متفرق مضامین

براہین احمدیہ میں مذکور قرآن کریم کی امتیازی شان

(شمشاد احمد قمر۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی)

یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت و تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے

آنحضور ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے اسلام کا پرچم بلند رکھا اور حفاظت و اشاعتِ قرآن کریم کا حق ادا کیا۔ لیکن مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے پیشگوئیوں کے مطابق خلافت ختم ہو گئی اور بادشاہت قائم ہو گئی۔ پھر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والے بادشاہوں کو اسلام اور قرآن کریم سے زیادہ اپنی بادشاہتوں کی حفاظت کا فکر دامن گیر رہا اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف رہے۔جبکہ اسلام پر دوسرے مذاہب کے اندرونی و بیرونی حملے تیز ہوتے گئے۔ اسرائیلیات اور جھوٹی روایات اسلامی لٹریچر کا حصّہ بنتی گئیںجس سے آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کی حقیقی تصویر پہچاننا مشکل ہو گیا۔ چودھویں صدی ہجری تک آتے آتے اسلام کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ اسلام پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے اور مسلمانوں میں اسلام کا دفاع کرنے کی سکت نہ تھی۔ایسی صورتحال میں پھر ہمیشہ کی طرح ا للہ تعالیٰ کی طرف سے ہی کسی حفاظت کا انتظام ہو سکتا تھا۔ اسی کی پیشگوئی کرتے ہوئے آنحضور ﷺ نے اس دَور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔چنانچہ اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام، آنحضور ﷺ اور قرآن کریم پر ہونے والے ان حملوں کا دفاع کرتے ہوئے تقریروں اور مناظروں کے علاوہ براہینِ احمدیہ کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب لکھی جس میں اسلام، بانیٔ اسلام اور قرآن کریم کا ایسا دفاع کیا جس کا اعتراف کرنے پر اس د َور کے ہی نہیں بلکہ آج کے علماء بھی مجبور ہوگئے۔

اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بیان فرمودہ قرآن کریم کی امتیازی خصوصیات کا مختصر سا خاکہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ خاکسار نے کوشش کی ہے کہ اس بارے میں اپنی طرف سے کم سےکم الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں ہی بیان کیا جائے۔

قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے حضور علیہ السلام نے جو دلائل دیے ان کے بارے میں بتایا کہ یہ دو قسم کے ہیں۔ اوّل وہ دلائل جو اس کتاب پاک کی صداقت پر اندرونی اور ذاتی شہادتیں ہیں اور دوسری جوبیرونی طور پر قرآن شریف اور آنحضور ﷺ کی سچائی پر شواہد قاطعہ ہیں یعنی ایسے دلائل جو خارجی واقعات اور حادثات متواترہ سے لیے گئے ہیں۔ فرما یا کہ ان کی مزید دو قسمیں ہیں (۱) دلیل بسیط اور (۲) دلیل مرکب۔

دلیلِ بسیط

حضور علیہ السلام نےفرمایا کہ ’’دلیل بسیط وہ دلیل ہے جو اثبات حقیت قرآن شریف اور صدق رسالت آنحضرتﷺ کےلئے کسی اور امر کے الحاق اور انضمام کی محتاج نہیں‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱،صفحہ ۳۴)نیزفرمایا کہ ’’اندرونی شہادتوں سے وہ ذاتی کمالات کسی کتاب کی مراد ہیں کہ خود اسی کتاب میں موجود ہوںجن پر نظر کرنے سے عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہو کہ وہ خدا کی کلام ہے اور انسان اس کے بنانے پر قادر نہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۱۴۳)

دلیل مرکب

’’دلیل مرکب وہ دلیل ہے جو اس کے تحقق دلالت کے لئے ایک ایسے کل مجموعے کی ضرورت ہے کہ اگر من حیث الاجتماع اس پر نظر ڈالی جائے یعنی یکجائی نظر سے اس کی تمام افراد کو دیکھا جائے تو وہ کل مجموعی ایک ایسی عالی حالت میں ہو جو تحقق اس حالت کا تحقق حقیقت فرقان مجیداور صدق رسالت آنحضرت کو مستلزم ہواور جب اجزا اس کی الگ الگ دیکھی جائیں تو یہ مرتبہ برہانیت کا جیسا کہ ان کو چاہئے حاصل نہ ہو… جیسے ایک بوجھ کو دس آدمی اکٹھے ہو کر اٹھا سکتے ہیں اور اگر وہی دس آدمی ایک ایک ہوکر اٹھانا چاہیں تو یہ امر محال ہو جاتا ہے۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۳۴ تا ۳۷)مزید فرمایا کہ ’’بیرونی شہادتوں سے وہ واقعات ِخارجیہ مراد ہیں جو ایک ایسی حالت پر واقعہ ہوں کہ جس حالت پر نظر کرنے سے کسی کتاب کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہویا اس کے منجانب اللہ ہونے کی ضرورت ثابت ہوتی ہو۔‘‘ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۱۴۳)

دلائل حکمیہ پر مبنی تعلیم

حضورؑ نے ان دلائل کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اورقرآن کریم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تعلیم اصولی فرقان مجید کی دلائل حکمیہ پر مبنی اور مشتمل ہے۔ یعنی فرقان مجید ہر یک اصولِ اعتقادی کو جو مدار نجات کاہےمحققانہ طور سے ثابت کرتا ہے اور قوی اور مضبوط فلسفی دلیلوں سےبپایہ ٔصداقت پہنچاتا ہے۔ جیسے وجود صانع عالم کا ثابت کرنا توحید کو بپایہ ٔثبوت پہنچانا ضرورت الہام پر دلائل قاطعہ کا لکھنا اور کسی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل سے قاصر نہ رہنا۔پس یہ امر فرقان مجید کے منجانب اللہ ہونے پر بڑی بزرگ دلیل ہے جس سے حقیت اور افضلیت اس کی بوجہ ٔکمال ثابت ہوتی ہے۔(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۴۱ تا ۴۳)

بیرونی شہادتوں کی اقسام: حضور علیہ السلام نےقرآن کریم کی افضلیت اور حقیقت پر بیرونی شہادتوں کی چار قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ (۱) جو امور محتاج الاصلاح سے ماخوذ ہیں۔(۲) جو امور محتاج التکمیل سے ماخوذ ہیں (۳) وہ جو امور قدرتیہ سے ماخوذ ہیں۔(۴) وہ جو امور غیبیہ سے ماخوذ ہیں۔

۱۔امور محتاج الاصلاح :فرمایا کہ ’’امور محتاج الاصلاح سے وہ امور کفر اور بے ایمانی اور شرک اور بدعملی کےمراد ہیں جن کو بنی آدم نے بجائے عقائدِ حقہ اور اعمال صالحہ کےاختیار کر رکھا ہو اور جو عام طور پر تمام دنیا میں پھیلنے کی وجہ سے اس لائق ہو گئے ہوں کہ عنایت ازلیہ ان کی اصلاح کی طرف توجہ کرے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۱۴۴)

۲۔امور محتاج التکمیل: ’’امور محتاج التکمیل سے وہ امور تعلیمیہ مراد ہیں جو کتب الہامیہ میں ناقص طور پر پائے جاتے ہوں اور حالت کاملہ تعلیم پر نظر کرنے سے ان کا ناقص اور ادھورا ہونا ثابت ہوتا ہو اور اس وجہ سے وہ ایک ایسی کتاب الہامی کے محتاج ہوں جو ان کو مرتبۂ کمال تک پہنچاوے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۱۴۴)

۳۔ امور قدرتیہ : یہ دو قسم کے ہیں۔ (۱) ایسی بیرونی شہادتیں جو بغیر انسانی تدبیروں کے خدا کی طرف سے پیدا ہو جائیں۔ اور ایسی عظیم الشان اور شان و شوکت والی ہوں جس کی دنیا میں مثال نہ ملتی ہو اور عقل تسلیم کرے کہ اس کا کسی انسان کی طرف سے ہونا محال ہے۔(۲) اس سے کسی الہامی کتا ب کے وہ محاسن ِصوری اور معنوی مراد ہیں جن کا مقابلہ کرنے سے انسانی قویٰ عاجز ہوں اور وہ خدا ئے واحد کی یکتائی اور آئینہ نمائی پر دلالت کرتےہوں۔( ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ۱۴۴)

۴۔ امور غیبیہ : ’’امورِ غیبیہ سے وہ امور مراد ہیں جو ایک ایسے شخص کی زبان سے نکلیں جس کی نسبت یہ یقین کیا جائے کہ ان امور کا بیان کرنا من کل الوجوہ اس کی طاقت سے باہر ہے۔یعنی ان امور پر نظر کرنے اور اس شخص کے حال پر نظر کرنے سے یہ بات بہ بداہت واضح ہو کہ نہ وہ امور اس کے لئےحکم بدیہی اور مشہود کا رکھتے ہیں اور نہ بذریعہ نظراورفکر کے اس کو حاصل ہو سکتے ہیں اور نہ اس کی نسبت عندالعقل یہ گمان جائز ہے کہ اس نے بذریعہ کسی دوسرے واقف کار کے ان امور کو حاصل کر لیا ہوگا۔ گو وہی امور کسی دوسرے شخص کی طاقت سے باہر نہ ہوں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱،صفحہ۱۴۴-۱۴۵)

نیز آپؑ فرماتے ہیں: ’’امور غیبیہ کو منجانب اللہ ہونے پر دلالت کامل ہے۔کیونکہ یہ بات بہ بداہت عقل ثابت ہے کہ غیب کا دریافت کرنا مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہے۔اور جو امر مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہو وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔پس اس دلیل سے ظاہر ہے کہ امور غیبیہ خدا کی طرف سے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ان کا منجانب اللہ ہونا یقینی اور قطعی ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۴۹)

قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حروف اور الفاظ مفردہ انسان کے کلام اور خدا کے کلام میں مشترک ہیں۔ پس ان حروف اور الفاظ کی شراکت سے انسان کی خدا سے شراکت لازم آتی ہے۔

حضور نے فرمایا کہ زبان کی تعلیم خدا کی طرف سے ہے۔پس حروف اور الفاظ بھی خدا نے ہی سکھائے۔ یہ انسانی عقل کی اپنی ایجاد تو نہیں ہے۔انسان بس ان حروف اور الفاظ کو ترتیب دے کر ایک عبارت تیار کر سکتا ہے۔لیکن خداکی عبارت اور انسان کی عبارت پھر بھی برابر نہیں ہو سکتی۔پس انسان کا وہی الفاظ اور حروف بولنا جو خدا بولتا ہے ہر گز مشارکت نہیں کہلا سکتی۔جیسے انسان مٹی کو استعمال میں لا کر برتن وغیرہ بناتا ہے۔ لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ انسان خدا کا شریک ہوگیا ہے۔ کیونکہ مٹی تو خدا کی بنائی ہوئی مخلوق ہے نہ کہ انسان کی مخلوق۔انسان یہ نہیں کر سکتا کہ مٹی سے اسی طرح جانور وغیر ہ پیدا کرے جیسے خدا کرتا ہے۔لہٰذا کسی چیز کے محض استعمال کر لینے سے مشارکت نہیں ہو سکتی۔پس حروف، الفاظ اور چھوٹے چھوٹے فقرات جو خدا کے کلام میں موجود ہیں اور انسان کے کلام میں بھی موجود ہیں۔ یہ کلام کے عناصر ہیں جو خدا کی طرف سے ہیں انسان بھی ان کو اپنے استعمال میں لاتا ہے اور خدا بھی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں یہی الفاظ جس محکم ترتیب، حکمت، کمال موزونیت اور اعتدال سے اپنے اپنے محل پر استعمال ہوتے ہیں۔ انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ ویسی ہی محکم ترتیب، حکمت، موزونیت اور اعتدال اس کے کلام میں ہو۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے مقابلہ پر تمام کفار جو ملک الشعراء تھے اور جن کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا، لاجواب بیٹھے رہے۔ یہی خاموشی ان کے عجز پر گواہی دیتی ہے۔

قرآن کریم انسان کو یقین کامل تک پہنچانے کا ذریعہ

فرمایا کہ ’’یقینی طور پر نجات کی امید یقین کامل پر اس لئے موقوف ہے کہ مدار نجات کا اس بات پر ہے کہ انسان اپنے مولا کریم کی جانب کو تمام دنیا اور اس کے عیش و عشرت اور اس کے مال ومتاع اور اس کے تمام تعلقات پر یہاں تک کہ اپنے نفس پر بھی مقدم سمجھے اور کوئی محبت خدا کی محبت پر غالب ہونے نہ پاوے…اور یہ بات کہ صرف ملاحظہ مخلوقات سے یقین کامل حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس طرح پرثابت ہے کہ مخلوقات کوئی ایسا صحیفہ نہیں ہے کہ جس پر نظر ڈال کر انسان یہ لکھا ہوا پڑھ لے کہ ہاں اس مخلوق کو خدا نے پیدا کیا ہے اور واقعی خدا موجود ہے۔ اور اسی کی لذّت وصال راحت حقیقی ہے اور وہی مطیعوں کو جزا اور نافرمانوں کو سزا دے گا۔بلکہ مخلوقات کو دیکھ کر اور اس عالَم کو ایک ترتیب احسن اور ابلغ پر مرتب پا کر فقط قیاسی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس مخلوقات کا کوئی خالق ہونا چاہئے۔اور لفظ ’’ہونا چاہئے‘‘ اور ’’ہے‘‘ کے مصداق میں بڑا فرق ہے۔ مفہوم ’’ہونا چاہئے‘‘ اس یقین جاز م تک نہیں پہنچا سکتا جس تک مفہوم ’’ہے‘‘ کا پہنچاتا ہے۔‘‘ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل،صفحہ۱۵۳-۱۵۴، حاشیہ)

پھر فرمایا کہ ’’اس صورت میں کہ جب ہم تسلیم کریں کہ خدا نے مخلوقات کی نجات کے لئے ضرور کوئی کامل ذریعہ ٹھہرایا ہے۔ بجز اس بات کے ماننے کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ کامل ذریعہ ایسی کتا ب الہامی ہو گی جو اپنی ذات میں بے مثل و مانند ہو اور اپنے بیان میں قانون قدرت کے ہر یک اجمال کو کھولتی ہو…نیز اس میں منجانب اللہ ہونے کے بارے میں اور ہریک امر دینی کے لئےتحریری شہادت بھی موجود ہو۔تو یہ تمام صفات صرف کتاب الہامی میں جو بے مثل و مانند ہو، جمع ہوں گی اور کسی چیز میں جمع نہیں ہو سکتیں۔کیونکہ یہ خوبی صرف کتاب الہامی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ اپنے بیان اور اپنی بے نظیری کی حالت کے ذریعہ سے یقین کامل اور معرفت کامل کے مرتبہ تک پہنچاوے۔‘‘ (حاشیہ صفحہ ۱۵۷-۱۵۸) ’’جس حالت میں وہ کامل اور بے نظیر الہام جس کی ہمیں ضرورت تھی موجود ہے۔ یعنی قرآن شریف جس کی کمالیت اور بے نظیری کے مقابلہ پر آج تک کسی نے دم بھی نہیں مارا تو پھر موجود کو غیر موجود سمجھنا اور اس کی ضرورت کو ایک فرضی ضرورت قرار دینا ان لوگوں کا کام ہے جن کی قوّت بینائی جاتی رہی ہے۔ ہاں اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو قرآن شریف کی دلائل بے نظیری اور کمالیت کو جن کوہم نے بھی اس کتاب میں لکھا ہے توڑ کر دکھلائیے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۱۷۸، حاشیہ)

نجات کے لیے ضروری عقائد کا سرچشمہ صرف قرآن کریم

فرمایا: ’’انسان کی دانشمندی اور زیرکی سب اسی میں ہے کہ وہ ان اصولوں اور اعتقادوں کو جو بعد مرنے کے موجب سعادتِ ابدی یا شقاوتِ ابدی کا ٹھہریں گے، اسی زندگی میں خوب معلوم کر کےحق پر قائم اورباطل سے گریزاں ہو اور اپنے ان نازک عقائد کی بنا کہ جن کو مدار نجات کاجانتا ہے اور آخری خوشحالی کا باعث تصور کرتا ہے ثبوت کامل اور مستحکم پر رکھے…ہریک عاقل جانتا اور سمجھتاہے کہ ایسی کتابیں یا ایسے اصول کتابوں کے…علاوہ شہادت الہامیہ کے دلائل عقلیہ سے بھی ثابت کرنا اشد ضروری ہے۔کیونکہ اگرچہ شہادت الہامی بڑی معتبر خبر ہے اور استکمال مراتب یقین کا اسی پر موقوف ہے لیکن اگر کوئی کتاب مدعی ٔ الہام کی کسی ایسے امر کی تعلیم کرے کہ جس کے امتناع پر کھلا کھلی دلائل عقلیہ قائم ہوتی ہیں تو وہ امر ہر گز درست نہیں ٹھہر سکتا بلکہ وہ کتاب ہی باطل یا محرف یا مبدل المعنی کہلائے گی…اور جبکہ ہم فی الحقیقت اپنی نجات کے لیے ایسے عقائد کے محتاج ہیں کہ جن کا حق ہونا دلائل عقلیہ سے ثابت ہو تو پھر یہ سوال ہو گا کہ وہ عقائد حقہ کیونکر ہمیں معلوم ہوں …اس کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے کہ وہ یقینی اور کامل اور آسان ذریعہ کہ جس سے بغیر تکلیف اور مشقت اور مزاحمت شکوک اور شبہات اور خطا اور سہو کے اصول صحیحہ معہ ان کی دلائل عقلیہ کے معلوم ہو جائیں اور یقین کامل سے معلوم ہوں،وہ قرآن شریف ہے اور بجز اس کے دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں اور نہ کوئی ایسا دوسرا ذریعہ ہے کہ جس سے یہ مقصد اعظم ہمارا پورا ہو سکے…وہ سب اصول کہ جن پر ایمان لانا ہریک طالب سعادت پر واجب ہے اور جن پر ہم سب کی نجات موقوف ہے اور جن سے ساری اخروی خوشحالی انسان کی وابستہ ہے، وہ صرف قرآن شریف ہی میں محفوظ ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۷۵ تا ۷۸)

سب سے افضل کتاب

’’آج روئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلام الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔ جس کے اصول نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویّہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیںجس کے احکام حقِ محض پر قائم ہیں، جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں۔ جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزّت کے ظاہر کرنے کے لیے انتہا کا جوش ہے۔جس میں یہ خوبی ہے کہ سرا سر وحدانیت جناب الٰہی سے بھرا ہو ا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذات پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا۔ بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔اور ہریک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ ٔیقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہےاور جوجو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان تمام مفاسدکو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے۔اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آجکل پھیلا ہوا ہےاس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانون فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دلی اور بصیرت قلبی کے لئے ایک آفتاب چشم افروز ہے۔اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے والا اور اس کے نقصان کا جبر کرنے والا ہے۔لیکن دوسری کتابیں جو الہامی کہلاتی ہیں۔جب ان کی حالت موجودہ کو دیکھا گیا تو بخوبی ثابت ہو گیا جو وہ سب کتابیں ان صفات کاملہ سے بالکل خالی اور عاری ہیں اور خدا کی ذات اور صفات کی نسبت طرح طرح کی بدگمانیاں ان میں پائی جاتی ہیں اور مقلد ان کتابوں کےعجیب عجیب عقائد کے پابند ہو رہے ہیں۔ کوئی فرقہ ان میں سےخدا کو خالق اور قادر ہونے سے جواب دے رہا ہے اور قدیم اور خودبخود ہونے میں اس کا بھائی اور حصّہ دار بن بیٹھا ہے۔ اور کوئی بتوں اور مورتوں اور دیوتوں کو اس کے کارخانہ میں دخیل اور اس کی سلطنت کا مدارالمہام سمجھ رہا ہے۔ کوئی اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں اور پوتے اورپوتیاں تراش رہا ہے اور کوئی خود اسی کو مچھ اور کچھ کا جنم دے رہا ہے۔ غرض ایک دوسرے سے بڑھ کراس ذات کامل کوایسا خیال کر رہے ہیں کہ گویا وہ نہایت ہی بدنصیب ہے کہ جس کمال تام کو اس کے لئے عقل چاہتی تھی وہ اس کو میسر نہ ہوا۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول ،صفحہ ۸۱-۸۳)

قرآن کریم عقلی اور الہامی طور پر کلام اللہ

’’اگرچہ ہریک الہام الٰہی یقین دلانے کے لئے ہی آیا تھا لیکن قرآن شریف نے اس اعلیٰ درجہ یقین کی بنیاد ڈالی کہ بس حد ہی کر دی … پہلے جتنے الہام خدا کی طرف سے نازل ہوئے وہ صرف شہادت واقعہ کی ادا کرتے رہے۔ اور ان کی ساری طرز منقولات کی طرزتھی اور اسی باعث سے وہ آخر میں بگڑ گئے اور خود غرضوں اور خود پرستوں نے کچھ کا کچھ سمجھ لیالیکن قرآن شریف کی تعلیم نے عقل کا بھی سارا بوجھ آپ ہی اٹھا لیا اور انسان کو ہریک طرح کی مشکلات سے خلاصی بخشی۔ آپ ہی مخبر صادق ہو کر الٰہیات کے واقعات کی خبر دی۔ اور پھر آپ ہی عقلی طور پر اس خبر کوبپایۂ ثبوت پہنچایا۔ جوشخص دیکھے اسے معلوم ہو کہ قرآن شریف میں دو امر کا التزام اوّل سے آخر تک پایا جاتا ہے۔ایک عقلی وجوہ اور دوسری الہامی شہادت۔ یہ دونو ں امر فرقان مجید میں دوبزرگ نہروں کی طرح جاری ہیں جو ایک دوسرے کے محاذی اورایک دوسرے پر اثر ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ عقلی وجوہ کی جو نہر ہے وہ یہ ظاہر کرتی گئی ہے کہ یہ امر ایسا ہونا چاہئے اور اس کے مقابلہ پر الہامی شہادت کی نہر ہے وہ بزرگ اور راستباز مخبر کی طرح یہ دلوں کو تسلی بخشتی گئی ہے کہ واقعہ میں بھی ایسا ہی ہے۔اور طرز فرقانی سے جو طالب حق کو حق کے معلوم کرنے میں آسانی ہے وہ بھی ظاہر ہے کیونکہ پڑھنے والا فرقان مجید کا ساتھ ساتھ دلائل عقلی کو بھی معلوم کرتا جاتا ہے۔ ایسے دلائل کہ جس سے زیادہ تر محکم دلائل کسی دفتر فلسفی میں مرقوم نہیں۔‘‘ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۸۰تا ۸۱،حاشیہ)

قرآن اپنا دعویٰ اور دلیل خود بیان کرتا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہامی کتاب کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ ’’کتاب کا یہ آپ ذمہ ہے کہ اپنے الہامی ہونے کے بارے میں جو جو دعویٰ کرنا واجب ہے وہ آپ کرے اور اس کے دلائل بھی آپ لکھے اور ایسا ہی اپنے اصولوں کی حقیت کو آپ دلائل ِواضحہ سے بپایۂ صداقت پہنچاوے نہ یہ کہ کتاب الہامی اپنا دعویٰ پیش کرنے اور اس کا ثبوت دینے سے قطعاً ساکت ہو اور اپنے اصولوں کی وجوہِ صداقت پیش کرنے سے بھی بکلی سکوت اختیار کرے اور کوئی دوسرا اٹھ کر اس کی وکالت کرنا چاہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۸۹)نیز فرمایا کہ ’’الہامی کتاب کا اپنے اصول کی سچائی پر آپ دلائل بیان کرنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ الہامی کتاب کا صرف یہ منصب نہیں ہے کہ اس سے کوئی شخص طوطے کی طرح چند غیر معقول اور مجہول الکیفیت باتیں سیکھ کر اپنےدل میں سمجھ بیٹھے کہ بس اب میں نجات پا گیا۔ بلکہ عمدہ کام الہامی کتاب کا تو یہی ہے کہ دلائل عقلیہ بتلا کر اس لازوال مرتبہ ٔ یقین تک پہونچاوے جو کسی وسوسہ انداز کے وسوسہ ڈالنے سے زائل نہ ہو سکے۔ تا اس کامل یقین کی برکت سے سارے اعمال اور اقوال اور عقائد ایماندار کے درست ہو جائیں اور تا راستی کو حقیقت میں راستی سمجھ کر اور کجی کو حقیقت میں کجی سمجھ کرحقیقی تقویٰ کی صفت سے متصف ہو جائے۔کیونکہ جب تک انسان جہالت کے دوزخ میں پڑا ہوا ہے اور بجزایمانِ تقلیدی کے…اور کسی طرح کی عقلی بصیرت اس کو حاصل نہیں تو وہ بڑی خطرہ کی حالت میں ہوتا ہےاور اس کے حسب حال یہ آیت قرآن شریف کی ہے۔ وَمَنْ كَانَ فِي هٰذِهٖ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيْلًا۔(سورۃ بنی اسرائیل سیپارہ ۱۵)یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہےوہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔بلکہ اندھوں سے بدتر۔پس جو کتاب اپنی حقیت اور اپنے اصول کی حقیت کو ثابت کر کے نہیں دکھلاتی۔وہ انسان پر حقیقی سعادت کا دروازہ نہیں کھولتی۔ اورنہ اس کو عقل اور علم میں ترقی بخشتی ہے۔بلکہ ترقیات سے روکتی ہے اور مردے کی طرح صرف تقلید کے گڑھے میں ڈالنا چاہتی ہے کہ جس میں وہ نہ دیکھے نہ سنے نہ سمجھے۔اور جو شخص ایسی کتابوں کا پیرو ہوتا ہےوہ عقل اور قیاس اور نظر اور فکر سے کچھ سروکار نہیں رکھتا۔بلکہ محض قصّوں اور کہانیوں پر بھروسہ کر بیٹھتا ہے۔ اور حقائقِ امور کی تہہ کونہیں پہنچتا اور تدبّر اور تفکّر کی قوّت کو بالکل بے کار چھوڑ کر …رفتہ رفتہ حیوانات لایعقل سے بھی پرلے پار ہو جاتا ہے…پھر اس لائق ہی نہیں رہتا کہ اس کو انسان کہا جائے…فرقان مجید میں مذکور ہے۔ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ( سورۃ اعراف سیپارہ ۹) یعنی وہ لوگ جو صرف باپ دادے کی تقلید پر چلنے والے ہیں، وہ دل تو رکھتے ہیں پر دلوں سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھیں بھی ہیں پر آنکھوں کو دیکھنے سے معطل چھوڑا ہوا ہے اور کان بھی رکھتے ہیں پر وہ بھی بے کار پڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی گئے گذرے۔غرض کلام الٰہی کایہ نہایت عمدہ کام ہے کہ جوجو طاقتیں اور قوّتیں انسان کی فطرت میں ڈالی گئی ہیں ان کو بطور اصلح اور انسب کے استعمال میں لانے کی تاکید کرے تا کوئی قوّت اور طاقت جو عین حکمت اور مصلحت سےانسان کو عطا کی گئی تھی ضائع نہ ہو جائے یا بطور افراط یا تفریط کے استعمال میں نہ لائی جائے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۸۹تا ۹۱، حاشیہ)

تازہ آسمانی برکتوں کا زندہ نشان

فرمایا کہ ’’اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ اکیلی عقل کو ماننے والے جیسے علم اور معرفت اور یقین میں ناقص ہیں ویسا ہی عمل اور وفاداری اور صدق ِقدم میں بھی ناقص اور قاصر ہیں۔اور ان کی جماعت نے کوئی ایسا نمونہ قائم نہیں کیا جس سے یہ ثبوت مل سکے کہ وہ بھی ان کروڑہا مقدس لوگوں کی طرح خدا کے وفادار اور مقبول بندےہیں…منکرین پر ہماری یہ حجّت بھی تمام ہے کہ قرآن شریف جیسے مراتب علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہونچاتا ہےویسا ہی مراتب عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثارو انوار قبولیت حضرت احدیت انہیں لوگوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیں جنہوں نے اس پا ک کلام کی متابعت اختیار کی ہے۔ دوسروں میں ہر گز ظاہر نہیں ہوتے۔ پس طالب حق کے لئے یہی دلیل جس کو وہ بچشم خود معائنہ کر سکتا ہےکافی ہے۔یعنی یہ کہ آسمانی برکتیں اور ربّانی نشان صرف قرآن شریف کے کامل تابعین میں پائے جاتے ہیں اور دوسرے تمام فرقے کہ جو حقیقی اور پاک الہام سے روگردان ہیں کیا برہمو اور کیا آریا اور کیا عیسائی، وہ اس نور صداقت سے بے نصیب اور بے بہرہ ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۳۵۰تا۳۵۲، حاشیہ نمبر ۱۱)

تمام انسانی طاقتوں (قول و فعل)میں اعتدال کی تعلیم

’’یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہایت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہریک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معیّنہ مشخصّہ پر قائم کیااور ادبِ انسانیت اور پاک روشنی کا طریقہ سکھلایا۔وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضاء کی محافظت کے لئے بکمال تاکید فرمایا:قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗالجزو نمبر ۱۸(النور:۳۱) یعنے مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہریک نادیدنی اور ناشنیدنی ناکردنی سے پرہیز کریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہو گا۔ یعنے ان کے دل طرح طرح کے جذبات نفسانیہ سے محفوظ رہیں گے۔کیونکہ اکثر نفسانی جذبات کو حرکت دینے والےاور قویٰ بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والےیہی اعضاء ہیں۔ …اسی طرح زبان کو صدق و صواب پرقائم رکھنے کے لئے تاکید فرمائی اور کہا: قُولُوا قَوْلاً سَدِیْداً الجزو نمبر ۲۲(الاحزاب:۷۱)یعنی وہ بات منہ پر لاؤ جوبالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو۔اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرمُو دخل نہ ہو۔اور پھر جمیع اعضاء کی وضع استقامت پر چلانے کے لئے ایک ایسا کلمہ جامعہ اور پر تہدیدبطور تنبیہ و انذار فرمایا جو غافلوں کو متنبہ کرنے کے لئے کافی ہے۔اور کہا۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًاالجزو نمبر ۱۵(بنی اسرائیل:۳۷)یعنے کان اور آنکھ اور دل ایسا ہی تمام اعضاء اور قوتیں جو انسان میں موجود ہیں۔ ان سب کے غیر محل استعمال کرنے سے باز پرس ہوگی۔ اور ہریک کمی بیشی اور افراط اور تفریط کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔اب دیکھو اعضاء اور تمام قوّتوں کو مجری خیر اور صلاحیت پر چلانے کے لئے کس قدر تصریحات و تاکیدات خدا کے کلام میں موجود ہیں۔ اور کیسے ہریک عضو کو مرکز اعتدال اور خط استواپر قائم رکھنے کے لئےبکمال وضاحت بیان فرمایا گیا ہے جس میں کسی نوع کا ابہام و اجمال باقی نہیں رہا۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۲۰۹تا۲۱۰، حاشیہ نمبر ۱۱)

ہر طبیعت کے افراد کے لئے فائدہ مند کتاب

’’اس کا اثر عام طور پر تمام لوگوں کے دلوں پر پڑتا ہے اور ہریک طور کی طبیعت اس سے مستفیض ہوتی ہے۔ اور مختلف اقسام کی فطرتیں اس سے نفع اٹھاتی ہیں اور ہر رنگ کے طالب کو اس سے مدد پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بذریعہ کلا م الٰہی بہت لوگ ہدایت یاب ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں اور بذریعہ مجرد عقلی دلائل کے بہت ہی کم بلکہ کالعدم اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ جو شخص بہ حیثیت مخبر صادق لوگوں کی نظر میں ثابت ہو کر واقعات معاد میں اپنا تجربہ اور امتحان اور ملاحظہ اور معائنہ بیان کرتا ہے اور ساتھ ہی دلائل عقلیہ بھی سمجھاتا ہے۔وہ حقیقت میں ایک دوہرا زور اپنے پاس رکھتا ہے۔ کیونکہ ایک تو اس کی نسبت یہ یقین کیا گیا ہے کہ وہ واقعہ نفس الامر کا معائنہ کرنے والا اور سچائی کو بچشم خود دیکھنے والا ہےاور دوسرے وہ بطور معقول بھی سچائی کی روشنی کو دلائل واضحہ سے ظاہر کرتا ہے۔ پس ان دونوں ثبوتوں کے اشتمال سے ایک زبردست کشش اس کے وعظ اور نصیحت میں ہوجاتی ہے کہ جو بڑے بڑے سنگین دلوں کو کھینچ لاتی ہے اور ہر نوع کے نفس پر کارگر بھی پڑتی ہے۔… اسی جہت سے اس کا اثر عام اور اس کا فائدہ تام ہوتا ہے اور ہر یک ظرف اپنی اپنی وسعت کے مطابق اس سے پر ہو جاتا ہے۔اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں اشارہ فرمایا ہے أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا الجزو نمبر ۱۳(الرعد:۱۸)خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام) اتارا۔ سو اس پانی سے ہریک وادی اپنی قدر کے موافق بہہ نکلی۔ یعنے ہریک کو اس میں سے اپنی طبیعت اور خیال اور لیاقت کے موافق حصّہ ملا۔ طبائع عالیہ اسرار حِکمیہ سے متمتع ہوئیں۔ اور جو ان سے بھی اعلیٰ تھے انہوں نے ایک عجیب روشنی پائی کہ جو حد تحریر و تقریرسے خارج ہےاور جو کم درجے پر تھےانہوں نے مخبر صادق کی عظمت اور کمالیت ذاتی کو دیکھ کر دلی اعتقاد سے اس کی خبروں پر یقین کر لیا اور اس طرح پر وہ بھی یقین کی کشتی میں بیٹھ کر ساحلِ نجات تک جا پہنچے اور صرف وہی لوگ باہر رہ گئے جن کو خدا سے کچھ غرض نہ تھی اور فقط دنیا ہی کے کیڑے تھے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، حاشیہ نمبر ۱۱ صفحہ ۲۱۱-۲۱۲)

اعلیٰ درجہ کا اثر کرنے والا کلام

’’قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی تاثیروں کو بھی دیکھئےکہ کس قوّت سے اس نے وحدانیت الٰہی کو اپنے سچے متبعین کے دلوں میں بھرا ہےاور کس عجیب طور سے اس کی عالیشان تعلیموں نے صدہا سالوں کی عادات راسخہ اور ملکات ردّیہ کا قلع وقمع کر کے اور ایسی رسوم قدیمہ کو جو طبیعت ثانی کی طرح ہو گئی تھیں دلوں کے رگ و ریشہ سے اٹھا کر وحدانیت الٰہی کا شربت عذب کروڑہا لوگوں کو پلا دیا ہے۔وہی ہے جس نے اپنا کار نمایاں اور نہایت عمدہ اور دیر پا نتائج دکھلا کر اپنی بے نظیر تاثیر کی دُو بدُو شہادت سے بڑے بڑے معاندوں سے اپنی لاثانی فضیلتوں کا اقرار کرایا۔یہاں تک کہ سخت بےایمانوں اور سر کشوں کے دلوں پر بھی اس کا اس قدر اثر پڑا کہ جس کو انہوں نے قرآن شریف کی عظمت شان کا ایک ثبوت سمجھا اور بے ایمانی پر اصرار کرتے کرتےآخر اس قدر انہیں بھی کہنا پڑا کہ اِنْ ھٰذَااإلَّا سِحْرٌ مُبِیْنٌ۔جزو نمبر ۲۳ (الصافات:۱۶)ہاں وہی ہے جس کی زبر دست کششوں نے ہزارہا درجہ عادت سے بڑھ کر ایسا خدا کی طرف خیال دلایا کہ لاکھوں خداکے بندوں نے خدا کی وحدانیت پر اپنے خون سے مہریں لگا دیں۔ ‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ ۲۱۳-۲۱۴، حاشیہ نمبر ۱۱)

تمام صداقتوں کی جامع کتاب

’’قرآن شریف کھلا کھلا دعویٰ کر رہا ہےمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ الجزو نمبر ۷(الانعام:۳۹) یعنی کوئی صداقت علم الٰہی کے متعلق جو انسان کے لئے ضروری ہے اس کتاب سے باہر نہیں۔اور پھر فرمایا : يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً۔ فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ الجزو نمبر۳۰ (البینہ:۴،۳) یعنے خدا کا رسول پاک صحیفے پڑھتا ہےجن میں تمام کامل صداقتیں اور علوم اوّلین و آخرین درج ہیں۔اور پھر فرمایا : كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ۔الجزو نمبر ۱۱(ھود:۲) یعنی اس کتاب میں دو خوبیاں ہیں۔ایک تو یہ کہ حکیم مطلق نے محکم اور مدلل طور پر یعنے علوم حکمیہ کی طرح اس کو بیان کیا ہے۔ بطور کتھا یا قصّہ نہیں دوسری یہ خوبی کہ اس میں تمام ضروریات علم معاد کی تفصیل کی گئی ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ۲۲۳-۲۲۴، حاشیہ نمبر ۱۱)

’’پھر اسی کی طرف دوسری آیت میں بھی اشارہ فرمایا: هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ الجزو نمبر۲ (البقرہ : ۱۸۶) یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں۔اوّل یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا۔ ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا۔ان میں قول فیصل بیان کر کےحق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہےاور پھر اسی جامعیت کے بارے میں فرمایا۔ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا الجزو نمبر۱۵(بنی اسرائیل:۱۳)یعنے اس کتاب میں ہریک علم دین کو بہ تفصیل تمام کھول دیا ہے…پھر فرمایا۔ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ الجزو نمبر۱۳(یوسف:۱۱۳)یعنےقرآن ایسی کتاب نہیں کہ انسان اس کو بنا سکے بلکہ اس کے آثار صدق ظاہر ہیں کیونکہ وہ پہلی کتابوں کو سچا کرتا ہے۔ یعنے کتب سابقہ انبیاء میں جو اس کے بارے میں پیشین گوئیوں موجود تھیں وہ اس کے ظہور سے بہ پایہ صداقت پہنچ گئیں‘‘۔(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ۲۲۵-۲۲۶، حاشیہ نمبر ۱۱)

تمام اختلافات کی قاضی کتاب

’’فرمایا۔إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:۱۴-۱۵)یعنے علم معاد میں جس قدر تنازعات اٹھیں سب کا فیصلہ یہ کتاب کرتی ہے۔بے سود اور بیکار نہیںہے۔ اور پھر فرمایا۔ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ۔الجزو نمبر۱۴(النحل:۶۵)یعنے ہم نے اس لئے کتاب کو نازل کیا ہے تا جو اختلافات عقول ناقصہ کے باعث سےپیدا ہو گئے ہیںیاکسی عمداً افراط و تفریط کرنے سے ظہور میں آئے ہیں، ان سب کو دور کیا جائے۔اور ایمانداروں کے لئے سیدھا راستہ بتلایا جاوے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ۲۲۴، حاشیہ نمبر ۱۱)

قرآن شریف ایک کتابِ کامل

آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي(المائدہ:۴)کے حوالے سے فرمایا: ’’یعنے آج میں نے اس کتاب کے نازل کرنے سے علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچا دیا اور اپنی تمام نعمتیں ایمانداروں پر پوری کر دیں۔اے حضرات !…اگر آپ لوگ کوئی بھاری صداقت لئے بیٹھے ہیں جس کی نسبت تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے کمال جانفشانی اور عرق ریزی اور موشگافی سے اس کو پیدا کیا ہے اور جو تمہارے گمان باطل میں قرآن شریف اس صداقت کے بیان کرنے سے قاصر ہے تو تمہیں قسم ہے کہ سب کاروبار چھوڑ کر وہ صداقت ہمارے روبرو پیش کرو۔ تا ہم تم کو قرآن شریف میں سے نکال کر دکھلا دیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، صفحہ۲۲۷، حاشیہ نمبر ۱۱)

ظلمت کی انتہا میں اعلیٰ درجہ کا نورِ فرقان

’’کتب آسمانی کے نزول کا اصلی موجب ضرورتِ حقہ ہے۔یعنی وہ ظلمت اور تاریکی کہ جو دنیا پر طاری ہو کر ایک آسمانی نور کو چاہتی ہےکہ تا وہ نور نازل ہو کر اس تاریکی کو دور کرے اور اِسی کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ …إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔ (القدر:۲)یہ لیلۃ القدر اگرچہ اپنے مشہور معنوں کے رو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلۃ القدر کا ہی حکم رکھتی ہےاوراس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑاقدر رکھتا ہے اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان نور کے نزول کو چاہتی تھی …سو وہ ظلمانی حالت دنیا کے لئے مبارک ہو گئی اور دنیا نے اس سے ایک عظیم الشان رحمت کا حصّہ پایا کہ ایک کامل انسان اور سیّد الرسل کہ جس سا کوئی پیدا ہوا اور نہ ہوگا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی۔ پس یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت او رتاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، حاشیہ نمبر ۱۱ صفحہ ۴۱۸-۴۱۹) ’’یہ ظلمت کا زمانہ ہے۔جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلۃ القدر کہلاتی ہےاور وہ لیلۃ القدر ہمیشہ آتی ہے۔مگر کامل طور پراس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت ﷺکے ظہور کا دن آ پہنچا تھا کیونکہ اس وقت تمام دنیا پر ایسی کامل گمراہی کی تاریکی پھیل چکی تھی جس کی مانند کبھی نہیں پھیلی تھی اور نہ آئندہ کبھی پھیلے گی جب تک قیامت نہ آوے۔غرض جب یہ ظلمت اپنے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جاتی ہےکہ جو اس کے لئے مقدر ہےتو عنایت الٰہیہ تنویر عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہےاور کوئی صاحب ِنُور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے…آنحضرت ﷺ کے ظہور کےوقت ایک ایسی ظلمانی حالت پر زمانہ آچکا تھاکہ جو آفتابِ صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے۔ اسی جہت سے خدائےتعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنے رسول کا بار بار یہی کام بیان کیاہےکہ اس نے اس زمانہ کو سخت ظلمت میں پایا اور پھر ظلمت سے ان کو باہر نکالا جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّور۔الجزو نمبر ۱۳(سورۃ ابراہیم:۲)۔اللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوراِلجزو نمبر۳(البقرہ:۲۵۸)۔ هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّور۔الجزو نمبر ۲۲۔(الاحزاب:۴۴) قَدْ جَآءَكُمْ مِنَ اللّٰهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِيْنٌ۔يَهْدِي بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيْهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيْمٍ۔الجزو نمبر۶(سورۂ مائدہ ۱۶-۱۷)۔ قَدْ أَنْزَلَ اللّٰهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًارَسُوْلًا يَتْلُوْ عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللّٰهِ مُبَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚالجزو نمبر ۲۸(الطلاق:۱۱-۱۲) یعنی یہ ہماری کتاب ہے جس کو ہم نے تیرے پر اس غرض سے نازل کیاہے کہ تا تو لوگوں کو کہ جو ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں نور کی طرف نکالے۔سو خدا نے اس زمانہ کا نام ظلمانی زمانہ رکھا اور پھر فرمایا کہ خدا مومنوں کا کارساز ہےان کو ظلمات سے نور کی طرف نکال رہا ہے اور پھر فرمایا کہ خدا اور اس کے فرشتے مومنوں پر درود بھیجتے ہیں تا خدا ان کو ظلمت سے نور کی طرف نکالے۔ اور پھر فرمایا کہ ظلمانی زمانہ کے تدارک کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے۔وہ نور اس کا رسول اور اس کی کتاب ہے۔ خدا اس نور سے ان لوگوں کو راہ دکھلاتا ہے کہ جو اس کی خوشنودی کے خواہاں ہیں، سو ان کو خدا ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱، صفحہ ۶۴۵تا۶۴۹)

کلام اللہ کا لاریب ہونا ضروری ہے

’’خدا کا کلام جو خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے وہ امراللہ ہے جو ایک وہبی اور لدنی امر ہے۔ خدا کے کلام کے لئے یہ شرط ضروری ہے کہ جیسے خدا اپنی ذات میں سہو اور خطا اور کذب اور فضول اور ہریک نقصان اور نالائق امر سے منزّہ ہے۔ایسا ہی اس کا کلام بھی ہریک سہو اور خطا اور کذب اور فضول اور ہر طرح کے نقصان اور نالائق حالت سےمنزّہ اور پاک چاہئے۔کیونکہ جو کلام پاک اور کامل چشمہ سے نکلا ہے۔ اس پر ہرگز یہ بات جائز نہیں کہ کہ کسی نوع کی اس میں ناپاکی یا نقصان پایا جاوے اور ضرور ہے کہ وہ کلام ان تمام کمالات سے متصف ہو کہ جو خدائے قادر و کامل و قدوس و عالم الغیب کے کلام میں ہونی چاہئے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، حاشیہ نمبر۱۱ صفحہ ۳۸۳)

’’وہ الہام جو حقیقت میں خدا کا کلام اور اس کا آواز اور اس کی وحی ہے، وہ انسان کے فطرتی خیالات سے بر تر و اعلیٰ ہے۔وہ حضرت خدا تعالیٰ کی طرف سےاور اس کے ارادہ سے کاملوں کے دلوں پر نازل ہوتا اور خدا کا کلام ہونے کی وجہ سے خدا کی برکتوں کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے۔خدا کی قدرتوں کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے۔ خدا کی پاک سچائیوں کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے۔لَارَیْبَ فِیْہِ ہونا اس میں ایک ذاتی خاصیّت ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱، حاشیہ نمبر۱۱، صفحہ ۳۸۵)

کیاقرآن کریم کو افضل قرار دینے کا مطلب دوسری کتب الہامیہ کو ادنیٰ قرار دینا ہے۔ حالانکہ وہ بھی کلام الٰہی ہے؟

حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’بے شک باعتبار نفس الہام کے سب کتابیں مساوی ہیں مگر باعتبار زیادتِ بیان اور امور مکملات دین کے بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ …کیونکہ جس قدر قرآن شریف میں امور تکمیل دین کے جیسے مسائل توحید اور ممانعت انواع واقسام شرک اور معالجات امراض روحانی اور دلائل ابطال مذاہب باطلہ اور براہین اثبات عقائد حقہ وغیرہ بکمال شدّومدّ بیان فرمائے گئے ہیں وہ دوسری کتابوں میں درج نہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول، حاشیہ صفحہ ۷۴)

خدا نے حقائق ومعارف سب کتب میں برابر کیوں نہ رکھے۔قرآن کو جامع کمالات کیوں بنایا؟

حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ایسا شبہ بھی صرف اس شخص کے دل میں گذرے گا کہ جو وحی کی حقیقت کو نہیں جانتا … واضح رہے کہ اصل حقیقت وحی کی یہ ہے جو نزول وحی کا بغیر کسی موجب کے جو مستدعی نزول وحی ہو ہر گز نہیں ہوتا۔بلکہ ضرورت کے پیش آجانے کے بعد ہوتا ہے۔ اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی ہیں بمطابق ان کے وحی بھی نازل ہوتی ہے…یونہی بلاموجب وحی کا نازل ہوجانا ایک بے فائدہ کام ہے جو خداوند تعالیٰ کی طرف جو حکیم مطلق ہے اور ہر ایک کام برعایت حکمت اور مصلحت اور مقتضاء وقت کے کرتا ہے منسوب نہیں ہو سکتا۔پس سمجھنا چاہئے کہ جو قرآن شریف میں تعلیم حقانی کامل اور مفصل طور پر بیان کی گئی اور دوسری کتابوں میں بیان نہ ہوئی یا جوجو امور تکمیل دین کے اس میں لکھے گئے اور دوسری کتابوں میں نہ لکھے گئے تو اس کا یہی باعث ہے کہ پہلی کتابوں کو وہ تمام وجوہ محرک وحی کے پیش نہ آئے اور قرآن شریف کوپیش آگئے۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول، حاشیہ نمبر۲ صفحہ ۷۵)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button