حضرت مصلح موعود ؓ

رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۶؍جولائی ۱۹۱۵ء)

یہ مہینہ خدا کے فضلوں کا مہینہ ہے اس سے جس قدر ہو سکے فائدہ اٹھا لو۔ جس طرح بہت سے ایسے انسان ہیں جن کو یہ رمضان دیکھنا نصیب نہیں ہوا اسی طرح بہت ایسے ہوں گے جنہیں اگلا رمضان دیکھنا نصیب نہ ہوگا

۱۹۱۵ءکے اس خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے ذکر فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو رمضان کے بابرکت مہینہ کو پانے کی توفیق ملی ہے ان پر اللہ تعالیٰ نے کیا کیا فضل فرمائے ہیں۔حضورؓ نے نماز تہجد کی ادائیگی اور روزہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔نیز جماعت کو متفرق دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ قارئین کے استفادہ کے لیے اس خطبہ جمعہ کو شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

یٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ:184)

اس کے بعد فرمایا:

رمضان کا مہینہ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِىْٓ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ (البقرۃ:186)

اس کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا ہے کہ

اس میں قرآن کا نزول ہوا یا قرآن کی ابتداء ہوئی

خدا کے فضل سے پھر دوبارہ بہت سے لوگوں کو میسر آیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہی ہوتی ہے کہ وہ کسی کو نیکی کے کرنے کا موقع دیتا ہے۔ بہت سے لوگ تھے جو اس جگہ بیٹھے ہوئے لوگوں سے طاقتور اور قوی تھے۔ مگر گزشتہ رمضان کے بعد اور اس رمضان سے پہلے دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور اس رمضان میں انہیں نیکی کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پھر بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو باوجود یہ کہ زندہ ہیں لیکن اس مہینہ سے فائدہ اٹھانے کا انہیں موقع ہی نہیں ملا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان پر اس بات کی حقیقت ہی نہیں کھلی کہ خدا تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ پھر بہت سے ایسے ہیں جو قسم قسم کی بیماریوں کی وجہ سے رمضان کے مہینہ سے وہ فوائد نہیں اٹھا سکتے جو تندرست اٹھاتے ہیں۔

پس وہ لوگ جن پر خدا تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ اول تو انہیں مسلمان بنایا۔ دوسرے اتنی سمجھ دی کہ روزہ کی غرض کو سمجھیں۔ تیسرے اتنی صحت دی کہ روزہ رکھ سکیں چوتھے اتنی عمردی کہ ایک اور رمضان کی برکات حاصل کر سکیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت ہی شکر کرنا واجب ہے۔

یہ مہینہ اپنے ساتھ بڑی بڑی برکتیں لایا کرتا ہے پہلی عظیم الشان برکت تو یہی ہے

کہ جن لوگوں کو سستی اور کاہلی کی وجہ سے سارا سال نماز تہجدنصیب نہیں ہوتی اس مہینہ میں نصیب ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو صبح کی نماز سورج چڑھنے کے قریب پڑھتے ہیں، ان کو بھی موقع مل جاتا ہے کہ رات کے وقت خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اور تہجد پڑھیں۔ چونکہ سب لوگ سحری کو اُٹھتے ہیں اس لئے سست آدمی بھی اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں، یوں اگر انہیں اٹھایا جائے تو کئی بہانے کریں۔ اصل بات یہ ہے کہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ شوروغل میں نیند پورے طور پر نہیں آتی۔ رمضان کے مہینہ میں چونکہ عام طور پر لوگ اٹھتے ہیں اس لئے کاہل بھی اُٹھ بیٹھتے ہیں اور تہجد پڑھنے کا انہیں موقع مل جاتا ہے۔ گو تہجد نوافل سے ہیں اور رمضان کے روزے فرائض سے۔ بہت سی طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ فرائض تو ادا کرلیتی ہیں اور نوافل میں سستی کرتی ہیں۔ اور ایسا آج ہی نہیں کیا جاتا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی ایسا کرنے والے موجود تھے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! کتنی نمازیں فرض ہیں۔ آپ نے فرمایا ایک دن رات میں پانچ۔ پھر اس نے پوچھا۔ زکوٰة۔آپ نے فرمایا۔ سال میں ایک دفعہ۔ پھر اس نے روزہ کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا سال میں ایک مہینہ۔ پھر حج کے متعلق پوچھا۔ فرمایا عمر میں ایک دفعہ۔ یہ سن کر اس نے کہا۔ خدا کی قسم! میں اسی طرح کروں گا نہ اسے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ کم کروں گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ بات جو اس نے کہی ہے اگر کر بھی لی تو جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (بخاری کتاب الصوم باب وجوب صوم رمضان)تو معلوم ہوا کہ اس وقت بھی ایسے لوگ تھے اور ایسی طبائع ہمیشہ سے چلی آتی ہیں۔ تہجد چونکہ فرض نہیں اس لئے اس کے پڑھنے میں سستی کی جاتی ہے۔ روزہ چونکہ فرض ہے اس لئے اس کے لئے سحری کو اٹھنا پڑتا ہے اور ساتھ ہی نفل پڑھنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ اور یہ ثواب بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ دوسری برکت

روزہ کا ثواب ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ دار کا اجر میں ہی ہوں۔

(مسلم کتاب الصوم فضل الصیام و بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائمٌ اذا شُتِمَ)

پھر اور بہت سے فوائد ہیں، انسان بہت سی ہلاکتوں اور تکلیفوں سے بچ جاتا ہے۔

پس یہ مہینہ خدا کے فضلوں کا مہینہ ہے اس سے جس قدر ہو سکے فائدہ اٹھا لو۔ جس طرح بہت سے ایسے انسان ہیں جن کو یہ رمضان دیکھنا نصیب نہیں ہوا اسی طرح بہت ایسے ہوں گے جنہیں اگلا رمضان دیکھنا نصیب نہ ہوگا اور کون جانتا ہے کہ مَیں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جنہوں نے نہیں دیکھنا اس لئے ہر ایک کو اس رمضان میں خیر حاصل کرنے کی خوب کوشش کرنی چاہیے۔ ہماری جماعت کوئی دنیاوی سوسائٹی نہیں اس لئے اس کے افراد کا فرض ہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد، اپنی مشکلات، اپنے رشتہ داروں اور اپنی دیگر اغراض کے لئے دعائیں کریں گے اور اگر اخلاص سے کریں گے تو خداتعالیٰ کے فضل سے کامیاب بھی ہو جائیں گے وہاں سلسلہ کی ترقی کے لئے بھی کریں۔ کیونکہ

جو سچے سلسلے اور راستبازوں کی جماعتیں ہوتی ہیں ان کا پہلا فرض اپنی جان و مال کی حفاظت کرنا نہیں ہوتا

بلکہ جماعت کی ترقی اور کامیابی کے لئے کوشاں رہنا اور راستی اور حق کی اشاعت کرنا ہوتا ہے پس ہمارے تمام دوستوں کو چاہیے کہ جہاں وہ اپنی ذات، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے اس ماہ میں دعائیں کریں، ان سب سے پہلے اس بات کو مد نظر رکھ کر ان کی دعائیں ہوں کہ سب سے زیادہ دعاؤں اور التجاؤں کا مستحق اسلام، راستی اور حق ہے کیوں؟ اس لئے کہ کسی کو جو دعاؤں کی توفیق ملے گی تو کس ذریعہ سے۔ اسلام ہی سے۔ کیا ایسے کروڑوں انسان نہیں کہ ان پر رمضان آتا ہے اور گزر بھی جاتا ہے لیکن وہ کورے کے کورے ہی رہتے ہیں۔ پس دعائیں کرنے والوں کو یہ موقع اسلام اور آنحضرت ﷺ کے ذریعہ اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توّسل سے حاصل ہوا ہے اس لئے ان کا پہلا فرض ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے دعائیں کریں۔

مَیں کہنا تو بہت کچھ چاہتا تھا لیکن ریزش کی وجہ سے ڈر ہے کہ حلق کی بیماری جو رو بصحت ہے بڑھ نہ جائے، اسی لئے اس پر ختم کرتا ہوں۔(الفضل ۲۵؍جولائی ۱۹۱۵ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button