القول الفصل
(مصنفہ حضرت سید میر حامدعلی سیالکوٹی رضی اللہ عنہ)
مولوی محمد حسین بٹالوی اپنے ریویو کےمطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاندانی تاریخ، ذاتی وجاہت، نیکی و تقویٰ، درویشانہ طبیعت، اسلام کے لیے جوش اور مخالفین حق کے لیے دلائل سے بھرپور دفاع کرنے والے وجود تھے
حضرت سید میر حامد شاہ صاحبؓ کی ولادت اندازاً ۱۸۵۹ء میں ہوئی اور آپؓ کو ۱۸۹۰ء میں بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورؑ نے ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳؍ اصحاب میں آپؓ کا نام تیرھویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔دنیاوی طور پر آپؓ اہلمندی سے ترقی کرکے ضلع سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوکر پھر رجسٹرار کے معزز عہدہ پر فائز ہوئے۔
حضرت اقدسؑ نے ازالہ اوہام میں آپؓ کے متعلق فرمایا: ’’میر حامد شاہ کے بشرہ سے علامات صدق و اخلاص و محبت ظاہر ہیں… ان کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا‘‘۔
۱۵؍نومبر۱۹۱۸ء کو آپؓ وفات پاگئے۔ آپؓ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی۔
آپؓ کی زیر نظر کتاب ایک سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ جسے پنجاب پریس سیالکوٹ میں منشی غلام قادر فصیح کے اہتمام سے چھاپا گیا اور حکیم مولوی نورالدین صاحب (جموں )حکیم فضل الدین صاحب (بھیرہ) اور چودھری محمد بخش صاحب (سیالکوٹ )نے خرید کر مفت تقسیم کیا تھا۔
گو اس کتاب کے زیر نظر نسخہ میں کہیں بھی تاریخ تالیف یا تاریخ اشاعت درج نہ ہے، لیکن حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے نام نامی کے سامنے جموں سے قرینہ لیا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب ستمبر ۱۸۹۲ء سے پہلے کی ہے۔ کیونکہ ستمبر ۱۸۹۲ء کو حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کا جموں کشمیر سے قریباً ڈیڑھ عشرہ پر محیط طویل تعلق اختتام پذیر ہوا تھا۔
الغرض اس کتاب ’’القول الفصل وماھوبالھزل‘‘ میں فاضل مصنف نے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کے براہین احمدیہ کے ریویو پر ریویو کیا ہے۔
کتاب کے شروع اور آخری صفحات پر کتب کے اشتہارات ہیں :جیساکہ صفحہ دوم پرغلام قادر فصیح مالک و مہتمم پنجاب گزٹ و ناولسٹ و الحق سیالکوٹ کی طرف سے اشتہار دیا گیا ہے کہ ’’ الحق یعنی تصدیق اصول اسلام و تحقیق ملت قویمہ حضرت خیر الانام علیہ الصلوٰة والسلام کا ماہوار رسالہ کے چار نمبر بابت جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر ۱۸۹۱ء اکٹھے چھاپ دیےگئے ہیں۔ ان چاروں نمبروں میں لدھیانہ کے مشہور مباحثہ کی کل کارروائی بالتفصیل درج ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی اور مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے مابین ہوا تھا۔‘‘
اس زیر نظر کتاب القول الفصل کے صفحہ ۳ اور ۴ پر صدائے عاجزانہ کے عنوان سے منظوم کلام پیش کیاگیا ہے، جو اس کتاب کے مصنف کا ہی کلام ہے۔
صفحہ نمبر ۵ پر انٹروڈکشن شروع ہوتا ہے جو ۸صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مقام و مرتبہ اور دعاوی کا ذکر کیا گیاہے۔ اوران کے مقابل پر مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفانہ تحریروں کاباحوالہ ذکر کرکے لکھا گیا ہے۔
اس کے بعد کتاب کا اصل متن شرو ع ہوتا ہے۔ جس میں براہین احمدیہ کی تالیف، اس پر اشاعة السنہ میں شائع ہونے والے ریویو، دعویٰ مثیل مسیح، کتب فتح اسلام، ازالہ اوہام وغیرہ کی تصنیف، مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ خط و کتابت، اور ان کی مخالفانہ زندگی کے دور کے آغاز کی تاریخ درج کرکے بتایا گیا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے مولوی صاحب سے براہین پر ایسا ریویو لکھوایا کہ وہ خود بھی بعد میں جگہ جگہ وضاحتیں پیش کرتے رہے لیکن ان کے تحریر کردہ اس ریویو کے اندر کئی سطور اور جملے ایسے ہیں جو مولوی صاحب کی بعد کی ضد، مخالفت اور دشمنی کی حقیقت کو کھول رہے ہیں۔
کتاب میں آگے چل کر حضرت میر حامد صاحبؓ نے مولوی صاحب کے تحریر کردہ ریویو کی عبارات نقل کرکے ان کو نشان زد کرکے سیر حاصل بحث کی ہے۔ مثلاً ریویو کے صفحہ ۱۷۵ کو نقل کیاجس میں مولوی محمدحسین بٹالوی نے حضر ت اقدس مسیح موعودؑ کے متعلق لکھا کہ ’’ہماری تحقیق وتجربہ و یقین و مشاہدہ کی رو سے یہ سب نکتہ چینیاں مذہبی ہیں خواہ پولیٹکل۔ از سر تا پا سوء فہمی یا دیدہ دانستہ دھوکہ دہی پر مبنی ہیں…اس لئے ہم خشیة اللّٰہ و نصیحتًا لخلق اللّٰہ اس ریویو میں ان نکتہ چینیوں کا جواب دیتے ہیں اور ان تہمتوں سے کتاب او رمؤلف کے دامن کو پاک کرتے ہیں۔ اور چونکہ مذہبی نکتہ چینی کا جواب زیادہ بحث طلب ہے اور جواب پولیٹکل نکتہ چینی مختصر۔ لہٰذا ہم اس جواب کو مقدم کرتے ہیں وباللہ التوفیق…‘‘
فاضل مصنف نے اپنی اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی اپنے ریویو کےمطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاندانی تاریخ، ذاتی وجاہت، نیکی و تقویٰ، درویشانہ طبیعت، اسلام کے لیے جوش اور مخالفین حق کے لیے دلائل سے بھرپور دفاع کرنے والے وجود تھے نیز مولوی محمد حسین بٹالوی براہین احمدیہ میں درج مختلف زبانوں کے الہامات، رؤیا و کشوف سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ ان الہامات کے معانی اور تفہیم سے بھی خوب واقف تھے۔نیز مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب جب بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیل مسیح ہونے کے دعویٰ پر بگڑ بیٹھے، حالانکہ آپؑ کا اس دعویٰ سمیت ہر فعل اور اعلان و حرکت و سکون خدائی حکم کی تعمیل میں تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ مولوی صاحب خود اپنے ریویو میں براہین احمدیہ میں درج الہامات میں مذکور خطابات مثلاً بابت مثیل مسیح سے خوب آگاہ تھے اور ان کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہرگز کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ وہ تو اپنے ریویو کے صفحہ ۱۸۸ کے حاشیہ متعلقہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشابہت و مماثلت روحانی اور تعلیمی کو تسلیم کرکے اس کے ثبوت میں عہدجدید اور عہد عتیق کی کتابوں سے بہت سے حوالے درج کرچکے ہیں۔
نیز مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات، عربی اور دوسری زبانوں پر ہونے والے اعتراضات کا بھی جواب اپنے رسالہ میں درج کیا ہوا ہے۔
٭…٭…٭