براہین احمدیہ کی تالیف کا مقصدِ عظیم: رسول اللہ ﷺ کی صداقت و عظمت کا قیام
’’وجودِ مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا…انبیاء منجملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہوگئے ہیں۔ اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور اور سراج منیر رکھا ہے‘‘
حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ قادیانی(بانیٔ جماعت احمدیہ ) نے اپنے دعویٰ مسیحیت و مہدویت سے کئی سال قبل براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع فرمائیں۔ براہین احمدیہ کی تالیف جس زمانہ میں ہوئی وہ شدیداسلام مخالف زمانہ تھا۔ اور انگریز کے عنانِ حکومت میں عیسائی مشنریز پوری قوت اور تمام وسائل کے ساتھ اشاعت و تبلیغ عیسائیت میں مصروف عمل تھے۔ بائبل سوسائٹیز اور عیسائی مشنز اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف مفت کتب کی اشاعت و تقسیم میں مصروف تھےاور پبلک لیکچرز میں دریدہ دہن ہو چکے تھے۔ براہینِ احمدیہ کی اشاعت کے وقت ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد چار لاکھ ستر ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ ہندوستان میں ہندو مذہب کے احیاء کے لیے بھی آریہ سماج اور برہمو سماج جیسی تنظیموں نے سر اٹھایا اور اپنے استحکام کے لیے اسلام پر دھڑا دھڑ اعترضات کی بوچھاڑ کر دی۔ دینِ اسلام چاروں جانب سے مخالفین و معترضین کے نرغہ میں آگیا اور اسلام، قرآن کریم اور بانیٔ اسلام سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کے خلاف یہ سب مل کر بر سرِ پیکار ہوگئے۔ مسلمان علماء کی باہمی کفر و ایمان کی جنگ، اپنے عقائد اور الہامِ الٰہی کے جاری رہنے سے انکار نے اسلام کو مزید مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ تیسری جانب مغرب کی تعلیم و ترقی اور گمراہ کن فلسفہ کے سبب مسلمان ان کی مادی ترقیات کی جانب کھنچے جا رہے تھے۔ سادہ لوح مسلمان ان پادریوں اور دیگر تنظیموں کا آسان ہدف بنے اور اسلام، قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کی صداقت کے بارے میں شکوک و شبہات میں پڑکر ان کی جھولی میں جا گرے۔
تب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ شاندار کتاب براہین احمدیہ لکھ کر اسلام کی عظیم الشان خدمت کی۔ جس میں آپؑ نے کمال دلائل قطعیہ سے قرآن مجید کا کلام الٰہی اور رسول اللہﷺ کا نبیٔ برحق ہونا نہ صرف ثابت فرمایا بلکہ اعلان کیا کہ ان دلائل کے جواب دینے والے کو دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ لیکن کوئی بھی مقابل پہ نہ آیا۔ ان دو امور کے سبب اس کتاب کو ’’البراہین الاحمدیہ علی حقیقت کتاب اللہ القرآن و النبوة المحمدیہ‘‘ کے نام سے ملقب کیا گیا۔
اس کتاب میں فراہم کردہ دلائل کی بابت یہ امر ذہن نشین رہے کہ یہ تمام دلائل قاطعہ اور حجج بینہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعویٰ مسیحیت و مہدویت سے قبل تحریر کیے تھے۔ اور اس وقت مسلمان علماء کی جانب سے انہیں بنظر غائر دیکھا گیا تھا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت ظاہر و باہر ہوتی ہے کہ کس حسین طریق پر قرآن کریم اور رسول کریمﷺ کے مقام اور عظمت کو قائم کیا گیا ہے۔ کس طرح قرآن کریم سے ہی دقیق دلائل دیے گئے ہیں۔ اور مخالفین سے بھی ان کی الٰہامی کتاب سے اسی طورپر دلائل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ان دلائل اور امور میں سے چند ایک کا ذکر مقصود ہے جو آپ نے نبیٔ آخر الزمان سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کے مقام و مرتبہ کے بیان میں درج فرمائے۔
کتاب کا آغاز
حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب کے آغاز میں حمد باری تعالیٰ کے بعد تحریر فرمایا کہ ’’درود اور سلام حضرت سیدالرسل محمد مصطفیٰؐ اور ان کی آل و اصحاب پر کہ جس سے خدا نے ایک عالم گم گشتہ کو سیدھی راہ پر چلایا وہ مربی اور نفع رسان کہ جو بھولی ہوئی خلقت کو پھر راہ راست پر لایا وہ محسن اور صاحب احسان کہ جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھوڑایا وہ نور اور نور افشان کہ جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلایا وہ حکیم اور معالج زمان کہ جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا وہ کریم اور کرامت نشان کہ جس نے مردوں کو زندگی کا پانی پلایا وہ رحیم اور مہربان کہ جس نے امت کے لئے غم کھایا اور درد اٹھایا وہ شجاع اور پہلوان جو ہم کو موت کے منہ سے نکال کر لایا وہ حلیم اور بے نفس انسان کہ جس نے بندگی میں سرجھکایا اور اپنی ہستی کو خاک سے ملایا وہ کامل موحد اور بحر عرفان کہ جس کو صرف خدا کا جلال بھایا اور غیر کو اپنی نظر سے گرایا وہ معجزہ قدرت رحمن کہ جو اُمّی ہوکر سب پر علوم حقانی میں غالب آیا اور ہریک قوم کو غلطیوں اور خطاؤں کو ملزم ٹھہرایا۔‘‘ (صفحہ ۱۷)
انعام کا اعلان
حضرت مسیح موعودؑ نے براہین احمدیہ کا رد لکھنے والے کے لیے اس وقت کے مطابق دس ہزار روپے کی مکمل جائیداد بطور انعام دینے کا اشتہار بھی دیا۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ ’’میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع اربابِ مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں اتماماً للحُجّة شائع کرکے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے اُن سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارہ حقیت فرقان مجید اور صدقِ رسالت حضرت خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم اُسی کتاب مقدس سے اخذ کرکے تحریر کیں ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کرکے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کرسکے تو نصف اِن سے یا ثلث ان سے یا ربع ان سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبروار توڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولۂ فریقین بالاتفاق یہ رائے ظاہرکر دیں کہ ایفاءشرط جیسا کہ چاہئے تھا ظہور میں آگیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے وحیلتے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دوں گا‘‘۔ ( صفحہ ۲۴ تا ۲۸)
کتاب کے آغاز میں اس امر کا ذکر ہے کہ ہندوستان کی آریہ قوم نے انبیاء علیہم السلام کا صراحتاً انکار کر کے صرف وید کو ہی کلام خدا مان رکھا تھا۔ اور وہ تمام انبیاء اور قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے کے انکاری تھے۔ حضور ؑتحریر فرماتےہیں کہ ’’اس قوم کو تعصب نے اس قدر گھیرا ہے کہ انبیاءکا ادب سے نام لینا بھی ایک پاپ سمجھتے ہیں اور تمام انبیاءکی کسر شان کرکے اور سب کو مفتری اور جعلساز ٹھہرا کر یہ دعویٰ بلا دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایک وید ہی خدا کی کلام ہے جو ہمارے بزرگوں پر نازل ہوئی تھی اور باقی سب الہامی کتابیں جن سے دنیا کو ہزارہا طور کا فائدہ توحید اور معرفت الٰہی کا پہنچا ہے۔ وہ لوگوں نے آپ ہی بنالی ہیں‘‘۔ (صفحہ ۹۴-۹۵)
حضورؑ نے اس کے بعد رسول اللہﷺ کی ابتدائی حیاتِ مبارکہ اور قرآن مجید کا اس نبی امی پر نازل ہونا ہی ان دونوں کی صداقت کی بڑی دلیل بیان فرمائی۔
رسول اللہﷺ کی صداقت کی اندرونی دلیل قرآن کریم کے ذریعہ توحید کا قیام
رسول اللہﷺ کے توحید کے قیام میں تکالیف اٹھانے کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صداقت کا معیار ٹھہرایا۔آپؑ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قوی حجت پیش کرکے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے۔فقد لبثتُ فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون(سورہ یونس الجزو ۱۱) یعنے میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افتراءکروں۔ دیکھو میں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افترا ثابت کیا پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں یعنے یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا۔ وہ اب خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا۔
غرض انبیاءکے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہورہی ہے مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم سے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی قطع نظر کرکے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انہیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کرے گا اور کیونکر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلااختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔ خیال کرنا چاہئے کہ کس استقلال سے آنحضرت اپنے دعویٰ نبوت پر باوجود پیدا ہوجانے ہزاروں خطرات اور کھڑے ہوجانے لاکھوں معاندوں اورمزاحموں اور ڈرانے والوں کے اول سے اخیر دم تک ثابت اور قائم رہے برسوں تک وہ مصیبتیں دیکھیں اور وہ دکھ اٹھانے پڑے جو کامیابی سے بکلی مایوس کرتے تھے اور روزبروز بڑھتے جاتے تھے کہ جن پر صبر کرنے سے کسی دنیوی مقصد کا حاصل ہوجانا وہم بھی نہیں گذرتا تھا بلکہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے ازدست اپنی پہلی جمعیت کو بھی کھو بیٹھے اور ایک بات کہہ کر لاکھ تفرقہ خرید لیا اور ہزاروں بلاؤں کو اپنے سر پر بلالیا۔ وطن سے نکالے گئے۔ قتل کے لئے تعاقب کئے گئے۔ گھر اور اسباب تباہ اور برباد ہوگیا۔ بارہا زہر دی گئی۔ اور جو خیر خواہ تھے وہ بدخواہ بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمنی کرنے لگے اور ایک زمانہ دراز تک وہ تلخیاں اٹھانی پڑیں کہ جن پر ثابت قدمی سے ٹھہرے رہنا کسی فریبی اور مکار کا کام نہیں۔ اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا تو ان دولت اور اقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی۔ کوئی بارگاہ طیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت کا تجویز نہ کیا گیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبر گیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر نہ کھایا۔ اور پھر صاف گوئی اس قدر کہ توحید کا وعظ کرکے سب قوموں اور سارے فرقوں اور تمام جہان کے لوگوں کو جو شرک میں ڈوبے ہوئے تھے مخالف بنالیا۔ جو اپنے اور خویش تھے ان کو بت پرستی سے منع کر کے سب سے پہلے دشمن بنایا۔ یہودیوں سے بھی بات بگاڑلی۔ کیونکہ ان کو طرح طرح کی مخلوق پرستی اور پیر پرستی اور بداعمالیوں سے روکا۔ حضرت مسیح کی تکذیب اور توہین سے منع کیا جس سے ان کا نہایت دل جل گیا اور سخت عداوت پر آمادہ ہوگئے اور ہر دم قتل کردینے کی گھات میں رہنے لگے۔ اسی طرح عیسائیوں کو بھی خفا کردیا گیا۔ کیونکہ جیسا کہ ان کا اعتقاد تھا۔ حضرت عیسیٰ کو نہ خدا نہ خدا کا بیٹا قرار دیا اور نہ ان کو پھانسی مل کر دوسروں کو بچانے والا تسلیم کیا۔ آتش پرست اور ستارہ پرست بھی ناراض ہوگئے۔ کیونکہ ان کو بھی ان کے دیوتوں کی پرستش سے ممانعت کی گئی اور مدار نجات کا صرف توحید ٹھہرائی گئی …لیکن سوچنا چاہئے کہ آنحضرت کا یکلخت ہرایک خویش و بیگانہ سے بگاڑ لینا اور صرف توحید کو جو ان دنوں میں اس سے زیادہ دنیا کے لئے کوئی نفرتی چیز نہ تھی اور جس کے باعث سے صدہا مشکلیں پڑتی جاتی تھیں بلکہ جان سے مارے جانا نظر آتا تھا مضبوط پکڑلینا یہ کس مصلحت دنیوی کا تقاضا تھا اور جبکہ پہلے اسی کے باعث سے اپنی تمام دنیا اور جمعیت برباد کرچکے تھے تو پھر اسی بلاانگیز اعتقاد پر اصرار کرنے سے کہ جس کو ظاہر کرتے ہی نو مسلمانوں کو قید اور زنجیر اور سخت سخت ماریں نصیب ہوئیں کس مقصد کا حاصل کرنا مراد تھا۔ کیا دنیا کمانے کے لئے یہی ڈھنگ تھا کہ ہر ایک کو کلمہ تلخ جو اس کی طبع اور عادت اور مرضی اور اعتقاد کے برخلاف تھا۔ سناکر سب کو ایک دم کے دم میں جانی دشمن بنادیا اور کسی ایک آدھ قوم سے بھی پیوند نہ رکھا۔ جو لوگ طامع اور مکار ہوتے ہیں… لیکن واقعات حضرت خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیرنے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے۔ کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہوکر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہوگا۔ بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کرکے اپنے مولیٰ کا حکم بجا لائے۔ اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعاتِ خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کرکے کھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں۔ پس ذرہ ایمانداری سے سوچنا چاہئے کہ یہ سب حالات کیسے آنحضرت کے اندرونی صداقت پر دلالت کررہے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۱۰۷ تا ۱۱۲)
رسول اللہﷺ کی صداقت کے معیار
رسول اللہﷺ اس وقت تشریف لائے جب دنیا پر انتہائی ظلمت کا زمانہ چھا چکا تھا۔ اور زمانہ خود ایک نبی کا متقاضی تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کریم کی صداقت، رسول اللہﷺ کی بعثت کی ضرورت، آپﷺ کے بروقت آنے اور آپﷺ کی صداقت کو مختلف دلائل سے ثابت فرمایا ہے۔
زمانہ رسول اللہﷺ کے نزول کا متقاضی تھا
حضرت مسیح موعودؑ اس حوالہ سے فرماتے ہیں کہ ’’وہ زمانہ کہ جس میں آنحضرت مبعوث ہوئے حقیقت میں ایسا زمانہ تھا کہ جس کی حالت موجودہ ایک بزرگ اور عظیم القدر مصلح ربانی اور ہادیٔ آسمانی کی اشد محتاج تھی اور جو جو تعلیم دی گئی۔وہ بھی واقعہ میں سچی اور ایسی تھی کہ جس کی نہایت ضرورت تھی۔ اور ان تمام امور کی جامع تھی کہ جس سے تمام ضرورتیں زمانہ کی پوری ہوتی تھیں۔ اور پھر اس تعلیم نے اثر بھی ایسا کر دکھایا کہ لاکھوں دلوں کو حق اور راستی کی طرف کھینچ لائی اور لاکھوں سینوں پر لا الہ الا اللہ کا نقش جما دیا اور جو نبوت کی علت غائی ہوتی ہے یعنی تعلیم اصول نجات کے اس کو ایسا کمال تک پہنچایا جو کسی دوسرے نبی کے ہاتھ سے وہ کمال کسی زمانہ میں بہم نہیں پہنچا‘‘۔ (صفحہ ۱۱۲ تا ۱۱۳)ایک اور جگہ فرمایاکہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالت پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں اپنے رسول کا بار بار یہی کام بیان کیا ہے کہ اس نے زمانہ کو سخت ظلمت میں پایا اور پھر ظلمت سے ان کو باہر نکالا‘‘۔(صفحہ ۶۴۷)
دلیل صداقت زمانہ کی اصلاح
زمانہ کا بگاڑ اور توحید سے دوری بھی ایک مصلح کو چاہتی تھی۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرتؐ کا ایسی عام گمراہی کے وقت میں مبعوث ہونا کہ جب خود حالت موجودہ زمانہ کی ایک بزرگ معالج اور مصلح کو چاہتی تھی اور ہدایت ربانی کی کمال ضرورت تھی۔ اور پھر ظہور فرما کر ایک عالم کو توحید اور اعمال صالحہ سے منور کرنا اور شرک اور مخلوق پرستی کا جو امّ الشّرور ہے قلع قمع فرمانا اس بات پر صاف دلیل ہے کہ آنحضرتؐ خدا کے سچے رسول اور سب رسولوں سے افضل تھے۔ سچا ہونا ان کا تو اس سے ثابت ہے کہ اس عام ضلالت کے زمانہ میں قانون قدرت ایک سچے ہادی کا متقاضی تھا اور سنت الٰہیہ ایک رہبر صادق کی مقتضی تھی… یہ بات تواریخ سے اور خود مخالفین کے اقرار سے اور خاص فرقان مجید کے بیان واضح سے ثابت ہو چکی ہے کہ آنحضرتﷺ کے ظہور کے وقت میں یہ آفت غالب ہورہی تھی کہ دنیا کی تمام قوموں نے سیدا راستہ توحید اور اخلاص اور حق پرستی کا چھوڑ دیا تھا اور نیز یہ بات بھی ہر یک کو معلوم ہے کہ اس فساد موجودہ کے اصلاح کرنے والے اور ایک عالم کو ظلمات شرک اور مخلوق پرستی سے نکال کر توحید پر قائم کرنے والے اور ایک عالم کو ظلمات شرک اور مخلوق پرستی سے نکال کر توحید پر قائم کرنے والے صرف آنحضرت ہی ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ تو ان سب مقدمات سے یہ نتیجہ نکلا کہ آنحضرت خدا کی طرف سے سچے ہادی ہیں۔‘‘ ( صفحہ ۱۱۳، ۱۱۴۔حاشیہ نمبر ۱۰)
خلاصہ دلائل صداقت
حضرت مسیح موعودؑ ان دلائل مذکورہ بالا کو سورة النحل آیات ۶۴ تا ۶۶ سےثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اب غور سے دیکھنا چاہیئے کہ وہ تینوں مقدمات متذکرہ بالا کہ جن سے ابھی ہم نے آنحضرتؐ کے سچے ہادی ہونے کا نتیجہ نکالا تھا۔ کس خوبی اور لطافت سے آیات ممدوحہ میں درج ہیں۔ اول گمراہوں کے دلوں کو جو صدہا سال کی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ زمین خشک اور مردہ سے تشبیہہ دے کر اور کلام الٰہی کو مینہہ کا پانی جو آسمان کی طرف سے آتا ہے ٹھہرا کر اس قانون قدیم کی طرف اشارہ فرمایا جو امساک باران کی شدت کے وقت میں ہمیشہ رحمت الٰہی بنی آدم کو برباد ہونے سے بچالیتی ہے اور یہ بات جتلا دی کہ یہ قانون قدرت صرف جسمانی پانی میں محدود نہیں بلکہ روحانی پانی بھی شدت اور صعوبت کے وقت میں جو پھیل جانا عام گمراہی کا ہے ضرور نازل ہوتا ہے اور اس جگہ بھی رحمت الٰہی آفت قلوب کا غلبہ توڑنے کے لئے ضرور ظہور کرتی ہے۔ اور پھر انہیں آیات میں یہ دوسری بات بھی بتلا دی کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے تمام زمین گمراہ ہوچکی تھی اور اسی طرح اخیر پر یہ بھی ظاہر کردیا کہ ان روحانی مردوں کو اس کلام پاک نے زندہ کیا اور آخر یہ بات کہہ کر کہ اس میں اس کتاب کی صداقت کا نشان ہے۔ طالبین حق کو اس نتیجہ نکالنے کی طرف توجہ دلائی کہ فرقان مجید خدا کی کتاب ہے۔
اور جیسا کہ اس دلیل سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی ٔصادق ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ہی اس سے آنحضرتؐ کا دوسرے نبیوں سے افضل ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ آنحضرت کو تمام عالم کا مقابلہ کرنا پڑا اور جو کام حضرت ممدوح کو سپرد ہوا وہ حقیقت میں ہزار دو ہزار نبی کا کام تھا۔ لیکن چونکہ خدا کو منظور تھا جو بنی آدم ایک ہی قوم اور ایک ہی قبیلہ کی طرح ہوجائیں اور غیریت اور بیگانگی جاتی رہے اور جیسے یہ سلسلہ وحدت سے شروع ہوا ہے وحدت پر ہی ختم ہو اس لئے اس نے آخری ہدایت کو تمام دنیا کے لئے مشترک بھیجا۔ اور اس وقت زمانہ بھی وہ آپہنچا تھا کہ بباعث کھل جانے راستوں اور مطلع ہونے ایک قوم کے دوسری قوم سے اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے اتحاد سلسلہ نوعی کی کارروائی شروع ہوگئی تھی اور بوجہ میل ملاپ دائمی کے خیالات بعض ملکوں کے بعض ملکوں میں اثر کرنے لگے تھے۔ چنانچہ یہ کارروائی اب تک ترقی پر ہے اور سارے سامان جیسے ریل تارو جہاز وغیرہ ایسے ہی دن بدن نکلتے آتے ہیں کہ جن سے یقیناً یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قادر مطلق کا یہی ارادہ ہے کہ کسی دن تمام دنیا کو ایک قوم کی طرح بنادے۔ بہرحال پہلے نبیوں کی محدود کوشش تھی کیونکہ ان کی رسالت بھی ایک قوم میں محدود ہوتی تھی اور آنحضرت کی غیر محدود اور وسیع کوشش تھی کیونکہ ان کی رسالت عام تھی۔ یہی وجہ ہے جو فرقان مجید میں دنیا کے تمام مذاہب باطلہ کا رد موجود ہے اور انجیل میں صرف یہودیوں کی بدچلنی کا ذکر ہے۔ پس آنحضرت کا دوسرے نبیوں سے افضل ہونا ایسی غیر محدود کوشش سے ثابت ہے‘‘۔ (صفحہ ۱۱۵تا ۱۱۶۔ حاشیہ ۱۰)
سورة النور کی تمثیلات
حضرت مسیح موعودؑ نے سورة النور آیت39 اللّٰہ نور السماوات و الارض… میں مذکور تمثیلات کی آنحضرتﷺ کی ذات کے حوالہ سے نہایت ہی لطیف تشریح فرمائی۔ جس کا ابتدائی نمونہ درج ذیل ہے۔
’’اس نور کی مثال (فرد کامل میں جو پیغمبر ہے) یہ ہے جیسے ایک طاق (یعنے سینہ مشروح حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم) اور طاق میں ایک چراغ (یعنے وحی اللہ) اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفیٰ ہے (یعنے نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیشہ سفید اور صافی کی طرح ہریک طور کی کثافت اور کدورت سےمنز ّہ اور مطہر ہے۔ اور تعلقات ماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے) اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا ان ستاروں میں سے ایک عظیم النور ستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلتے ہیں جن کوکو کب دری کہتے ہیں(یعنے حضرت خاتم الانبیاء کا دل ایسا صاف کہ کوکب دری کی طرح نہایت منور اور درخشندہ جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے) وہ چراغ زیتون کے شجرئہ مبارکہ سے (یعنی زیتون کے روغن سے) روشن کیا گیا ہے (شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجودِ مبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع و اقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں۔ بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علیٰ سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا) اور شجرئہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی (یعنے طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔ بلکہ نہایت توسط و اعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے‘‘۔ (صفحہ ۱۹۲ و ۱۹۳)
عیسائی قوم کسی نبی کی تعظیم نہیں کرتی
آپؑ نے رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ پر مختلف چھوٹے بڑے اعتراضات اور سوالات کے جواب مختلف مضامین کے تحت درج فرمائے ہیں۔ عیسائیوں کے اعتراضات کے متعلق فرمایا کہ ’’اس اعتراض سے عوام مسیحی بھی خالی نہیں کہ علاوہ اس ذاتی بغض کے جو ان کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دلوں میں بھرا ہوا ہے باقی تمام نبیوں کی عزت اور تعظیم بھی بجز ایک ذات حضرت مسیح علیہ السلام کے جیسا کے لائق ہے۔ ہرگز نہیں کرتے‘‘۔ (صفحہ ۹۳۔ حاشیہ ۶) ایک سوال،کہ سچے اور جھوٹے نجات دہندہ میں تمیز کی کون کون سے علامات یا شرائط ہیں؟ کے جواب میں فرمایا کہ : ’’خدا کی طرف سے سچا نجات دہندہ وہ شخص ہے جس کی متابعت سے سچی نجات حاصل ہو یعنی خدا نے اس کے وعظ میں یہ برکت رکھی ہو کہ کامل پیرو اس کا ظلمات نفسانیہ اور اَدْناسِ بشریہ سے نجات پاجائے اور اس میں وہ انوار پیدا ہوجائیں جن کا پاک دلوں میں پیدا ہوجانا ضروری ہے ہاں جب تک پیروی کنندہ کی متابعت میں کسر ہو تب تک ظلماتِ نفسانیہ دور نہیں ہوں گے اور نہ انوارِ باطنیہ ظاہر ہوں گے لیکن یہ اس نبی متبوع کا قصور نہیں بلکہ خود وہ مدعی اِتباع کا اعراض صوری یا معنوی کی آفت میں گرفتار ہے اور اسی اعراض کی وجہ سے محروم اور محجوب ہے یہی حقیقی علامت ہے جس سے انسان گزشتہ قصوں اور کہانیوں کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ خود طالب حق بن کر سچے ہادی اور حقیقی فیض رساں کو شناخت کرلیتا ہے اور اس تقدس اور نور کوکامل اور فیض رساں ہی کی نسبت اعتقاد کیا گیا ہے نہ صرف اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے بلکہ اپنی استعداد کے موافق اس کا مزہ بھی چکھ لیتا ہے اور نجات کو نہ صرف خیالی طور پر ایک ایسا امر قرار دیتا ہے کہ جو قیامت میں ظاہر ہوگا بلکہ جہل اور ظلمت اور شک اور شبہ اور نفسانی جذبات کے عذاب سے نجات پا کر اور آسمانی نوروں سے منور ہوکراسی عالم میں حقیقت نجات کو پالیتا ہے۔ اب جبکہ سچے نجات دہندہ کی یہی طالب حق کا مقصود اعظم ہے کہ جو اس کی زندگی کا اصل مقصد اور اس کے مذہب پکڑنے کی علت غائی ہے تو سمجھنا چاہئے کہ یہ علامت صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے اور انہیں کی اتباع سے کہ جو قرآن شریف کی اتباع پر منحصر ہے باطنی نور اور محبت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے قرآن شریف جو آنحضرت کی اِتباع کا مدار علیہ ہے ایک ایسی کتاب ہے جس کی متابعت سے اسی جہان میں آثار نجات کے ظاہر ہوجاتے ہیں کیونکہ وہی کتاب ہے کہ جو دونوں طریق ظاہری اور باطنی کے ذریعہ سے نفوس ناقصہ کو بمرتبہ تکمیل پہونچاتی ہے اور شکوک اور شبہات سے خلاصی بخشتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۳۴۱ تا ۳۴۶)
رسول اللہﷺ کا امّی ہونا
قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کی صداقت کی ایک بڑی نشانی قرآن کریم میں دقیق علوم ومعارف، باریک صداقتیں اور براہین قاطعہ کا موجود ہونا ہے۔ ایسے اعلیٰ پایہ کے علوم و معارف کسی گذشتہ حکیم یا فلسفی نے دریافت نہیں کیے بلکہ یہ علوم ومعارف ایک امّی رسول کو دیے گئے۔ اس بارےمیں قرآنی آیات کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتےہیں کہ ’’اِس جگہ عجیب بر عجیب اَور بات ہے یعنے یہ کہ وہ علوم اور معارف ایک ایسے اُمّی کو عطا کی گئی کہ جو لکھنے پڑھنے سے ناآشنا محض تھا جس نے عمر بھر کسی مکتب کی شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ کسی کتاب کا کوئی حرف پڑھا تھا اور نہ کسی اہل علم یا حکیم کی صحبت میسّر آئی تھی بلکہ تمام عمر جنگلیوں اور وحشیوں میں سکونت رہی اُنہیں میں پرورش پائی اور اُنہیں میں سے پیدا ہوئے اور انہیں کے ساتھ اختلاط رہا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی اور اَن پڑھ ہونا ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ کوئی تاریخ دان اسلام کا اُس سے بے خبر نہیں‘‘۔ (صفحہ ۵۶۲)
اس کے بعد حضور نے قرآن کریم سے رسول اللہﷺ کا امی ہونا ثابت فرمایا جن میں درج ذیل آیات پیش فرمائیں:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ(الجمعہ:۳)، الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ (الاعراف: ۱۵۷ تا ۱۵۹)، مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ( الشوریٰ:۵۳)، وَمَا كُنتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖۦ مِنْ كِتَٰبٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِيْنِكَ (العنکبوت: ۴۹ و ۵۰)
ان آیات کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے رسول اللہﷺ کی پہلی زندگی کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ان تمام آیات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا بکمال وضاحت ثابت ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت فی الحقیقت اُمّی اور ناخواندہ نہ ہوتے۔ تو بہت سے لوگ اس دعویٰ اُمیّت کی تکذیب کرنے والے پیدا ہوجاتے کیونکہ آنحضرت نے کسی ایسے ملک میں یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ جس ملک کے لوگوں کو آنحضرت کے حالات اور واقعات سے بےخبر اور ناواقف قرار دے سکیں بلکہ وہ تمام لوگ ایسے تھے جن میں آنحضرت نے ابتداء عمر سے نشوونما پایا تھا اور ایک حصۂ کلاں عمر اپنی کا ان کی مخالطت اور مصاحبت میں بسر کیا تھا پس اگر فی الواقعہ جناب ممدوح اُمّی نہ ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اپنے اُمّی ہونے کا ان لوگوں کے سامنے نام بھی لے سکتے جن پر کوئی حال ان کا پوشیدہ نہ تھا‘‘۔(صفحہ ۵۷۰ تا ۵۷۲)
اس کے بعد فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ (سورة یونس ۱۶ تا ۱۸) درج فرمائی۔تیسری دلیل راسخ فی العلم یہود و نصاریٰ کے بطور امتحان سوالات پوچھنے اور پھر ایمان لانے کو بھی بطور دلیل پیش کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ’’غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا عربوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی نظر میں ایسا بدیہی اور یقینی امر تھا کہ اس کے انکار میں کچھ دم نہیں مار سکتے تھے بلکہ اسی جہت سے وہ توریت کے اکثر قصے جو کسی خواندہ آدمی پر مخفی نہیں رہ سکتے بطور امتحان نبوت آنحضرت پوچھتے تھے اور پھر جواب صحیح اور درست پاکر ان فاش غلطیوں سے مبرا دیکھ کر جو توریت کے قصوں میں پڑ گئے ہیں وہ لوگ جو ان میں راسخ فی العلم تھے بصدق دلی ایمان لے آتے تھے‘‘۔ (صفحہ ۵۷۶)یہاں حضور نے سورة المائدۃ آیت ۸۳ تا ۸۵ اور سورة بنی اسرائیل آیات ۱۰۸ تا ۱۱۰ کو مع ترجمہ درج فرمایا۔
اس کے بعد فرمایا: ’’پس یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو عیسائیوں اور یہودیوں میں اہل علم اور صاحب انصاف تھے کہ جب وہ ایک طرف آنحضرت کی حالت پر نظر ڈال کر دیکھتے تھے کہ محض اُمّی ہیں کہ تربیت اور تعلیم کا ایک نقطہ بھی نہیں سیکھا اور نہ کسی مہذّب قوم میں بودوباش رہی اور نہ مجالسِ علمیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اور دوسری طرف وہ قرآن شریف میں صرف پہلی کتابوں کے قصے نہیں بلکہ صدہا باریک صداقتیں دیکھتے تھے جو پہلی کتابوں کی مکمل اور متمم تھیں تو آنحضرتؐ کی حالت اُمیّت کو سوچنے سے اور پھر اس تاریکی کے زمانہ میں ان کمالات علمیہ کو دیکھنے سے نیز انوار ظاہری و باطنی کے مشاہدہ سے نبوت آنحضرتؐ کی ان کو اظہر من الشّمس معلوم ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ اگر ان مسیحی فاضلوں کو آنحضرتؐ کے اُمّی اور مؤیّد من اللہ ہونے پر یقین کامل نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے دین سے جس کی حمایت میں ایک بڑی سلطنت قیصر روم کی قائم تھی اور جو نہ صرف ایشیا میں بلکہ بعض حصوں یورپ میں بھی پھیل چکا تھا اور بوجہ اپنی مشرکانہ تعلیم کے دنیا پرستوں کو عزیز اور پیارا معلوم ہوتا تھا صرف شک اور شبہ کی حالت میں الگ ہوکر ایسے مذہب کو قبول کرلیتے جو بباعث تعلیم توحید کے تمام مشرکین کو ُبرا معلوم ہوتا تھا اور اُس کے قبول کرنے والے ہر وقت چاروں طرف سے معرض ہلاکت اور بلا میں تھے پس جس چیز نے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیرا وہ یہی بات تھی جو انہوں نے آنحضرتؐ کو محض اُمّی اور سراپا مؤیّد من اللہ پایا اور قرآن شریف کو بشری طاقتوں سے بالاتر دیکھا اور پہلی کتابوں میں اس آخری نبی کے آنے کے لئے خود بشارتیں پڑھتے تھے سو خدا نے ان کے سینوں کو ایمان لانے کے لئے کھول دیا۔ اور ایسے ایماندار نکلے جو خدا کی راہ میں اپنے خونوں کو بہایا۔ اور جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور بدباطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بہ یقینِ کامل آنحضرت کو اُمّی جانتے تھے اور اسی لئے جب وہ بائیبل کے بعض قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور امتحان نبوّت پوچھ کر ان کا ٹھیک ٹھیک جواب پاتے تھے تو یہ بات ان کو زبان پر لانے کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت کچھ پڑھے لکھے ہیں۔ آپ ہی کتابوں کو دیکھ کر جواب بتلا دیتے ہیں بلکہ جیسے کوئی لاجواب رہ کر اور گھسیانا بن کر کچے عذر پیش کرتا ہے ایسا ہی نہایت ندامت سے یہ کہتے تھے کہ شاید در پردہ کسی عیسائی یا یہودی عالم بائیبل نے یہ قصے بتلا دیئے ہوں گے۔ پس ظاہر ہے اگر آنحضرت کا اُمّی ہونا ان کے دلوں میں بہ یقین کامل متمکن نہ ہوتا تو اسی بات کے ثابت کرنے کے لئے نہایت کوشش کرتے کہ آنحضرت اُمّی نہیں ہیں فلاں مکتب یا مدرسہ میں انہوں نے تعلیم پائی ہے۔ واہیات باتیں کرنا جن سے اُن کی حماقت ثابت ہوتی تھی کیا ضرور تھا۔ کیونکہ یہ الزام لگانا کہ بعض عالم یہودی اور عیسائی درپردہ آنحضرت کے رفیق اور معاون ہیں بدیہی البطلان تھا۔ اس وجہ سے کہ قرآن تو جابجا اہلِ کتاب کی وحی کو ناقص اور اُن کی کتابوں کو محرّف اور مبدّل اور ان کے عقائد کو فاسد اور باطل اور خود ان کو بشرطیکہ بے ایمان مریں ملعون اور جہنمی بتلاتا ہے۔ اور اُن کے اصولِ مصنوعہ کو دلائل قویّہ سے توڑتا ہے تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ وہ لوگ قرآن شریف سے اپنے مذہب کی آپ ہی مذمّت کرواتے۔ اور اپنی کتابوں کا آپ ہی رد ّلکھاتے اور اپنے مذہب کی بیخ کنی کے آپ ہی موجب بن جاتے پس یہ سست اور نادرست باتیں اس لئے دنیا پرستوں کو بکنی پڑیں کہ اُن کو عاقلانہ طور پر قدم مارنے کا کسی طرف راستہ نظر نہیں آتا تھا اور آفتاب صداقت کا ایسی پرزور روشنی سے اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا تھا کہ وہ اس سے چمگادڑ کی طرح چُھپتے پھرتے تھے اور کسی ایک بات پر ان کو ہرگز ثبات و قیام نہ تھا بلکہ تعصّب اور شدّت عناد نے ان کو سودائیوں اور پاگلوں کی طرح بنا رکھا تھا۔ پہلے تو قرآن کے قصوں کو سن کر جن میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر تھا اس وہم میں پڑے کہ شاید ایک شخص اہل کتاب میں سے پوشیدہ طور پر یہ قصے سکھاتا ہوگا جیسا اُن کا یہ مقولہ قرآن شریف میں درج ہے۔ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ۔ سورة النحل الجزو نمبر ١٤۔ اور پھر جب دیکھا کہ قرآن شریف میں صرف قصے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے حقائق ہیں تو پھر یہ دوسری رائے ظاہر کی وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔ سورة الفرقان الجزو نمبر ١٨۔ یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہوکر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک آدمی کا کام نہیں۔ پھر جب قرآن شریف میں ان کو یہ جواب دیا گیا کہ اگر قرآن کو کسی جماعت علماء فضلاء اور شعرا نے اکٹھے ہوکر بنایا ہے تو تم بھی کسی ایسی جماعت سے مدد لے کر قرآن کی نظیر بنا کر دکھلا ؤ تا تمہارا سچا ہونا ثابت ہو تو پھر لاجواب ہوکر اس رائے کو بھی جانے دیا اور ایک تیسری رائے ظاہر کی اور وہ یہ کہ قرآن کو جِنّات کی مدد سے بنایا ہے یہ آدمی کا کام نہیں پھر خدا نے اس کا جواب بھی ایسا دیا کہ جس کے سامنے وہ چون و چرا کرنے سے عاجز ہوگئے۔(صفحہ ۵۷۸ تا ۵۸۴)
حضرت محمدﷺ اورحضرت موسیٰ ؑ کا مقابلہ بلحاظِ اخلاق فاضلہ
رسول اللہﷺ اور حضرت موسیٰ ؑدونوں اپنے سلسلہ کے بانی اور شرعی نبی تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت موسیٰؑ کے سلسلہ پر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی افضلیت ثابت فرمائی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’حضرت موسیٰ بُردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ عالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاق فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو روئے زمین پر تھے زیادہ بردبار تھا سو خدا نے توریت میں موسٰی کی بردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم :۵) تُو خُلقِ عظیم پر ہے۔ اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائلہ حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہوسکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں۔ سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا۔ وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا (النساء :۱۱۴) یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب ٤٥ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا‘‘۔ (۶۰۵ تا ۶۰۶۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)
ایک اور جگہ حضرت مسیح موعودؑ نبی کی وحی کو حسب فطرت ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہریک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا۔ توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی۔ سو انجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا۔ بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی۔ سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت و رحمت و ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۱۹۱، حاشیہ ۱۱)
رسول اللہﷺ کے مقام کے متعلق چند اقتباسات
حضرت مسیح موعودؑنے رسول اللہﷺ کے مقام کے متعلق نہایت عمدگی سے اورشاندار الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کی افضلیت بھی ثابت کی۔
افضل الانبیاء
فرمایا: ’’اگر ہم چاہتے تو ہریک بستی کے لئے جُدا جُدا رسول بھیجتے مگر یہ اس لئے کیا گیا کہ تا تجھ سے بھاری کوششیں ظہور میں آویں یعنی جب ایک مرد ہزاروں کا کام کرے گا تو بلاشبہ وہ بڑا اجر پائے گا اور یہ امر اس کی افضلیت کا موجب ہوگا سو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگتر تھے اور خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر کے رو سے فی الواقعہ سب انبیاء کے سردار ہیں ایسا ہی ظاہری خدمات کے رو سے بھی ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر اور روشن ہوجائے اس لئے خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافہ بنی آدم کے لئے عام رکھا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں عام طور پر ظہور میں آویں۔ موسیٰ اور ابن مریم کی طرح ایک خاص قوم سے مخصوص نہ ہوں اور تاہریک طرف سے اور ہریک گروہ اور قوم سے تکالیفِ شاقہ اٹھا کر اس اجر عظیم کے مستحق ٹھہرجائیں کہ جو دوسرے نبیوں کو نہیں ملے گا۔‘‘ (صفحہ ۶۵۲تا ۶۵۴)
افضل نبی، مربی اعظم
ایک اور جگہ فرمایا: ’’اصل حقیقت یہ ہے کہ سب نبیوں سے افضل وہ نبی ہے کہ جو دنیا کا مربی اعظم ہے۔ یعنی وہ شخص کہ جس ے ہاتھ سے فساد اعظم دنیا کا اصلاح پذیر ہوا ہو۔ جس نے تما م مذاہب باطلہ کو حجت اور دلیل سے مغلوب کر کے ہر یک گمراہ کے شبہات مٹائے جس نے ہر ایک ملحد کے وسواس دور کئے اور سچا سامان نجات کا کہ جس کے لئے کسی بے گناہ کو پھانسی دینا ضرور نہیں اور خدا کو اپنی قدیمی اور ازلی جگہ سے کھسکا کر کسی عورت کے پیٹ میں ڈالنا کچھ حاجب نہیں۔ اصول حقہ کی تعلیم سے از سر نو عطا فرمایا۔ پس اس دلیل سے کہ اس کا فائدہ اور افاضہ سب سے زیادہ ہے۔ اس کا درجہ اور رتبہ بھی سب سے زیادہ ہے۔ اب تواریخ بتلاتی ہے۔ کتاب آسمانی شاہد ہے اور جن کی آنکھیں ہیں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نبی جو بموجب اس قاعدہ کے سب نبیوں سے افضل ٹھہرتا ہے وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘۔ (حاشیہ نمبر۶ صفحہ ۹۷)
سب نبیوں سے اعلیٰ و افضل
فرمایا: ’’دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا…صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔ (صفحہ ۵۵۶، ۵۵۷۔ حاشیہ در حاشیہ ۳)
سید الرسل، سرتاج
’’یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ (۵۹۴۔ حاشیہ در حاشیہ ۳)
’’وجودِ مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا…انبیاء منجملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہوگئے ہیں۔ اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور اور سراج منیر رکھا ہے‘‘۔ ( صفحہ ۱۹۶ و ۱۹۷۔ حاشیہ نمبر ۱۱)
رسول اللہﷺ کی خواب میں زیارت براہین احمدیہ سے متعلق خواب
الہام کی ضرورت اور اس کے جاری رہنے کے متعلق دلائل میں حضورؑ نے اپنے الہامات رؤیا اور کشوف کو پیش فرمایا۔ ان میں سے ایک درج ذیل ہے جس میں آپؑ کو رسول اللہﷺ کی زیارت ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس عاجز کو جناب خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی۔ اور بطور مختصر بیان اس کا یہ ہے کہ اس احقر نے ١٨٦٤ء یا ١٨٦٥ء عیسوی میں یعنے اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیرمتزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے۔غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا۔ تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔ پھر خلاصۂ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھاچکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک سے متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔ تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی والحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔
یہ وہ خواب ہے کہ تقریباً دو سو آدمی کو انہیں دنوں میں سنائی گئی تھی جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر ان میں سے ابھی تک صحیح و سلامت ہیں اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام و نشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بناکر اس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لئے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کسی قدر پوری ہوگئیں اور جس قطبیت کے اسم سے اُس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا تھا۔ اسی قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلے پر بوعدہ انعام کثیر پیش کرکے حجت اسلام ان پر پوری کی گئی ہے۔ اور جس قدر اجزا اس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے ان کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔‘‘ (صفحہ ۲۷۴ تا ۲۷۵۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱)
پھر ایک خواب میں رسول اللہﷺ، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن و حسین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زیارت ہوئی۔ جس کا ذکر فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادۂ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین (سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ درست لفظ ’’تعیین‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ناشر)ظاہر نہیں ہوئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ھذا رجل یحب رسول اللّٰہ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔ اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔
اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبتِ حس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی، جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پا ؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے۔ اور اب علی وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فالحمدللہ علی ذالک‘‘۔ (صفحہ ۵۹۷ تا ۵۹۹ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)
منظوم نعتیہ کلام در زبانِ فارسی
براہین احمدیہ کے آغاز میں ایک طویل فارسی منظوم نعتیہ کلام میں رسول اللہﷺ کی مدح سرائی کی۔
در دلم جوشد ثنائے سرورے
آنکہ در خوبی ندارد ہمسرے
آنکہ جانش عاشق یارِ ازل
آنکہ روحش واصل آں دلبرے
آنکہ مجذوب عنایات حقست
ہمچو طفلے پر وریدہ در برے
آنکہ در برّ و کرم بحر عظیم
آنکہ در لطف اتم یکتا دُرے
(صفحہ ۱۷)
ترجمہ: میرے دل میں اس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ وہ جس کی جان خدا کی عاشق ہے وہ جس کی روح اس دلبر میں واصل ہے۔ وہ جو خدا کی مہربانیوں سے اس کی طرف کھینچا گیا ہے اور خدا کی گود میں ایک بچہ کی مانند پلا ہے۔ و ہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحر عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے۔
اسی طرح ایک اور نظم میں یہ نعتیہ اشعار ہیں:
خدائے کہ جاں بر رہ او فدا
نہ یابی رہش جز پئے مصطفیٰ
ابوالقاسم آں آفتاب جہاں
کہ روشن شد ازوے زمین و زماں
بشر کی بدے از ملک نیک تر
نہ بودی اگر چوں محمدؐ بشر
نیاید ترا شرم از کردگار
کہ اہل خرد باشی و باوقار
پس آنگہ شوی منکر آں رسول
کہ یا بد ازو نور چشم عقول
(صفحہ ۲۲۸ حاشیہ ۱۱)
ترجمہ: وہ خدا جس کی راہ میں ہماری جان قربان ہے اس کا راستہ تجھے مصطفیٰ کی پیروی کے بغیر نہیں مل سکتا۔ ابو القاسم وہ آفتاب عالمتاب ہے جس کی وجہ سے زمین و زمان روشن ہو گئے۔ انسان فرشتہ سے بہتر کیونکر ثابت ہوتا۔ اگر محمدﷺ کی طرح کا انسان پیدا نہ ہوتا۔ کیا تجھے خدا تعالیٰ سے شرم نہیں آتی کہ عقل مند اور معزز ہونے کے باوجود پھر بھی تو اس رسول کا منکر ہے جس سے خود عقل کی آنکھیں نور حاصل کرتی ہیں۔
پھر حضرت مسیح موعودؑ نے یہ رباعی بھی رسول اللہﷺ کی مدح میں تحریر فرمائی۔
ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم
مہرومہ را نیست قدرے در دیارِ دلبرم
آں کجا روئے کہ دارد ہمچو رویش آب و تاب
واں کجا باغے کہ مے دارد بہار دلبرم
(صفحہ ۵۹۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)
میرے دلبر کو کوئی محبوب نہیں پہنچتا ہے۔ میرے معشوق کے شہر میں سورج اور چاند کی کوئی قدر نہیں۔ ایسا چہرہ کہاں ہے جو اس کے منہ کی مانند آب و تاب رکھتا ہو اور ایسا باغ کہاں ہے جو میرے دلبر کی سی بہار رکھتا ہو۔ (ترجمہ از درثمین فارسی مترجم از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ؓ، مطبوعہ محمد احمد اکیڈمی رام گلی نمبر ۳۔ لاہور)
یہاں اس ضخیم کتاب سے چند امور کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ ان مذکورہ بالا امورسے متعلق تفصیل کے لیے براہین احمدیہ کا سیر حاصل مطالعہ کریں اور حضرت مسیح موعودؑ کی اس خدمتِ جلیلہ سے مستفیض ہوں۔
٭…٭…٭