بنیادی مسائل کے جوابات (قسط51)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
٭…اللہ تعالیٰ کی ذات کو کس نے بنایا؟
٭…ہم جنس پرستی کو کیسے غلط ثابت کیا جائے؟
٭…کیا مکروہ اوقات میں نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے اور کیا ایک مسجد میں دو جمعے ہو سکتے ہیں؟
٭… نماز میں جہراً بسم اللہ پڑھنے کے بارے میں راہنمائی۔
سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ غیر مسلموں کے سامنے ہم جنس پرستی کو کیسے غلط ثابت کیا جائے۔ نیز یہ کہ خداتعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ہم کہتے ہیں کہ کائنات کا بنانے والا کوئی تو ہو گا کیونکہ کوئی چیز خود سے نہیں بن سکتی۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو کس نے بنایا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 24؍ دسمبر 2021ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی لیے فرمایا رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔(آل عمران:192) یعنی اے ہمارے رب ! تو نے کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
پس شادی کے بعد مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کا بھی ایک مقصد ہے، جو عفت و پاکدامنی، حفظان صحت،بقائے نسل انسانی اور حصول مودت و سکینت ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں جسمانی اعضاء بھی ایک خاص مقصد کے لیے عطا فرمائے ہیں۔ کھانا کھانے کے لیے منہ بنایا ہے اب اگر کوئی اس منہ کے ذریعہ گند بلا اور ریت مٹی کھانے لگ جائے تو اسے عقلمند تو نہیں کہا جا سکتا۔
ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ہوائی جہاز وغیرہ اڑانے کے لیے ایوی ایشن کے اصول و ضوابط بنے ہوئے ہیں اور گاڑی چلانے کے لیے ٹریفک کے قوانین موجود ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص سوچے سمجھے بغیر اور کسی قانون کی پابندی کیے بغیر جہاز اڑانے کی کوشش کرےیا اسے سڑکوں پر دوڑانا شروع کر دے۔ اسی طرح کوئی ٹریفک کے قوانین کی پابندی کیے بغیر گاڑی سڑک پر لے آئے۔ پھر دنیا کے سب ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں آنے جانے کے لیےImmigration کے قوانین بنائے ہوئے ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص ان قوانین کی پابندی کیے بغیر کسی بھی ملک میں داخل ہو جائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنایا ہے۔ اگر انسان ان قوانین کو توڑے گا تو وہ یقیناً خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گا۔
ہم جنس پرستی چونکہ قانون قدرت کی خلاف ورزی ہے، اس لیے پھر اس کے نتیجہ میں برائیاں اور بیماریاں پھیلتی ہیں اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ ہم جنس پرست لوگ ایڈز وغیرہ کی بیماری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جانور بھی اپنی بقائے نسل کے لیے اپنے جوڑے کے ساتھ ہی جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں۔ اس کے مقابل پر انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کہہ کر ساری دنیا کی مخلوق پر ایک فضیلت عطا فرمائی ہے اگر وہ کسی ایسے طریق پر اپنے جنسی جذبات کا اظہار کرے جس کا کوئی مقصد نہ ہو اور جو فعل اس کی بقائے نسل کا بھی موجب نہ ہو تو پھر وہ اشرف المخلوقات تو کیاایک عام انسان بلکہ جانوروں سے بھی نچلے درجہ پر چلا جاتا ہے۔
انسان اگر عقل سے کام لے تو اسے سمجھ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے جنسی اعضاء بھی خاص مقصد کے لیے بنائے ہیں۔لیکن ہم جنس پرستی کے شکار لوگ صرف شہوت کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر ایک طرف وہ اس برائی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بھی ہو، جس کے لیے پھر وہ دوسروں کے بچوں کو Adoptکرتے ہیں۔
اصل میں تو یہ سب دجالی چالیں ہیں جن کے ذریعہ دجال انسان کو اس کی پیدائش کے اصل مقصد سے دور ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ ان شیطانی کاموں سے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت انسان کو خدا اور مذہب سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طریقہ سے انسان کا خدا تعالیٰ پر اعتماد ختم ہو جائے۔ہم جنس پرستی نہ کوئی جسمانی بیماری ہے اور نہ ہی یہ پیدائشی طور پر کسی انسان میں ودیعت کی گئی ہے۔ اس برائی کے شکار لوگوں میں سے اکثر کو بچپن میں غلط قسم کی فلمیں وغیرہ دیکھ کر یہ گندی عادت پڑ جاتی ہے اور کچھ معاشرہ بھی انہیں خراب کر رہا ہوتا ہے۔اسی طرح جب سکولوں میں ایسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں تو اس سے بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ frustrationپیدا ہوتی ہے اور بعض بچے اور نوجوان اس برائی میں پڑ جاتے ہیں۔
ہم ایسے لوگوں کو بُرا نہیں سمجھتے لیکن یہ فعل جس کو اللہ تعالیٰ نے بُرا کہا ہے وہ بہرحال بُرا ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو سزابھی دی۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے کئی ہزار سال پہلے ایک قوم کو اس برائی کی وجہ سے سزا دی ہو لیکن آجکل لوگ وہی برائی کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو سزا نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مختلف طریقے ہیں۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس معاملہ میں سزا بھی دی تھی۔ اب بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فیصلہ کرے گا کہ ایسے لوگوں کا کیا کرنا ہے۔ لیکن ہماری ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کوان بُرے کاموں میں پڑنے سے بچائیں کیونکہ ہم مذہبی لحاظ سے اس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کو کسی نہ کسی ذات یا ہستی نے بنایا ہے اور سائنس بھی اس بات کو مانتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز خود بخود نہیں ہے۔ اس اصول کو دیکھ لیا جائے تو بات سمجھ آ جائے گی۔ پس اس طرح اوپر چلتے چلتےکہ اس کو کس نے بنایا اور اس کو کس نے بنایا جہاں جا کر بات رُکے گی وہی خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ سائنس اسے نیچر کہتی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق اس ہستی کو خدا تعالیٰ کی ذات مانتے ہیں۔
باقی خدا تعالیٰ کی لا محدود ہستی انسانی محدود علم سے بہت بالا اور برتر ہےاس کے متعلق ہمارا ایمان وہی ہے جو قرآن کریم نے ہمیں عطا فرمایا ہے کہ قُلۡ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمۡ یَلِدۡ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ۔ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔(سورۃ الاخلاص)یعنی تو کہہ دے کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے۔ اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں( اور وہ کسی کا محتاج نہیں)۔نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے۔اور اس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ سب اس کے حاجت مند ہیں۔ ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے۔ وہ کل چیزوں کے لیے مبدا ءفیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں۔ وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 417)حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے۔ نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی ازلی اور ابدی یعنی انادی اور اکال ہے نہ کسی چیز کی صفات اس کی صفات کی مانند ہیں۔ انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں ا ور باایں ہمہ غیر محدود ہے۔ انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں۔ اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے۔ ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہےلیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں۔ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 155،154)
سوال: نارووال پاکستان سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا نماز جنازہ نماز ہے یا اسے ایسے ہی نماز کا نام دےدیا گیا ہے کیونکہ اس کے لیے مکروہ اوقات کا خیال نہیں رکھا جاتا؟ نیز کیا ایک مسجد میں دو جمعے ہو سکتے ہیں؟ ربوہ میں ڈیوٹی والے اسی مسجد میں علیحدہ خطبہ دے کر الگ جمعہ پڑھتے ہیں، جبکہ فقہ احمدیہ میں اس کی نفی کی گئی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 07؍جنوری 2022ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: نماز جنازہ بھی ایک طرح کی نماز ہی ہے لیکن چونکہ اس میں نماز جنازہ ادا کرنے والوں کے سامنے مرنے والے کی نعش موجود ہوتی ہے اس لیے اس میں رکوع و سجود نہیں رکھے گئے تاکہ کسی بھی قسم کے شرک کا احتمال پیدا نہ ہو۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں جہاں مختلف نمازوں کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، وہاں نماز جنازہ کی بھی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : ان نمازوں کے علاوہ ایک ضروری نماز جنازہ کی نماز ہے۔ یہ فرض کفایہ ہے…جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کیے جاتے ہیں… اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں۔ امام قبلہ رو کھڑا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے۔ اس نماز سے پہلے اقامت نہیں کہی جاتی۔(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 115)
نماز جنازہ کے لیے کوئی مکروہ اوقات نہیں ہیں۔ فقہاء میں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد جس طرح نفلی نماز ادا کرنے کی ممانعت ہے، نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے ایسی کوئی ممانعت نہیں۔ البتہ جب سورج طلوع ہو رہا ہویا سورج عین سر پر ہو یا سورج غروب ہو رہا ہو تو ان تین اوقات میں حنفی، مالکی، اورحنبلی فقہاء کے نزدیک بغیر کسی مجبوری یا عذر کے نماز جنازہ ادا کرنا پسندیدہ نہیں۔ جبکہ شافعیہ کے نزدیک کسی وقت میں بھی نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
باقی جہاں تک ایک مسجد میں دو جمعوں کی ادائیگی کا سوال ہے تو اگر مجبوری ہو تو جس طرح نماز باجماعت دوبارہ ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث نبویہ ﷺ سے ثابت ہے۔(سنن ترمذی کتاب الصلوٰۃ بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ قَدْ صُلِّيَ فِيهِ مَرَّةً) اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی حسب ضرورت دوسری جماعت کو جائز قرار دیا ہے۔ (اخبار بدر قادیان جلد6، نمبر1، مورخہ 10؍ جنوری 1907ء صفحہ 18) اسی طرح جمعہ بھی دوبارہ ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
البتہ اس کے لیے یہ احتیاط کر لینی چاہیے کہ جس جگہ پہلے نماز جمعہ ادا کی گئی ہو وہاں دوبارہ جمعہ نہ پڑھا جائے بلکہ مسجد کے کسی اور حصہ میں ڈیوٹی والے خدام اپنے نئے خطبہ کے ساتھ الگ جمعہ پڑھ لیں۔ چنانچہ اس کی مثال حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں ہمیں ملتی ہے۔ الفضل قادیان میں مدینۃ المسیح کے عنوان کے نیچے لکھا ہے: جمعہ کے دن زن و مرد مسجد اقصیٰ میں چلے جاتے۔ جس سے بعض شریروں کو شرارت کرنے کا موقعہ مل گیا اور ایک دو صاحبوں کا مالی نقصان ہو گیا۔ اس لیے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی تجویز کو حضرت مولوی صاحب(خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ناقل)نے منظور فرما لیا۔ وہ یہ کہ تا حصول اطمینان طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ۱۲ بجے سے بعد نماز جمعہ ہو جانے تک پہرہ دے اور پھر یہ فدائی مسجد مبارک میں جمعہ پڑھ لیں۔ چنانچہ اس جمعہ اس تجویز کے مطابق لاہور کے مخلص و پرجوش نوجوان بابو وزیر محمدؐ صاحب اور چند افغانستانی احباب اور منشی اکبر شاہ خان صاحب نے اپنے بیس تیس لڑکوں کے ساتھ پہرہ دیا اور جب لوگ مسجد اقصیٰ سے واپس پھرے تو حسب ارشاد امیرؓ(المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ناقل) خان صاحب نے جمعہ پڑھایا۔ (الفضل قادیان دارالامان جلد 1، نمبر 4، مورخہ 9؍جولائی 1913ء صفحہ 1)
پس ایک جمعہ ہونے کے بعد دوسرا جمعہ بھی ہو سکتا ہے لیکن جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ سے ثابت ہے کہ ایسا صرف حسبِ ضرورت اور مجبوری ہو سکتا ہے۔ نیزاس کے لیے مقامی انتظامیہ کی اجازت بھی ضروری ہے اور تیسری بات یہ کہ جس مسجد میں جمعہ ہو چکا ہو وہاں دوبارہ جمعہ نہ پڑھا جائے بلکہ کسی اور جگہ پر پڑھا جائے، لیکن اگر دوسری جگہ کا انتظام ممکن نہ ہو تو اسی مسجد میں محراب سے پیچھے صحن میں یا مسجد کی کسی ایک طرف دوسرا جمعہ پڑھ لیا جائے۔
سوال: لندن سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جب بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا حصہ ہے تو ہم نماز میں الحمد للہ سے قراءت کیوں شروع کرتے ہیں، بسم اللہ سے کیوں نہیں شروع کرتے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 07؍جنوری 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: احادیث میں یہ بات بڑی وضاحت سے موجود ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم باقاعدہ ایک آیت ہے اور قرآن کریم کی ہر اس سورت کا حصہ ہے جس کے شروع میں یہ نازل ہوئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں اس مضمون کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
باقی جہاں تک نماز میں سورۃ الفاتحہ یا کسی دوسری سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بات ہے تو نماز کی ہر رکعت میں سورۃالفاتحہ یا کسی بھی دوسری سورت سے پہلے ہم بسم اللہ پڑھتے ہیں۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اسے اونچی آواز سے نہیں پڑھا جاتا بلکہ آہستہ آواز سے پڑھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث کی مستند کتب سے ایسا ہی ثابت ہے کہ حضورﷺ نمازوں میں بسم اللہ کو سورۃ الفاتحہ اور دوسری سورتوں سے پہلے آہستہ آواز میں ہی پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت انس ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جب بھی نماز شروع کرتے تو الحمد للّٰہ رب العالمین سے شروع کرتے۔(بخاری کتاب الاذان باب الاذان مایقول بعد التکبیر)
اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ میں نے کبھی بھی ان سے بلند آواز سے (سورت سے پہلے) بسم اللہ نہیں سنی۔ (سنن نسائی کتاب الافتتاح باب ترک الجہر بسم اللہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ بسم اللہ جہراً نہیں پڑھتے تھے۔خلفائے احمدیت نے بھی اسی طریق کو جاری فرمایا اور بسم اللہ جہراً نہیں پڑھی۔ جماعتی یکجہتی کا تقاضا یہی ہے کہ نماز با جماعت میں امام الصلوٰۃ وہی طریق اختیار کرے جو آنحضرت ﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء سے ثابت ہے۔
ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی نماز میں بسم اللہ جہراً پڑھے تو ہم اسے غلط نہیں سمجھتے کیونکہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے اسے جہراً بھی پڑھا ہے۔اسی لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:بسم اللہ جہراً اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے۔ ہمارے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (اللّٰھم اغفرہ وارحمہ) جوشیلی طبیعت رکھتے تھے۔ بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے۔حضرت مرزا صاحبؑ جہراً نہ پڑھتے تھے۔ ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں۔ صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو۔ ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے۔ بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھاتو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے۔مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے، کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے۔(بدر نمبر32 جلد11، 23؍مئی 1912ء صفحہ 3)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ ایک عمر گزار کر احمدی ہوئے تھے اور احمدیت سے قبل وہ بسم اللہ جہراً ہی پڑھا کرتے تھے اور چونکہ یہ طریق بھی آنحضورﷺ سے ثابت ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں اس سے منع نہیں فرمایا۔ لیکن جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد سے نیز بہت سے اور کبار صحابہ جن میں حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری ؓ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ، حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوریؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ شامل ہیں، ان کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عمل وہی تھا جسے آپ کے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے اکثر اختیار فرمایا۔
پس اب ہمیں اس معاملہ میں بھی یکجہتی قائم رکھنے کے لیے اسی طریق کو اختیار کرنا چاہیے جسے آنحضورﷺ نے کثرت سے اختیار فرمایا، اور جس طریق پر اسلام کی نشاۃ اولیٰ میں قائم ہونے والی خلافت حقہ اسلامیہ کی مسند پر متمکن ہونے والے خلفاء نے نیز اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں تجدید دین کے لیے مبعوث ہونے والےحضورﷺ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت حقہ اسلامیہ کے ہر مظہر نے اپنے اپنے وقت میں عمل کیا۔
اسی یگانگت کو قائم رکھنے کی خاطر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کے اس استفسار پر کہ بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ہے کہ حضورﷺ بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے، اگر حضور جہراً بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں فرماتے تو جہراً پڑھوں ورنہ چھوڑ دوں؟ حضور ؓنے فرمایا:
بخاری اور مسلم میں آیا ہے کہ بالجہر نہیں پڑھی تو کیا پھر یہ دوسری کتابیں بخاری مسلم سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں۔ (فرمودات مصلح موعود دربارہ فقہی مسائل صفحہ 57،56)