حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں سورۃ الجمعۃ کی ابتدائی آیات کی تفسیر اور موعود مسيح کےزمانے کی نشانياں: خلاصہ خطبہ جمعہ
٭… اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخري گروہ کو منھم کے لفظ سے پکارا تاکہ يہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات ميں يہ بھي صحابہ کے رنگ ميں ہيں
٭…جيسے يہ جماعت صحابہ سے مشابہ ہے ويسے ہي وہ شخص جو اس جماعت کا امام ہے وہ آنحضرتﷺ سے مشابہت رکھتا ہے
٭… لوگ کوشش کريں گے کہ اس سلسلے کو مٹاديں ہرايک مکر کام ميں لائيں گے مگر خدا تعاليٰ اس سلسلے کي تائيد ہميشہ فرمائے گا
٭…دنیائے احمدیت،پاکستان،برکینافاسو اور بنگلہ دیش کے احمدیوں نیز دنیا کے تباہی سے بچنے کےلیے دعا کی تحریک
٭…الفضل انٹرنیشنل کے روزنامہ ہونے پر اسے پڑھنے اور خریدنے کی تحریک نیز لکھنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۴؍مارچ ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوری دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئی۔
تشہد،تعوذ،سورة الفاتحہ اور سورة الجمعہ کی آیات ۳تا۴کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ ’’وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سےایک عظیم رسول مبعوث کیاوہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اورانہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور ان ہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے اور وہ کامل غلبےوالا اور صاحبِ حکمت ہے۔‘‘
۲۳؍مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں یومِ مسیح موعود کےنام سے جانا جاتا ہے۔ کل ۲۳؍مارچ تھی۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے اور رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق زمانےکے امام مسیح موعود و مہدی معہودؑ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔
۲۳؍مارچ۱۸۸۹ءکو آپؑ نے لدھیانے میں بیعت لےکر مخلصین کی جماعت قائم فرمائی۔ سورة الجمعہ کی جن آیات کی مَیں نے تلاوت کی ہے ان میں آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کے آنے اور اس کے ذریعے ایک جماعت کے قیام کی خوش خبری دی گئی ہے۔اس کے علاوہ بھی دیگر آیات اور احادیث میں یہ خوش خبری موجود ہے۔ اس وقت مَیں ان آیات کی وضاحت اورآنے والے مسیح موعود کےزمانے کی مختلف نشانیاں جو بیان ہوئی ہیں ان کی تفصیل حضرت مسیح موعودؑ کےالفاظ میں بیان کروں گا۔ اسی طرح آپؑ کا دعویٰ کیا تھا وہ بھی مختصر طور پر آپؑ کے الفاظ میں پیش کروں گا۔
ان آیات کی تفسیر میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خداوہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بےبہرہ ہوچکے تھے۔ عُلومِ حکمیہ دینیہ جن سےتکمیلِ نفس ہو اور نفوسِ انسانی اپنے کمال کو پہنچے بالکل گم ہوگئے تھے۔ تب ایسے وقت میں خداتعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیااور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقینِ کامل تک ان کو پہنچایا۔ پھر فرمایا: ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگاوہ بھی اول تاریکی و گمراہی میں ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا۔ یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہوجائے گا۔حدیثِ صحیح میں ہےکہ آنحضرتﷺنےاس حدیث کے وقت سلمان فارسیؓ کےکندھے پرہاتھ رکھا اور فرمایا لو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ رجل من فارس اس زمانے کی نسبت فرمایاگیاہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے۔
فرمایا:اس آیت کےمعنی یہ ہیں کہ کمال ضلالت کےبعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرتﷺ کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے دو ہی گروہ ہیں اول صحابہ اور دوسرا گروہ جو مانند صحابہ ہیں وہ مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی آنحضرتﷺ کے معجزات کو دیکھنے والا ہے۔ آج کل ایسا ہی ہوا ہے۔چنانچہ تیرہ سو برس بعد آنحضرتﷺ کے معجزات کا دروازہ کھل گیا ہے اورلوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ خسوف و کسوف رمضان میں موافق حدیث دارقطنی اور فتاویٰ ابنِ حجر کے ظہور میں آگیا۔ پھر ذو السنین ستارہ بھی جس کا نکلنا مہدی اور مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا ہزاروں لوگوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا۔ ایسا ہی جاوا کی آگ بھی ہزاروں لوگوں نے مشاہدہ کی۔ ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور حج سےروکے جانا بھی سب نے بچشم خود مشاہدہ کرلیا۔ملک میں ریل کا تیار ہونا اور اونٹوں کا بےکار ہونا یہ سب آنحضرتﷺ کے معجزات تھے جو اس زمانے میں اسی طرح دیکھے گئے جیسے صحابہ نےمعجزات کو دیکھا تھا ۔ اسی وجہ سے اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو منھم کے لفظ سے پکارا تاکہ یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں یہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہیں۔سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاجِ نبوت کا کس نے پایا ہے۔
ہماری جماعت کو کئی وجوہ سے صحابہ کی جماعت سے مشابہت ہے۔ وہ خدا کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اوریقین پاتے ہیں جیسے صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کی لعن طعن، ہنسی، ٹھٹھے اور بدزبانی اور قطع رحم کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے نشانوں اور آسمانی مدد سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسے صحابہ نےحاصل کی۔بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے ہیں اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ روتے تھے۔ بہتیرے ان میں سے وحی و الہام سے مشرف ہوتے ہیں جیسے صحابہ ہوتے تھے۔
جیسے یہ جماعت صحابہ سے مشابہ ہے ویسے ہی وہ شخص جو اس جماعت کا امام ہے وہ آنحضرتﷺ سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ خود آنحضرتﷺ نے مہدی معہود کی یہ صفت بیان فرمائی کہ وہ آپؐ سے مشابہ ہوگا۔ دو مشابہت اس کے وجود میں ہوں گی ایک مشابہت حضرت مسیحؑ کے وجود سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرتﷺ سےجس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا۔
اپنے دعویٰ کی نسبت آپؑ فرماتے ہیں کہ جب خداتعالیٰ نے زمانے کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمانےکو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گناہ سے بھرا ہوا دیکھ کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔ اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کرکےچودھویں صدی کے سر پرپہنچ گئے تھے۔ تب مَیں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو تجدیدِ دین کےلیے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اسے دوبارہ قائم کروں۔
اس پر کیا دلیل ہے کہ آنے والے مسیح موعود آپؑ ہی ہیں اس حوالے سےآپؑ فرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے اور جس ملک اور جس قصبے میں مسیح موعود کا ظاہرہونا قرآن شریف اور احادیث سےثابت ہوتا ہے اور جن افعالِ خاصّہ کو مسیح کے وجود کی علّتِ غائی ٹھہرایا گیا ہے اور جن حوادثِ ارضی و سماوی کو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی علامات ٹھہرایاگیا ہے اور جن عُلوم و معارف کو مسیح موعود کا خاصّہ ٹھہرایا گیاہے وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانے میں اور میرے ملک میں جمع کردی ہیں۔
سلسلہ کی ترقیات کےمتعلق آپؑ فرماتے ہیں کہ آج سے تئیس برس پہلے براہینِ احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کو مٹادیں۔ ہرایک مکر کام میں لائیں گے مگر خدا تعالیٰ اس سلسلے کی تائید ہمیشہ فرمائے گا۔ حضورِانور نے فرمایا آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کواللہ تعالیٰ نے براہینِ احمدیہ میں فرمایا تھا کہ فصاحت و بلاغت کے چشمے تیرے لبوں پر جاری کیے گئے۔ اس نشان کا ثبوت حضورؑ کی کتابیں ہیں۔ کئی کتابیں عربی بلیغ میں تالیف کرکے ہزارہا روپے کے انعام کے ساتھ شائع کی گئیں لیکن کوئی مقابلے کےلیےنہ آیا۔
دعا کی قبولیت کے نشانات کے حوالے سے حضورِانور نے طالبِ علم عبدالکریم ولد عبدالرحمٰن ساکن حیدرآباد دکن کی مثال پیش فرمائی کہ جو قادیان میں حصولِ تعلیم کے لیے آئے تھے اور انہیں سگِ دیوانہ نے کاٹ لیا تھا۔ ہرممکن علاج کی کوشش کے بعد جب معالجین نے مایوسی کا اظہار کردیا تو ایسے میں آپؑ نے خداتعالیٰ سے نہایت درد کے ساتھ دعا کی اور اس موقعے پر قبولیتِ دعا کی خاص کیفیت بھی میسر آگئی چنانچہ کچھ ہی دیر میں اس طالبِ علم کی طبیعت سنبھلنا شروع ہوگئی اور چند دن کے اندر وہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔
حضورِانور نے ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی، غلام دستگیر قصوری اور چراغ دین جمونی کی مثالیں بھی پیش فرمائیں۔
حضورانور نے فرمایا آج مسلمان اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ جو مسیح و مہدی آنے والا تھا وہ آگیااور آنحضرتﷺ کا حقیقی غلامِ صادق یہی ہے اور اس کی بیعت میں آنا آنحضورﷺ کے حکم کےموجب ضروری ہے تو مسلمان دنیا میں اپنی برتری دوبارہ قائم کرلیں گے ورنہ ان کا یہی حال رہنا ہے جو ہے۔
خطبے کے آخر میں حضور انور نے دنیائے احمدیت، پاکستان، برکینا فاسو اور بنگلہ دیش کے احمدیوں نیز دنیا کے تباہی سے بچنے کے لیے دعا کی تحریک فرمائی نیز الفضل انٹرنیشنل کے روزنامہ ہونے پر اسے پڑھنے اور خریدنے کی تحریک اور الفضل میں لکھنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔
تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہوں:
https://www.alfazl.com/2023/03/24/66649/
https://www.alfazl.com/2023/03/24/66655/
٭…٭…٭