بڑا واضح حکم ہے کہ مریض اور مسافرروزہ نہ رکھے
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت سے زیادہ سختی اپنے اوپر وارد کرتے ہیں یا وارد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کل کا سفر کوئی سفر نہیں ہے اس لئے روزہ رکھنا جائز ہے۔ آپؑ نے یہی وضاحت فرمائی ہے کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ زبردستی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کی جائے اور اپنی طرف سے تاویلیں اور تشریحیں نہ بنائی جائیں۔ جو واضح حکم ہیں ان پر عمل کرنا چاہئے۔ اور یہ بڑا واضح حکم ہے کہ مریض اور مسافرروزہ نہ رکھے۔ تو برکت اسی میں ہے کہ تعمیل کی جائے نہ کہ زبردستی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ایک روایت میں آتا ہے:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے رمضان کے مہینے میں سفر کی حالت میں روزہ اور نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھو۔ اس پر اس شخص نے کہا یارسول اللہ! میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا اَنْتَ اَقْوٰی اَمِ اللّٰہ؟ یعنی تُو زیادہ طاقتور ہے یا اللہ؟ یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریضوں اور مسافروں کے لئے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیاہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ تم میں سے کسی کوکوئی چیزصدقہ دے پھر وہ اس چیز کو صدقہ دینے والے کو واپس لوٹا دے۔(المصنف للحافظ الکبیر ابی ابکرعبدالرزاق بن ھمام الصنعانی الجزء الثانی صفحہ 565 باب الصیام فی السفر)
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍اکتوبر ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۴ء)