تنظیم لجنہ اماء اللہ کی ضرورت (قسط دوم)
۲۵؍ دسمبر ۱۹۲۲ء کامبارک تاریخی دن
حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق 25؍ دسمبر 1922ء کو خواتین حضرت اماں جانؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ حضرت مصلح موعود ؓنےخطاب فرمایا، لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور خواتین مبارکہ کی مقدس قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے سفر پر روانہ ہوا اورایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کرگیا۔ حضورؓ کی ہدایت کی روشنی میں احمدی خواتین نے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اوردینی تعلیم وتربیت میں پرورش پانے کے لیے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اول کی مجاہدات ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔اس کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا۔احمدی عورتوں کی تنظیم اصلاح معاشرہ میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ابتدا میں اس میں شمولیت اختیاری تھی اور ۱۹۳۹ء میں اس کا فیض عام کرنے کے لیے ہر احمدی عورت کا اس میں شامل ہونا لازمی قرار دے دیاگیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۱۵؍دسمبر ۱۹۲۲ء کو اپنے قلم سےایک مضمون تحریر فرمایاجس میںفرمایا: ’’ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیے۔جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرکے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکیں۔
اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔
دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔
ان امور کو مد نظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مل کر کام شروع کریں۔ اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کر کے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد شروع کر دیا جائے۔
۱۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔
۲۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لیے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے۔
۳۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لیے کچھ قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو۔
۴۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں ممد ہوں۔
۵۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تاکہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیدا ہوا۔‘‘(باقی آئندہ)