الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20 و 21؍دسمبر 2013ء میں مکرم طلحہ احمد بشیر صاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے چند متفرق پہلو پیش کیے گئے ہیں۔
کسی بھی شخص کی اچھی سیرت کے حامل ہونے کا مطلب ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرنے والا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہر دو میں اعلیٰ درجے کے معیار قائم فرمائے۔ آپؑ ہر نیکی کےحریص اور ہر برائی سے دُور تھے۔ آپؑ کا ہر قول و فعل خدا کی رضا کے لیے تھا اور اُس کی طرف سے دیے گئے مشن کو انتہائی دیانتداری، محنت اور شجاعت سے پورا کیا۔
آپؑ کا لباس اور خوراک نہایت سادہ تھی۔ جو مل جاتا کھا لیتے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی گواہی ہے کہ آپؑ نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں بلکہ فقیر کے طور پر گزاری ہے۔ آپؑ خود فرمایا کرتے تھے کہ مجھے وہ لوگ بہت پیارے لگتے ہیں جو دنیا میں سادگی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے آپؑ کو عشق تھا۔ سوتے ہوئے بھی لبوں پر سبحان اللہ کے الفاظ ہوتے۔ آپؑ کے آخری الفاظ بھی یہی تھے: ’’اللہ میرے پیارے اللہ‘‘۔ آپؑ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’او میرے مولیٰ! میرے پیارے مالک! میرے محبوب! میرے معشوق خدا! دنیا کہتی ہے تُو کافر ہے۔ مگر کیا تجھ سےپیارا مجھے کوئی اَور مل سکتا ہے۔ اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں۔ لیکن مَیں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہوجاتے ہیں۔ جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ مَیں کس حال میں ہوں، اُس وقت تُو مجھے جگاتا ہے اور محبت سے پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا، مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ تو پھر اے میرے مولیٰ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے پھر مَیں تجھے چھوڑ دوں۔ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔‘‘ (مدارج تقویٰ،انوارالعلوم جلداوّل صفحہ376)
حضورؑ کی خداتعالیٰ سے محبت آپؑ کی روزمرّہ زندگی میں بڑی واضح نظر آتی۔ آپؑ اکثر وقت عبادت میں مصروف رہتے۔ فرض نماز کی باقاعدہ ادائیگی کے ساتھ ساتھ چاشت، اشراق اور تہجد میں بھی مداومت اختیار کرتے۔ سوائے بیماری اور سفر کے آپؑ نے باقاعدگی سے روزے رکھے۔ایک مرتبہ تسلسل کے ساتھ چھ ماہ روزے رکھے۔ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور قرآن کریم سے ایسا عشق تھا کہ ایک پل کے لیے بھی اس کی بےحرمتی برداشت نہیں تھی۔ چنانچہ آپؑ کے بیٹے مرزا مبارک احمد سے، جن کے ساتھ آپؑ کو بےحد محبت تھی، بچپنے میں قرآن شریف کی بےادبی ہوگئی تو آپؑ کا چہرہ غصّے سے سرخ ہوگیا اور آپؑ نےایک زور کا طمانچہ لگادیا اور پھر فرمایا کہ اس وقت اس کو میرے سامنے سے لے جاؤ۔ یہ سختی بطور باپ کے نہیں تھی کیونکہ بچوں کے ساتھ سختی اور بدنی سزا کو آپؑ ناپسند فرمایا کرتے تھے بلکہ یہ ایک عاشقِ قرآن کی کلام اللہ کے لیے عزت تھی۔
اللہ تعالیٰ کے بعد آپؑ نے سب سے زیادہ اور ایسی محبت آنحضورﷺ کے ساتھ کی ہے کہ اپنے آقاؐ کی محبت میں محو ہوچکے تھے۔ آپؑ نے اپنے محبوبؐ کے رنگ میں خود کو ایسا رنگ لیا تھا کہ آپؑ کا ہر قول و فعل اپنے آقاؐ کے نقشِ قدم پر تھا۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق مَیں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا۔
آنحضورﷺ سے آپؑ کی بےمثال محبت آپؑ کے منظوم کلام میں بھی نظر آتی ہے۔ اگرکبھی دشمن کی طرف سے آنحضورﷺ کی ذات پر حملہ ہوتا تو آپؑ اپنا فرض سمجھتے ہوئے مدلّل دلائل سے اُن کا مقابلہ کرتے۔ اگر کوئی آپؑ کے سامنے آنحضورﷺ کی گستاخی کربیٹھتا تو آپؑ کا چہرہ غصّے سے سرخ ہوجایا کرتا اور آپؑ فوراً ایسی محفل کو چھوڑ دیتے۔
حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے منصب پر غیرمتزلزل یقین تھا۔ چنانچہ انگریزی اخبار’’پائنیر‘‘نے بھی لکھا کہ ’’مرزا صاحب کو اپنے دعویٰ کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا اور وہ کامل صداقت اور خلوص سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ ان پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اور یہ کہ ان کو ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ255)
چنانچہ آپؑ نے زندگی بھر اپنی ساری طاقتوں کو اس مشن کے لیے وقف رکھا جس کے لیے خداتعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپؑ نے اسّی سے زائد کتب، سینکڑوں اشتہار اور ہزاروں خطوط لکھے، بہت سے مباحثے کیے، تقاریر بھی کیں، ہزاروں لوگ آپؑ کے مہمان بھی بنے جن کی مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ اُن کی تعلیم و تربیت کا بھی آپؑ نے خیال رکھا اور دلائل کے ذریعے ہر ایک کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
آپؑ نے زندگی بھر کسی انسان سے نفرت نہیں کی۔ اگر نفرت کی ہے تو صرف گناہ سے۔ چنانچہ فرمایا:’’دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ مَیں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ مَیں صرف اُن باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول۔‘‘(اربعین، روحانی خزائن جلد17 صفحہ344)
حضرت مسیح موعودؑ نے احکامِ الٰہی کے مطابق اپنے تمام عزیزوں کے حقوق ادا کیے۔ والدین کا بہت زیادہ ادب کرتے۔ والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تو سرجھکاکر سامنے زمین پر ہی بیٹھ جایا کرتے۔ فرمانبرداری کا یہ عالم تھا کہ دنیاوی کاموں سے سخت بیزاری کے باوجود آپؑ نے اپنے والد صاحب کی مرضی کے مطابق خاندانی مقدمات کی پیشیوں میں حاضری لگائی اور باوجود ناپسندیدگی کے لمبا عرصہ سیالکوٹ میں ملازمت کی۔
اپنی اہلیہ حضرت امّاں جانؓ کے ساتھ بھی آپؑ کا سلوک مثالی تھا۔ اُن کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتے اور ہر تکلیف کو دُور کرنے کی کوشش کرتے۔ بیماری میں تیمارداری کرتے اور حضرت امّاں جانؓ کی بات کو بڑی عزت دیا کرتے یہاں تک کہ خادمائیں کہا کرتی تھیں کہ ’’مِرجا بیوی دی گل بڑی من دا اے۔‘‘
آپؑ ایک شفیق باپ تھے۔ بچوں کی تربیت کے لیے کبھی سختی بھی کی مگر بدنی سزا کے مخالف تھے اور اگر کسی استاد کو ایسا کرتا دیکھتے تو یہ اُس کی ناکامی سمجھتے۔ بچوں کی تربیت کے لیے اخلاقی کہانیاں بھی سنایا کرتے اور بچے آپ کو کہانیاں سنانا چاہتے تو آپؑ بغیر تنگ آئے گھنٹوں سنتے رہتے۔اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اولاد کی نعمت سے نوازا تو اُس کے بےانتہا شکرگزار ہوئے۔ بچے بیمار ہوتے تو اُن کی تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے کہ گویا اَور کوئی فکر ہی نہیں۔ اور اگر اولاد کی وفات کا غم دے کر آزمائے گئے تو صبر کے ساتھ اُس کی مرضی کے آگے سر جھکادیا۔
حضورعلیہ السلام اپنے دوستوں کو (خواہ کوئی امیر ہو یا غریب)بہت عزت دیا کرتے تھے۔ ہر ایک سے بےانتہا خوشی سے ملتے کہ وہ یہی سمجھتا کہ وہ اُس سے ہی سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ مہمانوں کی پسند و ناپسند کا خیال رکھتے۔ بعض مرتبہ قادیان سے باہر سے بھی مہمانوں کے لیے چیزیں منگواتے۔ اپنے صحابہ کی ہر تکلیف دُور کرنے کی کوشش کرتے، بیماری میں تیمارداری کرتے، علاج کرتے بھی اور کرواتے بھی، اور صحت کے لیے دعائیں بھی کرتے۔
حضرت منشی عبدالعزیز اوجلویؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب چہرہ دیکھ کر سمجھ جاتے کہ اس شخص کے دل میں کیا ہے۔ ایک بار جب حضورؑ اپنے احباب کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے تو حضورؑ کے لیے دودھ کا ایک گلاس لایا گیا۔ چونکہ حضورؑ کا تبرک پینے کے لیے سب ہی کی کوشش ہوتی تھی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ مَیں ایک غریب اور کمزور آدمی ہوں اتنے بڑے بڑے آدمیوں میں مجھے کس طرح حضورؑ کا پس خوردہ مل سکتا ہے اس لیے مَیں ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ حضورؑ نے جب نصف گلاس نوش فرمالیا تو بقیہ میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا: میاں عبدالعزیز بیٹھ کر اچھی طرح سے پی لو۔
آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد مبارک میں حضورؑ مع احباب تشریف رکھتے تھے۔ مَیں باہر سے آیا اور سلام عرض کیا۔ حضورؑ سے مصافحہ کی بہت خواہش پیدا ہوئی مگر مسجد چونکہ بھری ہوئی تھی اور معزز احباب راستہ میں بیٹھے ہوئے تھے اس لیے مَیں نے آگے جانا مناسب نہ سمجھا۔ ابھی مَیں بیٹھنے کا ارادہ کررہا تھا کہ حضورؑ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ میاں عبدالعزیز! آؤ مصافحہ تو کرلو۔ چنانچہ دوستوں نے مجھے راستہ دے دیا اور مَیں نے جاکر مصافحہ کرلیا۔
حضورؑ اپنوں کے علاوہ غیروں کے لیے بھی رحمت تھے۔ آپؑ کے خلاف جھوٹے مقدمات بھی قائم کیے گئے، ہر دشمنی اختیار کی گئی لیکن آپؑ نے کسی سے انتقام نہ لیا اور معاف فرمادیا۔ ایک مولوی نے تو قادیان آکر آپؑ کےمنہ پر دجّال تک کہہ دیا لیکن آپؑ خاموشی سے اندر تشریف لے گئے۔ کچھ دیر بعد اُس نے ایک رقعہ بھیجا اور امداد کا طالب ہوا تو آپ نے پندرہ روپے بھیج دیے۔
آپؑ صبر کا مجسّمہ تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے بعض اوقات غصّہ کی حالت تکلّف سے بنانی پڑتی ہے ورنہ خود طبیعت میں بہت کم غصہ ہے۔ البتہ جہاں خدا اور رسولﷺ کی غیرت کا سوال ہوتا وہاں آپؑ کا انداز بالکل مختلف ہوتا۔ چنانچہ اپنے رشتہ داروں سے قطعہ تعلق بھی کیا، بعض صحابہ سے اس لیے ناراض بھی ہوئے کہ وہ ایک ایسی مجلس سے فوراً نہ اُٹھ آئے تھے جہاں رسول اللہﷺ کے خلاف بدزبانی کی جارہی تھی۔ آپؑ نے لیکھرام کا سلام تک قبول نہ کیا کیونکہ وہ آپؑ کے آقا (ﷺ)کے خلاف بدزبانی کرتا تھا۔
آپؑ کے رحم، عفو اور حلم والی صفات کا پہلو بہت غالب تھا۔ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑا تو اُس کی درخواست پر آپؑ نے اُسے معاف فرمادیا۔ ایک فریق نے قتل کا الزام لگایا جو جھوٹا ثابت ہوگیا تو آپؑ کو اختیار دیا گیا کہ دشمن کے خلاف دعویٰ کرکے اُس کو سزا دلادیں۔ مگر آپؑ نے درگزر کیا۔ آپؑ کے وکیل نے عدالت میں آپؑ کے دشمن کے نسب سے متعلق جرح کرنا چاہی مگر آپؑ نے اُسے روک دیا۔
غرض آپؑ نے ایسے اخلاق پیش کیے جو معجزانہ تھے، سراپا حسن تھے، سراسر احسان تھے۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ’’احمدیہ گزٹ‘‘کینیڈا فروری 2013ء میں مکرم ڈاکٹر عارف حسین صاحب صاحب کی ایک نظم بعنوان ’’زندگی‘‘ شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
تصوّرِ محبوب! تجھ سے ہے ، بہارِ زندگی
سبزہ و گُل پیرہن ہے ، خارزارِ زندگی
اے جستجوئے زینتِ بام و دریچۂ چمن!
اس عالم تنہائی میں ، تجھ کو پکارے زندگی
ہاں مگر ، رہتا ہے کیوں اکثر مرا دل بےقرار؟
اس بےقراری میں اگرچہ ہے قرارِ زندگی
صد شکر اے ربّ الوریٰ! اِک دستِ روحانی ترا
مَیں تھا غرقِ بحرِ ظلمت اور کنارے زندگی
آئینۂ شفّاف میں جاذب ہوا مَیں اس قدر
اُس نے بھی دیکھے مِرے نقش و نگارِ زندگی
چشمِ نم میں تھی عیاں ، اِک ابرِ نیساں کی تڑپ
بارشوں سے دُھل گئے ہیں سب غبارِ زندگی
اُس مہ جبیں کے نُور کی کِرنوں میں عارفؔ ڈوب کر
آئینۂ احساس میں خود کو نکھارے زندگی