فریاد
ہوا ہے ظلم معصومانِ بنگلہ دیش پر مولیٰ
ہر اِک دل غم زدہ ہے اور ہر دیدہ ہے تر مولیٰ
زمیں اِک کربلا سی بن گئی ہے ہم غریبوں پر
مدد کو آسماں سے خود زمیں پر اب اتر مولیٰ
لگائی نارِ بُولہبی جلائے گھر شریروں نے
اُلٹ دے ان کے اوپر ہی تُو اُن کے سارے شر مولیٰ
ترے در کے فقیروں نے کبھی چوکھٹ نہیں بدلی
کبھی دیکھا نہیں ہے دوسرا کوئی بھی در مولیٰ
یہ ہم مظلوم و بیکس تجھ سے ہی فریاد کرتے ہیں
تُو سارے ظالموں کو نیست و نابود کر مولیٰ
بنے پھرتے ہیں ٹھیکیدار جو اسلام کے، شیطاں
کچل کر پیس کے رکھ دے تکبر کے یہ سر مولیٰ
ہوا ہے خون جو زاہد حسن کا ارضِ بنگلہ پر
تُو اس پر اب اُگا دے باثمر طیب شجر مولیٰ
گھنیری ہو چکی ہے رات ظلمت کی بہت لمبی
اسے اب مختصر کر دے، تُو کر اس کی سحر مولیٰ
بہت ہے ناز دشمن کو جمعیت اور کثرت پر
فرشتے بھیج، لکھ دے اک نئی فتحِ بدر مولیٰ
ظفرؔ بن کر سوالی در پہ تیرے سربسجدہ ہے
نہ مر جائیں کہیں، آکر تُو لے جلدی خبر مولیٰ