اللہ تعالیٰ کی صفت مالک
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍ مارچ ۲۰۰۷ء)
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت مالک ہے جس کا سورۃ فاتحہ میں ذکر ہے …سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے صفاتی ناموں کی جو ترتیب رکھی ہوئی ہے، اسی حساب سے مَیں نے ذکر شروع کیا تھا، اس لئے آج اس ترتیب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کا بیان ہو گا۔ ترتیب کے لحاظ سے جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے چوتھے نمبر پر فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’چوتھا احسان خداتعالیٰ کا جو قسم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضان اخصّ سے موسوم کر سکتے ہیں، مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے۔ اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 250)
یعنی رحیمیت سے دعا اور عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے، انسان دعا اور عبادت کرتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور مالکیت سے اس کا پھل ملتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی یہ ترتیب انتہائی پُر حکمت اور ہر ایک کو اپنی قدرت کے جلوے دکھاتی ہے، ہر اس شخص کو دکھاتی ہے جو اس پر کامل ایمان لانے والا ہے اور خالص ہو کر اس کا عبد بننے والا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی مزیدوضاحت بھی فرمائی ہے۔ لیکن اس سے پہلے جیسا کہ مَیں نے عموماً طریق رکھا ہوا ہے لغت کے لحاظ سے اور دوسرے مفسرین نے جو تفسیریں کی ہیں وہ بیان کرتا ہوں۔ مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اَلْمَالِک اسے کہتے ہیں جو عوام الناس میں اپنے احکام از قسم اوامرو نواہی اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہو۔ یہ پہلو صرف انسانوں کی سیاست یعنی ان کے معاملات کی تدبیر کرنے اور ان پر حکومت کرنے سے مختص ہے۔ اس بنا پر مَلِکُ النَّاستو کہا جاتا ہے مگر مَلِکُ الْأَشْیَاء نہیں کہا جاتا۔ پھر کہتے ہیں کہ قولِ خداوندی مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا معنی ہے کہ وہ جز اسز اکے دن میں ملک ہو گا۔ اس کی علماء کے نزدیک دو قرأتیں ہیں۔ مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْن بھی پڑھتے ہیں اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن بھی۔ لیکن زیادہ تر مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہی پڑھا جاتا ہے۔ یہ معنی مندرجہ ذیل آیت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ(المؤمن:17)کہ آج کے دن بادشاہت کس کی ہے؟ اللہ ہی کی ہے جوواحد، صاحب جبروت ہے۔
پھر لسان العرب میں لکھا ہے۔ اَلْمَلِکُ، اللہ بادشاہ ہے۔ مَلِکُ الْمُلُوْک بادشاہوں کا بادشاہ، پھر لَہُ الْمُلْکُ، بادشاہت اسی کی ہے اور ھُوَ مَالِکُ یَوْمِ الدِّیْنِ وہ جزا سزا کے دن کا مالک ہے وَھُوَ مَلِیْکُ الْخَلْقِ، اس کے معنے لکھے ہیں رَبُّھُمْ وَمَالِکُھُمْ، وہ مخلوق کا ربّ اور مالک ہے۔
لسان العرب کے معنی سامنے رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنکے معنی یوں بیان فرمائے ہیں لیکن آپؓ نے اس میں مالک کے ساتھ یوم اور دین کے بھی علیحدہ علیحدہ، معنی حل کرکے پھر مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے مفصل معنی لکھے ہیں۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ اس کے معنی یہ بنیں گے کہ جزا سزا کے وقت کا مالک، شریعت کے وقت کا مالک، اور فیصلہ کرنے کے وقت کا مالک، مذہب کے وقت کا مالک۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت مذہب یا شریعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار فرماتا ہے۔ اور کمزوری کے بعد اپنے پیارے کی جماعت کو صفت مالکیت کے تحت غلبہ عطا فرماتا ہے۔ پھر نیکی کے زمانے کا مالک اور گناہ کے زمانے کا مالک، یعنی جب بدی اور گناہ بہت پھیل جاتا ہے تو زمانے کا مالک مصلح اور نبی مبعوث فرما کر دنیا کی اصلاح اپنی مالکیت کی صفت کے تحت کرتا ہے۔ محاسبہ کے وقت کا مالک، اطاعت کے وقت کا مالک یعنی اطاعت کرنے والوں کے لئے خاص قانون قدرت ظاہر فرماتا ہے۔ معجزات بھی رونما ہوتے ہیں۔ خاص اور اہم حالتوں کا مالک یعنی اس کے حکم کے مطابق اعمال بجا لانے والوں کے اجر اُن کو دیتا ہے جو آخر وقت تک وفا کے ساتھ اپنی حالتوں کو اس کے مطابق رکھیں، اس کے احکام کے مطابق رکھیں، وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 24)
اب بعض مفسرین جو پہلے گزرے ہیں ان کے حوالے پیش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مالک کی جو تفسیر فرمائی ہے اور اس کو بھی آپؑ نے لسان العرب اور تاج العروس کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ ’’مالک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامّہ ہو، مکمل قبضہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لا سکتا ہو اور بلااشتراک غیر ‘‘یعنی بغیر کسی دوسرے کے اشتراک کے’’ اس پر حق رکھتا ہو۔ اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خداتعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پا سکتا۔ کیونکہ قبضہ تامّہ ’’پورا مکمل قبضۂ تام‘‘ تصرف تامّ اور حقوق تامّہ بجز خداتعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلّم نہیں۔‘‘ (منن الرحمان روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 152-153حاشیہ)
اسی کو ہر چیز کا مکمل طور پر تصرّف ہے۔ مالک ہونے کی حیثیت سے، ربّ ہونے کی حیثیت سے، اس کا حق ہے۔
علامہ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا مطلب ہے، دوبارہ اٹھائے جانے اور جزا سزا دئیے جانے کے دن کا مالک۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ نیکی بجا لانے والے اور گناہگار، فرمانبردار اور نافرمان، موافق اور مخالف کے درمیان فرق ہونا ضروری ہے اور یہ فرق صرف جزا سزا کے دن ہی ظاہر ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَسَآءُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا بِالۡحُسۡنٰی(النجم:32) تاکہوہ ان لوگوں کو جو بُرائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے عمل کی جزا دے اور وہ ان کو بہترین جزا دیتا ہے جو بہترین عمل کرتے ہیں۔ پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِِ(صٓ:29) کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ویسا ہی قرار دے دیں گے جیسا کہ زمین میں فساد کرنے والوں کو، یا کیا ہم تقویٰ اختیار کرنے والوں کو بدکرداروں جیسا سمجھ لیں گے۔ پھراللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰ (طٰہٰ:16) ساعت ضرور آنے والی ہے بعید نہیں کہ میں اسے چھپائے رکھوں تاکہ ہر نفس کو اس کی جزا دی جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔
پھر امام رازیؒ کہتے ہیں کہ نیز واضح ہو کہ جس نے ایک ظالم کو مظلوم پر زور بخشا ہے، اگر وہ ظالم سے انتقام نہ لے تو یہ یا تو اس کے عاجز ہونے کی بنا پر ہوتا ہے کہ کوئی انتقام نہیں لیتا۔ کمزوری ہے تو اس لئے انتقام نہیں لیتا، یا لاعلم اور جاہل ہونے کی وجہ سے یا پھر اس بنا پر کہ وہ خود بھی ظالم کے ظلم سے راضی ہے۔ تو کہتے ہیں کہ یہ تینوں باتیں اللہ تعالیٰ کے متعلق قرار دینا محال ہے۔ سو لازمی ہوا کہ وہ مظلوموں کی خاطر ظالموں سے انتقام لے۔ لیکن جبکہ اس دنیاوی گھر یعنی دنیا میں ظالم سے انتقام لیا جانا بکمالہٖ نہیں ہوتااس لئے لازمی ٹھہرا کہ اس دنیاوی گھر کے بعد ایک اُخروی گھر ہو۔ یہی مضمون ہے جو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اور فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(الزلزال:8-9) میں بیان ہوا ہے۔ (التفسیر الکبیر لامام رازی ؒ زیر آیت مالک یوم الدین)