روزوں کی اہمیت وفرضیت، فضائل رمضان
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍ستمبر۲۰۰۸ء)
جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے روزے کو اپنی ڈھال بناؤ گے تو خداتعالیٰ خود تمہاری ڈھال بن جائے گا۔ اور نہ صرف بڑے بڑے گناہوں سے بچائے گا بلکہ ہر قسم کے چھوٹے گناہوں سے اور چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے بھی بچائے گا۔ ہر شر سے بھی بچو گے اور نیکیاں کرنے کی توفیق بھی پاؤ گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان تمام شرائط کا بھی پابند رکھو جو روزے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کے بارہ میں یہ حکم ہے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھ، زبان، ہاتھ اور ہر عضو بھی روزہ رکھے۔ یعنی ڈھال فائدہ مند تبھی ہو گی جب اس کا استعمال بھی آتا ہو گا۔ صرف روزہ رکھنا، تقویٰ کے معیار حاصل نہیں کروا دے گا بلکہ اس کے لئے اپنے آپ کی تربیت بھی کرنی ہو گی، اپنے آپ کو ڈھالنا ہو گا، اپنے آپ کو ڈسپلنڈ (Disciplined) کرنا ہو گا، ان شرائط کا پابند کرنا ہو گا جو خداتعالیٰ نے رکھی ہیں۔ جیسا کہ اگلی دو آیات سے بھی ظاہر ہے کہ مریض یا مسافر ہونے کی حالت میں ر وزہ جائز نہیں ہے بلکہ ایسی حالت میں روزہ نہ رکھنے اور دوسرے دنوں میں پورا کرنے کا حکم ہے۔ کیونکہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے میں ہے نہ کہ فاقہ کرنے میں۔ پھر قرآن کریم کا پڑھنا، اس کے احکامات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور بے شمار احکامات ہیں جو قرآن کریم میں درج ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک اوامرونواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے اور کئی سو شاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں۔ پس تقویٰ کا حصول اس ڈھال کے پیچھے آنا ہے جو روزے کی ڈھال ہے اور جو دراصل خداتعالیٰ کی ڈھال ہے اس لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ روزے کی جزا مَیں خود ہوں۔ یہ حدیث قدسی ہے یعنی وہ حدیث جو آنحضرتﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بیان فرمائی ہے۔
پس اس ڈھال کا فائدہ تبھی ہو گا جب روزہ میں نفس کا مکمل محاسبہ کرتے ہوئے کانوں کو بھی لغو اور بری باتوں سے انسان محفوظ رکھے۔ ہر ایسی مجلس سے اپنے آپ کو بچائے جہاں دین کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا ہو رہا ہو، دین کی باتوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ جہاں ایسی مجالس ہوں جن میں دوسروں کی، اپنے بھائیوں کی چغلیاں اور بدخوئیاں ہو رہی ہوں۔ اپنی آنکھ کو ہر ایسی چیز کے دیکھنے سے محفوظ رکھے جس سے خداتعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ مثلاً مَردوں کو غض بصر کا حکم ہے۔ یعنی عورتوں کو نہ دیکھنے کا حکم ہے۔ عورتوں کو مردوں کونہ دیکھنے کا حکم ہے۔ فضول اور لغو فلمیں جو آج کل وقت گزاری کے لئے دیکھی جاتی ہیں ان سے بچنے کا حکم ہے۔ ان دنوں میں یعنی روزے کے دنوں میں رمضان کے مہینے میں یہ عادت پڑے گی تو امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ زندگی میں بھی روزوں سے فیض پانے والے ان چیزوں سے بھی بچتے رہیں گے۔ پھر زبان کا روزہ ہے۔ زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے کسی کو بُرے الفاظ نہ کہو۔ کسی کو دکھ نہ دو۔ تبھی تو دوسری جگہ ایک حدیث میں یہ حکم بھی ہے کہ اگر تمہیں روزے کی حالت میں کوئی برا بھلا کہے یا سخت الفاظ سے مخاطب ہو یا لڑائی کرنے کی کوشش کرے تو اِنِّی صَآئِمٌکہہ کے چپ ہو جاؤ اور جواب نہ دو۔ (بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث 1904)
یعنی مَیں تو روزہ دار ہوں، تم جو بھی کہو، مَیں تو کیونکہ اس تربیتی کورس میں سے گزر رہا ہوں جہاں ہر عضو کا روزہ ہے اور مَیں تمہیں جواب دے کر اپنا روزہ مکروہ نہیں کرنا چاہتا۔
اسی طرح ہاتھ کا روزہ ہے، کوئی غلط کام ہاتھ سے نہ کرو۔ تقویٰ تو یہ ہے کہ کسی دوسرے کے لئے بھی کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے خداتعالیٰ نے منع فرمایا ہو، یا غلط کام ہو، یا اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے غلط کہا ہو۔ اب اگر کوئی سؤر نہ بھی کھاتا ہو لیکن دوسرے کو کھلاتا ہے تو یہ نافرمانی ہے اور غلط کام ہے۔ شراب نہیں بھی پیتا لیکن دوسرے کو پلاتا ہے تو یہ بھی گناہ ہے۔ آنحضرتﷺ نے تو پلانے والے پر بھی لعنت بھیجی ہے۔ پس روزہ ڈھال اُس وقت بنے گا، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والا انسان اس وقت ہو گا، جب ان پابندیوں کو بھی اپنے اوپر لاگو کرے گا جو خداتعالیٰ نے ایک مومن پر روزہ کی حالت میں لگائی ہیں۔ وہ ٹریننگ حاصل کرے گا جس کی وجہ سے ڈھال کا صحیح استعمال آئے گا۔ ورنہ روزہ رکھنا تو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ تو خود کو بھی دھوکہ دینے والی بات ہو گی اور خداتعالیٰ کو بھی۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر تمام لوازمات کے ساتھ روزہ نہیں رکھا جاتا، تمام اُن پابندیوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایاہے اور تمام اُن باتوں کو نہیں کیا جاتاجن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے تو تمہارے بھوکا رہنے کی خدا تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور و العمل بہ فی الصوم حدیث 1903)
پس ہم نے ان دنوں میں یہ ٹریننگ لینی ہے کہ اپنے آپ کو اُن پابندیوں میں جکڑنا ہے اس لئے تاکہ خداتعالیٰ پھر ہمیں تمام اوامر ونواہی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاکہ ہمارے ان اعمال سے وہ راضی ہو جن کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اور وہ ہمیشہ ہماری ڈھال بن کر رہے اور جس طرح دشمن کے ہر حملے سے اپنے خاص بندوں کو محفوظ رکھتا ہے، ہمیں بھی بچائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ جو رمضان کا مہینہ ہے، جو روزہ رکھنے کے دن ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ ان دنوں میں میری خاطر، میری رضا کے حصول کی خاطر، صرف ناجائز چیزوں سے ہی نہیں بچنا بلکہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ کو تو ایک خاص کوشش سے معمولی سے بھی ناجائز کام سے بچا کر رکھنا ہے۔ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک مجاہدہ توکرنا ہی ہے لیکن جائز چیزوں سے بھی بچنا ہے۔ ایک ایسا جہاد کرنا ہے جس سے تمہارے اندر صبر اور برداشت پیدا ہو اور ڈسپلن پید اہو۔ پھر یہ مجاہدہ ایسا ہو گا جو تمہاری روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ کا قرب دلانے کا ذریعہ بنے گا، دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنے گا۔…
اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے در خت وجود کی سرسبز شاخو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں۔ اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو، اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بہت سنتا ہوں، تمہیں خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو۔ یہ رمضان جو خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا رمضان ہے، خداتعالیٰ کے حضور اپنے سجدوں اور دعاؤں سے نئے راستے متعین کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں۔ اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خداتعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے۔