاجت ہوئی کہ تا وہ رفیق عقل کے اس قیاسی اور ناقص قول کا کہ جو ہونا چاہیئے کے لفظ سے بولا جاتا ہے مشہودی اور کامل قول سے جو ہے کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے جبر نقصان کرے اور واقعات سے جیسا کہ وہ نفس الامر میں واقعہ ہیں آگاہی بخشے۔ سو خدا نے جو بڑا ہی رحیم اور کریم ہے اور انسان کو مراتب قصوی یقین تک پہنچانا چاہتا ہے اس حاجت کو پوری کیا ہے اور عقل کے لئے کئی رفیق مقرر کرکے راستہ یقین کامل کا اس پر کھول دیا ہے تانفس انسان کا کہ جس کی ساری سعادت اور نجات یقین کامل پر موقوف ہے اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہے۔ اور ہونا چاہیئے کے نازک اور پُرخطر پل سے کہ عقل نے شکوک اور شبہات کے دریا پر باندھا ہے بہت جلد آگے عبور کرکے ہے کے قصر عالی میں جو دارالامن والا طمینان ہے داخل ہوجائے اور وہ رفیق عقل کے جو اس کے یار اور مددگار ہیں۔ ہر مقام اور موقعہ میں الگ الگ ہیں۔ لیکن از روئے حصر عقلی کے تین سے زیادہ نہیں اور ان تینوں کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ اگر حکم عقل کا دنیا کے محسوسات اور مشہودات سے متعلق ہو جو ہر روز دیکھے جاتے یا سنے جاتے یا سونگھے جاتے یا ٹٹولے جاتے ہیں تو اس وقت رفیق اس کا جو اس کے حکم کو یقین کامل تک پہنچاوے مشاہدہ صحیحہ ہے کہ جس کا نام تجربہ ہے۔ اور اگر حکم عقل کا ان حوادث اور واقعات سے متعلق ہو جو مختلف ازمنہ اور امکنہ میں صدور پاتے رہے ہیں یا صدور پاتے ہیں تو اس وقت اس کا ایک اور رفیق بنتا ہے کہ جس کانام تواریخ اور اخبار اور خطوط اور مراسلات ہے اور وہ بھی تجربہ کی طرح عقل کی دود آمیز روشنی کو ایسا مصفا کردیتا ہے کہ پھر اس میں شک کرنا ایک حمق اور جنون اور سودا ہوتا ہے اور اگر حکم عقل کا ان واقعات سے متعلق ہو جو ماوراء المحسوسات ہیں جن کو ہم نہ آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ کان سے سن سکتے ہیں اور نہ ہاتھ سے ٹٹول سکتے ہیں اور نہ اس دنیا کی تواریخ سے دریافت کرسکتے ہیں تو اُس وقت اُس کا ایک تیسرا رفیق بنتا ہے کہ جس کا نام الہام اور وحی ہے اور قانون قدرت بھی یہی چاہتا ہے کہ جیسے پہلے دو مواضع میں عقل ناتمام کو دو رفیق میسر آگئے ہیں تیسرے موضع میں بھی میسر آیا ہو۔ کیونکہ قوانین فطرتیہ میں اختلاف نہیں ہوسکتا بالخصوص جبکہ خدا نے دنیا کے علوم اور فنون میں کہ جن کے نقصان اور سہو اور خطا میں چنداں حرج بھی نہیں انسان کو ناقص رکھنا نہیں چاہا تو اس صورت میں خدا کی نسبت یہ بڑی بدگمانی ہوگی جو ایسا خیال کیا جاوے جو اُس نے ان امور کی معرفت تامہ کے بارے میں کہ جن پر کامل یقین رکھنا نجاتِ اُخروی کی شرط ہے اور جن کی نسبت شک رکھنے سے جہنم ابدی طیار ہے انسان کو ناقص رکھنا چاہا ہے اور اس کے علم اخروی کو صرف ایسے ایسے ناقص خیالات پر ختم کردیا ہے کہ جن کی محض اٹکلوں پر ہی ساری بنیاد ہے اور ایسا ذریعہ اس کے لئے کوئی بھی مقرر نہیں کیا کہ جو شہادتِ واقعہ دے کر اس کے دل کو یہ تسلی اور تشفی بخشے کہ وہ اصولِ نجات کہ جن کا ہونا عقل بطور قیاس اور اٹکل کے تجویز کرتی ہے وہ حقیقت میں موجود ہی ہیں اور جس ضرورت کو عقل قائم کرتی ہے وہ فرضی ضرورت نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی ضرورت ہے اب جبکہ یہ ثابت ہوا کہ الٰہیات میں یقین کامل صرف الہام ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے۔(براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ:78-80حاشیہ نمبر4)
عقل کو دین پہ حاکم نہ بناؤ ہرگز
یہ تو خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو
پھر فرمایا: ’’جب تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے اناالموجودکی آواز زور دار طاقتوں کے ساتھ معجزانہ رنگ میں اور خارق عادت کے طورپر سنائی نہ دے اور فعلی طور پر اس کے ساتھ دوسرے زبردست نشان نہ ہوں اُس وقت تک اُس زندہ خدا پر ایمان آنہیں سکتا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21،صفحہ30)
شرک کی چار اقسام کی تردید۔ سورة الاخلاص کی لطیف تفسیر
براہین احمدیہ میں سیدناحضرت اقدسؑ نے سورة الاخلاص کی نہایت لطیف تشریح بیان فرمائی اوربیان فرمایا کہ شریک چار طور پر ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:پھر بعد ثبوت وجود صانع عالم کے طالب حق کو اس بات کا سمجھانا ضروری تھا کہ وہ صانع ہریک طور کی شرکت سے پاک ہے سو اس کی طرف اشارہ فرمایا قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ اللّٰهُ الصَّمَدُ الخ ۔اس اقّل عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہریک قسم کی شراکت سے وجود حضرت باری کا منزّہ ہونا بیان فرمایا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرکت ازروئے حصر عقلی چار قسم پر ہے کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل اور تاثیر میں۔ سو اس سورة میں ان چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں اور وہ صمدہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور ہالک الذّات ہیں جو اس کی طرف ہردم محتاج ہیں اور وہ لَمْ يَلِدْہے یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وہ لَمْ يُولَدْ ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا شریک بن جائے اور وہ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا شریک قرار پاوے۔ سو اس طور سے ظاہر فرمادیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد1صفحہ:518حاشیہ)
وجود باری تعالیٰ کے دلائل۔ دلیل لمّی اور دلیل انّی
براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات کے لیے قرآن کریم سے استدلال کرتے ہوئے آپؑ نے متعدد دلائل پیش فرمائے۔ ایک موقع پر آپؑ فرماتےہیں:اس کے وحدہ لاشریک ہونے پر ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ إِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا(الانبیاء23)۔وَمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ إِلٰهٍ الخ(المؤمنون:92) یعنی اگر زمین و آسمان میں بجز اُس ایک ذات جامع صفات کاملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے۔ کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے۔ پس اسی پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پاتا اور نیز اگر الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد ان میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور ان کے آرام کے لئے دوسروں کا برباد کرنا روا رکھتا پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا یہاں تک تو دلیل لِمِّیسے خدا کا واحد لاشریک ہونا ثابت کیا۔ پھر بعد اس کے خدا کے وحدہ لاشریک ہونے پر دلیل اِنِّیبیان فرمائی اور کہا۔قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَلَا یَمۡلِکُوۡنَ کَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡکُمۡ وَلَا تَحۡوِیۡلًا الخ(بنی اسرائیل 57)۔یعنی مشرکین اور منکرین وجود حضرت باری کو کہہ کہ اگر خدا کے کارخانہ میں کوئی اور لوگ بھی شریک ہیں یا اسباب موجودہ ہی کافی ہیں تو اس وقت کہ تم اسلام کے دلائل حقیت اور اس کی شوکت اور قوت کے مقابلہ پر مقہور ہورہے ہو ان اپنے شرکاء کو مدد کے لئے بلاؤ اور یاد رکھو کہ وہ ہرگز تمہاری مشکل کشائی نہ کریں گے اور نہ بلا کو تمہارے سر پر سے ٹال سکیں گے۔ اے رسول ان مشرکین کو کہہ کہ تم اپنے شرکاء کو جن کی پرستش کرتے ہو میرے مقابلہ پر بلاؤ۔ اور جو تدبیر میرے مغلوب کرنے کے لئے کرسکتے ہو وہ سب تدبیریں کرو اور مجھے ذرہ مہلت مت دو اور یہ بات سمجھ رکھو کہ میرا حامی اور ناصر اور کارساز وہ خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا ہے اور وہ اپنے سچے اور صالح رسولوں کی آپ کارسازی کرتا ہے مگر جن چیزوں کو تم لوگ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہو۔ وہ ممکن نہیں ہے جو تمہاری مدد کرسکیں اور نہ کچھ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ:518-519حاشیہ)
خدا تک پہنچنے کا واحد ذریعہ اسلام اور قرآن ہے
حضرت اقدس مسیح موعودؑفرماتے ہیں:اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگرکوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کاربند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔ وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اس کی شناخت کے لئےبجز قرآنی تعلیم کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے اورقرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہیے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لَاشَے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد :1صفحہ:25-26)
٭…٭…٭